وہ ایک تتلی تھی
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔
پرویز اورفراست جبیں بھائی بہن تھے۔ان کا کوئی اور بھائی اور بہن نہیں تھی۔اس لئے دونوں کو ایک دوسرے سے بڑی محبت اور پیار تھا۔ دونوں ایک ساتھ ا سکول جاتے تھے،کلاس میں ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے تھے اور ایک ساتھ ہی گھر واپس آتے تھے۔
فراست کی ایک سہیلی فرخندہ امتحان میں اوّل آئی تو اس نے اپنی کام یابی کی خوشی میں اپنے کچھ عزیزوں اور سہیلیوں کو چائے پر بلایا۔وہ جانتی تھی کہ اس کی پیاری سہیلی فراست اپنے بھائی کے بغیر اس کے ہاں اوّل تو آئے گی ہی نہیں،اور آئی بھی تو خوشی سے نہیں آئے گی۔اس لیے اس نے دونوں کو دعوت دے دی۔بڑی پرتکلف دعوت تھی۔شام تک سب کھانے پینے،قہقہے لگانے اور باتیں کرنے میں مصروف رہے۔ پھر پرویز اور فراست کے سوا سارے بچے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔
فرخندہ کی کوٹھی کا باغ بڑا خوب صورت تھا۔پرویز اور فراست جب بھی اس کے یہاں آتے،اس باغ میں تھوڑی دیر کے لئے ضرور گھومتے پھرتے۔اس شام بھی وہ دونوں فرخندہ کے ساتھ باغ میں جا نکلے۔
شام کا اندھیرا ابھی پھیلا نہیں تھا۔مغربی آسمان پر سورج آہستہ آہستہ غروب ہو رہا تھا۔اس کی شفق میں ڈوبی ہوئی کرنیں بڑی خوبصورت لگ رہی تھیں۔شفق میں گھرا سورج یوں دکھائی دیتا تھا جیسے سرخ پانی کی جھیل میں سرخ گلاب کا پھول تیر رہا ہو۔
فرخندہ، پرویز اور فراست ٹہلتے ہوئے باغ کے ایک گوشے میں پہنچ گئے جہاں رنگا رنگ پھول پودوں کی شاخوں پر کھلے ہوئے بڑے پیارے لگتے تھے۔یکا یک فراست بول اٹھی، ”ہائے! تتلیاں کتنی پیاری ہیں!“
”جی چاہتا ہے ان کو پکڑ لیں۔“پرویز نے کہا۔
فرخندہ جو خود بھی ان تتلیوں کو دیکھ رہی تھی،کہنے لگی،”تتلی پکڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔“
”اگر میں ایک تتلی پکڑ لوں تو؟“پرویز بولا۔
”ذرا پکڑ کر دکھاؤ تو سہی۔“
فرخندہ خوب جانتی تھی کہ پرویز جتنی چاہے کوشش کر لے،ناکام ہی رہے گا۔اس لیے وہ مسکرا رہی تھی۔
بار بار بھاگنے کی وجہ سے پرویز اور فراست پسینے میں شرابور ہوگئے تھے لیکن اس کوشش سے باز نہیں آئے تھے۔فرخندہ ایک طرف کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی اور انہیں اس ناکام کوشش سے باز رہنے کی تلقین کر رہی تھی۔
پرویز ایک ایسی تتلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا جو بے حد خوب صورت تھی۔یہ تتلی کبھی ایک پیڑ پر بیٹھتی تھی اور پھر جلد ہی وہاں سے اٹھ کر دوسرے پودے کی شاخوں میں گم ہوجاتی تھی۔پھر یکایک پرویز کے منہ سے ایک خوشی بھرا نعرہ نکل گیا۔اس نے وہ بہت پیاری تتلی اپنی مٹھی میں بند کر لی تھی۔
”چھوڑ دو اسے۔“فرخندہ نے کہا،”خدا کے لیے چھوڑ دو۔بے چاری مر جائے گی۔“
”نہیں،میں نہیں چھوڑوں گا۔اتنی کوشش کی ہے۔میں اسے گھر لے جاؤں گا۔“
”کیا کرو گے گھر لے جاکر؟“فرخندہ نے پوچھا۔
”کیا کروں گا؟۔۔اسے ایک کتاب میں بند کردوں گا۔“
”وہاں یہ زندہ نہیں رہے گی۔“فرخندہ نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
”پھر کیا ہوا؟اس کے پروں کو تو کچھ نہیں ہوگا نا۔“
”ہاں،پر تو ویسے کے ویسے چمکتے رہیں گے۔“فراست نے بھائی کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
فرخندہ کو پرویز اور فراست کی یہ حرکت پسند نہیں تھی۔لیکن ان کو خفا بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس لیے خاموش ہوگئی۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ تتلی کو گھر کیسے لے جایا جائے۔آخر فراست کو اس مسئلے کا حل سوجھ گیا۔بولی،”اسے رومال میں بند کر دیتے ہیں۔گھر جاکر کتاب کے اندر رکھ دیں گے۔“اور انہوں نے تتلی رومال میں بند کر دی۔اس کے بعد دونوں بھائی بہن گھر چلے گئے۔
فراست کی تجویز یہ تھی کہ ابھی رومال میز کے اوپر رکھ دیتے ہیں۔کھانا کھانے کے بعد تتلی کو کسی اچھی سی کتاب میں رکھ دیں گے۔
”ٹھیک ہے۔“پرویز کو یہ تجویز بڑی پسند آئی۔اس نے رومال میز کے اوپر رکھ دیا اور دونوں کمرے سے باہر آگئے۔
وہ ہاتھ منہ دھو کر کھانے کے کمرے کی طرف جا رہے تھے کہ پرویز کی نظر اپنے ابو جان پر پڑی جو اپنے کمرے میں کرسی پر سرجھکا ئے بیٹھے تھے۔دونوں بچے جب بھی کسی تقریب میں جاتے تھے تو اپنے ابو کو ضرور اطلاع دیتے تھے کہ وہ واپس آگئے ہیں۔وہ کمرے کے اندر گئے اور ذرا غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کے ابوکے سامنے ایک کتاب کھلی پڑی ہے اور وہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی ماتھے پر رکھے کتاب کے صفحوں کو دیکھ رہے ہیں۔
”اباجان!“پرویز نے آہستہ سے کہا۔لیکن انہوں نے سراٹھا کر ان کی طرف دیکھا تک نہیں،بالکل خاموش بیٹھے رہے۔کچھ غم گین سے لگتے تھے۔اب کے فراست نے ذرا آگے بڑھ کر آواز دی تو انہوں نے کہا،”ہوں۔“
”ابو جی!“پرویز نے ذرا بلند آواز سے پکارا۔
”آگئے؟“اباجی نے صرف یہی ایک لفظ کہا۔
”کیا بات ہے؟“فراست کے لہجے میں حیرت تھی۔
”دعوت مزے دار تھی؟“باپ نے سوال کیا۔
”جی، بڑی اچھی تھی۔۔۔آپ کیا سوچ رہے ہیں؟“فراست بولی۔
”وہ۔۔۔بیٹی،ایک کتاب ڈھونڈنے ادھر آیا تھا کہ اِس کتاب پر نظر پڑ گئی اور ایک واقعہ یاد آگیا۔۔۔۔“
”کون سا واقعہ،ابو جی؟“ فراست نے پوچھا۔
”سننا چاہتے ہو؟“
دونوں کے منہ سے بیک وقت ”ہاں“ نکلا۔
”بیٹھ جاﺅ۔“
وہ کرسیوں پر بیٹھ گئے تو ان کے ابا جی کہنے لگے،”یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب میری عمر پرویز جتنی ہوگی۔مجھے باغوں میں گھومنے پھرنے کا بڑا شوق تھا۔اس زمانے میں ہمارا گھر جس جگہ واقع تھا،وہاں قریب ہی ایک بڑا شان دار باغ بھی تھا۔“
”جیسا فرخندہ کا ہے۔“فراست بول اٹھی۔
پرویز کو غصہ آگیا۔بولا”فراست،بیچ میں مت بولو۔جب بزرگ بات کریں تو بچوں کو نہیں بولنا چاہئے۔اچھا ابا جی،پھرکیا ہوا؟“
”پھر یہ ہوا کہ ایک دن چھٹی کے روز میں باغ میں گیا تو ایک تتلی بڑی پیاری لگی۔مجھے میرے ایک دوست نے بتایا تھا کہ تتلی کو پکڑ کر کتاب میں رکھ دیں تو اس کے پروں کے رنگ ویسے کے ویسے رہتے ہیں۔میں نے وہ تتلی پکڑ لی اور اسے اپنے کمرے میں لاکر ایک کتاب میں رکھ دیا۔دوسرے روز میں نے کتاب کھولی تووہ بے چاری مر چکی تھی۔اس کے پروں کے رنگ کتاب کے صفحوں پر لگ گئے تھے۔میں نے یہ واقعہ گھر میں کسی کو بھی نہ بتایا۔کتاب الماری کے اندر رکھ دی۔۔۔“
پرویز اور فراست بڑے غور سے باپ کے چہرے کو تک رہے تھے جو اداس نظر آتا تھا۔
اباجی کہنے لگے،”اُس رات میں سونے کو تو سو گیا مگر جلد ہی آنکھ کھل گئی۔کچھ ایسا محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی ہے۔میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ روشن دان سے چاند کی کرنیں اندر آرہی تھیں۔ان کی روشنی میں دروازے کے قریب ایک سایہ سا نظر آیا اور پھر ایسا لگا جیسے میرے قریب ہی کوئی بچہ رورہا ہے۔میں ڈر کر امی کے پاس چلا گیا۔انہوں نے سارا واقعہ سنا تو بولیں:
”ناصر بیٹا،یہ تم نے بہت برا کیا جو اس تتلی کو مار ڈالا۔ہمیں تتلی دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے۔تم نے تتلی کو مار کر اس خوشی کو مار ڈالاہے۔“
میں زار و قطار رونے لگا۔۔امی نے تسلی دی اور مجھ سے وعدہ لیا کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا۔وہ دن اور آج کا دن،میں تتلیوں کو دیکھتا تو ہوں،انہیں پکڑتا ہر گز نہیں۔۔۔اُس تتلی کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کرنے کا مجھے آج تک افسوس ہے۔“
یہ کہ کر وہ ذرا رکے۔پھر بولے،”آج یہ کتاب نظر آگئی۔اِسی کے اندر میں نے وہ تتلی رکھی تھی۔اسے دیکھا تو وہ سارا واقعہ یاد آگیا۔یہاں کتاب میں اس بے چاری تتلی کے مرجھائے پروں کا ایک حصہ رہ گیا ہے۔یہ دیکھو۔“
پرویز اور فراست نے دیکھا۔ان کے اباجی نے سچ کہا تھا۔ٹوٹے ہوئے پروں کے مرجھائے ہوئے رنگ بھی محسوس ہوتے تھے۔
”چلو اب کھانے کے کمرے میں۔“یہ کہ کر ابا جی اٹھ بیٹھے۔
پرویز اور فراست نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ طے کرلیا تھا۔فراست بولی،”ابا جی،ہم ابھی آتے ہیں۔“اور یہ کہ کر دونوں تیزی سے اپنے کمرے میں آئے۔پرویز نے رومال اٹھایا۔
”زندہ ہے!“پرویز نے خوشی سے نعرہ مارا۔
”سچ؟“
”ہاں،ہاں۔دیکھ لو۔“
پرویز رومال اٹھائے کھڑکی کے پاس گیا اور پھر رومال کی گرہ کھول دی۔فضا میں رنگوں کی ایک چھوٹی سی دنیا دکھائی دی اور پھر غائب ہو گئی۔ اس کے بعد دونوں خوش خوش کھانے کے کمرے کی طرف چلے گئے۔