وہ چند دن
عبیرہ لطیف
۔۔۔۔۔
حوصلہ مند اور مہم جولڑکوں کے حیرت انگیز سفر کی روداد
۔۔۔۔۔
میں اسکردو کے اس چھوٹے سے گاؤں میں اپنے بابا، امی اور دو چھوٹے بھائیوں اور ایک پیاری سی گڑیا جیسی بہن کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزاررہاتھا۔ پہاڑوں کے دامن میں بکھری ہوئی وہ چھوٹی سی سرسبز وادی ہے، جس کے چپے چپے پر میرے اور میرے دوست ثمر گل کے قدموں کے نشان بکھرے ہوئے تھے۔
میرے بابا ایک پورٹر ہیں۔ جو غیر ملکی کوہ پیما ٹیمیں گلیشیئر ز کی طرف جاتی تھیں، وہ ان کے ساتھ پہاڑوں پر جاتے ہیں۔ وادی میں رہنے والے اکثر لوگوں کا یہی ذریعہ معاش ہے۔ کوہ پیما ٹیموں کے ساتھ جو گائڈ اور پورٹر جاتے ہیں، انھیں اس کا اچھا خاصا معاوضہ مل جاتا تھا۔ میرے بابا بھی مجھے یہی کام سکھا رہے تھے۔ میں بھی کئی چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر کئی ٹیمیں پہنچا چکا تھا مگر ابھی تک برفانی علاقوں میں بڑے گلیشیئرز کی طرف کوئی بڑا سفر نہیں کیا تھا۔ اس دن بابا صبح صبح کسی کوہ پیما ٹیم کے ساتھ جانے کے لیے سفر کی تیاری کر رہے تھے کہ بخت چچا آ گئے، اور بابا سے بولے: ’’ کراچی سے دو مہمان آئے ہیںاور دیوسائی جانا چاہتے ہیں۔‘‘
بابا نے بتایا:’’ مگر میں تو ایک ٹیم کے ساتھ کنکورڈیا جارہا ہوں۔ ابھی دو گھنٹے بعد کے۔ ٹوموٹل سے روانگی ہے۔‘‘
میں بے ساختہ بول پڑا:’’ بابا انھیں دیوسائی میں اور میرا دوست ثمرگل لے جاتے ہیں۔ بے شک جیپ کے ذریعے میں ایک بار ہی وہاں گیا ہوں، جب کہ گل پگڈنڈیوں کے ذریعے بھی کئی بار وہاں جاچکا ہے۔ وہ وہاں کے چپے چپے سے واقف ہے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔ طلحہ اور ثمر گل دونوں چلے جائیں گے۔ ‘‘بابا نے بخت چچا سے کہا۔
پھر بابا نے مجھے روانگی کے حوالے سے چند ضروری باتیں بتا ئیں۔ بخت چچا نے کہا کہ ایک گھنٹے بعد میں ثمر گل کے ساتھ ان کے گھر آ جاؤں۔
میں ثمر گل کے پاس گیا۔ میں نے اس سے پو چھا ۔’’گل! ایک پگڈنڈی پر جانا ہے، چلو گے۔‘‘
وہ بے ساختہ ہنسا۔’’ کہاں کنکورڈیا؟‘‘
میں مایوسی سے بولا:’’ نہیں، اپنی ایسی قسمت کہاں کہ وہاں جانے کی بابا اجازت نہیں دیتے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں۔ کنکورڈیا جانا ہم دونوں کا خواب ہے۔ جہاں کشا برم I، گشا برمII، براڈ پیک اور کے۔ ٹو ہیں۔ جہاں دنیا کے بڑے بڑے گلیشیئر ز ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔‘‘ ثمر گل سحر زد ہ لہجے میں بولا۔
’’چابخت کے کچھ مہمان ہیں۔ دیوسائی لے کر جانا ہے۔ ابھی کچھ دیر بعد نکلنا ہے۔ تیار ہو کر میری طرف آجاؤ۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں آتا ہوں۔‘‘ وہ بولا۔
’’ وہ گل۔۔۔!‘‘ میں کچھ ہچکچا یا۔’’ وہ بخت چچاکے مہمان ہیں۔ ہم بطور میز بان انہیں لے کر جائیںگے، پیسے نہیں ملیں گے۔‘‘
’’ ویسے تو تم میرے دوست ہو مگر مجھے لگتا ہے کہ تم میرے پکے شمن ہو۔ پتا بھی ہے، آج کل مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ…‘‘
’’ہاں ہاں، تمھیں ایک موبائل فون خریدنا ہے، اس لیے پیسے جوڑ رہے ہو اور مرے جا رہے ہو۔ ٹھیک ہے، میں اکیلا چلا جاؤں گا۔‘‘ میں اس کی بات کاٹ کر سخت لہجے میں بولا اور منہ پھلاکر واپس پلٹا۔
وہ برا مان کر بولا: ’’ہاں، اکیلے جانے کے لیے تو تم ہر جگہ تیار ہو۔ کچھ دنوں بعد ہمارا میٹرک کا رزلٹ جب آ جائے گا، تب تم شہر جا کر بڑے کا لج میں بھی اکیلے داخلہ لے لینا۔‘‘
مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔ وہ کہاں کی بات کہاں لے گیا تھا۔
ثمرگل بولا:’’ تم چلو، میں تیار ہو کر گھر میں بتا کر آتا ہوں۔‘‘
میں نے پلاٹ کر سنجیدگی سے کہا:’’سوچ لو، پیسے نہیں ملیں گے۔ ‘‘
گل نے مجھے گھور کر دیکھا اور اسی سنجیدگی سے بولا: ’’وہ پیسے میں تم سے کالج کے ہاسٹل میں وصول کرلوں گا۔‘‘
پھر ہم دونوں ہنس پڑے اور میں اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
مجھے اور ثمر گل دونوں کو آگے پڑھنے اور کالج جانے کا بے حد شوق تھا۔ ہم دونوں جب سے میٹرک کے پیپر دے کر فارغ ہوئے تھے، گھنٹوں کا لج جانے کے منصوبے بنایا کرتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد ثمر گل اپنا بیگ لے کر اور ٹریکنگ بوٹ پہن کر میرے گھر آ گیا۔ پھر ہم دونوں بخت چچا کے گھر آگئے۔ وہاں ہم دونوں ہی ان مہمانوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ بھی ہماری ہی عمر کے دولڑ کے تھے۔ جب کہ ہمارے ذہن میں تھا کہ بخت چچا کے ادھیڑ عمر دوست ہوں گے۔ پنچا ہماری حیرانی بھانپ گئے اور بولے:
’’ یہ میرے دوست کے بچے ہیں۔‘‘
لمبالڑکا بولا:’’ میں حمزہ ہوں اور یہ میرا کزن عمیر ہے۔ میرے بابا اور چچا دونوں کنکورڈیا گئے ہیں۔ ان کی واپسی دس بارہ دن بعد ہو گی۔ وہ سفر خطر ناک تھا، اس لیے ہمیں بخت چچا کے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ دیوسائی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، اس لیے ہم نے سوچا، یہاں بور ہونے سے بہتر ہے کہ وہاں چلے جائیں، تا کہ کچھ یادگار تصاویر اور خوش گوار یادیں ساتھ لے جائیں۔‘‘ حمزہ نے دوستانہ انداز میں ہمیں تفصیل سے بتایا۔
عمیر بولا: ’’ ہمیں صد پارہ جھیل بھی دیکھنی ہے۔‘‘
میں خوش دلی سے بولا:’’ چلیں، پہلے جھیل دیکھ لیتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارا راستہ جھیل کے پاس سے ہی شروع ہوگا۔‘‘
’’وہاں تک تم لوگ میری جیپ پر جاؤ گے۔ وہاں سے ڈرائیور واپس آ جائے گا۔ اپنے خیمے، سلیپنگ بیگز، کھانے پینے کی چیزیں، کچھ برتن اور ضرورت کی ہر چیز ساتھ رکھ لو۔ چیک کرلو، کوئی چیز رہ تو نہیں گئی۔‘‘بخت چچا بولے تو ہم اقرار میں سر ہلا کر اپنا سامان چیک کرنے لگے۔
۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔
صد پارہ جھیل اسکردو کی خوب صورت جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ہم تو وہاں سیکڑوں بار آئے تھے، اس لیے میں اور ثمر گل ایک طرف بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، جب کہ حمزہ اور عمیر جھیل کی تصویریں اُتار نے لگے۔ ایک گھنٹے تک وہ گھومتے پھرتے رہے، پھر وہاں سے ہم دیوسائی میدان میں جانے کے لیے تیار ہو گئے۔
پھر ہمارا سفر شروع ہو گیا۔
حمزہ نے کہا:’’ہم پچھلی بار بھی یہاں آئے تھے، مگر اس وقت دیوسائی کی برف نہیں پگھلی تھی اور وہاں کا موسم بھی خاصا خراب تھا۔‘‘
عمیر بولا:’’ میرے ابو کہتے ہیں، دیوسائی کا میدان اتنا خوب صورت ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی بلندی پر اتنا خوب صورت، وسیع، دل فریب لینڈ سکیپ نہیں دیکھا۔ ‘‘
ثمر گل اور میں انھیں دیوسائی میدان کی باتیں بتانے لگے۔ وہاں کے پھولوں کی، وہاں کے موسم کی، وہاں کی شفاف ندیوں کی خوب صورت باتیں۔ حمزہ اور عمیر پر جوش ہو کر دل چسپی سے ہماری باتیں سن رہے تھے۔
بل کھا تا راستہ بلندی کی طرف جارہا تھا اور باتوں میں سفر آسان لگنے لگا، مگر او پر چڑھتے ہوئے کچھ دیر بعد سانس پھولنے لگا۔ ہماری باتیں کم ہونے لگیں۔ جیسے جیسے ہم اوپر جارہے تھے، اوکسیجن میں بھی کمی ہو رہی تھی۔ حمزہ اور عمیر رک رک کر اپنا سانس درست کر رہے تھے۔ انھیں یہاں کا موسم بھی ہے انتہائی سر دلگ رہا تھا۔ ہمیں مسلسل چلتے ہوئے دو گھنٹے ہو گئے تھے۔ عمیر رکا اور ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
’’ میں تو تھک گیا ہوں۔ کھانا کھا لیتے ہیں۔ بھوک بھی لگ رہی ہے۔ تھوڑی دیر آرام بھی ہو جائے گا۔‘‘ وہ اپنا سانس بحال کرتے ہوئے بولا۔
ہم سب نے اپنے بھاری بیگ اتار کر نیچے رکھ دیے اور وہیں بیٹھ گئے۔ عمیر اور حمزہ ٹین کے ڈبوں میں بند خوراک کھولنے لگے ،مگر میں نے انھیں منع کر دیا، کیوں کہ میں امی سے میٹھے پراٹھے پکوا کر لایا تھا۔ عمیر اورحمزہ نے وہ خستہ اور میٹھے پراٹھے بے انتہا شوق سے کھائے۔
حمزہ اچانک حیرت سے بولا:’’ یہ پانی کی آواز آرہی ہے، کیا یہاں نزدیک کوئی چشمہ ہے؟‘‘
ثمر گل بولا: ’’ہاں، یہاں دائیں طرف پگڈنڈی سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا چشمہ ہے، جس کا پانی اوپر دیوسائی سے آتا ہے۔‘‘
حمزہ اور عمیر اس چشمے کو دیکھنے کے لیے مچل گئے۔ ہم نے اپنا سامان دوبارہ اٹھایا اور چشمہ دیکھنے کے لیے چل پڑے۔ تقریباً پندرہ بیس منٹ کے سفر کے بعد وہ خوب صورت چشمہ ہمارے سامنے تھا۔ چشمے کے ارد گرد پتھروں کے درمیان اگی ہوئی سبز گھاس میں بے شمار سفید اور گلابی پھول تھے اور ان پھولوں کا عکس چشمے کے شفاف پانی میں ایک دل فریب منظر پیش کر رہا تھا۔
حمزہ اور عمیر اس منظر کو حیران ہو کر دیکھنے لگے۔ ان دونوں نے وہاں کی تصویر یں اتاریں۔ پھر ہم نے اپنی اپنی پانی کی بوتلیں چشمے کے ٹھنڈے شفاف پانی سے بھر لیں۔
’’ شام سے پہلے ہمیں اس راستے میں جو چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس آتا ہے، وہاں پہنچنا ہے۔ آج رات و ہاں گزاریں گے، پھر کل صبح دوبارہ سفر شروع ہوگا۔ اب جلدی کرو۔ اٹھ جاؤ۔‘‘ گل نے ہم تینوں سے کہا، کیوں کہ ہم بے فکری سے چشمے کے پاس پتھروں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
حمزہ بولا :’’ ثمر گل !یہ جو چشمے کے ساتھ ایک راستہ او پر جارہا ہے، اس پر نہ چلیں، دیکھو! کتنا سیدھا صاف راستہ ہے۔ وہ والا راستہ جس پر صبح سے چل رہے ہیں، کافی مشکل ہے۔ ایک تو چھوٹے چھوٹے پتھروں پر پیر نہیں جمتے۔ دوسرے وہ راستہ یوں اوپر جاتا ہے۔‘‘ اس نے ہاتھ سیدھا کر کے اشارہ کیا اور اپنی بات جاری رکھی:’’ اوپر چڑھا ہی نہیں جاتا۔ دو بار میں گرتے گرتے بچا، اگر طلحہ مجھے سہارا نہ دیتا تو میری ٹانگ ٹوٹ گئی ہوتی۔‘‘
’’ مجھے نہیں پتا، یہ والا راستہ کہاں جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے، یہ بھی دیوسائی کی طرف جارہا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے، اس کا اختتام کسی کھائی کے پاس ہو۔ ان علاقوں میں انجان راستوں پر سفر کر نا خودکشی کرنے کے برابر ہے۔‘‘ ثمر گل نے صاف گوئی سے کہا۔
حمز ہ اور عمیر نے بے چارگی سے میری طرف دیکھا۔ میں نے بے نیازی سے کندھے اچکا دیے، کیوں کی ثمر گل کی بات درست تھی۔
حمزہ بولا:’’ ایک آدھ گھنٹے چل کے دیکھ لیتے ہیں۔ یہ راستہ کسی جنگل میں داخل ہو گیا یا کسی کھائی یا چٹانوں کی طرف ہوا تو واپس آجائیں گے۔‘‘
ثمرگل نے کہا:’’ اس طرح ہمارے ڈیڑھ دو گھنٹے ضائع ہو جائیں گے اور ہم ریسٹ ہاؤس نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘
’’ تم لوگ پہاڑوں پر رہنے والے سفر کرنے سے گھبرا ر ہے ہو، جب ہم لوگ اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں تو کیا تم لوگ ڈرتے ہو؟‘‘ حمزہ نے طنز یہ نظروں سے ہمیں دیکھا۔
ثمر گل کا چیر ہ سرخ ہو گیا۔ اس نے غصے سے پہلے میری طرف دیکھا اور پھر حمزہ کو گھورا اور پھر اپنا سامان اٹھا کر اسی راستے پر چل پڑا، جس پر جانے کے لیے حمزہ اصرار کر رہا تھا۔ حمزہ و اور عمیر نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرا دیے، جب کہ میں اس ساری صورت حال سے دل ہی دل میں پریشان ہو گیا۔
اب ہم سب اسی راستے پر چلنا شروع ہو گئے۔ پھولوں اور گھاس کے درمیان یہ راستہ یوں بنا ہوا تھا، جیسے انسانوں کا بنایا ہوا ہو، مگر یہ قدرتی راستہ ہی تھا اور بے حد خوب صورت تھا۔ آدھے گھنٹے تک ہم اس خوب صورت آرام دہ راستے پر چلتے رہے، مگر اچانک وہ ر استہ ختم ہو گیا۔ آگے ایک بہت بڑی چٹان تھی اور جہاں چٹان کے پاس یہ راستہ ختم ہو رہا تھا، وہاں دو راستے شروع ہو رہے تھے۔ ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب جارہا تھا۔
حمز ہ اور عمیر ہونق بنے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
میں نے گھبرا کر کہا:’’چلو، اب واپس چلیں۔‘‘
ثمر گل نے شریر نظروں سے اس کی طرف دیکھا:’’حمزہ سے پوچھ لو، واپس جانا ہے یا کسی نئے راستے پر سفر کرنا ہے۔‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو، میں ڈر گیا ہوں اور واپس چل پڑوں گا۔‘‘ حمزہ اس کا یہ انداز برداشت نہ کر سکا اور اس نے دائیں جانب والے راستے پر قدم بڑھادیے۔ ثمر گل بھی فوراً اس کے پیچھے چل پڑا۔
مجھے پتا چل گیا کہ ثمر گل شدید غصے میں ہے اور وہ خوداب واپس نہیں مڑے گا۔
عمیر نے آواز دی:’’ رکو حمزہ ! بے وقوفی مت کرو۔ ہم نہیں جانتے، یہ راستہ کہاں جائے گا اور نہ طلحہ اور ثمر گل اس بارے میں کچھ جانتے ہیں، حال آنکہ۔ ان کی ساری عمر ان وادیوں میں، ان پہاڑوں پر ہی گزری ہے مگر ان راستوں پر سفر کرنے سے یہ بھی ڈرتے ہیں، تو پھر تم منہ اٹھا کر کہاں جار ہے ہو؟‘‘
عمیر بولا تو میں نے سر ہلا کر اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ ہم ڈرتے نہیں اور نہ ہم ڈرنے والے لوگ ہیں۔ کوئی کھائی یا گھاٹی بھی آ جائے تو ہم اس میں بھی اتر جائیں گے۔ تم لوگ صرف اپنی بات کرو۔‘‘ ثمر گل غصے سے بولا۔
حمزہ قطعی انداز میں بولا:’’ ٹھیک ہے، پھر ڈرتے ہم بھی نہیں ہیں اور نہ ہم بزدل ہیں۔‘‘
میں نے کہا:’’ یہاں بزدلی، بہادری یا عقل مندی، بے وقوفی کا کوئی سوال نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر بے وقوفانہ بہادری ہوگی۔ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم واپس چلیں۔‘‘
’’ آپ لوگوں کو واپس جانا ہے تو جائیں۔ میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ حمزہ ہٹ دھرمی پر اتر آیا اور دوبارہ چل پڑا۔
ثمر گل بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔میں نے اور عمیر نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر ہم بھی ان کے پیچھے چل پڑے۔ ایک بار پھر پتھر یلا اور جھاڑیوں سے اٹا ہوا دشوار گزار راستہ شروع ہوچکا تھا۔
یہ ٹیڑھامیڑھا راستہ مختلف زاویوں سے اوپر جارہا تھا۔ کبھی یہ دائیں طرف او پر مڑ جاتا۔ کبھی بائیں طرف اور کبھی بالکل سیدھا ہو جاتا۔
ہمیں چلتے چلتے سہ پہر کا وقت ہو گیا تھا اور اب فضا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔ جنگلی جانوروں، مینڈکوں اور جھینگروں کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ میں اور عمیر رک کر پانی پینے لگے۔ ثمر گل اور حمزہ بھی اپنی اپنی بوتلیں کھولنے لگے۔
میں، حمزہ اور عمیر باتیں کر رہے تھے، جب کہ ثمر گل بے حد خاموش اور سنجید ہ تھا اور مجھ سے خفا بھی تھا۔ وہ نہ تو مجھ سے بات کر ر ہا تھا اور نہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے ایک دو بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر اس کی سرد مہر خاموشی نے مجھے چپ کر دیا۔
’’ تمھارا کیا خیال ہے کہ یہ راستہ دیوسائی کی طرف جائے گا اور رات گزارنے کا کوئی ٹھکا نا ملے گا یا نہیں۔ مجھے تو ان آوازوں سے لگتا ہے کہ گھنا جنگل شروع ہونے والا ہے۔ ‘‘عمیر نے قیاس آرائی کی اوراپنے ہاتھوں میں گرم دستانے پہننے لگا۔
میں نے جواب دیا:’’ میں ان راستوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘
’’ یہ راستہ دیوسائی کی طرف تو نہیں جائے گا، ہاں موت کی طرف ضرور جائے گا۔‘‘
ثمر گل جو پچھلے دو گھنٹوں سے بالکل خاموش تھا، ایک دم بولا تھا اور اس کے لہجے کی سفاکی اور سختی نے مجھے منجمد کر دیا تھا۔عمیر نے غصے سے حمزہ کو دیکھا تو اس کے چہرے پر بھی پریشانی جھلکنے لگی۔ اور واقعی یہ بے مقصد اور بے منزل سفر جو ایک دوسرے کی ضد میں شروع ہو گیا، اس کا اچھا اختتام نظر نہیں آرہا تھا۔
’’ میں واپس جارہا ہوں۔‘‘ عمیر نے سنجیدگی سے کہا اور اپنا سامان اٹھا کر واپسی کی طرف قدم بڑھا دیے۔ میں بھی فوراً اس کے پیچھے چل دیا۔
حیرت انگیز طور پر حمز ہ اور ثمر گل بھی کوئی رد عمل ظاہر کیے بغیر واپس چل پڑے تھے۔
کوئی آدھا گھنٹہ چلنے کے بعد یہ راستہ پھر چڑھائی کی طرف جارہا تھا، حال آنکہ یہ واپسی کاسفر نیچے کی طرف ہونا چاہیے تھا۔
میں ٹھٹک کر رک گیا۔ میں نے ثمر گل کی طرف دیکھا۔ وہ بھی مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔ حمزہ اور عمیر بھی رک گئے تھے۔۔۔!
چند لمحوں بعد ثمر گل نے کہا: ’’ ان پہاڑوں اور جنگلوں میں بیسیوں راستے شروع ہوتے ہیں۔ کچھ راستوں کو صاف کر کے انسان بناتے ہیں، جب کہ کچھ قدرتی ہوتے ہیں۔ ان طویل اور دشوار گزار راستوں پر جو مسافر اور گائڈ سفر کرتے ہیں، انھوں نے کچھ نشان رکھے ہوتے ہیں، جو عام طور پر راستے میں مل جاتے ہیں۔ مثلا ًپھولوں کی کوئی قسم، کوئی بڑا سا پتھر یا کوئی جھاڑی جو راستے کا پتا دیتے ہیں، کہ وہی راستہ تھا، جو اس منزل کو جاتا تھا، اس لیے میں ان انجان راستوں پر سفر کرنے پر رضا مند نہیں تھا، کیوں کہ میں صرف وہی راستہ جانتا تھا۔ اب ہم راستے کی بھول بھلیوں میں گم ہو چکے ہیں۔ ہم اپنا راستہ گم کر چکے ہیں۔ ‘‘ ثمر گل کے تفصیلی بتائے گئے جواب نے نہ صرف میرے، بلکہ حمزہ اور عمیر کے بھی حو اس معطل کر دیے۔
’’اب تواند ھیرا بھی ہونے لگا ہے۔ ہم اپنا راستہ کیسے ڈھونڈیں گے اور واپس کیسے جائیں گے؟‘‘ کچھ توقف کے بعد عمیر کی بھرائی ہوئی آواز نے سکوت کو توڑا۔
ثمر گل بولا:’’ اب تو ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ بچا ہے۔‘‘
حمزہ اور عمیر بیک وقت بولے: ’’وہ کون سا؟‘‘
ثمرگل بولا: ’’ وہ یہ کہ اس پگڈنڈی پر کوئی پتھر یلی، صاف اور ہموار جگہ ڈھونڈیں، جہاں ہم جلد از جلد اپنے خیمے لگالیں اور کل دن کی روشنی میں ہم دوبارہ اپنا راستہ تلاش کریں۔‘‘
ہم سب نے ثمر گل کی ہاں میں ہاں ملائی۔
تھوڑی ہی دیر میں ہم نے وہاں ایک جگہ ڈھونڈ نکالی۔ یہ جگہ نہایت محفوظ تھی اور پگڈنڈی سے ہٹ کر تھی۔ پیچھے پتھر یلاسیدھا پہاڑ تھا اور پہاڑ کے سامنے دائیں بائیں دو بڑی بڑی چٹا نیں تھیں۔ ان چٹانوں کے بیچ میں اتنی جگہ تھی کہ دو خیمے آسانی سے لگ جائیں۔ پھر ہم خیمے لگانے میں مصروف ہو گئے۔
حمزہ اور عمیر اپنے اسکول میں اسکاؤٹس رہ چکے تھے، اس لیے انھوں نے بھی اپنا خیمہ نہایت مہارت اور آسانی سے نصب کر لیا۔ اتنی ہی دیر میں، میں اور ثمر گل بھی اپنا خیمہ لگا چکے تھے۔
ثمرگل بولا: ’’ اب ہمیں اپنے خیموں کے سامنے پتھروں کی دوفٹ کی دیوار بنانی پڑے گی، تا کہ ہمارے خیمے سامنے سے بھی محفوظ ہو جائیں۔ اس دیوار کے اندر ہم آگ جلا لیں گے،تا کہ کوئی جنگلی جانو ر ادھر آ بھی نکلے تو آگ دیکھ کر ڈر جائے۔‘‘
میں اور حمزہ لکڑیاں اکٹھی کرنے چلے گئے۔ ثمر گل اور عمیر نے پتھرا کٹھے کرنے شروع کر دیے۔ اگلے ایک گھٹنے میں ہم چاروں خیمے کے آگے پتھروں کی دیوار چن کر اندر آگ جلا چکے تھے۔ اس دوران شام کا اندھیرا مکمل چھا چکا تھا۔ آدھا کام ہم نے ٹارچوں کی روشنی میں مکمل کیا۔ آگ جلانے کے بعد ہم نے اپنی ٹارچیں بجھا دیں۔ ثمر گل نے اپنے ٹفن سے کباب اور روٹیاں نکال لیں، جو وہ بخت چچا کے مہمانوں کے لیے صبح پکوا کر لایا تھا۔ عمیر نے اپنے سینڈ وچ نکالے۔ آگ کے گرد بیٹھ کر ہم چاروں نے کھانا کھایا۔
عمیر نے چائے پکانے کے لیے کیتلی آگ پر رکھ دی۔ پھر حمز ہ اور عمیر چائے بنانے لگے۔
ثمر گل اپنے خیمے کے سامنے ایک چھوٹے سے پتھر پر جا کر بیٹھ گیا۔ جب کہ ہم تینوں آگ کے گرد بیٹھے ہاتھ تاپ رہے تھے۔ شدید سردی ہو رہی تھی۔حمز ہ اور عمیر با قاعدہ کانپ رہے تھے۔
حمزہ نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا :’’ کتنا اندھیرا ہو گیا ہے۔‘‘
عمیر نے چائے بنا کر پیالیوں میں انڈیلی۔ پھر مجھ سے کہا: ’’ اس ’ عقل مند‘ کو یہ پیالی دے آئو۔‘‘
اس سے پیشتر میں پیالی اٹھاتا،حمزہ پیالی اٹھا کر ثمر گل کی طرف بڑھ گیا۔ میں نے اور عمیرنے مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چائے پینے لگے۔
ثمر گل اپنی ہی سوچوں میں گم بیٹھا تھا۔ حمزہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کرا سے متوجہ کیا۔ وہ چونک کر مڑا۔ حمزہ نے اسے پیالی دی ،پھر اس کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ جوڑ دیے اور بولا:’’ سوری یار! معاف کر دو۔ غلطی ہوگئی۔ تمھارا کہا نہ ماننے کا انجام یہ ہوا ہے کہ راستہ گم ہو گیا۔ دل کے راستے صاف ہو جائیں تو شاید ہمارے گم شدہ راستے بھی مل جائیں۔‘‘
ثمر گل اسے دیکھتار ہ گیا۔ اس نے پیالی رکھ کرحمز ہ کو گلے سے لگا لیا۔
ثمر گل بولا:’’ غلطی میری بھی ہے۔ تم چاہے جو بھی کہو، مگر مجھے اپنا راستہ کسی صورت میں نہیں بدلنا چاہیے تھا۔ تم لوگ تو نئے تھے،مگر ہم تو یہاں کے موسموں اور راستوں کے مزاج سے واقف ہیں۔ تم بھی مجھے معاف کر دو۔‘‘
’’چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے۔‘‘ حمزہ نے اس کی پیالی اٹھائی۔
گل بولا:’’ اتنی شدید سردی ہے۔ ٹھنڈی تو ہوگی۔‘‘
حمزہ بولا: ’’دوبارہ گرم کر لیں۔ میری چائے بھی ٹھنڈی ہو گئی ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ دونوں ہماری طرف آگئے۔
۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔
چائے پینے کے بعد ہم لوگ اپنے خیموں میں اپنے کمبلوں میں جا کر سو گئے۔ وہ رات سکون سے گزر گئی۔
ثمر گل اور حمزہ بھی سور ہے تھے۔ میں نے اور عمیر نے لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ جلائی۔
عمیر بولا: ’’میری بوتل میں تو پانی نہیں ہے۔ چائے کیسے بنا ئیں؟ ‘‘
’’گل کی بوتل پانی سے بھری ہوئی ہے۔ میں لاتا ہوں۔‘‘ میں خیمے میں گھس گیا۔
جب تک میں نے اور عمیر نے ناشتا تیار کیا۔ ثمر گل اور حمز ہ بھی جاگ گئے۔
’’اف !کتنی سردی ہے یہاں۔ ‘‘حمز ٹھٹھرتا ہوا آگ کے پاس آ گیا۔
ناشتا کرنے کے بعد ہم لوگوں نے سارا سامان پیک کیا۔ سامان پیک کرنے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔
کافی دیر تک ہم اسی راستے پر چلتے رہے۔
چلتے چلتے حمزہ بولا:’’ مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘
’’ چلو، یہاں تمھارے لیے کنواں کھودتے ہیں۔‘‘ عمیر جل کر بولا۔ مجھے اور گل کو بے اختیارہنسی آگئی۔
ہماری بوتلوں سے پانی ختم ہو چکا تھا۔ کافی دیر اس پگڈنڈی پر چلنے کے بعد گل نے ہمیں روکا اور بولا۔’’ ٹھیرو، یہاں کہیں نزدیک سے پانی کی آواز آرہی ہے۔ لگتا ہے، یہاں کوئی آبشار ہے۔‘‘
ہم سب نے غور کیا تو واقعی آواز آ رہی تھی۔
جب ہم اپنا راستہ چھوڑ کر یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے ہم آگے بڑھے تو دیکھا کہ کچھ دور پہاڑی کے اوپر سے پانی گر رہا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی آبشار تھی۔ آبشار کا پانی نیچے پتھروں میں جمع ہو کر ایک چھوٹی سی جھیل کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ وہاں ہم نے اپنا سامان رکھ کر ہاتھ منھ دھوئے اور ٹھنڈا پانی پیا۔
حمزہ نے کہا: ’’ اف،کتنا ٹھنڈا پانی ہے، جیسے فریزر سے برف نکال کر کھائی گئی ہو۔‘‘
عمیر مایوسی سے بولا:’’ میں تو چلتے چلتے تھک گیا ہوں۔ آخر کب ہمیں اپنا راستہ ملے گا؟ پہلے تو کوئی اکاذ کا درخت، جھاڑیاں اور پھول راستے میں نظر آ جاتے تھے مگر اب تو سنگلاخ چٹا نیں اور پتھر ہی پتھر ہیں۔‘‘
ثمرگل نے پریشانی سے کہا:’’ میں تو خود نہیں جانتا کہ ہم کہاں سے کہاں نکل آئے ہیں؟ ‘‘
میں نے مشورہ دیا:’’میرے خیال میں جس راستے پر ہم چل رہے ہیں، اسی پر سفر کرتے ہیں۔ شاید کوئی گائڈ یا کوئی مسافر مل جائے جو ہماری رہنمائی کر دے۔‘‘
حمزہ اٹھ کر آبشار کے پاس گیا اور اوپر سے گرتے ہوئے پانی کے نیچے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ اس کے ہاتھ پانی سے بھر گئے ۔ حمزہ نے وہ پانی کچھ دور بیٹھے گل اور عمیر کی طرف اچھال دیا۔
’’حمزہ!‘‘ عمیر نے اسے گھورا اور برا مان کر بولا:’’ ہم اتنے پریشان بیٹھے ہیں اور تمھیں اٹکھیلیاں سوجھ رہی ہیں۔‘‘
’’بے شک ہم پریشان تو ہیں، مگر یہ ہماری زندگی کے یادگار دن ہیں۔ جب ہم واپس گھر جائیں گے تو یہ دن یادآ ئیں گے کہ اس جگہ ہم نے پانی پیا تھا، اس جگہ سوئے تھے، وہ بھی راستہ کھو کر ۔‘‘ حمز ہ مزے سے بولا۔
عمیر نے جل کر کہا:’’ واپس گھر پہنچ جائیں گے،تب ہی تو یہ باتیں یاد آئیں گی۔‘‘
گل نے عمیر کو دلا سا دیا:’’اتنی مایوسی کی باتیں مت کرو۔‘‘
حمزہ ایک دم چونکا: ’’ ارے یہ کیا؟ ادھر آؤ۔ اس آبشار کے پیچھے ایک غار ہے۔‘‘
ہم سب اپنا اپنا سامان اٹھا کر اس کی طرف بڑھے۔ وہاں واقعی ایک غار تھا، جو آبشار کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔
حمزہ نے کہا:’’ جہاں راستہ کھو کر ہم نے اتنی خوب صورت جگہیں اور راستے دیکھے ہیں، وہاں تھوڑی سیر اس غار کی بھی کر لیتے ہیں۔‘‘
عمیر نے منھ بناتے ہوئے کہا: ’’میں تو نہیں جاؤں گا۔ سانپ، بچھو اور نہ جانے کون کون سے خطر ناک جانور اس صدیوں پرانے غار میں ہوں گے۔ ‘‘
حمزہ ہنس کر بولا: ’’میرے دوست! ہم ہیں ناں تمھارے ساتھ، جب کوئی سانپ تمھیں کھانے لگے گا تو ہم اسے روک دیں گے کہ اسے کھا کر کیا تمھیں مرنا ہے۔‘‘
میں نے کہا:’’ سانپ کاٹتے ہیں، کھاتے نہیں۔‘‘
ثمر گل بولا:’’ مگر اژد ہے تو کھاتے ہیں۔‘‘
اور عمیر مزید خوف زدہ ہو گیا۔ حمزہ اور ثمر گل غار کے اندر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ جب کہ میں اور عمیر تذبذب میں کھڑے تھے۔
ثمرگل نے مجھے مڑکر دیکھا اور بے ساختہ ہنس پڑا۔ ’’ڈر گئے۔‘‘ اس نے مجھے چڑایا۔
میں بھی چڑ کر ان کے پیچھے غار میں داخل ہو گیا۔ عمیر بھی غصے میں بڑ بڑاتا، پیر پٹختا میرے پیچھے آ گیا۔
’’کہاں ہو تم لوگ؟‘‘ عمیر زور سے بولا اور دوسرے ہی لمحے چیخیں مارتا، پھسلتا ہوا و ہ ہمارے پاس تھا اور ہم تینوں کے بلند و بالا قہقہوں سے غار گونج اٹھا۔
یہ ایک بہت بڑی چٹان تھی۔ جس پر سے پھسل کر ہم نیچے آ گئے تھے، کیوں کہ اوپر چٹان کی سطح آبشار کے پانی سے گیلی تھی۔ جیسے ہی کوئی وہاں قدم رکھتا، وہ پھسلتا ہوا ایک دم نیچے گر جاتا تھا۔ ہم تینوں کے ساتھ یہی ہوا اور عمیر بھی پھسلتا ہوا نیچے آ گیا۔ یہ کوئی سات آٹھ فٹ بلند چٹان تھی اور غار میں دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی سطح پھسلواں تھی۔ اس پر پھسل کر نیچے آنا بہت آسان تھا مگر ان پر قدم جما کرد و بارہ او پر چڑھنا تقریباً ناممکن تھا۔
عمیر منھ بنا کر بولا:’’ حمزہ کے بچے !تمھیں جو نت نئے ایڈونچر ز سوجھتے ہیں، یہ ہم چاروں کو مروائیں گے۔ اب ہم واپس کیسے جائیں گے؟‘‘
ہمارے منہ اس وقت حیرت سے کھلے رہ گئے، جب ہم نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی۔ غار کی چھت پینتیس چالیس فٹ بلند تھی یا شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔ جہاں تک سورج کی روشنی اندر آرہی تھی، وہاں تک تاحد نگاہ ایک وسیع و عریض غار ہمارے سامنے تھا، جو حصے اندھیرے میں تھے، وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل تھے۔
جس جگہ پر ہم کھڑے تھے، وہ ز مین کچھ ہموار تھی مگر ہم سے کچھ فاصلے پر نا ہموار اونچی نیچی ز مین شروع ہو رہی تھی۔
اب ہمیں باہر نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈ نا ہوگا، کیوں کہ دوبارہ اگر کسی طرح اوپر چڑھ بھی جائیں تو چٹان پر اتنی پھسلن ہے کہ وہاں توازن قائم رکھنا ناممکن ہے، اور ہم دو بارو پھسلتے ہوئے نیچے آجائیں گے۔ یا تو مر جائیں گے یا ٹانگیں تڑوا بیٹھیں گے۔‘‘ حمزہ نے گردو پیش کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
میں نے تشویش سے کہا: ’’ ہمیں کیا پتا، یہ غار کہاں ختم ہوگا یا اس کی بھول بھلیوں میں کوئی اور استہ با ہر نکلنے کا ہے بھی یا نہیں۔‘‘
عمیر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:’’ اور کیا پتا، ان اندھیروں میں ہمارے لیے موت چھپی بیٹھی ہو۔‘‘
ثمر گل بولا:’’ مگر یہاں بیٹھ کر پریشان ہونے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو بچانے کے لیے کوئی جد و جہد کریں۔ کوئی نیا راستہ تلاش کریں۔‘‘
’’سارا قصور حمزہ کا ہے۔ پہلے تو اس نے ٹریک بدلا اور ہم اپنا راستہ کھو بیٹھے۔ راستہ تو شاید ہمیں دو چار گھنٹوں کی تلاش کے بعد مل ہی جاتا مگر اس غار میں داخل ہونے کی آخر کیا ضرورت تھی۔‘‘عمیر نہایت غصے میں حمزہ کو گھورتے ہوئے بولا۔
حمزہ نے اپنی جیکٹ کی جیب سے چیونگم نکالی اور اطمینان سے ہم تینوں کو دیکھا اور ریپر کھول کر منہ میں ڈال کر چبانی شروع کر دی۔
’’احمق! بے وقوف!‘‘ عمیر نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے اسے القابات سے نوازا۔
حمزہ نے قہقہہ مار کر ہنسنا شروع کر دیا اور کافی دیر تک ہنستا رہا، جب کہ ہم بے وقوفوں کی طرح منہ کھولے ہکا بکا اسے دیکھنے لگے۔
’’اس کا ذہنی توازن خراب ہو گیا ہے۔ یہ پاگل ہو گیا ہے۔ ‘‘عمیر نے جل کر کہا۔
حمزہ نے کہا: ’’ پریشانی تو مجھے بھی ہے کہ ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے، مگر ہنسی تو مجھے اس بات پر آ رہی ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے، یہ تو وہی معاملہ ہے کہ، آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔‘‘
ہم تینوں جو بے انتہا پریشان تھے حمزہ کی بات پر مسکرادیے اور ذہنی طور پر ہلکے ہو گئے۔
حمزہ نے ہمیں دلا سا دیتے ہوئے کہا: ’’ہمارے ایک ٹیچر کہا کرتے تھے کہ پریشانی اور مصیبت میں گھبرانے سے مصیبت دگنی ہو جاتی ہے۔ اپنے حواس قائم رکھتے ہوئے اگر انسان ہمت اور حو صلے سے کام لے تو ہر مشکل اور پریشانی سے نکل سکتا ہے۔‘‘
کچھ دیر بعد ہم چاروں نے پرسکون ہو کر غار میں اپنا سفر شروع کر دیا۔
عمیر چلتے چلتے بولا:’’ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار غار دیکھا ہے۔‘‘
ثمرگل بولا:’’ غار تو ہم نے پہلے بھی دیکھے ہیں، مگر اتنا طویل غار طلحہ اور میں نے بھی پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘
ہم کافی دیر تک چلتے رہے۔ غار میں روشنی دھیرے دھیرے کم ہونے لگی اور کچھ دیر بعد ہم تاریکی میں پہنچ گئے۔ حمزہ اور ثمر گل نے اپنی اپنی ٹار چیں نکال لیں۔ ٹارچ صرف ان دونوں کے پاس ہی تھی۔
’’حمزہ! تم اپنی ٹارچ مت جلا ؤ، ابھی نہ جانے ہمیں کتنا سفر کرنا ہے۔ اب ہم اپنی خوراک اور یہ روشنی دونوں چیزیں بچا ئیں گے۔‘‘ ثمر گل نے کہا تو حمزہ نے اثبات میں سر ہلا کر اپنی ٹارچ بجھا دی۔
ہم نے صرف ایک ٹارچ کی روشنی میں سفر شروع کیا۔ چلتے چلتے گل نے ٹارچ کی روشنی غارکی دیواروں پر ماری تو دیواروں پر چمٹی ہوئی چمگادڑیں ہمارے سروں پر منڈلانے لگیں۔
غار میں’’ٹچ۔۔۔ٹچ۔۔۔ٹچ‘‘ ایک شور برپا ہو گیا۔ ہم سب گھبرا کر چیخنے لگے۔
’’ ارے! کیا ہو گیا ہے؟ چمگادڑیں ہیں، تمھیں کھا تو نہیں جائیں گی۔‘‘ ثمر گل نے ہمیں ڈانٹ کر چپ کروایا۔
ہم اپنے دھڑ کتے دلوں کو سنبھالتے ہوئے دوبارہ چل پڑے۔
ہم بہت دیر تک خاموشی سے چلتے رہے۔ پھر ہمیں بہت دور ہلکی ہی روشنی نظر آنے لگی۔
عمیر بولا:’’ شاید یہاں کوئی راستہ ہو، باہر نکلنے کا۔‘‘
اس روشنی سے ہماری ڈھارس بندھ گئی۔ ہمارے قدموں میں تیزی آگئی۔ جلد ہی ہم اس روشنی کے پاس تھے۔ گل نے ٹارچ بجھا دی۔
’’ اوہو۔‘‘مایوسی سے ہمارے منہ سے نکلا۔ غار کی چھت کی بلندی یہاں کم تھی اور کوئی بڑی چٹان اوپر سے کھسکی ہوئی تھی اور اس خلا سے سورج کی روشنی اور ہوا اندر آ رہی تھی،مگر یہ بلندی بھی بیس فٹ کے قریب تھی اور یہاں سے نکلنا تقریباً ناممکن نظر آ رہا تھا۔۔۔!
عمیر آہستگی سے بولا:’’ اگر یہ قدرتی روشنی یہاں نہ ہوتی تو ہم دم گھٹنے سے مر جاتے۔‘‘
مگر اب پریشانی والی بات یہ تھی کہ یہاں سے غار تین حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔ ایک سیدھا راستہ، دوسرا دائیں طرف اور تیسرا بائیں طرف مڑر ہا تھا۔
یہ دیکھ کر حمزہ بولا:’’ اب کیا کریں؟‘‘
ثمرگل نے کہا: ’’میرے خیال میں ہمیں سیدھا ہی جانا چاہیے، کیوں کہ اس راستے میں تھوڑی تھوڑی روشنی دور تک نظر آ رہی ہے، جب کہ باقی دونوں راستے اندھیرے میں ہیں۔‘‘
’’ یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے؟‘‘ میں نے اپنے بوٹوں کے نیچے موجود پانی کومحسوس کر کے کہا۔ تو باقی تینوں نے بھی نیچے دیکھا۔ زمین کی سطح صاف پانی سے گیلی ہو رہی تھی۔
ثمر گل بولا:’’ یہاں دائیں طرف اندھیرے میں سے پانی کی آواز آرہی ہے۔ شاید یہاں کوئی زیر زمین چشمہ ہے۔‘‘
عمیر بولا:’’ مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
حمزہ نے اپنے بیگ سے بسکٹ کے دو پیکٹ نکال لیے، پھر ہم چاروں نے بسکٹ کھا کر پانی پیا۔ اس کے بعد چلنا شروع ہو گئے، مگر ابھی ہم چند قدم ہی چلے تھے کہ اچانک ثمرگل کی خوف و تحیر میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری: ’’ اف میرے خدا !‘‘اور اس کے ساتھ ہی ہم سب ٹھٹک کر رک گئے۔
عمیر نے سہم کر پوچھا:‘‘کیا ہوا؟‘‘
’’کوئی بھی آگے قدم نہ بڑھائے، کیوں کہ ہمارے سامنے ایک گہری دلدل ہے۔‘‘
ثمرگل کی کانپتی ہوئی آواز نے ہم تینوں کو منجمد کر دیا۔
حمزہ نے ہکلاتے ہوئے پوچھا: ’’تت۔۔۔ تمھیں۔۔۔کک ۔۔۔کیسے پتا چلا کہ ہمارے آگے دلدل ہے؟‘‘
’’ غور کرو، جس زمین پر ہم کھڑے ہیں، یہ پتھریلی سرمئی رنگ کی ہے اور نا ہموار ہے۔ جب کہ چند قدم کے فاصلے کے بعد خاکی رنگ کی زمین شروع ہورہی ہے، جو دور تک سپاٹ اور ہموار ہے۔‘‘ گل نے اشارہ کر کے بتایا۔
پھر اس نے اپنے قریب پڑا ایک درمیانے سائز کا پتھر اٹھایا اور اسے پوری قوت سے سامنے پھینکا اور وہ پتھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سامنے زمین سے ٹکرایا اور پھر زمین ہی میں غائب ہو گیا۔ ہم چاروں ساکت کھڑے رہ گئے۔ ہمارے دلوں کی دھڑکن تیز ہوگئی اور ہم خوف زدہ ہو گئے۔
’’ پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘ گل نے آہستہ آہستہ اپنے قدم پیچھے ہٹائے تو ہمیں بھی حوصلہ ہوا۔ مگر پھر بھی ہم قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے ڈر ر ہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ پیچھے بھی دلدل ہے۔ آٹھ دس قدم پیچھے ہٹنے کے بعد ہم غار کی پتھریلی زمین پر بیٹھ گئے۔ خوف کی شدت سے ہماری ٹانگوں میں اتنی لرزش تھی کہ ہم سے چلا نہیں جار ہا تھا۔
’’اف گل! اگر تم دیکھ نہ لیتے تو ہم چاروں میں سے ایک بھی زندہ نہ بچتا۔‘‘ عمیر نے روتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آنسوصرف اس کی آنکھوں سے ہی نہیں ہم تینوں کی آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے۔ موت ہمیں چھو کر گزرگئی تھی۔
ثمرگل نے آہستگی سے بتایا :’’ شاید مجھے کبھی پتا نہ چلتا مگر ایسی ہی ایک دلدل میں نے ایک جنگل میں دیکھی تھی اور ہماری ٹیم کے ایک ممبر نے ہمیں اس دلدل کے بارے میں آگاہ کیا تھا، جو خاموشی سے ہر جان دار کو موت کے منھ میں پہنچادیتی ہے۔‘‘
حمزہ نے خوف سے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا:’’ اب کیا کریں؟‘‘
’’ اب ہمیں دائیں راستے پر جانا چاہیے، کیوں کہ یہ تو طے ہے، جہاں شفاف پانی ہوگا، وہاں کم از کم دلدل نہیں ہوگی۔ ‘‘ثمر گل نے کہا اور اٹھ کر اسی راستے پر چل پڑا۔ ہم تینوں اسے اپنا لیڈر سمجھ کراس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔
ہم آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر چل رہے تھے۔ پانی گہرا ہور ہا تھا۔ حتیٰ کہ ہمارے بوٹ پانی میں ڈوب گئے۔ ٹارچ کی روشنی میں پانی چمک رہا تھا۔ یہ پانی بے حد شفاف تھا، کیوں کہ پانی کے نیچے غار کی سطح نظر آ رہی تھی۔ ہم کافی دیر تک اس پانی میں چلتے رہے۔
شکر ہے پانی ہمارے بوٹوں تک محد و در ہا، زیادہ گہرا نہیں ہواتھا۔ حال آنکہ جب ہم نے پانی میںچلنا شروع کیا تھا تو ہمارا انداز ہ تھا کہ یہ گہرا ہو جائے گا۔
غار کی دیواروں پر چمگادڑیں، بڑی بڑی مکڑیاں اور بہت سے حشرات الارض قبضہ جمائے ہوئے تھے۔ صدیوں سے موجود اس غار میں ایک دہشت ناک سکوت تھا۔ ہمارے پانی میں چلنے کی شڑاپ شڑاپ کی آوازوں نے اس سکوت کو تو ڑا تھا اور یہ شور غار میں گونج کر مزید ہیبت ناک ہور ہا تھا۔
کچھ دیر بعد غار کا یہ راستہ بائیں جانب مڑ گیا۔ یہاں بھی پانی تھا۔ یہ زیر زمین پانی جو زیادہ گہرا نہیں تھا، کہاں سے آرہاتھا، اس بارے میں ہم کچھ نہ جان پائے۔
ثمرگل ٹارچ کی روشنی دائیں بائیں دیواروں پر اور نیچے ڈالتا ہوا جار ہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے ہم اکٹھے چل رہے تھے۔ ثمر گل نے ٹارچ کی روشنی دیوار پر ڈالی تو روشنی پہلی جیسی تھی۔ اور جب روشنی دوبارہ پانی پر ڈالی تو روشنی اچانک تیز ہوگئی۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔
ہم نے غور کیا تو اس پانی میں سفید چمکتے پتھر نظر آئے تھے۔ گل نے ٹارچ بند کر دی۔ وہ سفید پتھر اندھیرے میں بھی چمک رہے تھے اور وہاں وہ سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔
’’یہ بہت قیمتی پتھر ہیں۔‘‘ ثمر گل نے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھا کر ٹارچ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’ایسا ہی ایک پتھر میں نے بخت چچا کے پاس دیکھا تھا۔ وہ اس سے کافی چھوٹا تھا اور و ہ انھوں نے ایک غیر ملکی سیاح کو دو لاکھ میں بیچا تھا۔‘‘ میں نے گل کے ہاتھ سے وہ پتھر لے کر دیکھا اور اسے بتایا۔
ہم تھوڑا آگے بڑھے تو ان سفید پتھروں کے علاوہ بہت سارے مختلف رنگوں کے زرد، گلابی، سنہری، ہرے چمکتے پتھر پڑے ہوئے نظر آئے۔ وہاں روشنی مختلف رنگوں کی تھی اور وہ پتھر بھی لا تعدادتھے۔
ثمر گل بولا:’’ یہ تمام پتھر نہایت قیمتی ہیں۔ جتنے اٹھا سکتے ہو اٹھا لو، مگر ایسے پتھر اٹھانا جو خوب صورت اور چھوٹے ہوں۔‘‘
ابھی ہم نے ڈھونڈ کر صرف ایک ایک پتھر ہی اٹھایا تھا کہ ایک تیز پھنکار سنائی دی۔
ثمرگل نے ٹرچ کی روشنی کا رخ آواز کی جانب کیا تو ہمارے اوپرکے سانس اوپر اور نیچے کے نیچے رہ گئے۔ دیوار پر ایک ابھرے ہوئے نو کیلے پتھر پر ایک بڑا اور خطرناک اژ د ہا لپٹا ہوا تھا۔ ہم سب نے زندگی میں پہلی بار کسی اژ د ہے کو دیکھا تھا۔ اس کی سرخ زبان باہر تھی۔ وہ خوف ناک انداز میں پھنکار رہا تھا۔ ہمارے ہاتھوں میں دبے ہوئے پتھر چھوٹ کر نیچے گر پڑے۔
ثمر گل چیخا:’’بھا گو!‘‘
ہم سب نے اندھا دھند بھاگنا شروع کر دیا۔ ہم کافی دیر تک اندھیرے میں بھاگتے رہے۔ ہمیں کچھ ہوش نہیں تھا کہ قدم کہاں پڑر ہے ہیں حتیٰ کہ ثمر گل اپنی ٹارچ جلانا بھی بھول گیا تھا۔
ہم اس جگہ سے کافی دور نکل آئے تھے کہ عمیر کی ہانپتی ہوئی آواز نے ہمارے قدموں کو روک دیا:’’ خدا کے لیے رک جاؤ !مجھ سے نہیں بھاگا جاتا۔‘‘
ہمارے قدموں کے نیچے اب خشک زمین تھی۔
ثمرگل نے ٹارچ جلائی۔ اب وہ دیواروں اور چھت پر روشنی ڈال رہا تھا، مگر وہاں چمگا دڑوں اور مکڑیوں کے سوا کچھ نہ تھی۔ روشنی ہوتے ہی چنگا دریں ٹچ ٹچ ٹچ کرتی ہوئی ہمارے سروں پر منڈلانے لگیں۔
’’ہم لوگ کب تک موت سے بھاگتے رہیں گے، آخر کب تک؟‘‘ عمیر شیخ کر بولا۔ اس کی چیخوں میں جو بے بسی تھی، اس نے ہمیں لرزا کر رکھ دیا۔ اس نے میرے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کردیا۔
’’عمیر! حوصلہ رکھو، ہم اپنی آخری سانس تک یہاں سے نکلنے کی جدو جہد کریں گے۔‘‘ ثمر گل نے اسے چپ کراتے ہوئے کہا۔ مجھ میں تو اسے چپ کرانے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ میرا دل خود پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چاہ رہا تھا۔
’’ حمزہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:’’ یہ سارا قصور میرا ہے، نہ میں راستہ بدلتا، نہ ہم ان مصیبتوں میں پھنستے۔‘‘
’’ حمزہ !تم تو ایسی باتیں نہ کرو۔ تم نے ہی تو کہا تھا کہ مصیبت میں حوصلہ ہارنے سے مصیبت دگنی ہو جاتی ہے۔‘‘ ثمر گل نے اسے ڈانٹا:’’ چلو اب آگے بڑھو۔‘‘
ہم نے ایک بار پھر چلنا شروع کر دیا۔
ہم کافی دیر تک چلتے رہے۔ اب غار کے جس راستے پر ہم جا رہے تھے، وہ آہستہ آہستہ بلند ہورہا تھا۔ ہم اللہ کا نام لے کر چلتے رہے۔ جتنی بھی قرآنی آیات ہمیں حفظ تھیں، وہ ساری پڑھتے رہے۔ چلتے چلتے ہم حمزہ کی آواز سن کر رک گئے۔
حمزہ بولا:’’ یہ سرد ہوا کہاں سے آ رہی ہے؟‘‘
ثمر گل نے سراٹھایا۔ ٹارچ کی روشنی ارد گرد ڈالی مگر وہاں پتھر یلی دیواروں کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں چند قدم مزید آگے بڑھا پھر میں چیخا:’’ وہ دیکھو او پر دور تارے نظر آرہے ہیں۔ آسمان نظر آ رہا ہے۔ رات ہوگئی ہے۔‘‘
جس راستے پر ہم جارہے تھے، وہ راستہ بلند ہوتا ہوا اس خلا تک جار ہاتھا اور اس خلا سے سرد ہوا کے جھو نکے آرہے تھے۔ ہم بھاگ کر اس خلا تک پہنچ گئے۔
’’یہ تو باہر جانے کا راستہ ہے۔‘‘ ہم غار کے دہانے پر پہنچ گئے تو عمیر خوشی سے چیخا۔
ایک بہت بڑی اور وزنی چٹان یہاں سے کچھ کھسکی ہوئی تھی۔ ہم سکڑتے سمٹتے اس خلا سے باہر نکلے اور اس مالک کائنات کے سامنے سربسجو د ہو گئے، جس نے ہمیں نئی زندگی بخشی تھی۔
وہاں ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ آسمان پر جا بہ جا تارے نکلے ہوئے تھے۔ موسم خلاف توقع بالکل صاف تھا۔ اس پہاڑ پر ہم نے ایک ہموار جگہ تلاش کر کے اپنے خیمے لگا لیے۔
ہم کھانا کھا کر اپنے اپنے خیموں میں کمبلوں میں گھس کر سو گئے۔ اب ہم بے فکر ہو چکے تھے، کیوں کہ سارادن خوف و ہراس میں گزارنے اور اس غار سے رہائی کے بعد اب ہم بہت پر امید ہو چکے تھے۔ صبح جب ہم سو کر اٹھے تو تاز ہ دم تھے۔ ناشتا کرنے کے بعد ہم نے اپنا سامان باندھا۔
حمزہ بولا: ’’گل! اب کوئی ایسا راستہ تلاش کرو کہ ہم آسانی سے پہاڑ سے اتر جائیں۔‘‘
’’ میں صبح تم سب سے پہلے اٹھا تھا اور سارا پہاڑ گھوم پھر کر دیکھ چکا ہوں۔ یہاں سے اترنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ بھی نہایت دشوار۔ آؤ، تم سب بھی دیکھ لو۔ ‘‘ثمر گل بڑے معنی خیز انداز میں مسکرا کر بولا۔ اور ہم سب اس کے پیچھے چل پڑے۔ جب ہم گل کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پہاڑ کی ڈھلان آگے کو بڑھی ہوئی ہے۔ نیچے نو دس فٹ کے فاصلے پر ہموار جگہ تھی، جہاں سے ایک قدرتی راستہ آگے تک جارہا تھا، جس سے ہم آسانی سے نیچے جا سکتے تھے،مگر مسئلہ یہاں سے اس ہموار جگہ پر اترنے کا تھا، جو تقریبا ًناممکن تھا، کیوں کہ یہ اتنا فاصلہ تھا کہ ہم چھلانگ بھی نہیں لگا سکتے تھے۔ اگر ہم میں سے کوئی بہادر بن کر چھلانگ لگا بھی دیتا تو ٹانگ اور بازو ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ پہاڑ سے نیچے جاتا۔
’’ہائے! مجھے بچاؤ، میں مر گیا۔‘‘ عمیر یہ ساری صورت حال دیکھ کر اپنے بیگ پر مایوسی سے گر گیا۔
حمزہ نے پریشانی سے پوچھا: ’’کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہاں سے کیسے اتریں؟‘‘
ثمرگل نے بتایا:’’دوسرا راستہ بھی ہے۔ وہاں بڑی بڑی چٹا نیں اور پتھر ہیں، جن کو عبور کرنا پڑے گااور ان پر تو ازن قائم رکھنا ناممکن ہے اور کہیں پر چٹا نیں اتنی بڑی ہیں کہ انھیں عبور نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
میں نے کم زوری آواز میں پوچھا: ’’کوئی تیسرا راستہ؟‘‘
ثمرگل ہنسا :’’ تیسرا راستہ تو نہایت آسان ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟ ‘‘ہم تینوں نے بیک وقت پوچھا۔
ثمر گل نے جل کر کہا: ’’آنکھیں بند کرو اور اس پہاڑ سے چھلانگ لگا دو۔‘‘
ہم تینوں نے اسے ناگواری سے گھورا۔ پر ہم کافی دیر تک اسی جگہ بیٹھے کا ہلی اور کسل مندی سے گپیں مارتے رہے۔
’’میرے خیال میں تم تینوں آنکھیں بند کر کے کوئی جنتر منتر پڑھو اور جب آنکھیں کھولو تو شاید اس پہاڑ سے نیچے موجود ہو۔‘‘ثمر گل نے تنگ آکر غصے سے کہا۔
عمیر نے بے چارگی سے کہا:’’ آہ میرے بھائی! جنتر منتر آتا ہوتا تو اس پہاڑ پر اٹکے نہ بیٹھے ہوتے۔‘‘
گل نے مجھ سے پوچھا: ’’طلحہ ! مھارے بیگ میں جو فالتو رسا ہر وقت موجود رہتا ہے، وہ ہے یا نکال کر گھر رکھتے آئے تھے؟‘‘
’’نہیں، رسا بیگ میں ہے۔ میں نے بیگ کھول کر رسا تلاش کیا۔ وہ پانچ چھے میٹر لمبا موٹا رسا میرے ہاتھ میں تھا۔
ثمر گل نے مجھ سے وہ رسالے کر نیچے لٹکایا اور بولا:’’ اب اس رسے کو پکڑ کر لٹک جاؤ اور باری باری نیچے اتر جاؤ۔‘‘
عمیر نے نیچے جھانک کر اس لٹکے ہوئے رسے کو دیکھا اور آنکھیں پھاڑ کر پوچھا:’’ ہا ئیں! اس رسے سے لٹک کر نیچے جائیں گے۔‘‘
حمزہ جل کر بولا:’’ نہیں تمھارے لیے اڑن کھٹولا آئے گا۔ جس پر بیٹھ کر تم نیچے جاؤ گے۔‘‘
اور اپنا بیگ کندھوں پر ڈال کر رسا پکڑ کر ڈھلوان پر سے لٹک گیا۔ پھر وہ نیچے ابھرے ہوئے پتھروں پر قدم جماتا رسے سے لٹکتا آہستہ آہستہ نیچے جانے لگا۔
رسا اوپر سے ہم تینوں نے پکڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کی مشقت کے بعد حمزہ مطلوبہ جگہ تک پہنچ گیا۔اسی طرح عمیر کو میں نے اور گل نے نیچے اتارا۔
اب ہم دو بچے تھے اور ایک رسا پکڑ کر دوسرے کو نیچے نہیں اتار سکتا تھا۔ اس لیے ہم نے ڈھلوان کے پاس ایک بڑے سے پتھر سے رسے کو مضبوطی سے باندھا۔ رسے کو باندھنے کے بعد گل نے رسا پکڑا اور مجھے اترنے کو کہا۔
’’پہلے تم اترو!‘‘ میں نے اس سے کہا، مگر اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اس کے اصرار پر میں رسے کے سہارے اتر گیا۔
اب او پر صرف ثمر گل رہ گیا تھا اور نیچے ہم تینوں اس کے منتظر تھے۔ اس نے اوپر سے جھانک کر ہم تینوں کو دیکھا اور اپنا بیگ اٹھا کر ہمارے قدموں میں پھینک دیا۔ ہم تینوں گھبرا کر پیچھے ہٹے، کیوں کہ ہم ذہنی طور پر تیار نہیں تھے کہ وہ یوں اچانک اپنا بیگ نیچے پھینک دے گا۔ ہم نے اسے گھور کر دیکھا تو و ہ ہنسنے لگا۔
ثمرگل ڈھلان سے لٹکا اور رسا پکڑ کر نیچے اترنے لگا۔ ابھی وہ تھوڑا ساہی نیچے آیا تھا کہ پتھر ہلنے لگا
’’پتھر ہل رہا ہے۔‘‘ عمیر چیخا۔ ثمرگل تیزی سے فاصلہ طے کرنے لگا، مگر ابھی وہ درمیان میں ہی تھاکہ پتھر آہستہ آہستہ اپنی جگہ سے کھسکنے لگا۔ خوف سے ہم تینوں کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ہم پتھر کی زد میں تھے اور پتھر گرنے کی صورت میں ہمارا بچنا محال تھا۔
ہم تینوں ساکت پتھرائی ہوئی نظروں سے اوپر دیکھ ر ہے تھے۔ ابھی فاصلہ زیادہ تھا، اگر گل چھلانگ لگا تا تو اسے شدید چوٹ آتی مگر دوسری طرف پتھر بدستور کھسک رہا تھا اور کسی لمحے اپنی جگہ چھوڑ سکتا تھا۔ اچانک ثمر گل نے رسا چھوڑ کر نیچے چھلانگ لگا دی۔ وہ سیدھا آ کر اپنے بیگ پر گرا، جو اس نے پہلے پھینکا تھا۔ رسے کو چھوڑ دینے سے پھر وہیں رک گیا تھا۔
ہم تو ابھی فاصلے کو ہی ناپ رہے تھے کہ اس نے فیصلہ بھی کر لیا۔
’’ثمر گل!‘‘ ہم تینوں بے اختیار اس کی طرف بڑھے۔ اس کی آنکھیں بند اور جسم ساکت تھا۔
’’ گل!‘‘ میں نے اس کے گال تھپتھپائے مگر اس کی آنکھیں بدستور بند تھیں۔
میں نے پریشانی سے کہا:’’یا خدایا! اسے کیا ہو گیا ہے؟‘‘
عمیر اور حمزہ دونوں اس کے ہاتھ پیر سہلانے لگے۔ میں نے اس کا سرا اپنی گود میں رکھ لیا۔
’’ گل، گل! آنکھیں کھولو۔ ‘‘میں اس پر جھکا اسے پکار ر ہا تھا۔ ہم تینوں پریشان ہو چکے تھے۔
حمز ہ تشویش سے بولا:’’ اس ویرانے میں تو کہیں سے فرسٹ ایڈ بھی نہیں مل سکتی۔‘‘
بے بسی کے احساس سے میری آنکھیں بھر آئیں۔ میرے آنسو گالوں سے پھسل کر ثمر گل کے چہرے پر گرنے لگے۔
عمیر نے گھبراتے ہوئے کہا:’’ طلحہ! تم تو خود کو سنبھالو، اگر تم۔۔۔‘‘
عمیر کی بات ابھی اس کے منھ میں ہی تھی کہ ثمر گل نے آنکھیں کھول لیں اور کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
’’ ڈرا دیانا۔‘‘ وہ مزے سے بولا اور پھرتی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ہم تینوں ہی اس کے اس شان دار ڈرامے پر ہکا بکا رہ گئے۔
’’بات مت کرنا، تم مجھ سے۔‘‘ میں نے شدید غصے میں اس کا بیگ اٹھا کر اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہا، جسے اس نے مہارت سے کیچ کر لیا۔ اس نے بیگ شانے سے لٹکا کر دونوں ہاتھ کانوں کو لگا لیے۔
’’ معاف کر دو، غلطی ہو گئی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ تم بے وقوفوں کی طرح رونے بیٹھ جاؤ گے۔‘‘ وہ معصوم سی شکل بنا کر کہہ رہا تھا۔
’’ ہاں، جب میں مرجاؤں گا تو تم مت رونا۔‘‘ شدید غصے میں بے اختیار میرے منھ سے نکلا۔
’’ اچھا تو تم مجھے مار چکے تھے!‘‘ ثمر گل آنکھیں نکال کر بولا۔ حمزہ اور عمیر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ ثمر گل اور میں بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے۔
پھر ہم آسانی سے اس قدرتی راستے سے جو سانپ کی طرح بل کھا تا نیچے جار ہا تھا، اس پہاڑ سے اتر آئے۔
جب ہم پہاڑ سے نیچے اترے تو ہم نے اپنے سامنے ایک ہرا بھرا جنگل پایا۔
عمیر بے چارگی سے بولا:’’ پیچھے پہاڑ ہیں، آگے جنگل ہے۔ اب کیا کریں؟ ‘‘
حمزہ بولا: ’’ ظاہر ہے جنگل ہی پار کریں گے، ان پہاڑوں کوتو ہم سر کرنے سے رہے۔‘‘
باتیں کرتے کرتے ہم جنگل میں داخل ہو گئے۔
حمزہ شرارت سے بولا: ’’ بس بھئی یہ جنگل میں منگل منانا باقی تھا، آج یہ بھی منالیں گے۔‘‘
’’ ویسے یہ حیرت ناک بات ہے، ہم راستہ گم کر بیٹھے ہیں۔ ہم نہیں جانتے یہ راستہ ہمیں ملے گا یا ہم بھٹکتے رہیں گے مگر پھر بھی ہم خوف زدہ نہیں ہیں اور نہ مایوس ہیں۔ آخر کیوں؟‘‘ میں حیرت سے بولا۔
عمیر نے اپنا فلسفہ بیان کیا:’’ در اصل ہم غار میں موت کے منھ سے بچ کر آئے ہیں اور وہاں ہم بے انتہا خوف زدہ تھے۔ جب کوئی انسان بے تحاشا خوف اور ڈر محسوس کرے اور اس خوف کی انتہا تک پہنچ کر پلٹ آئے تو وہ ایک دم بہادر بن جاتا ہے۔ شاید اب ہم بہادر بن گئے ہیں۔‘‘
’’ نہیں، اصل میں اب ہمارا اعتقاد مضبوط ہو گیا ہے کہ اگر ہماری تقدیر میں موت سے بچنا لکھا ہے تو ہم ہر صورت بچیں گے، کیوں کہ موت اور زندگی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ شاید اس لیے اب ہم بے خوف ہیں۔‘‘ حمزہ نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔
ثمرگل نے کہا: ’’ابھی ہم دن کی روشنی میں ہیں، کھلی فضا میں سفر کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ہمارا ایمان مضبوط ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، اس لیے امید اور جوش ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
میں نے بھی لقمہ دیا:’’ اس لیے تو ہم پر عزم ہیں اور مسلسل سفر میں ہیں۔ ‘‘
اس طرح کی باتیں کرتے کرتے ہم نے جنگل میں کافی فاصلہ طے کر لیا۔ اس جنگل میں چیڑ، برچ اور صنوبر کے درخت تھے۔ یہ سر سبز جنگل بے حد خوب صورت تھا۔ خوب صورت پرندے چہچہا رہے تھے۔ بعض پرندے تو ہم نے زندگی میں پہلی بار صرف اسی جنگل میں دیکھے۔
’’یہ ہماری زندگی کے یادگار اور دل کش نظارے ہیں، جو ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے۔‘‘ حمزہ نے گہری سانس لے کر جنگلی پھولوں کی خوش بو سے محظوظ ہو کر کہا۔
کافی دیر سفر کرنے کے بعد ہم ایک ندی کے پاس رک گئے۔
یہ ندی جنگل کے وسط میں درختوں کے درمیان بہ رہی تھی۔ لمبی اُگی گھاس میں اس کا پانی بہ مشکل نظر آتا تھا۔ یہ تقریبا ًایک میٹر چوڑی تھی۔ ندی کا پانی شفاف تھا۔ ہمیں بھوک بھی لگ رہی تھی۔ وہاں بیٹھ کر ہم نے کھانا کھایا اور ندی کا ٹھنڈا اورمیٹھا پانی پیا، ہم اپنی بوتلیں اس پانی سے بھرنے لگے۔
عمیر نے ہمیں متوجہ کیا: ’’ وہ د یکھو! جنگلی خرگوش۔‘‘
ایک خرگوش چھلانگیں مارتا درختوں کے پیچھے غائب ہو چکا تھا۔
حمز ہ بولا: ’’ یہاں خرگوش اور گلہر یاں بہت ہیں۔ میں نے راستے میں بھی دیکھی تھیں۔‘‘
ثمرگل نے کہا: ’’اب ہم اپنا سفر ندی کے ساتھ کریں گے۔ شاید یہ ندی ہمیں اس جنگل سے باہر نکلنے کے راستے پر ڈال دے۔‘‘
ہم سب نے ندی کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا۔ آگے جا کر گھاس چھوٹی ہو گئی تھی اور ندی کا پانی نظر آنے لگا تھا۔ یہاں ندی کے کناروں پر بے شمار زرد اور سفید پتیو ں والے پھول تھے، جو گھاس میں بچھے ہوئے تھے۔
’’یہ کون سے پھول ہیں؟‘‘ عمیر نے جھک کر ایک پھول تو ڑا۔
ثمر گل نے بتایا۔’’ یہ اسٹرابری کے پھول ہیں۔‘‘
’’کیا؟ ‘‘حمزہ اور عمیر حیران رہ گئے۔
حمز و حیرت سے بولا:’’ یہاں اتنی زیادہ اسٹرابری لگی ہیں اور انھیں کھانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
میں نے کہا:’’ یہ خوب صورت پرندے جو چہچہار ہے ہیں، یہ کھاتے تو ہیں۔‘‘
’’شش، ایک منٹ رکو۔‘‘ حمزہ نے سرگوشی کی اور دونوں بازو ہمارے سامنے پھیلا کر ہمیں روک دیا۔’’ وہ سامنے دیکھو!‘‘ اس نے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا۔
’’اس درخت کی ٹہنی پر ایک نہایت خوب صورت چمک دار پروں والا پرندہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پروں میں سات رنگ تھے اور باریک سی چونچ۔ وہ پرندہ ہماری احتیاط کے باوجود چوکنا ہو کر اڑ گیا۔
حمزہ نے ہمیں بتایا :’’اس پرندے کا مجھے نام تو یاد نہیں، مگر اس کے بارے میں میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ یہ صرف کیلی فورنیا کے جنگلوں میں پایا جاتا ہے ،مگر دیکھو! یہ ہمارے پاکستان کے جنگلوں میں بھی ہے۔‘‘
ہم پھر چلنا شروع ہو گئے۔ جنگل اب گھنا ہوتا جار ہا تھا۔
عمیر بولا:’’ہم صبح سے چل رہے ہیں اور جنگل ختم ہی نہیں ہورہا۔ ‘‘اس کے لہجے میں تھکن تھی۔ جنگل نہایت گھنا اور تاریک ہوتا جار ہا تھا اور اسی تاریک جنگل میں ندی کہیں غائب ہو گئی تھی۔
ثمرگل یک دم بولا:’’ یہاں زمین نہیں ہے۔‘‘
حمزہ اور عمیر ہراساں ہو کر رک گئے۔
عمیر چونک کر بولا :’’کک۔۔۔کیا مطلب؟ کیا پھر کوئی دلدل؟‘‘
ثمرگل بولا:’’ بے وقوف! یہاں زمین اس لیے نہیں ہے کہ یہاں پتے ہی پتے ہیں اور جانے کتنی صدیوں سے جمتے جارہے ہیں۔ یہ دیکھو! جب ہم قدم نیچے رکھتے ہیں تو پتے دب جاتے ہیں۔‘‘
حقیقت میں تاریک جنگل ایسا ہی تھا اور ندی کا پانی بھی شاید انھی پتوں کے نیچے کہیں غائب ہو گیا تھا اور ہمارے پاس سوائے چلتے رہنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
’’ پیچھے ایک درخت کے پاس میں نے ایک سانپ دیکھا تھا۔‘‘ حمزہ نے سرگوشی کی تو عمیر نے مضبوطی سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
ثمر گل بولا:’’ تم نے صرف ایک دیکھا ہے، میں راستے میں پانچ چھے سانپ دیکھ چکا ہوں۔‘‘
’’ گل!‘‘ میں نے اسے ڈانٹا۔ عمیر اور حمزہ پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے اور وہ انھیں مزید ڈرار ہا تھا۔
وہ ہنس پڑا: ’’ میں مذاق کر رہا تھا۔‘‘
مگر وہ مذاق نہیں کر رہا تھا، کیوں کہ سانپوں کا جنگل شروع ہو چکا تھا۔
حمزہ نے اپنی ٹارچ نکالی اور جلانی چاہی۔ میں نے اسے روک دیا :’’حمزہ! روشنی مت کرنا۔ روشنی کی تو ہم پھنس جائیں گے۔ خاموشی اور آہستگی سے اس نیم تاریکی میں چلتے رہو، ورنہ ہمیں کوئی چیز کاٹ بھی سکتی ہے۔‘‘ میں نے دھیمے سے کہا۔
ہمارے دلوں کے دھڑ کنے کی آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی۔ اس جنگل میں ایک وحشت ناک سناٹا تھا اور ایک ہیبت ناک سرسراہٹ تھی، جو ہمیں چوکنا بھی کر رہی تھی اور ہراساں بھی۔
ہم نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ اچانک ثمر گل کی چیخ ابھری۔ اس نے میراہاتھ چھوڑ دیا۔
’’کک۔۔۔کیا ہوا؟‘‘ ہم تینوں نے گھبرا کر بیک وقت پو چھا۔
’’کک۔۔۔کچھ نہیں ہوا۔‘‘اس نے جھنجلا کر کہا۔ ہم پھر چلنے لگے۔ ہم حیران تھے کہ وہ کیوںچیخا تھا!
ہم ڈھائی تین گھنٹے تک اس نیم تاریک گھنے جنگل میں چلتے رہے۔ ہم رکنا چاہتے تھے،مگر جنگل کا گھنا پن اور تاریکی رفتہ رفتہ کم ہو رہی تھی۔ اس تاریکی میں چلتے چلتے ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا گو یا ہم بلندی کی طرف جارہے ہیں۔
ہماری سانسیں پھول رہی تھی ،مگر تاریکی میں ہمیں کچھ اندازہ نہیں ہور ہا تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ کافی دیر چلنے کے بعد ہمیں ہلکی روشنی نظر آنے لگی۔ ایک جگہ ہم نے چند ثا نیے ٹھیر کرا اپنے خشک حلق ترکیے اور پھر چل پڑے۔ سورج کی مدہم روشنی ہمیں اب درختوں میں سے جھانکتی نظر آنے لگی۔
عمیر بولا: ’’ ایسا لگتا ہے کہ شام ہو رہی ہے، کیوں کہ سورج کی روشنی زرد ہے۔‘‘
پھر ہم نے درختوں کے درمیان جگہ صاف کی اور بیٹھ کر سستانے لگے۔
ثمر گل بولا: ’’ یہ جنگل غیر محسوس طریقے سے بلندی کی جانب جاتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی سطح بلندسے بلند تر ہورہی ہے۔‘‘
عمیر جل بھن کر بولا: ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہیں مرکھپ جائیں گے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔‘‘
حمزہ نے اپنی بوتل سے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا ’’ا بھی تو شکر کرو کوئی شیر، چیتا اور کوئی جنگلی جانور نہیں ٹکرایا، ورنہ یوں اطمینان سے یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔‘‘
میں اچانک بولا: ’’ تم جانتے ہو ہمیں کوئی جنگلی درندہ کیوں نہیں ٹکر ایا؟ ‘‘
’’ کیوں؟ ‘‘حمزہ اور عمیر بیک وقت بولے۔
ثمر گل بولا:’’ کیوں کہ ہم سانپوں کے جنگل سے گزر کر آ رہے ہیں، جہاں سانپوں کے علا وہ کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
حمزہ کے ہاتھوں سے بوتل چھوٹتے چھوٹتے بچی۔
’’ اور پتا ہے، میں نے چیخ کیوں ماری تھی؟ کیوں کہ میرے کندھے پر ایک سانپ گرا تھا، جسے میں نے جھٹک کر دور پھینک دیا تھا۔ثمر گل نے بتایا اور ہم تینوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
میں نے کہا:’’ایسا معلوم ہوتا ہے، یہ جنگل ختم ہونے والا ہے۔ ہمیں تھوڑی سی ہمت کرنی چاہیے، تا کہ یہاں سے نکل سکیں۔‘‘
عمیر چڑ کر بولا:’’ مگر یہ چڑھنا اتر نا آخر کب ختم ہوگا؟‘‘
اور اس کے یوں چڑنے پر ہمیں اس پریشانی میں بھی ہنسی آنے لگی۔ثمر گل کا انداز ہ درست تھا، کچھ دیر بعد ہم اس جنگل سے باہر تھے۔
جنگل سے باہر ہمارے سامنے سرسبز پہاڑی تھی۔ ہم پہاڑی پر چڑھنا شروع ہو گئے، جب ہم او پر پہنچے تو ہماری سامنے ایک نہایت وسیع وعریض میدان تھا، جہاں ہر جگہ اونچی نیچی گھاس کے ٹیلے تھے۔
ہم قدرت کی اس مہربانی پر حیرت زدہ تھے۔ رات ہو چکی تھی۔ آسمان پر جا بہ جا چمکتے تارے نکلے ہوئے تھے، موسم خوش گوار تھا۔
’’یہ کون سی جگہ ہے؟‘‘حمزہ نے لیٹے لیٹے پوچھا۔ ہم بس لیٹے ہوئے تھے۔ ہم میں سے کسی میں اتنی سکت نہ تھی کہ ٹھ کر بیٹھ سکے۔
میں نے بتایا:’’ یہ دیوسائی ہے۔‘‘
حمزہ اور عمیر یک دم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ عمیر مجھے جھنجوڑ کر بولا:’’ کیا کہا تم نے؟‘‘
’’یہ دیوسائی کا میدان ہے۔‘‘ میں نے دوبارہ بتایا۔
پھر خاموشی کا طویل وقفہ ہمارے درمیان آیا اور اس خاموشی کو عمیر کی سسکیوں نے تو ڑا۔ وہ سسک رہا تھا، خوشی سے رورہا تھا۔ ہم سب بھی رونے لگے۔
یہ خوشی کے آنسو تھے۔ یہ آنسو ہماری نئی زندگیوں کے لیے تھے۔ ہمارے بھٹکنے کے بعد منزل پر پہنچ جانے کے آنسو تھے۔ پھر ہم ایک دوسرے کے گلے لگ کر دیر تک آنسو بہاتے رہے۔
پھر ہم نے وہیں پر خیمے لگائے اور اپنے اپنے خیموں میں سو گئے۔ ہم سب پر شدید تھکن طاری تھی۔ ہماری بھوک پیاس ہر چیز ختم ہو گئی تھی، بس ایک شدید تھکاوٹ اور درد کا احساس حاوی تھا۔ دوسرے دن صبح ہم اٹھے تو ہمیں شدید بھوک لگ رہی تھی۔ ناشتا کرنے کے بعد ہم نے اپنا سامان باندھا اور اونچے نیچے گھاس کے ٹیلوں کو عبور کرتے تھوڑا آگے بڑھے۔
’’پتا ہے، جب یہاں پہلی بار آیا تھا تو مجھے بخت چچانے بتایا تھا کہ ان پہاڑیوں کے پیچھے ایک گھنا جنگل ہے، اتنا گھنا جنگل کہ آج تک وہاں کوئی نہیں گیا۔ کوئی نہیں جانتا، وہاں کیا ہے اور اگر وہاں تک کوئی چلا بھی جائے تو جانے زندہ واپس آئے یا نہ آئے۔ ‘‘میں نے انھیں چلتے چلتے بتایا۔
حمزہ ہنسا :’’اور تم تو شاید کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ تم خود بھی وہاں سے گزر کر آؤ گے۔‘‘
میں نے انھیں دوبارہ بتایا: ’’میں نے پہاڑی سے جھانک کر جب وہاں دیکھا تھا تو جھر جھری لے کر سوچا تھا کہ خدا نہ کرے، کوئی یہاں جائے۔‘‘
’’انسان کی سوچ کبھی پوری نہیں ہوتی اور جو کچھ انسان کے ساتھ ہو جاتا ہے، وہ کبھی اس کی سوچ میں بھی نہیں ہوتا، اس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا ہوتا کہ ایسا بھی ہو جائے گا۔‘‘ثمر گل بولا تو ہم سب نے اثبات میں سر ہلا دیے۔
’’یہاں کتنی شدید سردی ہے۔‘‘ عمیر نے کانپتے ہوئے کیا۔ ’’اور ایک عجیب سی بے چینی ہے،سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے۔‘‘
حمزہ نے کہا:’’ تم اس وقت بلند ترین جگہ پر ہو، اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔‘‘
’’واہ، یہ پھول کتنے خوب صورت ہیں۔‘‘ عمیر پھولوں کے جھنڈ کے پاس رک گیا۔ وہ بے یقینی سے چلایا:’’حمزہ دیکھو ان پھولوں کے رنگ دیکھو، کبھی تم نے پہلے ایسے رنگ دیکھے ہیں؟‘‘
حمزہ بھی گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھ گیا۔
’’کیمرہ نکالو، تصویریں بنا ئیں۔‘‘ حمزہ بولا اور پھر ٹھٹک کر رک گیا۔ ہم سب ہی ٹھٹک گئے تھے۔
’’ہم بھی کتنے بے وقوف ہیں۔‘‘ حمزہ سر پر ہاتھ مار کر بولا۔’’آ بشار کے پاس، غار میں، پہاڑ کے اوپر اور جنگل میں کسی بھی جگہ کیمرے کا خیال نہیں آیا کہ چند تصویر یں ہی بنا لیں۔ اب ہم کسی کو بتائیں گے تو کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ ہم نے ایسی جگہیں بھی دیکھی ہیں، یا وہاں سے بچ کر آئے ہیں۔‘‘
’’اس وقت کیمرے کا کیا سوچتے۔ اس وقت تو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔‘‘ میں نے لقمہ دیا۔
عمیر نے کہا: ’’اچھا ہی ہوا حمزہ !وہ خوف ناک منظر ہماری یادوں میں ہیرہیں تو بہتر ہے اور ہم کسی کو نہیں بتا ئیں گے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ورنہ دو بارہ کبھی یہاں آنے کی اجازت نہیں ملے گی۔‘‘
گل بولا: ’’ وہاں صرف خوف ناک منظر نہیں تھے، خوب صورت اور حیرت انگیز بھی تھے۔‘‘
عمیر بولا:’’ایسا لگتا ہے، جیسے وہ سب ایک خواب تھا۔‘‘
’’ ویسے اگر ہم کسی کو بتا ئیں گے تو کوئی یقین بھی نہیں کرے گا۔ سب کہیں گے، ہم جھوٹی داستان سنا رہے ہیں۔‘‘ حمزہ نے کہا اور جھک کر پھول توڑنے لگا۔
’’ بھول جاؤ سب کچھ ،ہم کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ ‘‘عمیر بولا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
’’ طلحہ! حمز ہ!وہ دیکھووہ۔۔۔ ادھر بادل۔‘‘ عمیر نے دور ایک پہاڑی کے اوپر جمع بادلوں کی طرف اشارہ کیا۔
ثمر گل نے بتایا:’’ وہ سفید بادل ہم سے زیادہ دور نہیں ہیں۔‘‘
’’ اف، ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، کبھی ہم بادلوں کو نزدیک سے بھی دیکھیں گے۔ ‘‘حمزہ کے لہجے میں دبا دبا سا جوش تھا۔
عمیر بولا: ’’چلو، وہاں چلیں۔‘‘
’’جب تک ہم وہاں جائیں گے بادل اڑ جائیں گے۔ اس لیے پہلے تصویریں بنالو۔ اس کے بعد اس دیوسائی نالے کے پاس چلتے ہیں، جواو پر پہاڑیوں سے بہہ کر نیچے میدان تک آ رہا تھا۔‘‘ میں نے کہا تو وہ تصویریں بنانے لگے۔
حمزہ نے کہا:’’یہ اتنے خوب صورت لاتعداد رنگوں کے پھول میں نے پہلی بار دیکھے ہیں۔‘‘
گل نے بتایا: ’’یہ پھول اتنی بلندی پر صرف یہیں پائے جاتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا:’’ یہاں دیوسائی پر برفانی سفید ریچھ بھی پایا جاتا ہے، مگر ان کی تعداد اب کم ہوتی جارہی ہے، اس لیے ان کے شکار پر اب پابندی لگ گئی ہے۔ جنگلی حیاتیات کے تحفظ کے لیے اب بہت سے عملی اقدامات ہورہے ہیں، کیوں کہ اب برفانی سفید ریچھ اور برفانی چیتے بے حد نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی نسلوں کو زندہ رکھنے کے لیے حکومت بہت سے اقدامات کر رہی ہے۔‘‘
ہم وہاں کافی دیر تک سیر کرتے رہے۔ پھر ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ وہاں سے اتر کر سفر کرتے کرتے ہم دیوسائی پر بننے والی سڑک تک آگئے۔
وہاں پر خوش قسمتی سے ہمیں ایک جیپ مل گئی، جو ایک ٹیم کو اتارنے آئی تھی۔ اس جیپ میں بیٹھ کر ہم واپس اسکر دو آ گئے۔
آج حمزہ اور عمیر کا اسکردو میں آخری دن تھا۔ کل وہ واپس کراچی جارہے تھے۔ ان کے ابو اور چچا بھی آج شام کنکورڈیا سے واپس آچکے تھے۔ ہم چاروں بخت چچا کے سیب اور خو بانیوں والے باغ میں بیٹھے ہوئے تھے اور نہایت افسردہ تھے۔ ہم چاروں بہت اچھے دوست بن چکے تھے، اس لیے وہ یہاں سے جانے پر افسردہ تھے۔
ثمرگل ان کے لیے درخت سے خو بانیاں تو ڑ لایا تھا۔ اب وہ خوبانیاں ایک ٹوکری میں ڈال کر دھو رہا تھا۔
’’ہم ان تاز ہ خو بانیوں اور سیبوں کو بھی یاد کریں گے۔ ‘‘عمیر نے خوبانیاں کھاتے ہوئے کہا۔
’’ جب تم دو سال بعد دوبارہ یہاں آؤ گے تو ہماری وادی میں بھی ایک ہائی اسکول بن چکا ہوگا۔ ‘‘ثمر گل نے انھیں بتایا۔ میں نے چونک کر ثمر گل کی طرف دیکھا۔
میں نے بے اختیار پوچھا:’’ وہ کیسے؟‘‘
ثمر گل نے بڑے پراسرار انداز میں مسکرا کر ہم تینوں کو دیکھا۔
’’اب میں تم تینوں کو ایک راز بتانے جارہا ہوں، جو میرے علاوہ ابھی تک صرف بخت چچا جانتے ہیں۔ ‘‘ثمر گل نے مسکرا کر کہا۔ ہم تینوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
ثمرگل میری طرف مڑ کر بولا:’’ پتا ہے طلحہ! جب میں اور تم بڑے قصبے کے اسکول میں دو میل کا سفر طے کر کے پڑھنے جایا کرتے تھے اور پھر واپسی پر دو میل کا سفر طے کر کے آتے تھے تو دعائیں مانگا کرتے تھے کہ خدا کرے، ہماری وادی میں بھی اسکول بن جائے۔ وادی کے اکثر بچے اتنی دور جانے کی وجہ سے نہیں پڑھتے تھے۔ اس وقت ہم دونوں کہا کرتے تھے کہ کاش کہیں سے اتنا سرمایہ آ جائے کہ ہم خود یہاں وادی میں ایک اسکول بنالیں، کیوں کہ اتنے دور افتادہ مقام پر حکومت بھی توجہ نہیں دیتی۔‘‘ ثمرگل نے یاد دلایا۔
’’ہاں، مجھے سب یاد ہے۔ اپنی ہر دعا، اپنے خواب، اپنی خواہشیں اور اپنے منصوبے، جو ہم دونوں نے مل کر بنائے تھے اور ان کے بارے میں ہمیں یقین ہوتا تھا کہ یہ کبھی پورے نہیں ہوں گے۔‘‘ میں نے افسردگی نے کہا۔
ثمر گل بولا:’’ طلحہ! ہماری دعائیں قبول ہوگئی ہیں۔ اب بہت جلد یہاں ایک پرائمری اسکول اورایک ہائی اسکول بنے گا۔‘‘
’’کیا گورنمنٹ کی طرف سے منظور ہو گئے ہیں؟‘‘ عمیر نے پوچھا۔
’’نہیں، ہم خود بنا ئیں گے۔‘‘ عمر گل نے فخریہ لہجے میں کہا۔
’’ہاں، جادو کی چھڑی سے بنائیں گے۔‘‘ میں جل کر بولا۔
عمر گل سحر زدہ لہجے میں کہہ رہا تھا:’’ جانتے ہو، جو سفر ہم نے راستہ بھٹک کر کیا تھا، وہ ہمارے لیے مبارک ثابت ہوا ہے۔ یوں سمجھو، وہ سفر وسیلہ ظفر تھا۔ اس غار میں ہمیں جو قیمتی سفید پتھر ملے تھے، وہ تم تینوں نے بھاگتے وقت پھینک دیے تھے۔ میری مٹھی میں جو پتھر تھا، وہ میں نے نہیں پھینکا۔ جو بہت دور آکر ہم سانس لینے کے لیے رکے تھے، اس وقت وہ پتھر میں نے اپنی جیب میں رکھ لیا تھا۔ واپس آکر جب میں وہ پتھر بخت چچا کے پاس لے گیا تو وہ حیران رہ گئے۔ بخت چچا قیمتی نوادرات اور پتھروں کے بارے میں بہت معلومات رکھتے ہیں۔ وہ کہنے لگے، اتنا قیمتی پتھر تم نے کہاں سے لیا ،تو مجھے ساری بات بتانی پڑی۔ پہلے تو انھیں یقین نہیں آیا، مگر اس شفاف جگر جگر کرتے پتھر کو دیکھ کر انھیں ماننا پڑا۔ وہ پتھر آج صبح انہوں نے دو غیر ملکی سیاحوں کو پچاس لاکھ میں فروخت کر دیا ہے۔ بخت چچا کہتے تھے، اس کی قیمت ویسے تو کروڑوں میں ہے مگر ہمیں یہاں اس سے زیادہ نہیں ملیں گے۔ اب یہاں ایک اسکول بھی بنے گا اور ایک ڈسپنسری بھی، جہاں بیمار لوگوں کا علاج ہوگا۔‘‘ ثمر گل نے ہمیں ساری بات تفصیل سے بتائی۔
’’ تم بخت چچا کے پاس ہی کیوں گئے؟ ‘‘عمیر نے پوچھا۔
گل بولا:’’ کیوں کہ بخت چچا صرف طلحہ کے ہی چچا نہیں ہیں، ساری وادی کے چچا ہیں اور نہایت ایمان دار، اور دیانت دار ہیں اور اچھے راز دار ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ نوادرات کو خوب پہچانتے ہیں۔‘‘
’’ تم نے مجھ پر اعتبار نہیں کیا، میرا تمہارا بچپن کا ساتھ ہے۔ اگر تم مجھے ساری بات پہلے بتا دیتے تو کیا میں وہ پتھر چوری کر لیتا یا اسکول نہیں بننے دیتا؟‘‘ مجھے شدید غصہ آیا تو میں جھگڑ پڑا۔
گل بولا:’’ بات بے اعتمادی کی نہیں ہے طلحہ! مجھے شک تھا۔ امید نہیں تھی کہ وہ پتھر واقعی اتنا قیمتی ہوگا، اس لیے میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا۔‘‘
’’ کچھ بھی ہے، بہر حال مجھے اپنی اوقات کا پتہ چل گیا۔ بس یہی ہے ہماری دوستی، بے اعتبار اور کھوکھلی۔‘‘ میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’ تم جذباتی ہور ہے ہو طلحہ !‘‘ثمر گل کا مقصد …‘‘عمیر نے مجھے سمجھانا چاہا۔
’’اس کا مقصد نیک تھا۔ اس کی نیت بھی نیک تھی۔ یہ تو ہے ہی فرشتہ۔ میں چور ڈاکو ہوں، جو مجھے آج پانچ دن بعد یہ سب بتا رہا ہے۔ ‘‘ میں نے عمیر کی بات کاٹ کر طیش سے کہا۔
عمیر اور حمزہ ساکت رہ گئے، جب کہ ثمر گل گھبرائی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’ایک وقت وہ تھا، جب ہم راستہ بھٹک گئے تھے اور میں ہر جگہ یہ سوچتا رہا کہ شاید ہی اب ہم اپنی وادی میں واپس جاسکیں، جہاں چپے چپے پر میرے اور گل کے قدموں کے نشان بکھرے ہوئے ہیں۔ جہاں میرے اور گل کے خواب ہیں۔ کیا میرے اور اس کے خواب علاحدہ تھے؟ کیا ہماری سوچ الگ تھی؟ کیا فائدہ اس دوستی کا، جس میں اعتماد اور اعتبار نہ ہو، مگر بے وقوف تو میں ہوں، جو اس سے بہت ساری توقعات وابستہ کیے ہوئے تھا۔ جب مان ٹوٹتا ہے تو یہی ہوتا ہے۔ اچھا ہوا، میرے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہتے جارہے تھے۔‘‘
’’طلحہ! تمھیں تو خوش ہونا چاہیے۔ تم لوگوں کا ایک خواب پورا ہونے جارہا ہے اور تم ایک بے مقصد بات کو لے کر بیٹھ گئے ہو۔‘‘ حمزہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’ہاں، بے مقصد بات!‘‘ میں طنزیہ انداز میں ہنسا۔’’ عمیر تمہارے ساتھ یہ سب کرتا تو میں تم سے پوچھتا۔ تم تو سوچ بھی نہیں سکتے میں اس سے…اس سے کتنی محبت…‘‘ میرا گلا رندھ گیا اور میںنے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
ثمر گل نے بے ساختہ دونوں ہاتھ میرے سامنے جوڑ دیئے۔ اور بولا:’’ طلحہ!غلطی ہوگئی، معاف کر دو۔‘‘
میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ حمزہ، عمیر اور ثمر گل نے ہکا بکا ہو کر میری طرف دیکھا۔
’’ ہاں، اب ٹھیک ہے۔ اب میرے دل میں ٹھنڈ پڑی ہے۔ ‘‘میں اطمینان سے نیچے بیٹھ گیا۔
’’ تم۔۔۔ جھوٹے، ڈرامے باز۔‘‘ حمزہ نے دھپ سے میرے کندھے پر ایک مکا رسید کیا۔
پھرثمر گل میرے پاس نیچے بیٹھ گیا اور اس نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے:’’ پتا ہے طلحہ!ہم اسکول کا نام کیا رکھیں گے۔ میں بخت چچا سے بھی کہہ آیا ہوں۔ اسکول کا نام ہوگا ،طلحہ ہائی اسکول۔‘‘ثمر گل نے بتایا۔
میری آنکھوں میں سچ مچ کے آنسو آ گئے۔ میں ثمر گل کے گلے لگ گیا۔ ہم دونوں رو ر ہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔ یہ خوشی کے آنسو تھے، بے تحاشا خوشی کے۔ آخر ہماری زندگیوں کا سب سے بڑاخواب پورا ہونے جار ہا تھا۔
آخر میں نے کہا:‘‘ نہ ہمارا سفر بے مقصد ر ہا تھا اور نہ ہماری سوچ بے مقصد تھی۔‘‘
عمیر اور حمزہ بھی ہم سے لپٹ گئے۔ وہ دونوں بھی خوش تھے۔
’’چلو، اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا کریں، جس نے ہما را خواب پورا کیا ہے۔‘‘ اذان کی آواز سن کر میں نے کہا اور ہم چاروں وادی کی مسجد کی طرف چل پڑے۔