حضرت یونس علیہ السلام
حضرت یونس علیہ السلام اٹھائیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے منصب سے سرفراز کرکے نینوا کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مقرر کیا۔ ایک مدت تک وہاں کے لوگوں کو نیکی اور پاکیزگی کی تلقین کرتے رہے۔ آپ نے ان کو بتوں کی پوجا چھوڑ کر ایک خدا کی پرستش کرنے کے لیے کہا، مگر وہ بڑے ہی نافرمان اور سرکش تھے،ایک مدت تک جب آپ کی تبلیغکا کوئی اثر نہ ہوا تو آپ بہت دل برداشتہ ہوگئے اور غصے میں آکر بارگاہ الہٰی میں ان کے لیے عذاب کی دعا کی اور بغیر خدا کا حکم سنے خود اس بستی سے نکل گئے۔
جب آپ نینوا سے چل کر دریائے فرات کے کنارے پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک کشتی مسافروں سے بھری ہوئی پار جانے کے لیے تیار ہے۔ آپ بھی اس کشتی میں سوار ہوگئے۔ جب کشتی منجھدار میں پہنچی تو طوفانی ہوائوں نے کشتی کو گھیر لیا اور ڈگمگانے لگی، جب کشتی والوں کو اپنی غرقابی کا یقین ہوگیا تو انہوں نے اپنی رسم اور عقیدے کے مطابق کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھاگا ہوا غلام اس کشتی میں سوار ہے جب تک اس کو کشتی سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا، نجات نہیں ملے گی۔
جب حضرت یونس علیہ السلام نے یہ گفتگو سنی تو فوراً دل میں خیال آیا کہ میں ہی اپنے آقا کا وہ غلام ہوں جو وحی کا انتظار کیے بغیر نینوا سے چلا آیا، خدا کو میرا اس طرح چلا آنا پسند نہیں آیا۔ اب میری آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے۔ آپ نے کشتی والوں سے کہا میں ہی اپنے آقا کا بھاگا ہوا غلام ہوں۔ لہٰذا مجھے دریا میں پھینک دو۔ آخر یہ طے ہوا کہ قرعہ اندازی کی جائے جس کا نام نکلے اس کو دریا میں پھینکا جائے۔ چنانچہ تین مرتبہ قرعہ اندازی ہوئی اور تینوں مرتبہ حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا۔ اب وہ مجبور ہوگئے اور انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو دریا میں پھینک دیا۔ اسی وقت خدا کے حکم سے ایک مچھلی سے آپ کو نگل لیا۔ خدا نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس تیرے پاس امانت ہے، تیری غذا نہیں ہے، ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
مچھلی کے پیٹ میں پہنچ کر حضرت یونس علیہ السلام نے محسوس کیا کہ میں زندہ ہوں تو بارگاہ خداوندی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا کہ کیوں خدا کے حکم کا انتظار نہ کیا اور ناراض ہو کر نینوا سے نکل آئے اور عرض کی، خدایا۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں اور بلاشک میں نے خود ہی اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی توبہ قبول کی اور مچھلی کو حکم دیا کہ ان کو کنارے پر اگل دے۔لیکن مچھلی کے پیٹ میں رہنے سے آپ بہت لاغر اور کمزور ہوگئے تھے، خدا کے حکم سے وہاں ایک بیلدار درخت اگ آیا اور آپ وہاں جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔ کچھ مدت کے بعد اس درخت کی جڑ کو کیڑا لگ گیا جس سے وہ بیل سوکھنے لگی، یہ دیکھ کر حضرت یونس علیہ السلام کو بہت رنج ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔
یونس۔ تم کو اس حقیر سی بیل کے مرجھا جانے کا تو بہت رنج پہنچا ہے مگر نے یہ نہ سوچا کہ نینوا کی ایک لاکھ سے زائد آبادی اور دوسرے جانداروں کو ہلاک کردینا ہم کو ناگوار نہ ہوگا اور کیا ہم ان کے لیے اس سے زیادہ مہربان نہیں ہیں۔ جتنی یہ بیل تم کو عزیز ہے۔
تم بددعا کرتے ہی اس بستی سے نکل آئے اور وحی کا انتظار بھی نہ کیا۔ ایک نبی کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ قوم کے حق میں بددعا کرے اور ان سے نفرت کرکے چلے جانے میں اس طرح جلد بازی سے کام لے اور وحی کا بھی انتظار نہ کرے۔
ہوا یوں کہ جب حضرت یونس علیہ السلام نے قوم کے حق میں بددعا کی اور جلدی میں بستی سے نکل گئے تو شہر والوں نے محسوس کیا کہ وہ اللہ کے سچے نبی تھے۔ ان کے چلے جانے سے ہم پر ضرور عذاب الہٰٰ نازل ہوگا۔ وہ لوگ بہت خوفزدہ ہو رہے تھے اور جگہ جگہ حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش کررہے تھے کہ وہ مل جائیں تو انہیں منا کر لے آئیں اور ان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔
جب باوجود بڑی تلاش کے بھی حضرت یونس علیہ السلام ان کو نہ ملے تو انہوں نے بارگاہ خدا وندی میں گڑ گڑا کر اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگی اور سچے دل سے توبہ استغفار کی اور بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں رو رو کر خدا کی بارگاہ میں عرض کیا۔ ان کی گریہ وزاری اور توبہ قبول ہوئی اور وہ عذاب الہٰی سے بچ گئے اس طرح تمام نینوا والے مسلمان ہوگئے۔
اب حضرت یونس علیہ السلام کو خدا وند کریم نے حکم دیا کہ وہ دوبارہ نینوا میں جائیں اور قوم کو نیکی اور ہدایت کی تبلیغ کریں تاکہ خدا کی مخلوق ان سے فیض یاب ہو۔ جب قوم نے آپ کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئی اور آپ کی رہنمائی میں دین و دنیا کی کامرانیاں حاصل کرتی رہی۔