skip to Main Content
وال نیوز پیپر

وال نیوز پیپر

حماد ظہیر

………………………………………………..

اس کے اندر کئی سرخیاں موجود تھیں اور ہر سرخی سرخ مرچ کی طرح تیز۔۔۔

…………..…………..…………..…………..

سیکنڈ ائیر تک آتے آتے ہم کالج کے نامی گرامی اساتذہ پر اپنے فن تحریر کا سکہ جماچکے تھے۔ کالج میں ایک آسانی یہ بھی تھی کہ ایک ہی مضمون کو کئی کئی اساتذہ پڑھاتے، یہی وجہ تھی کہ کم از کم تین اساتذہ ہماری اردو کی شوخی تحریر کا شکار ہوچکے تھے۔
اور یہی وجہ تھی کہ کالج کے وال میگزین کے ایڈیٹر کے لیے ہماری ہی گردن کو پھنسادیا گیا تھا۔
’’اوں اوں۔۔۔ چوں‘‘ مرزا نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا۔
’’تمہارے ہاتھ میڈیا لگ گیا ہے، اور میڈیا بہت بڑی طاقت ہے!‘‘ انہوں نے راز دارانہ انداز میں کہا تو ہم نے گھبرا کر جلدی سے اپنے ہاتھ دیکھے، مگر وہ تو صاف تھے!
’’ہمارے ہاتھ میں تو کچھ نہیں لگا؟‘‘ ہم نے صفائی پیش کی۔
’’تمہارے ہاتھ ایسی بندوق لگ گئی ہے جو چوبیس گھنٹے فائر کرسکتی ہے اور مزے کی بات یہ کہ آواز بھی نہیں نکالتی‘‘۔
اس مرتبہ ہم نے اپنی جیبیں وغیرہ بھی چیک کر ڈالیں اور پھر شجاعت پر برس پڑے۔
’’تم کیا کوئی بدمعاش پولیس والے ہو جو الٹی سیدھی چیزوں کی ہمارے پاس موجودگی ثابت کرکے ہمیں پھنسوانا چاہتے ہو؟‘‘
’’پھنس تو تم چکے ہو میری جان! بچہ کے ہاتھ میں چھری پکڑادی جائے تو وہ اپنا ہی نقصان کربیٹھتا ہے‘‘۔ مرزا بے اعتنائی سے بولے۔
ہم نے مرزا کی گردن دبوچ لی اور غرائے
’’صاف صاف بتاتے ہوئے یا مروڑ دیں‘‘۔
’’سب کچھ صاف صاف اور سچ سچ تو بتایا ہے‘‘۔ مرزا منمنائے۔
’’یہ بندوق اور چھری وغیرہ کا کیا چکر ہے؟‘‘
’’یہ مم۔۔۔ میڈیا۔ میرا مطلب ہے وال میگزین‘‘۔
ہم نے مرزا کی گردن چھوڑی اور حیرت سے بولے۔
’’یہ وال میگزین میڈیا کہاں سے ہوگیا۔ اس میں تو چند لوگوں کی کہانیاں اور نظمیں وغیرہ آئیں گی جسے ہم پرنٹ نکال کر نوٹس بورڈ پر لگادیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ اردو ادب کی اہمیت پر ایک مضمون لکھ کر بطور اداریہ لگادیں گے۔‘‘
ہم نے شجاعت کو وال میگزین کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کی۔
’’چچ چچ چچ! یہی فرق ہے۔ اگر کسی گدھا گاڑی والے کے ہاتھ کوئی ٹینک لگ جائے تو وہ اس کے آگے ایک دو کے بجائے آٹھ دس گدھے باندھ دے اور دہائیاں دے کہ کتنی بھاری گاڑی ہے کھینچتی نہیں‘‘۔
ہم نے مرزا کی گردن دوبارہ دبوچ لی۔
’’اچھا۔۔۔ اچھا میرے بھائی، بت، بتاتا ہوں بلکہ اب تو کچھ کرکے ہی دکھاؤں گا‘‘

*۔۔۔*

شجاعت مرزا فٹ بال کے کوچ بن کر یہ روایت تو ڈال ہی چکے تھے کہ کالج کی ٹیم کا انتخاب سینیارٹی کی بناء پر نہیں بلکہ میرٹ کی بنا پر ہوگا۔ اس سے فرسٹ ائیر میں تو ہم نے بہت فائدہ اٹھایا کہ فٹ بال ٹیم کی نمائندگی کی، مگر سیکنڈ ائیر میں آکر یہی اصول کرکٹ میں ہمارے آڑے آگیا۔
سینئرز کے جانے کے بعد ہم نے کرکٹ کی حکمرانی تو سنبھال لی، مگر نئی آنے والی فرسٹ ائیر بڑی غضب ناک ثابت ہوگئی، اس کے اندر بڑے منجھے ہوئے بلے باز، مشاق بالر اور پھرتیلے فیلڈرز تھے۔ انہوں نے دو ایک میچوں ہی میں ہم پر اپنی برتری جتادی اور ہمارے کرکٹ کی نمائندگی کے خواب کو چکنا چور کردیا۔
’’شجاعت! فٹ بال میں تو تم نے نہ جانے کیا کیا جتن کرکے اپنی کلاس کی ٹیم کو نمائندگی دلوادی تھی، اب کرکٹ میں بھی کروانا!‘‘ ہم نے شجاعت کو غیرت دلانے کی کوشش کی، مگر وہ شجاعت ہی کیا جو کوئی بھی چیز خرید لے، وہ تو صرف مفت کے چکر میں رہتے تھے۔
’’بھئی پہلے ہم حق پر تھے اس لیے میں نے وہ کچھ کیا تھا۔ اب یہ چھوٹے حق پر ہیں تو انہیں کھیلنے دو نا‘‘۔
’’تو کوئی ٹریننگ وغیرہ ہی کرادو۔ کچھ بھی کرو، مگر ہمیں تو کرکٹ ضرور ہی کھیلنی ہے۔ کتنے بہت سارے لوگ آگئے ہیں میچ دیکھنے کے لیے اور کتنا مزہ آتا ہے‘‘۔ ہم خوش ہو کر بولے۔
’’میں کالج پڑھنے لکھنے کے لیے آیا ہوں، مجھے کھیل کود میں نہ لگا اے دوست! اگر کوئی مدد ہی چاہیے تو وال میگزین میں تمہاری مددکرسکتا ہوں!‘‘ مرزا نے بڑی صفائی سے دامن بچایا اور ایک مردہ سی پیشکش کی، جسے ہم نے اپنے قدموں میں ڈالا اور روندتے ہوئے وہاں سے چل دیے!

*۔۔۔*

وال میگزین کا پہلا شمارہ بورڈ پر لگا تو مرزا تالی بجاتے ہوئے ہمارے پاس آئے۔
’’میں اک چھوٹا تنکا ہوں
کھیتوں کھیتوں اڑتا ہوں
دریا دریا بہتا ہوں
میں ایک چھوٹا تنکا ہوں!‘‘
واہ واہ مدیر صاحب، کیا خدمت ہورہی ہے علم و ادب کی واہ، اور وہ جو کہانی چھپی ہے اسے پڑھ کر تو آنکھوں سے آنسو آگئے، پہلی مرتبہ جو پڑھی ہے کہ لالچی ڈاکٹر نے فیس لیے بغیر زخمی کو دیکھنے سے انکار کردیا اور جب زخمی دم توڑ گیا تو پتا چلا کہ وہ اس کا اپنا بیٹا تھا، لالچ کا برا انجام چچ چچ!‘‘ مرزا نے ساتھ ساتھ گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔
ہمارے پاس ہی لکڑی کا ایک پیپر ویٹ رکھا تھا، ہم نے اسی کو مرزا کے دے مارا۔۔۔ اور ہم کرہی کیا سکتے تھے!

*۔۔۔*

ہمیں ایک شادی کے سلسلے میں ملتان جانا پڑگیا۔ ابھی مہینہ کی پہلی ہونے میں تین چار روز باقی تھے، لہٰذا ہم وال میگزین کا سارا مواد اور بورڈ کے تالے کی چابی شجاعت کے حوالے کرگئے کہ پہلی آتے ہی اسے لگادیں۔ قریب ایک ہفتہ بعد ہماری کالج واپسی ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ وال میگزین کے گرد لڑکوں کا ہجوم ہے۔ ہم نے اپنا سر پیٹ لیا کہ یقیناًشجاعت مرزا نے کوئی بھنڈا کیا ہے جو یہ سب جمع ہیں یا تو انہوں نے کورے کاغذ چپکادیے ہوں گے، یا پھر غلطی سے نیچے کا حصہ اوپر اور اوپر کا نیچے کردیا ہوگا کہ پڑھنے کے لیے سر گھما گھما کر دیکھنا پڑے، یا پھر کچھ بعید نہیں کہ میگزین کی جگہ اپنے نوٹس چپکا گئے ہوں۔
معاملہ بھانپنے کے لیے ہم کسی طرح بورڈ تک پہنچے اور پھر چونک اٹھے کہ وہاں تو وال میگزین سرے سے موجود ہی نہ تھا۔۔۔
وال میگزین کی جگہ ہمیں وال نیوز پیپر نظر آیا۔ اس کے اندر کئی سرخیاں موجود تھیں اور ہر سرخی سرخ مرچ کی طرح تیز تھی، مثلاً
فلانا پروفیسر سلام کا جواب دینے سے پہلے اپنے ٹیوشن کا اشتہار سناتے ہیں۔
فلانا ٹیچر ریاض پڑھانے کے بجائے اپنے گائیکی کے فن کا ریاض کرتے ہیں۔
موجودہ گورنر صاحب جب اسی کالج کے طالب علم تھے تو روم نمبر 24 ان کا کلاس روم ہوا کرتا تھا۔
فزکس کی لیب کا فلانا باکس 1950ء کا ہے۔
پرنسپل صاحب کے کمرے میں جو قائد اعظم کا بڑا پورٹریٹ لگا ہے وہ 1850ء کا ہے۔
(ہم نے حیرت سے بھنویں چڑھا کر تفصیل دیکھی تو لکھا تھا 1850 روپے کا!)
مشہور سماجی لیڈر فلانا فلانا کے دستخط لائبریری کی کتاب ’’سماجی لیڈر بننے کے دس طریقے‘‘ کے کارڈ پر موجود تھے جو انہوں نے آج سے 30 سال پہلے پڑھی تھی۔
فروغ ادب کے عالمی دن پر کالج میں جو سیمینار ہورہا ہے، اس میں طلبہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے یہ پلاننگ کی گئی ہے کہ کلاس ختم ہونے کے بعد کسی طلبہ کو واپس جانے نہیں دیا جائے گا اور مین گیٹ پر تالا لگ جائے گا، ہر کسی کو مجبوراً وہ خشک سیمینار بھگتنا پڑے گا۔
پچھلے دنوں جب چار سینئرز نے ایک جونیئر کی ریگنگ کی کوشش کی تو جونیئر نے پستول نکال لیا اور چاروں کے بٹوے لے کر چلتا بنا۔
پرنسپل صاحب آج کل اپنی پسندیدگی کی شرح بڑھانے کے لیے اساتذہ کو چائے پارٹیاں دے رہے ہیں۔
اتنی خطرناک قسم کی کئی اور خبریں پڑھ کر ہم نے جلدی سے اخبار کے ایڈیٹر کا نام دیکھا اور دھک سے رہ گئے۔
وہاں بڑے بڑے جلی حروف میں ہمارا نام لکھا ہوا تھا۔

*۔۔۔*

ہم نے شجاعت کو گدی سے پکڑا اور بے دھڑک کئی چپت رسید کردیے۔
’’تمہیں اگر ایڈمیشن سے اور جان سے ہاتھ دھونے کا دل چاہ ہی رہا تھا تو اپنا نام لگاتے، ہمیں کیوں پھنسوادیا!‘‘ ہم برس پڑے۔
’’اوں۔۔۔ وہ۔۔۔ آں۔۔۔ ایڈیٹر تو تم ہی بنائے گئے ہو نا‘‘۔
ہم جارہے ہیں پرنسپل صاحب کے پاس اور جا کر صاف صاف بتادیں گے کہ یہ سب کار گزاری تمہاری ہے۔
اس کی سزا صرف اور صرف تمہیں ملنی چاہیے‘‘۔
ہم طیش کھا کر بولے۔
اتنے میں ایک چپراسی آیا اور بولا۔
’’پرنسپل صاحب نے آپ کو بلایا ہے‘‘۔
’’آگئی شامت‘‘۔
’’چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔ شجاعت نے کہا اور ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگا۔
پرنسپل صاحب نے ہم سے پہلے شجاعت کو دیکھا اور جلدی سے بولے۔
’’ارے شجاعت‘ تم کو تو نہیں بلایا تھا میں نے‘‘۔
ہم بولے ۔ ’’سر! دراصل یہ جو اخبار آج لگا ہے نا یہ اسی شجاعت نے۔۔۔‘‘
پرنسپل صاحب نے ہماری بات درمیان ہی میں کاٹی اور سمجھتے ہوئے بولے۔
’’اچھا اچھا۔۔۔ پھر تو ضرور آؤ یار۔۔۔ آؤ بیٹھو‘‘ انہوں نے خوش دلی سے کہا اور پھر چپراسی سے بولے۔
’’فٹافٹ چائے لاؤ۔۔۔ بسکٹ وغیرہ کے ساتھ‘‘۔
ہم ان کا یہ انداز دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
’’سر ہم یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ وہ جو وال نیوز پیپر ہے نا۔۔۔ وہ دراصل اس شجاعت۔۔۔‘‘ ہماری بات ایک بار پھر درمیان میں رہ گئی، پرنسپل صاحب بول پڑے تھے۔
’’ٹھک ہے، ٹھیک ہے بھئی، میں تم دونوں ہی سے ڈسکس کرلیتا ہوں، دراصل میں اس میں کچھ تبدیلیاں چاہ رہا ہوں‘‘۔
’’جی فرمائیے؟‘‘ شجاعت سعاد ت مندی سے بولا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ یہ اخبار مہینہ مہینہ کے بجائے ہر ہفتہ شائع ہو۔۔۔‘‘ انہوں نے تھوڑا سا توقف کیا، پھر بولے۔
’’اور یہ کہ فقط ایک ہی بورڈ کے بجائے اس کے تین چار بورڈ پر منزل پر ہوں‘‘۔
ہماری آنکھیں پھیلتی چلی گئیں۔
’’اور یہ کہ تم نے یہ نہیں لکھا کہ چائے پارٹی میں گرما گرم سموسے اور پیٹیز بھی ہوتے ہیں جو بڑی خاطر داری کے ساتھ اساتذہ کو پیش کیے جاتے ہیں‘‘۔
ہم نے شجاعت کی طرف اور اس نے ہماری طرف کن اکھیوں سے دیکھا اور پھر مسکرا کر بولا۔
اگلے شمارے میں یہ بھی بتادیا جائے گا سر۔۔۔ اور بتائیں۔
پرنسپل صاحب بتاتے گئے جبکہ ہم گرما گرم سموسوں اور پیٹیز سے انصاف کرنے لگے!

*۔۔۔*

یہ تو فقط آغاز تھا، بعد میں تو ہمیں کئی دوسرے لوگوں سے مختلف قسم کی شکایت سننی پڑیں۔ مثلاً پروفیسر صاحب ہی کو لے لیں کہہ رہے تھے۔ 
’’آپ نے اشتہار کا ذکر تو کردیا، مگر اس کے الفاظ نہیں لکھے، میرے ٹیوشن سینٹر کا ہر لڑکا گارنٹی کے ساتھ پاس ہوتا ہے، میرے بتائے ہوئے سوالات سے ایک تہائی پرچہ حل ہوجاتا ہے۔
انہی لوگوں میں ہمیں فرسٹ ائیر کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی ملا۔
’’آپ نے یہ آگ تو لگادی کہ فرسٹ ائیر کے پانچ سیکشنز میں سے آدھی ٹیم فقط ایک ہی سیکشن کی ہے کیوں کہ کپتان خود بیالوجی سیکشن سے تعلق رکھتا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ پانچ لڑکے میرٹ کی بنیاد پر سلیکٹ ہوئے ہیں اور موجودہ ٹیم کے سب سے اچھے کھلاڑی ہیں‘‘ وہ غصہ سے بھرا ہوا تھا۔
ہم گھبرا کر بولے۔ ’’معاف کرنا بھائی‘ یہ نظر ہماری خبر سے نہیں گزری۔ ہم دیکھ لیں گے‘‘۔ ہم نے اسے تو چلتا کیا اور شجاعت تک اس کا پیغام پہنچادیا کہ ایسی حرکتیں نہ کرے اور خبر کو ٹھیک کرکے لگائے۔
کھیلوں کا سیکشن وہی دیکھتا تھا، ہم پڑھتے بھی نہ تھے۔ اسی لیے غصب ہوگیا۔ اگلے اخبار میں کچھ اس قسم کی خبر تھی۔
گیارہویں جماعت کے کرکٹ کے کپتان کی ہٹ دھرمی اور غرور، پری انجینئرنگ کے چاروں سیکشن کی تضحیک، اخبار کے مدیر کو دھمکیاں!
تفصیل میں لکھا تھا کہ وال نیوز پیپر کی حق گوئی پر مبنی خبر پڑھ کر فرسٹ ائیر (بیالوجی) کی کرکٹ ٹیم کے کپتان اخبار کے مدیر کے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ ان کے بیالوجی سیکشن کے پانچ لڑکے ٹیم کے بقیہ چھ لڑکوں سے جن کا تعلق پری انجینئرنگ سے ہے، زیادہ قابل اور بہتر ہیں۔ جن کے بغیر ٹیم بالکل نامکمل ہے۔ وہ یہ جتانے کی کوشش کررہے تھے کہ انہوں نے ہر سیکشن کا دل رکھنے کے لیے مجبوراً ایک ایک، دو دو لڑکے بھرتی کرلیے ہیں وگرنہ میرٹ پر سلیکشن ہوتا تو پوری کی پوری ٹیم بیالوجی سیکشن ہی سے بنتی، انہوں نے کہا کہا نہیں فخر ہے کہ ان کا تعلق بیالوجی سیکشن سے ہے اور کپتان ہونے کا حق بھی اسی سیکشن کو ہے، بعد ازاں انہوں نے اخبار کے مدیر کو دھمکی دی کہ اگر اخبار کے اگلے شمارے میں ان کے اور ان کے بیالوجی سیکشن کے حق میں مدح سرائی نہ کی گئی تو اچھا نہ ہوگا۔ اسی لیے یہ ساری مدح سرائی عرض کردی گئی۔
خبر دیکھ کر ہمارے تین چار طبق تو روشن ہوہی گئے تھے، بیالوجی کے کپتان اور اس کے چند ساتھیوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر باقی طبق بھی روشن ہوگئے، کچھ ہی دیر کی بات تھی کہ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی!

*۔۔۔*

شجاعت نے بیالوجی سیکشن کو بڑے آڑے ہاتھوں لیا۔ آئے دن اس طرح کی خبریں چھپتیں کہ پری انجینئرنگ کے لڑکے نے پریکٹس میچ میں تین وکٹیں لی، پھر بھی اسے منتخب نہ کیا گیا۔ بیالوجی سیکشن کا لڑکا صفر پر آؤٹ، پھر بھی اس کی جگہ ٹیم میں برقرار۔ وغیرہ وغیرہ۔
’’یہ آخر تمہیں پر انجینئرنگ والوں سے ایسی کیا محبت ہوگئی ہے کہ تم نے پورے کالج میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا ہے‘‘۔
’’یہی تو تمہاری بھول ہے پیارے‘ محبت مجھے دونوں سیکشن میں سے کسی سے نہیں ہے، بلکہ دشمنی ہے ان کی کرکٹ ٹیم سے۔ ایک کی ہمدردیاں سمیٹ کر دراصل مار میں دونوں ہی کو رہا ہوں۔ بس تم دیکھتے جاؤ‘‘۔
دیکھنا کیا تھا، اگلے ہی دن پرنسپل صاحب نے اسمبلی میں اعلان کر ڈالا۔
’’موجودہ کرکٹ ٹیم جس کا تعلق فرسٹ ائیر سے ہے، اب انتہائی ناکارہ ہوچکی ہے، جس میں آدھے لوگ بھی بمشکل اچھا کھیلتے ہیں، وہ جان بوجھ کر ایک دوسرے کو آؤٹ کراتے ہیں، کیچ ڈراپ کردیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں اس کی وجہ سے آئے دن کالج میں لڑائی جھگڑا اور ہنگامہ آرائی رہتی ہے، لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فرسٹ ائیر کے ہر لڑکے پر کرکٹ کھیلنے پر پابندی ہے۔ میں موجودہ کرکٹ ٹیم کو معطل کرتا ہوں اور سیکنڈ ائیر کی ٹیم کو کالج کی نمائندہ ٹیم مقرر کرتا ہوں‘‘۔
سیکنڈ ائیر کے طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ دبے دبے انداز میں نعرے لگانے لگے، ہم بھی شجاعت کے گلے لگ گئے کہ اس نے ہماری ایک بڑی خواہش پوری کردی تھی،مگر وہ سنجیدہ تھا اس نے اپناکندھا چھڑایا اور تیزی سے اسٹیج کی جانب بڑھ گیا۔ مائیک سنبھالنے کا اسے بچپن ہی سے شوق رہا ہے۔
بولا: ’’میں حیران ہوں کہ یہاں فرسٹ ائیر پری انجینئرنگ کے چار سیکشن موجود ہیں اور کل تک وہ سب مجھے اپنا ہمدرد خیر خواہ اور لیڈر مانتے تھے، میری شان میں قصیدے پڑھتے تھے، مجھے دیکھتے ہی نعرے لگاتے تھے، آج وہ سب اتنے خاموش کیوں کھڑے ہیں؟‘‘
شجاعت نے تھوڑا سا وقفہ دیا۔ اب سیکنڈ ائیر کو بھی سانپ سونگھ چکا تھا اور سب ہمہ تن گوش تھے۔
’’اس لیے کہ آج انہیں اندازہ ہوگیا کہ میں ان کا ہمدرد نہیں بلکہ ان کا دشمن تھا، ان کے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کررہا تھا بلکہ ان میں پھوٹ ڈالنے کے لیے ان کے حقوق یاد دلا رہا تھا، بیالوجی سیکشن کو تو صرف چارے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا ورنہ پوری فرسٹ ائیر کی کرکٹ کو شکار بنایا گیا تھا۔
اور یوں ان کو آپس میں لڑا کر ان سے ان کا سارا اعزاز اور اکرام چھین لیا اور اپنی کلاس کو دلوادیا‘‘۔ شجاعت مرزا ڈھٹائی سے مسکرائے، ایک غوغا اٹھا۔ فرسٹ ائیر کے لڑکے آپے سے باہر ہوگئے، وہی جو کل تک اسے سر آنکھوں پہ بٹھاتے تھے اب اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کررہے تھے، انہیں وہ شجاعت مرزا کے بجائے خباثت مرزا دکھائی دے رہا تھا۔
مگر شجاعت مرزا لوہا گرم کرچکنے کے بعد چوٹ لگانے کی تیاری کررہے تھے۔
’’آج ہم بھی بحیثیت قوم اپنے اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں کوئی پٹھان ہے تو کوئی پنجابی، کوئی مہاجر ہے تو کوئی سندھی اور کوئی بلوچی۔ ہر کسی کو اپنے حق غصب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، مگر میں یقین دلاتا ہوں، کہ حقوق کے چکر میں پڑ کر اگر ہم آپس میں لڑ گئے تو اس سے بھی جائیں گے جو ہمارے پاس ہے۔ پنجابی الگ ہوگئے تو ان کے اندر سرائیکی کھڑے ہوجائیں گے، پٹھان الگ ہوگئے تو ان کے اندر ہزاروی کھڑے ہوجائیں گے، مہاجر الگ ہوگئے تو ان کے اندر بہاری کھڑے ہوجائیں گے، ہمارا دشمن ہمیں اس وقت تک حقوق کے بہانے لڑاتا رہے گا جب تک ہم ریزہ ریزہ ہو کر بالکل بے حیثیت نہ ہوجائیں۔ یہ حملہ ہم پر ہوچکا ہے، مگر افسوس کہ اس کا دفاع کرنے کے بجائے ہم سب اس کا شکار ہوگئے ہیں، اب بتائیے کون کرے گا اس کا دفاع، بتائیے!‘‘ 
شجاعت خاموش ہوگیا، ہم سب ہی خاموش ہوگئے کہتے بھی کیا۔ کہ ہم سب واقعی اس کا شکار تھے، اور ہم سے زیادہ ہمارے بڑے اس کا شکار تھے۔
’’ہم عہد کرتے ہیں۔۔۔ کہیے۔۔۔‘‘ شجاعت زور سے بولا، وہ ایک ہاتھ اٹھا کر حلف لینے کے انداز میں کھڑا تھا۔
’’ہم عہد کرتے ہیں‘‘ سب لوگ یکجا ہو کر بولے
’’نہ ہم عصبیت اور لسانیت کی بات خود کریں گے‘ اور نہ کسی کا اس میں ساتھ دیں گے، بلکہ حتیٰ الامکان دوسروں کو اس سے منع کرکے انہیں جہنم میں جانے سے بچائیں گے‘‘۔
شجاعت نے گویا حلف لے لیا۔
پھر شرمندہ شرمندہ سا پرنسپل صاحب سے بولا۔
’’سر! یہ فرسٹ ائیر میں آگ میں نے لگائی تھی‘ یہ سب سمجھانے کے لیے، آپ انہیں مل جل کر کھیلنے کی اجازت دے دیجیے، اور ہاں سیکنڈ ائیر کا جو طالب علم اگر میرٹ پر آتا ہو تو اسے بھی ان کی ٹیم میں شامل کردیجیے۔‘‘
پرنسپل صاحب کچھ بولے تو نہیں مگر اثبات میں سر ہلادیا، فرسٹ ائیر کے طلبہ نے تو اپنے جوتے واپس پہن لیے مگر سیکنڈ ائیر والوں نے شجاعت کو مارنے کے لیے اپنے اپنے جوتے اتار لیے، جن میں ہم بھی پیش پیش تھے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top