یہ تو وہی دوا تھی
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔
پیارے نو نہا لو! پچھلی یعنی بیسویں صدی عیسوی میں حکیم محمد عبداللہ بہت بڑے طبیب گزرے ہیں۔ وہ پنجاب کے ایک قصبے جہانیاں میں رہے تھے۔جہاں وہ پاکستان بننے کے بعد روڑی ضلع حصار سے ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی اور مدتوں کے بیمار لوگ ان کے علاج سے تندرست ہو جاتے تھے۔ حکیم صاحب ایک سچے مسلمان اور اللہ سے ڈرنے والے بزرگ تھے۔ ان کے پاس جو بہت غریب اور بے سہارا مریض آ تے، ان سے دوا کی قیمت نہیں لیتے تھے اور ان کا علاج مفت کر تے تھے۔ دوسرے لوگوں سے دوا کی لاگت انتہائی کم منافع کے ساتھ لیتے تھے۔ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک دفعہ ملتان کے قریب سے ایک بڑا زمیندار اپنی کسی بیماری کا علاج کرانے حکیم صاحب کے پاس آیا۔ انھوں نے مرض کی تشخیص کی اور دوا لکھ دی جس کی قیمت آٹھ روپے بنی۔ وہ دوا لے کر چلا گیا۔ چند ماہ بعد دوبارہ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا:
”حکیم صاحب! آپ نے مجھے جود وادی تھی، اس سے مجھے ذرہ بھر فائدہ نہیں ہوا۔ کوئی قیمتی دواد یں۔“
اس موقع پر حکیم صاحب کوئی دوا لینے مطلب کے دوسرے کمرے میں گئے تو زمیندار کا ڈرائیوران کے پیچھے گیا اور حکیم صاحب کے کان میں کہنے لگا:
”حکیم صاحب! میرے صاحب نے آپ کی دوا استعمال ہی نہیں کی،فائدہ کس طرح ہوتا۔ ہم دوا لے کر یہاں سے گئے تو میرے صاحب نے یہ کہہ کر دوا نہر میں پھینک دی کہ اتنی کم قیمت کی معمولی دوا سے مجھے کیا فائد ہ ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد وہ کئی حکیموں اور ڈاکٹر وں سے ہزاروں روپے خرچ کر کے علاج کرا چکے ہیں لیکن کسی کے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب ہر طرف سے مایوس ہو کر دوبارہ آپ کے پاس آنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ آپ ان سے ان کی امیرانہ حیثیت کے مطابق دوا کی قیمت لیں۔“
حکیم صاحب سارا معاملہ سمجھ گئے اور اب کی بار انھوں نے زمیندار سے دوسوروپے دوا کی قیمت کے طور پر لیے۔ چند دن بعد زمیندار حکیم صاحب کے پاس اس حالت میں آیا کہ اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا اور وہ بار بار کہہ رہا تھا۔”حکیم صاحب! پہلے والی آپ کی دوا سے تو کچھ فائدہ نہیں ہوا تھا لیکن اب جو دوا آپ نے دی، اس نے تو مجھے نئی زندگی دے دی اور میرا مرض ختم ہو گیا ہے۔“
حکیم صاحب نے فرمایا: ”بھائی! یہ تو وہی دوا تھی جو میں نے پہلے آپ کو دی تھی۔ اگر آپ اسے استعمال کرتے تو اللہ کے فضل سے آپ کی بیماری پہلے ہی دور ہو جاتی۔اس کی قیمت آٹھ روپے سے زیادہ نہیں۔ دوسری مرتبہ میں نے آپ سے دوسور و پے آپ کا یہ وہم دور کر نے کے لیے وصول کیے کہ سستی دوا سے فائدہ نہیں ہوتا۔یہ لیجیے اپنے ایک سو بانوے روپے جنہیں میں نے آپ کی امانت سمجھ کر الگ
رکھ چھوڑا ہے۔“
حکیم صاحب کی باتیں سن کر زمیندار بہت شرمندہ ہوا۔ان سے معافی چاہی اور کہا:
”حکیم صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔ آپ جیسے انسان اس دنیا میں کہاں ملتے ہیں۔ یہ ایک سو بانوے روپے میں واپس نہیں لوں گا۔ انہیں کسی دینی اور خدمت خلق کے کام کے لیے اپنی خوشی سے دیتا ہوں۔ آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دین اور دنیا کی بھلائی نصیب فرمائے۔“