ترکی بدل گیا ہے
اخترعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکی ۔۔۔جہاں لوگوں کی ہمت نے مشینوں کو ہرا دیا
استنبول اور انقرہ کی دلچسپ باتیں جنھیں بھولنا مشکل ہے
تربیت کار ،مصنف اور افسانہ نگار اختر عباس کا ماہنامہ ساتھی کے لیے خصوصی سفرنامہ
جو نومبر۲۰۱۶ میں چھپا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک بڑ ا ہی مزے دار، شاندا اور جاندار سفر تھا جو میں نے پاکستان کے دل لاہور سے ترکی کے دل استنبول اور دارالحکومت انقرہ تک کیا۔ ترکی جانے کی خواہش چند برسوں سے دل میں خوب چٹکیاں بھر رہی تھی اور میرا ایمان یہ ہے کہ اللہ جی کوئی خواہش اور ارادہ دل میں ڈالتے ہی نہیں جسے اُنھوں نے پورا نہ کرنا ہو۔ تر کی میں فوج نے ۱۵؍ اگست کی شب ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو میں ساری رات دُکھ اور تکلیف سے جاگتارہا، ایک ایک پل ان مشکل لمحات کو دیکھتا رہا، اپنے مہربان رب سے دعا کرتا رہا کہ فوجی بغاوت کامیاب نہ ہو، ایسی صورت میں یہ اس قدر ظالم بن جاتے ہیں کہ درندے بھی ان سے شرما جائیں۔
مصر میں چند برس قبل مجھے اس وقت قاہرہ جانے کا موقع ملا جب وہاں سے واپس آنے کے ٹھیک ایک ماہ بعد مصر کی فوج نے وہاں کے مقبول صدر ڈاکٹر مرسی کا تختہ اُلٹ دیا اور ان کی جماعت کے کئی ہزار لوگوں کو شہید کردیا، پھانسی پرچڑھا دیا، جنرل سیسی نے طاقت کے زور پر مصر پر قبضہ کرلیا اور ہر طرف ظلم کا بازار گرم کر دیا۔ دنیا کا اصول یہ ہے کہ کسی ملک پر حکومت کرنی ہے تو عوام سے ووٹ لے کر آئیں۔ اگر کوئی پارٹی الیکشن میں جیت کر آئے تو اسی کی حکومت بنتی ہے اس سے اقتدار واپس لینے اور اسے بدلنے کا طریقہ بھی الیکشن ہی ہیں ،اسلحے اور طاقت کے زور پر کوئی قبضہ کرلے تو اسے دنیا بھر کی مہذب قومیں قبول نہیں کرتیں۔ اس رات جب ترکی کے عوام اپنے صدر طیب اردوان کے کہنے پر آدھی رات کوگھروں سے نکل آئے اور اُنھوں نے اپنی بے خوفی اور ہمت سے لوہے کی ناقابل شکست مشینوں یعنی ٹینکوں کو بھی شکست دے دی۔ یہ ایک ناقابل یقین بات سمجھی جارہی تھی، تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ نہتے عوام نے فوجی طاقت کو شکست دے دی ہو اُسے ہرا دیا ہو، میں جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کیوں کر ممکن ہوا، انسانی تاریخ میں اتنی بہادری کے مواقع کم کم ہی نظر آتے ہیں جس کا مظاہرہ تر کی کے لوگوں نے کیا تھا۔
آپ اللہ جی کی قدرت دیکھیے کہ انقرہ جانے کے لئے ائیر پورٹ کی انتظار گاہ میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ بغاوت کی ناکامی کے ٹھیک ایک ماہ بعد مجھے ترکی جانے کا موقع مل رہا ہے اور میرا ذہن خدشات، دل و سو سو ں اور خیالات سوالات سے بھرے تھے کہ یہ کیسا ملک ہوگا، وہاں کیا کیا ہوا ہو گا، مجھے کیا کیا دیکھنے کا موقع مل سکے گا ،کیا کوئی ایسی صورت نکل سکے گی کہ تر کی کے مقبول صدر جناب طیب اردوان سے بھی ملاقات ہو جائے۔ لاہور ائیر پو ر ٹ بڑا صاف ستھرا اور خوبصورت ائیر پورٹ ہے۔ جب جب ملک سے باہر جانا ہو توتین گھنٹے قبل ائیر پورٹ جانا ہوتا ہے، ترکی لے جانے والی ائیر لائین بھی ترکی کی ہی تھی ،اس کا نام ٹرکش ائیر لائینز ہے، یہ دنیا کی بہت بڑی اور کامیاب ترین ائیر لائینز میں شمار ہوتی ہے۔ یورپ کی مسلسل چھہ بار بہترین ائیر لائن قرار پا چکی ہے ۔ ٹرکش ائیر لائن کے ہوائی جہاز ۲۹۰ شہروں میں جاتے ہیں اور یہ اپنی ان پروازوں سے ساڑھے دس بلین ڈالر سالانہ کماتی ہے ۔ (ایک ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں اور ایک بلین میں سو ملین ،یہ ڈالر ہوئے ،پاکستانی روپوں میں حساب کرنا ہو توانہیں ایک سو سے ضرب دے دیں،ہمارا ایک سوروپیہ قریباً ایک ڈالر کے برابر ہے) ٹرکش ائیر لائینز کو 18,667 کام کرنے والے محنتی عملے کی مدد دستیاب رہتی ہے ۔ یہ کمپنی 335 جہازوں کی مالک ہے۔ اپنی سیٹ کی اگلی جیب میں پڑے ہوئے رسالے دیکھے تو حیرت ہوئی کہ ۱۵جولائی کی ناکام بغاوت پر چند ہفتوں کے اند ترکی ائیر لائینز کے رسالے میں اس کی تفصیل اور تصاویر موجود تھیں۔ یوں یہ رسالہ بھی اپنی قوم کی آواز بن کر اس تاریک شب کی کہانی مجھ مسافر کو سنا رہا تھا کہ جس کی تفصیل جاننے اور دیکھنے میں وہاں جارہا تھا۔
جہاز کی پہلی غلطی
میں چونکہ شام اوررات سفر میں رہاتھا، اسلام آباد جا کر تر کی کے سفارت خانے والوں سے ملنے اور ویزہ یعنی تر کی جانے کی سرکاری اجازت لینے میں پورا دن گزر گیا تھا ، رات بارہ بجے کے بعد لاہور پہنچا تھا اور سفر کی تیاری کے لیے بڑی مشکل سے دو ہی گھنٹے مل پائے تھے۔ ایسے میں کمر سیدھی کرنے یا سونے کا تو کوئی امکان ہی نہ تھا ،اب جونہی جہاز چلا تو میں نے آنکھیں موندھ لیں،پہلی دفعہ جب جہاز پر بیٹھا تھا تو بڑا ڈر لگا تھا پھر ہولے ہولے ڈر دور ہو گیا ،مزہ آنے لگا ،جونہی جہاز رن وے پر اُڑنے سے پہلے دوڑنے لگتا ہے میں سکون سے دعا پڑھنے لگ جاتا ہوں، پہلی بار تو حفاظتی بیلٹ بھی نہیں باندھی گئی تھی، تب سفری میزبان [ ائیر ہوسٹس ]نے آکر میری مدد کی اور بیلٹ کا بکل بند کیا اب تو میں نے عید کی چھ تکبیروں کی طرح بیلٹ باندھنے کا طریقہ رٹ لیا ہے، جب سب اردگرد دیکھ کر تکبیریں ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں میں سکون سے ہاتھ اُٹھا اور باندھ رہا ہوتا ہوں ،یہاں بھی یہی معاملہ ہے ،بیلٹ باندھے بنا آپ اُڑ [ٹیک آف ]نہیں کرسکتے اور نہ ہی لینڈ [اُتر] اُتر سکتے ہیں۔ بیلٹ باندھ کر میں سکون سے سو گیا، میرے اللہ جی کی خاص مہربانی ہے کہ مجھے نیند جلدی اور جہاں جی چاہے وہاں آجاتی ہے۔ خدا جانے کتنی دیر سو یا۔ ایک دھیمی سی آواز پر آنکھ کھلی ۔دیکھا کہ ائیر ہوسٹس ناشتہ لیے قریب کھڑی پوچھ رہی تھی، سر چکن لیں گے کہ پاستہ،اب چکن کا مزہ اور ذائقہ تو چکھا ہوا ہے ،پاستہ کیسا ہو گا ،یہی سوچ کر رسک نہیں لیا اور چکن منگوا لیا ،اس نے ٹرالی سے نکال کر دیا تو سالن اور بریڈ اتنے گرم تھے جیسے ابھی ابھی چولھے سے اُتارے گئے ہوں، ذائقہ بھی شاندارتھا، دل تو چاہا کہ اور منگوا لوں پھر یہی سوچ کر خاموش رہا کہ کہیں یہی نہ پوچھ لے کہ میاں گھر سے کیوں نہیں کھا کر آئے۔
اسلام آباد جاتے ہوئے جہاز میں لطیفہ
ایک بار اسلام آباد جاتے ہوئے میرے ایک دوست اشفاق احمد خان نے ائیر ہوسٹس سے کہا:’’ ایک جوس اور لادو ۔‘‘وہ لے آئی۔ دل تو میرا بھی کررہا تھا مگر میں شرم کے مارے خاموش رہا جب اس نے وہ ایک جوس لا کر دیا تو اللہ جانے کیا ہوا میں نے معصومیت سے پوچھا: ’’کیا آپ کے پاس ایک ہی جوس تھا۔‘‘ اسے میرے دل کی خواہش اس کی سمجھ میں آگئی اور وہ ہنستے ہوئے گئی اور ایک جوس اور لے آئی مگر یہ بی بی تو ترکی والی تھی۔ اس سے بھلا کیسے کہتا کہ کیا یہی ایک ٹرے تھی، وہ آگے سے کہہ دیتی کہ آپ اچھے خاصے سیانے ہیں دیکھ تو رہے ہیں میرے پاس تین سو سے زائد کھانے کی پلیٹیں ہیں پھر ایسا سوال کیوں کر رہے ہیں۔ یہی سوچ کر خاموش رہا کہ اس کے سوال کا کیا جواب دوں گا ،ترکی کے جتنے لفظ کل سے یاد کیے تھے ان میں اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ ناشتہ بہرحال ذائقہ دار اور مسالے دار تھا۔ پانچ گھنٹے کا سفر کب مکمل ہوا ،خبر ہی نہیں ہو سکی جب استنبول کا ائیر پورٹ آیا تو علم ہوا کہ ترکی کے دروازے پر آچکے ہیں ۔
استنبول کا ایک انوکھا منظر
استنبول میں چند گھنٹے کا آرام کا وقت تھا مگر وہ سارا وقت امیگریشن کے مراحل میں لگ گیا، دنیا جہاں سے آنے والے ہزاروں سیاح اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ قطار بنا کر کھڑے اپنے اپنے پاسپورٹ پر ترکی میں داخلے کی مہر لگنے کے منتظر تھے۔ ائیر پورٹ بہت ہی بڑا تھا، کبھی پیدل اور کبھی رواں بیلٹ جو مسلسل چل رہی ہوتی ہے آپ اس کے اوپر کھڑے ہو جائیں اور فاصلہ طے کر لیں،سیڑھیاں تو اوپر نیچے جاتی ہیں یہ زمین کے سینے پر پڑی سیدھی چلتی اور مشکلیں آسان کرتی ہے، امیگریشن کی مہر کے بنا آپ کسی بھی ملک کے اندر نہیں جا سکتے ، یہ انٹری کہلاتی ہے، اس سے فارغ ہو کر ائیر پورٹ کے دوسرے حصے کی طرف بھاگنا تھا کیونکہ استنبول سے انقرہ جانے والی فلائیٹ بالکل تیار تھی۔ رن وے پر جا کر جہاز رک گیا۔ وہاں ایک انوکھا منظر سامنے تھا۔ ایسا کبھی دیکھا نہ سنا ، سامنے چار جہاز وقفے وقفے سے کھڑے تھے پہلے ایک نے اُڑان بھری پھر دوسرے کی باری آئی ،میں نے دھڑا دھڑ تصویریں لینی شروع کر دیں جب تک ہمارے جہاز کی باری آئی پیچھے قطار میں چار جہاز اور لگ چکے تھے۔ یہ منظر ایسا دلچسپ تھا کہ کسی بس اڈے کی یاد دلا رہاتھا۔ مگر اس سے ائیر پورٹ کی مصروفیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ استنبول وہی تاریخی شہر ہے جس کو پہلے قسطنطنیہ کہا جاتا تھا۔ یہ وہ شہر ہے جو دوبراعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کو الگ کرتا ہے ان دونوں کے سنگم پر واقع ہے اورترکی کا سب سے بڑااورتاریخی شہر ہے، ائیر پورٹ سے ہی میٹرو بس شہر لے جانے کے لیے چلتی ہے اور ہزاروں نہیں لاکھوں سیاحوں کو لاتی اور لے جاتی ہے۔ یہ شہر رومی اور بازنطینی ادوار میں سولہ صدیوں تک دارالحکومت رہا ہے۔ ۱۴۵۳ء میں سلطنت عثمانیہ نے اسے فتح کیا اور پھر اسے نیا نام اور نئی اسلامی پہچان دی۔
دنیا بھر کے لوگوں کے لیے آرٹ فلم، کلچر کے فیسٹیول یہاں بڑی باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ اس کی تاریخی حیثیت کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ یہاں آتے ہیں ۔ ایک کروڑ تیس لاکھ لوگوں کی سالانہ آمد ریکارڈ کی گئی ہے ۔ اسی وجہ سے یہاں سہولیات اور رقبے کی وسعت حیران بھی کرتی ہے ،ائیر پورٹ اتنا بڑا ہے کہ انقرہ سے واپسی پر جہاز سے اُتر کر انٹرنیشل ٹرمینل جانے کے لیے ہماری بس قریباً۳۵ منٹ مسلسل چلتی رہی اور میں وہاں کھڑے ان گنت جہازوں کی وڈیو بناتا رہا۔ اسے دنیا کے سیاحوں سے بھرا پانچواں بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اس شہر نے تر کی کی سیاسی قسمت بدلنے میں۲۰۰۲ ء سے اہم کردار ادا کیا ، موجودہ صدر طیب اردوان ۱۹۹۴ء میں اسی استنبول کے مئیر منتخب ہوئے ۔ اس وقت وہ ویلفیئر پارٹی کے (اب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) کے نمائندے تھے۔ یہ شہر ۳۹ ؍اضلاع پر مشتمل ہے۔ استبول کے موجودہ مئیر قادر تپباس کئی بار لاہور آ چکے ہیں۔ یہ ۲۰۰۴ء سے یہاں کے مسلسل مئیر منتخب ہورہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء، ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۴ء تین بار مسلسل جیتنا کوئی آسان نہیں ہوتا، طیب اردوان یہیں سے پارلیمنٹ کے ممبربن کر وزیر اعظم بنے اور ملک کی قسمت بدل کر رکھ دی۔ یہ شہر ایک صوبہ بھی ہے اور اس کا ایک گورنراور علیحدہ اسمبلی بھی ہے ۔
انقرہ میں بیگ کا گُم ہونا
ترکی ہم سے دو گھنٹے پیچھے ہے، اس کا مطلب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ بھوک بھی دو گھنٹے پیچھے رہے، انقرہ جانے والے جہاز کا بورڈنگ کارڈ لاہور ہی سے مل گیا تھا، جہاز میں بیٹھنے سے ذرا قبل میں نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا، رات بیگم کو اس میں سیب اور ناشپاتی کالفافہ رکھتے دیکھ لیا تھا، اب وہی پھل کام آرہے تھے۔ قریب کھڑے ایک آئیر لینڈ کے طالب علم کو بھی ناشپاتی کھلائی جو اپنے ملک سے یہاں پڑھنے آیا تھا اور میرے بعد کی فلائیٹ میں اسے انقرہ پہنچنا تھا۔ انقرہ جانے والا جہاز ذرا چھوٹا تھا، کھانے کے نام پر برگر نما بند دیا گیا، ساتھ جوس اور چاے تھی مگر وہ بھول گئے کہ یہ تو باقاعدہ لنچ کا وقت تھا، انقرہ ائیر پورٹ بھی کافی بڑا ہے مگر استنبول سے چھوٹا، یہ شہر ایک نیم پہاڑی آبادی جیسا ہے جہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کوبڑی عمدگی سے کاٹ کر ایک میدانی شہر کی صورت دی گئی ہے، کہا جاتا ہے کہ آج کی دنیا میں تین شہر ایسے ہیں جنھیں باقاعدہ سوچ کردارالحکومت بنایااور ڈیزائین کیا گیا ہے،تینوں ہی بڑے خوبصورت ہیں، ایک وہ جہاں میں کل رات تھا، یعنی اسلام آباد ،دوسرا وہ جہاں کھڑا میں اپنا سامان ڈھونڈ رہا تھا۔ سامان بھی وہ جو میرے والے جہاز پر سوار ہی نہیں کیا گیا تھا اور تیسرا شہر ایمبسٹر ڈیم ہے جہاں ان شاء اللہ مجھے کسی روز جانا ہے۔ انقرہ ائیر پورٹ کی انٹر نیشل فلائیٹس کا ٹرمینل خالی پڑا تھا اور میں ایک بنچ پر پوری بے آرامی سے بیٹھا کبھی کنوئیر بیلٹ کو دیکھتا اور کبھی ان سیڑھیوں کو گھورتاجہاں سے اگلی فلائیٹ کے مسافروں کو آنا تھا ، بیگ کے بنا تو دیار غیر میں لٹنے جیسی کیفیت ہوگئی تھی۔ کپڑے سمیت سارا سامان تو اسی میں تھا اور میں ایک جینز اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ بھلا ان میں سارا دورہ کیسے گزارا جاسکتا تھا ،سچے دل سے دعا کی مولا رحم فرمائے گا یہاں کہاں خوار ہوتا پھروں گا، اتنے میں ایک بزرگ پر نظر پڑی جو دھیرے دھیرے اپناسامان لے کر جا رہے تھے پاکستانی لباس اور قائداعظم کی ٹوپی، دیار غیر میں اپنے ہم وطن کو دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے ،میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا ،معلوم ہوا پشاور سے آئے ہیں اور ایک یوتھ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔یہ ڈاکٹر فدا تھے، ان سے کچھ دیر باہمی دلچسپی کے موضوعات پر بات ہوئی پھر انھیں ایک نمبر دیا کہ باہر جا کر ان صاحب کو بتا دیں کہ مابدولت اپنے سامان کی گمشدگی کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں جونہی اگلی فلائیٹ آتی ہے تو ملاقات ہوگی، اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اگلی فلائیٹ پرصرف میرا بیگ ہی نہیں آیا عبدالشکور صاحب بھی آگئے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کیا کہ کسی آزمائش سے بچ گیا تھا ۔ٹرمینل سے باہر نکلے تو میزبان موجود تھے ۔ایک ہائی روف سمارٹ گاڑی بھی منتظر تھی، ہم دو پاکستانی ،ایک مندوب افغانستان سے اور ایک قازقستان سے ہم سفر ہوئے اور انقرہ شہر کی طرف روانہ ہوئے ۔ میرے پاس دعوت نامہ بھی ترکی زبان میں آیاتھا اور اس سے خوشی تو ہوئی تھی مگر پروگرام کی خبر نہ تھی کہ کیا ہے۔ ہوٹل پہنچنے سے قبل پھٹی پھٹی آنکھوں سے پورا شہر دیکھ ڈالا ، گاڑی شہر کے بیچوں بیچ واقع ایک خوبصورت ہوٹل پہنچی۔ سڑکیں، بازار اور عمارتیں صاف ستھری تھیں۔ جگہ جگہ ہمارے لاہور کی طرح ٹریفک کو ہموار رکھنے کے لیے انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج بنے ہوئے تھے۔ ترکی والے محنتی ہی نہیں بڑے تخلیقی ذہن کے حامل بھی ہیں، نئے نئے کام شوق سے کرتے ہیں، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست پر کم بات کرتے ہیں۔ ۱۲ منزلوں والے اس ہوٹل میں مجھے پہلے فلور پر کمرہ نمبر ۱۰۶ ؍الاٹ ہوا۔ وہاں کمروں کی چابیاں نہیں ہوتیں، ایک کارڈ ملتا ہے اس سے کمرہ کھلتا ہے اور اسی کو دروازے کے ساتھ ایک ہولڈر میں ڈالنے سے بجلی آجاتی ہے۔ ڈبل بیڈ کمرہ بے حد نفاست سے سجا ہوا تھا۔ایک جانب چاے کا سامان تھا کہ جب جی چاہے خود چاے بنالیں، اس کا سارا سامان فری اور ہوٹل کی طرف سے تحفہ تھا، سامان رکھ کر لابی میں چلے گئے، ساتھ ہی کھانے کا کمرہ تھا، وہاں جا کر کھانا کھایا۔ سالومن مچھلی پسند آئی،بل یہی کوئی چار ہزار تھا، شکر ہے میزبانوں نے ادا کیا، ترکی میں عام آدمی کی آمدن بھی اچھی ہے اور خرچ بھی، طیب اردوان کے آنے سے قبل منہگائی کا یہ عالم تھا کہ ڈبل روٹی بھی کئی لاکھ روپے میں آتی تھی، لوگ بوری بھر کر نوٹ بازار لے کر جاتے اور تب جا کر ناشتے اور کھانے کا سامان خرید پاتے، میں نے یہ حال ایک زمانے میں افغان کرنسی کا بھی دیکھا، تورخم بارڈر پر افغانی نوٹ باقاعدہ وزن کر کے تولے جاتے تھے ،دیکھ کر حیران ہی رہ گیا تھا تول کر اس کے بدلے تھوڑے سے پاکستانی روپے ملتے، جب کسی ملک کی معیشت کمزور ہو یا وہ حالت جنگ میں ہو تو کرنسی کی بے وقعتی کا یہی عالم ہوجاتا ہے ۔سچ کہوں دنیا میں جہاں جہاں بھی جانا ہوا واپسی پر اپنا وطن ہی سستا لگا،جو مزے اور آسانی یہاں ہے کسی اور جگہ بالکل نہیں، یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔سید مودودی علیہ رحمہ نے کیاخوب کہا تھا کہ پاکستان ہمارے لیے ایک مسجد کی طرح محترم اور مقدس ہے ۔کھانے کے بعد کچھ دیر ٹی وی میں جھانکا ۔سوائے تر کی چینلوں کے کوئی شناسا چیز نظر نہ آئی تو لمبی تان کر سو نے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا جو اس قدر آرام دہ طریقے سے سجایا اور ترتیب دیا گیا تھا کہ لمحوں میں نیند آگئی۔سہ پہر کو کمرے میں ہی نماز ادا کی اور پھر نیچے جا کر میزبانوں سے ملاقات کی ،پروگرام کے بارے میں معلوم ہوا کہ کل سے شروع ہونے والا ہے۔
Islamic world stand by Turkey
اس وزٹ کا نام بڑا معنی خیز تھا۔ ہمیں پروگرام سے ذرا پہلے اگلے روز جو دستاویز اور کتاب دی گئی اس کا ٹائٹل تھا Islamic world stand by Turkey اس کی میزبانی IDSB کے پاس تھی جس کی قیادت ’علی کرت‘ کرتے ہیں۔ ان کی آٹھ رکنی ٹیم یہ سارا پروگرام سنبھال رہی تھی جو زیادہ تر طالبعلم تھے ۔ پبلک پالیسی اور وزارت اطلاعات و نشریات کا بھی ان کو مکمل تعاون حاصل تھا۔ ۴۰؍اسلامی ملکوں سے ۶۰صحافی اور لکھاری بلائے گئے تھے اور ۵۴مندوبین، یہ سب اپنے اپنے ملکوں کی نمایاں ترین این جی اوز سے وابستہ تھے ۔ کتاب پر اپنی تصویر اور تعارف دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی، پروگرام میں شریک سبھی ملکوں سے آئے ہوئے مہمانوں کی الگ الگ حصوں میں تصاویر اور تعارف تھے ،ان کی تیاری دیکھ کر دل ہی دل میں داد دی کیونکہ ابھی تک کسی مقامی میزبان سے تفصیلی تعارف تو ہوا نہیں تھا۔مو ان پک ہوٹل فائیو سٹار تھا اور شہر کے مرکزی علاقے بیسٹی پیلمریہ میں واقع تھا۔ سنا ہے اس نام کا ہوٹل کراچی میں بھی ہے۔ عمر فاروق IDSB کی طرف سے ایشیا سے آنے والے مہمانوں کے مہمان دار تھے۔ ان سے کہا کہ یہ پروگرام تو چلے گا ہی ، ہمیں تو ترکی کے عام لوگوں سے ملوائیے ۔ سہ پہر میں جب سب مندوبین آرام کر رہے تھے ہم ایک ٹیکسی پر سوار شہر کے بارونق علاقوں میں سے ہوتے ہوئے ایک گھر پہنچے یہ 1LKDER کا آفس تھا۔ یہ خواتین کی ایک تنظیم ہے جس کے اراکین نے اپنے بچوں سمیت ۱۵جولائی کی رات اور اس کے بعد آنے والے کتنے ہی دن سڑکوں پر جمہوریت کی حفاظت میں گزارے ۔ یہ ایک فی میل پروٹکشن فورم بھی ہے اور اس کی ممبر خواتین عوامی فلاح وبہبود کے کتنے ہی منصوبوں پر رضاکارانہ طور پر کام کرتی ہیں۔ فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ ۱۹۹۴ء سے قائم سوسائٹی آف نالج کلچر اور سالیڈیرٹی کی سربراہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ہماری منتظر تھیں ۔ راستے میں ان کے سربراہ کا نام ہم یاد کرتے اور دوہراتے آئے۔ وہاں جا کر عین موقع پر وہ پھر بھول گئے ۔ان کی میز کے بالکل سامنے مجھے جگہ ملی۔ نیم پلیٹ پر لکھا تھا Ozden Sonmez اللہ جانیں اسے پڑھتے کیسے ہیں ، نام مشکل تھا خاتون نہائیت مہربان اور سمجھدار۔انہوں نے خیر مقدم کیا، باتیں ہوئیں جو ہم نے ترجمان سے سنیں جسے عبدالشکور صاحب ساتھ ہی لے کر گئے تھے۔
فتح اللہ گولن کے ساتھ کیا ہوا
ان کے خیر مقدمی کلمات میں جونہی ذرا سا وقفہ آیا، تو میں نے جھٹ سے پوچھا:’’یہ گولن صاحب کے ساتھ کیا ہوا؟ ‘‘
کہنے لگیں: ’’اس نے خیانت کی۔ ترکی میں ۲۰۰سے زائد گولن کے سکولز تھے جنھیں اب قومیا لیا گیا ہے۔ کچھ کو گورنمنٹ سکولز میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور کچھ کو بند کر دیا گیا ہے۔ اتفاق سے اسی روز اس کے قائم کردہ کاروباری اداروں کو بھی بند کرنے کے احکامات دئیے گئے تھے جن کا ذکر مقامی اخبارات میں تھا جو ہوٹل کے شیلفوں پر پڑے میں نے دیکھے تھے ،ایک آدھ ہی سیریس اخبار تھا، باقی تو نرا کچرا، اس قدر واہیات تصاویر تھیں کہ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہے، ہمارے ہاں ایسی واہیاتی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، انڈیا اور مصر میں بھی بہت سے ایسے اخبارات پر نظر پڑی تھی مگر یہاں یہ ہضم نہیں ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ۱۵جولائی کے حادثے نے ہمیں یک جان کر دیا ہے۔ ہمارے صدر موت کو چھو کر واپس آئے ہیں۔ اس بہادر انسان کے ایک اشارے پر آدھی رات کو سب لوگ فوج کا مقابلہ کرنے اور ان کے ٹینکوں کو روکنے نکل آئے اور تب تک واپس نہیں گئے جب تک رئیس نے نہیں کہا۔ وہ صدر کو رئیس کہہ رہی تھی۔ ان کی گفتگو ، ان کا اعتماد اور ان کے جملے ’’ ہم نے یہ کسی نفع کے لیے نہیں کیا ، اپنے وطن کے لیے ، اپنے جھنڈے کے لیے اور اپنے دین کے لیے کیا۔ ۲۱دن اپنے بچوں سمیت گھروں سے باہر سڑکوں پر گزارے۔ ٹینکوں کے سامنے ، طیاروں کے حملے اور ہیلی کاپٹر کی جگہ جگہ شیلنگ ۔۔۔ہمیں ڈر نہیں لگا۔ ہم لوگ شہادت کے لیے تیار تھے۔ ہجوم پر کوئی بم بھی پھینک دیتا تو لوگ نہ بھاگتے۔ اُخوت کی جو مثالیں ہم نے بالا کوٹ اور مظفر آباد میں اپنی آنکھوں سے ۲۰۰۵ء کے زلزلے میں دیکھی تھیں، انہی کا مشاہدہ یہاں کیا۔ میں غزہ ،صومالیہ اور ملائشیا بھی جا چکی ہوں۔ آپ کو بتا ؤں پہلے لوگ سلطان سلیمان کا نام احترام سے لیتے تھے۔ اب اردگان کا لیتے ہیں ۔ بلدیہ کی خدمت سے ملک کی سربراہی تک وہ ہمیشہ ہمیں اپنا اپنا سا لگا۔ ترکی زبان کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے ’ دعا، ایمان اور جسارت کی بنیاد پر یہ تحریک چلی‘۔
مخالف پارٹی کے لوگ بھی اس رات ہمارے ساتھ تھے۔ وہ ریلی میں آئے اور سب جانتے تھے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں ملک ڈوبا تو سب ڈوبیں گے۔ اللہ نے ہمیں جھٹکا دے کر بچا لیا ورنہ عراق اور مصر جیسا حال بھی ہو سکتا تھا۔
مہمان نوازی کی مختلف اور دلچسپ روایت
ان کی کچھ ممبرز قہوہ لا رہی تھیں ، کچھ نے انگور رکھے اور ایک پلیٹ میں مٹھائیوں کے درمیان ایک مختلف شکل کی رکھی سوغات دیکھی۔ میری حیرت اور پریشانی دیکھ کر اُنھوں نے بتایا کہ یہ پتوں کے اندر چاول لپیٹے گئے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے میں نے کھائے تو مزیدار تھے۔ گروپ فوٹو کے بعد اُنھوں نے تحفہ بھی دیا۔ گھر آ کر کھولا تو ترکی مٹھائیوں کا پیکٹ تھا۔ یہ ملاقات ترکی کا ایک نیا رُخ دکھا گئی۔ بعد میں جس جس سے بھی ملاقات ہوئی، تحفہ ملا۔ صدر طیب اردوان نے پارکر کا قیمتی قلم دیا۔ پتا چلا کہ تر کی میں کسی کے گھر جاتے ہوئے تحفہ لے جانے کا رواج نہیں ہے بلکہ گھر آئے مہمان ایسا کریں تو بُرا محسوس کیا جاتا ہے، شکر ہے ہم نے نہ جانتے ہوئے بھی پہلے ہی ایسی حرکت نہیں کی تھی، 1LKDER کاآفس ایک گھر کا حصہ تھا اور گھر کے نیچے بازار جس میں بڑی بڑی روٹیاں، نان اور بند پڑے تھے۔ پتا چلا کہ وہاں کسی کے گھر روٹیاں پکانے کا رواج ہی نہیں ہے ۔یہ رنگ برنگے بن ہی کھائے جاتے ہیں، وہاں سے واپسی پر ان کے ایک عزیز اور نوجوان پبلشر ہمیں اپنی گاڑی پر واپس ہوٹل چھوڑ گئے، عمر فاروق نے وہاں اور راستے میں اچھی ترجمانی کی،ہمارے لیے بات کرنا اور سمجھنا آسان کردیا، عمر لاہور سے ہی کئی برس قبل انقرہ گئے تھے، ہوٹل واپس جا کر رات کا کھانا کھایا گیا اور مختلف ممالک سے آئے مندوبین سے ملاقاتیں رہیں، سری لنکا کے جناب جناب حنیس سے مل کر بہت اچھا لگا۔ انڈیا سے ڈاکٹر رضوان رفیقی صاحب سے پہلے بھی ان کے پاکستان کے دورے کے دوران ملاقات ہوچکی تھی، وہ خوب مجلسی آدمی ہیں۔ سوچنے سمجھنے اور غور کرنے والے، افغانستان اور قازقستان کے مندو بین سے بھی دوبارہ ملاقات ہوئی۔ میزبانوں میں وقار کے بارے میں پتا چلا کہ اسلام آباد کی انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں اور کاکا خیل ہیں، وہ میزبان تنظیم کے یورپ سے آنے والے مہمانوں کو دیکھ رہے تھے۔
ایک تقریر ۔۔۔تین بار
اگلے روز صبح ۱۰ بجے مندوبین اور مہمانوں کاپہلا افتتاحی اجلاس ہوٹل کے بورڈ روم میں ہوا۔ ترکی تقاریر کا عربی اور انگریزی ترجمے کا انتظام موجود تھا۔ عربی ترجمہ اتنا تیز تھا کہ ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آتاتھا ۔ البتہ انگریزی ترجمہ کرنے والی خاتون نسبتاً بہتر سلوک کر رہی تھیں۔ا سٹیج سیکریٹری بڑا ہی خوبصورت، بااعتماد اور عمدہ بولنے والا تر کی نوجوان تھا۔ مجھے تو یہ کوئی ٹی وی اور ریڈیو پر بولنے کی مہارت رکھنے والا لگا۔ آنے والے وقت وزیر اعظم ہاؤس میں بھی پروگرام کی اسی نے میزبانی کی البتہ صدارتی محل کی پوری ٹیم الگ تھی۔ صدارتی محل کی مسجد میں‘ میں نے اسے جا لیا۔ شکور صاحب بھی ساتھ تھے۔ تصاویر بھی بنائیں اور اس سے تعارف بھی لیا، معلوم ہوا اطلاعات اور نشریات کی وزارت میں آفیسر ہے۔ افتتاحی پروگرام میں تنظیم کے سربراہ علی کرت نے بتایا کہ ہماری تنظیم IDSB گیارہ سال پہلے بنی تھی اور ہم ہر سال کسی اہم موضوع پر کانفرنس کرتے ہیں۔ یوتھ کی سال میں دو عالمی کانفرنس کرتے ہیں۔ یہ UNIVW کہلاتی ہیں۔ دو روز کے بعد پندرہویں کانفرنس منعقد ہونے والی ہے۔ آپ لوگ اس میں بھی شریک ہوں گے۔
اچانک اطلاع آئی کہ کہیں جانا ہے، جلدی جلدی خطابات مکمل ہوئے اور روانگی کا بگل بجا دیا گیا، چاے لگی ہوئی تھی۔ لوازمات سجے ہوئے تھے اور ہم لمبی تقریروں کے شوقین مقررین کے شوق کی بھینٹ چڑھ کر بھوکے پیاسے یہاں سے روانہ ہو رہے تھے۔ دل پر چھریاں چاقو غالباً ایسے مواقع پر ہی چلا کرتے ہیں۔ وہ تو اللہ جی نے ہی ان کے دل میں نیکی ڈالی اور ہم ایک عمدہ سے ہوٹل کے سامنے رُک گئے، کھانا سجا ہوا تھا، ویٹر خدمت پر آمادہ تھے اور کیا چاہیے تھا، سب نے اللہ کا نام لیا اور بُھنے ہوئے ترکی مرغوں کی صحت اور مزے کا معیار کا اندازہ کرنے لگے ۔اس دوران یہ خبر مل گئی تھی کہ یہاں سے ہم سیدھے وزیراعظم ہاؤس جائیں گے۔ حضرات کی سزا کے طور پر سب مال سجا سجایا چھوڑ کر سفید رنگ کی تین صاف ستھری بسوں میں بیٹھ گئے ۔ دو بجے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے تو کئی حیرتوں نے آن لیا۔ یہ شہر کے ایک مصروف علاقے میں ایک باغ کے اندر واقع ہے۔ سکیورٹی پر کوئی فوجی یا پولیس والا نہیں تھا بس چند گنتی کے لوگ متعین تھے وہ بھی خوش مزاج اور سمجھدار، کسی روایتی تلاشی کے بغیر ہم سب اندر چلے گئے۔ بغیر کسی اندراج اور چیکنگ کے،مسکراتے چہروں نے استقبال کیا، واک تھرو گیٹ سے ہوتے ہوئے وسیع و عریض وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہوئے۔
پُرتپاک استقبال کی خوشی
استقبالیہ پر کئی لوگ استقبال کے لیے موجود تھے جن کے پاس سے گزر کر ہم آڈیٹوریم تک پہنچے ، جہاں کچھ دیر بعد ایک تازہ دم ، مسکراتے چہرے والے نائب وزیر اعظم ڈاکٹر پروفیسر نعمان کرتومش ہال میں داخل ہوئے، اُنھوں نے سب مندوبین اور مہمانوں کی نشستوں پر جا کر ہاتھ ملائے، اتفاق سے پہلی نشست ہی میری تھی ،ان کی شخصیت بھی دل پذیر تھی اور گفتگو بھی ۔یہاں سہولت یہ ملی کہ تقریر ایک بار ہو رہی تھی۔ ہیڈ فون پر الگ الگ چینلز پر عربی اور انگریزی ترجمہ آ رہا تھا۔ وہ بتا رہے تھے۔۔۔
’’ اس شب میں وزیر اعظم ہاؤس میں تھا جب طیاروں نے نچلی پروازیں شروع کیں ۔ یہ ایک لمبی اور تاریک رات تھی۔ ہمارے صدر نے ایک لمحے کے لیے بھی خوف نہیں دکھایا۔ پوری قوم بہادر صدر کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ یہ ۱۷ ملین ترکی کے عوام کی قوت نہیں بلکہ 1.5بلین لوگوں کی دعائیں تھیں جنھوں نے ہمیں ڈرنے نہیں دیا اگر یہ بغاوت کامیاب ہو جاتی تو ہم آپ سے اس ملاقات کے لیے زندہ نہ رہتے ،نہ یہ نظام باقی اور سلامت رہتا ۔ اللہ کہتا ہے ’’ یہ جتنی بھی چالیں چل لیں ۔ اللہ ہی کی چال سب سے اچھی ہے ‘‘ دنیا میں ہر آدمی کا امتحان ہوتا ہے ۔ اچھے اور برے اعمال کے امتحان ہوتے ہیں یہ ہماری جمہوریت کا بھی امتحان تھا، جسے ہمارے عوام نے کامیابی سے پاس کرلیا۔‘‘
تقریر ختم ہوئی تو اُنھوں نے فرداً فرداً سب سے ملاقات کی۔ میری باری آئی تو میں نے اپناتعارف کرایا، پاکستان کا بتایا۔ اُنھوں نے شدت جذبات سے گلے لگا لیا ۔ اور انگریزی میں بولے we are like family میں نے بتایا کہ وہ رات ہم پر کتنی گراں گزری ،دور بیٹھ کر بے بسی سے دیکھنا اور انتظار کرنا کس قدر مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ داکٹر نعمان نے تب تک میرے ہاتھ پر محبت بھری گرفت کمزور نہیں ہونے دی جب تک ہماری بات مکمل نہ ہوگئی۔ اُنھوں نے اہل پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ ان سے مل کر اور باتیں کرکے بہت اپنا ئیت کا احساس ہوا۔
صدر طیب اردوان سے ملاقات
میری شدید خواہش تھی کہ جناب طیب اردگان سے ملاقات کی کوئی صورت نکل آئے ۔ اُنھیں دیکھا جائے، سنا جائے مگر یہ کیسے ممکن ہو گا ۔ ان کی مصروفیات کے باوجود، ان کی دستیابی کیسے ہو گی، یہ ایک ٹیڑھا سوال تھا اور کسی کے پاس اس کاجواب نہ تھا۔ ان سے ملے بغیر دورہ ترکی ادھورا سا رہ جائے گا۔ وزیر اعظم ہاؤس سے نکلتے ہی جب گاڑیوں نے انقرہ کی بارونق اور صاف ستھری سڑکوں پر دوڑنا شروع کیا تو اچانک علم ہوا کہ اللہ جی نے ہماری بات اور فرمائش سن لی ہے۔ دھیمے اور انتھک میزبان عبدالحمید نے بتایا کہ ہم صدارتی محل جا رہے ہیں۔ دل میں خیال آیا میزبانوں نے سوچا ہو گا صدر نہ سہی صدارتی محل ہی سہی۔ صدارتی محل بھی ایک باغ ہی ہے۔ کئی ایکڑ پر پھیلا ہو،ا شہر کے اند مگرر ذرا ہٹ کر ، باہر دیواریں، جنگلے تاریں کچھ بھی نہیں تھا ۔صرف کہیں کہیں صدارتی محافظ کھڑے تھے۔ پہلے ایک گیٹ ،پھر دوسرے پر اُترے مگر اندر جانے سے قبل پھر گاڑیوں میں بٹھا کر محل کے مرکزی دروازے تک لے جایا گیا ،ہماری ڈولفن پولیس کی وردی میں ملبوس پولیس کے جوانوں نے ہیوی بائیکس پر ہماری راہنمائی کی۔ایک لحاظ سے یہ مہمانوں کا پروٹوکول تھا۔ تصویریں بناتے، محل کی وسعت اور خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ہم اندر داخل ہوئے تو ہوٹل کی طرح کا استقبالیہ تھا ۔ سارا عملہ اور محافظ لمبے تڑنگے تھے ۔ یہاں بھی کوئی فوجی نہ تھا۔ کانفرنس ہال بہت ہی عمدہ اور نفیس تھا، دیواروں کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر صدر کا نوجوان عملہ کھڑا تھا۔ کل چھ یا سات لوگ ہوں گے۔ ان کی انچارج ایک خاتون تھیں جو سارے انتظام دیکھ رہی تھیں۔
صدارتی محل کی خوبصورتی
وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے مشاہدے اور تجربے کی نتیجے میں جہاں ہر ایک کی کوشش تھی کہ اسے صف اول میں ہی جگہ ملے۔ یہاں پہلے ہی سے نام لکھ کر نشستوں کو محفوظ کر لیا گیا تھا ۔ مجھے چوتھی قطار میں جگہ ملی۔ اس دوران پانچ بج گئے ،ترکی کا وقت ہم سے دو گھنٹے پیچھے ہے۔ میں نے اپنے موبائل پر وقت کو نہیں چھیڑا تھا البتہ اسے دیکھ کر دو گھنٹے کم کر لیتا تھا، میں آڈیٹوریم سے اُٹھ کر باہر آیا، محل کی بڑی مسجد تو شمال میں ذرا دور تھی اس لیے مجھے تو یہاں کسی جاے نماز کی تلاش تھی۔ موقع پر موجود آفیسر نے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا نیچے بہت بڑی لابی تھی۔ جیسے پی سی ہوٹل کی لابی میں صوفے لگے ہوتے ہیں، ساتھ ہی واش رومز تھے، صاف ستھرے جدید ترین۔ ترکی جانے والے سبھی پریشانی سے مسلم شاور ہی ڈھونڈتے رہتے تھے، میں بھی مصر نہ گیا ہوتا اور اس حقیقت سے واسطہ نہ پڑا ہوتا تو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑنا تھا۔ یہ یورپ کا اثر ہے یا کسی ڈیزائنر کی اختراع کہ یہ لوگ پہلے ٹشو استعمال کرتے ہیں اور پھر دائیں جانب لگا ایک بٹن دباتے ہیں جس سے جسم کی خودکار دھلائی ہونے لگتی ہے۔یہاں چونکہ صدارتی محل کا عملہ اور مہمان بھی آتے ہیں۔ وضو کے لیے بہت عمدہ سیٹیں لگی تھیں ۔ جن پر بیٹھ کر سوٹ کے ساتھ بہت آسانی سے وضو ہو جاتا ہے ۔ مسجد اتنی نفیس اور خوبصورت تھی کہ دل خوش ہو گیا۔ میں نے ظہر اور عصر دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کرلیں۔ حفاظتی عملے کے لوگ جو سیاہ شرٹ اور پتلون میں ملبوس تھے دو دو تین تین کے گروپ کی شکل میں آتے۔ با جماعت نماز پڑھتے اور واپس اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے، ان میں کوئی بھی فوجی نہیں تھا، سب سویلین پولیس یا صدر کے محافظ دستے کے لو گ تھے ۔انہی کے ۵۳ سے زائد ساتھی اسی محل پر FETO حملوں کے دوران شہید ہوئے تھے ۔نماز سے فارغ ہو کر کانفرنس روم پہنچا تو صدر طیب اردگان پہنچ چکے تھے، ڈائس پر علی کرت تقریر کر چکے تھے ۔ صدر کے محافظ چیتے اور عقاب کی سی نگاہوں سے چاروں طرف متوجہ تھے، محافظ دستے کی کوآرڈی نیٹر ایک مضبوط اعصاب والی خاتون تھے، یہاں ٹرانسلیٹر کسی باکس میں بیٹھے تھے اوراس تقریر دلپذیر کا رواں ترجمہ کر رہے تھے جس کو میں کانوں میں لگائے ہیڈ فون کے چینل نمبر ۲پر سُن اور نوٹ کررہا تھا۔ ڈائری ساتھ رکھنے کا اس قدر فائدہ ہوتا ہے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف یاد داشت پر بھروسہ کرکے سفر نامہ لکھنا بہت مشکل کام اور وقت طلب کام ہے۔ ایک دلچسپ بات جو یہاں بھی اور اگلے روز وزیر داخلہ سے ملاقات کے وقت بھی نوٹ کی کہ مہمان خاص کے عقب کی تین کرسیاں خالی رکھی جاتی ہیں اور ان کے آنے کے بعد وہاں انٹیلی جنس اور حفاظتی دستے کے جوان بیٹھ جاتے ہیں۔ مسٹر علی کرت نے بڑے سلیقے سے بات کی اور بولے کہ جناب صدر ایک رات میں قوم نے آپ کی قیادت میں فتح پائی اور انہیں بتایا کہ تمھارے دل میں آنے والے کالے خیالات کالی رات کے ساتھ ہی دفن ہو جائیں گے ۔ اسلامی دنیا سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے یہ ۴۵سربراہ اور منتخب صحافی آپ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے آئے ہیں۔ مسلم اسکالرز کے سربراہ علی کردائی نے کہا آپ پورے عالم اسلام کے لیے خدا کا تحفہ ہیں ۔ استنبول ہی میں جمع ہونے والے ۵ ملین ترک عوام نے آپ کو فتح کی مبارکباد نہیں دی اس ملک اور اس کی قیادت کی حفاظت کا عزم بھی کیا ہے۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے ۔ آپ ہم سب کی مبارکباد قبول کریں ۔ یہ ثابت ہو گیا کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ آپ ہماری آنکھوں کا نور ہیں۔ صدر نے اٹھ کر ان کی محبت کا شکریہ ادا کیا ۔ اسی اثناء میں ایک صاحب نے بھاگ کر ڈائس پر صدارتی نشان لگا دیا، دوسرے نے تقریر رکھ دی۔ ذرا فاصلے پر ایک آئینہ لگا ہوا تھا ۔ میرا گمان ہے کہ یہ ریفلیکٹر تھا۔ جو ایک دوسری جانب دیکھتے ہوئے بھی آپ کو اپنی تقریر کے پوائنٹس دکھاتا ہے اور یاد کرواتا ہے۔ نیلے رنگ کا سوٹ زیب کیا ہوا تھا اور نیلی ٹائی جس پر دھاریاں تھیں، پہنی ہوئی تھی ۔ صدرخو ش لباس آدمی ہیں،ان کی ہر تصویر اس معاملے میں اچھے اور نفیس ذوق کی عکاس ہوتی ہے۔
صدر کا خطاب
صدر طیب اردگان کی آواز نہ صرف باوقار اور با رعب تھی بلکہ ساتھ میں انہیں موقع محل کے مطابق آواز کے اتار چڑھاؤ پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ کہہ رہے تھے ’’ آپ لوگوں کا آنا بھائی چارے کی عمدہ مثال ہے ۔ترکی کے لوگوں کے ناموں میں فرق ہے مگر مقصد میں نہیں۔ وہ جو ترکی پر حملہ آور تھے۔اُنھوں نے ہمارے بہت لوگ مارے ہیں۔ ان شہدا کے اہل خانہ کو میں اور وزیر اعظم خود دیکھ رہے ہیں۔ ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ استنبول کی شاندار ریلی نے بتا دیا ہے کہ قوم کی ایک ہی منزل اور ایک ہی مقصد ہے ۔ ہمیں دو محازوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔ مگر ہم ان کے خلاف کمزور نہیں ہیں۔۱۵جولائی کی شب نہ ہماری انتظامیہ فیل ہوئی اور نہ ہمارے عوام۔ ہم صرف ایک ملک نہیں ہیں ۲۲۰۰سال پرانی تہذیب ہیں۔ ہم لوگوں کو بتاتے رہے ہیں کہ ترک پرچم پر ان ستاروں کا مطلب کیا ہے ۔ کسی قوم کو اندر سے توڑے بنا اسے تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اسے فتح نہیں کیا جا سکتا ۔ یہاں مارنے والے بھی مسلمان تھے اور مرنے والے بھی۔ ہمیں اپنے دشمن اور درد کویاد رکھنا ہے۔ ہمارا اتحاد اور ہم آہنگی ہی تھی کہ لوگ لوہے کی مشینوں جیسے ٹینکوں کے سامنے بے خوفی سے ڈٹ گئے۔ جہازوں کے سامنے ، برستی گولیوں کے سامنے ، کھڑی اس قوم کو کوئی کیسے ہرا سکتا ہے۔ استنبول کی ۵ملین لوگوں کی ریلی کا پیغام بڑاہی واضح ہے۔ یہاں نہ کوئی علوی ہے نہ کوئی سنی ، کوئی تقسیم نہیں ہے، صرف اتفاق ہے ، صرف اتحاد ہے ۵۰لاکھ لوگ جمع تھے تو باقی قوم دیکھ رہی تھی۔ تقسیم نہ ہونے کا پیغام بڑا واضح ہے۔ مغرب ممالک کو نوکر چاہییں تو وہ یاد رکھیں ہم ان کے نہ نوکر ہیں نہ ان کے غلام۔ ہم صرف اللہ کے غلام ہیں۔
اور میں بھول گیا
جناب صدر طیب اردگان نے اپنی گفتگو مکمل کی تو پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا، وہاں سے صدر وی آئی پی لابی چلے گئے جہاں وہ غیر ملکی وفود اور صدور کا استقبال کرتے ہیں۔ جب میری باری آئی تو میں نے اپنا تعارف کروایا۔ نام اور پاکستان سنتے ہی مسکراے۔ پاکستانی عوام کو سلام کہا۔ میں نے ۱۵جولائی کی رات اپنی بے آرامی اور قوم کے کتنے ہی لوگوں کے رت جگوں کا بتا کر کہا۔ میرے پاس ایک تجویز ہے ۔ میں وہ جملہ کہنا بھی بھول گیا جو صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہز ایکسی لینسی کہنے کی نو بت ہی نہ آئی ۔ انگریزی میں بول رہا تھا اور ترجمان ترکی میں ترجمہ کررہا تھا مگر وہ بات ترجمانی کے بغیر بھی سمجھ رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’پاک ترک سکولوں کو بند مت کروائیے۔ حکومت پاکستان نے عملہ بدل دیا ہے۔ یہ بھی کافی نہیں ہے تو آپ زیادہ کمٹمنٹ والا عملہ اور زیادہ وفادار عملہ ترکی سے بھجوادیں،یہ ہزاروں بچوں کا ہی نہیں ہماری قوم کے بچوں کا مستقبل چرائے جانے کا مسئلہ ہے۔‘‘ اُنھوں نے ٹرانسلیٹر سے کسی کو بلانے کو کہا۔ ایک صاحب بھاگتے ہوئے آئے، صد ر نے اُنھیں پوری بات نوٹ کرنے کو کہا اور بعد میں یاد دلانے کا کہا۔ صدر سے رخصت ہوا تو ان کے ہاتھوں کی مضبوطی کا لمس تا دیر میرے ساتھ رہا۔ بعد میں جب صدارتی محل سے تصاویر کی سی ڈی ملی تو میں اور بھی حیران ہوا ۔ میرے ہاتھوں کی گرفت اور آنکھوں سے آنکھوں کا رابطہ خوب بات کررہا تھا۔
آنے والے دنوں میں ہم نے دعوتیں بھی خوب کھائیں اور دورے خوب کیے اور تقریریں بھی خوب سنیں لیکن سچ یہ ہے کہ اصل کام پورا ہو گیا تھا۔ ترک اسمبلی کے سپیکر جناب اسماعیل قہرامان سے ملاقات بھی بہت شاندار رہی ۔وہ بھی اس رات وضو کر کے شہادت کے لیے اسمبلی ہاوس پہنچ گئے تھے جہاں دو بار بمباری ہوئی ہم نے وہ تباہ شدہ حصہ بھی دیکھا اور وزارت مذہبی امور کے سربراہ سے بھی ملے جن کی ۸۰ ہزار سے زائد مساجد سے ۱۵ ؍اگست کی رات کو فوجی بغاوت کے خلاف اعلانات ہوئے تھے ۔univw پندرھویں یوتھ کانفرنس میں بھی شریک ہوئے، وزیر داخلہ ایفکان ایلا سے بھی ملے مگر صدر طیب اردوان سے یہ ملاقات سب پر بھاری اور یاد گار تھی، اس لیے لاہور سے استنبول اور انقرہ کا پانچ ہزار میل کا سفر بالکل زیادہ نہیں لگا۔
*۔۔۔*
اس سفر نامے کے مشکل الفاظ
تخت الٹ دینا:کسی کی حکومت کوطاقت کے زور پر ختم کر دینا
نہتا: بے ہتھیار، غیر مسلح۔۔۔ سفارت خانہ: سفیر کا دفتر
آنکھیں موندنا: آنکھیں بند کر لینا
امیگریشن: ہجرت، ایک جگی چھوڑ کر دوسری جگہ جانا
رن وے: ہوائی جہازوں کی پرواز سے قبل اور بعد دوڑنے کا خصوصی راستہ۔۔۔ سنگم: درمیان۔۔۔ انٹر نیشنل ٹرمینل:بین الاقوامی ۔۔۔ میئر: بلدیہ عظمیٰ کا اعلا افسر
بورڈنگ کارڈ: ایک قسم کا کارڈ جو مسافر کو ٹکٹ جاری ہوجانے کے بعد دیا جاتا ہے۔۔۔ امسٹر ڈیم:نیدر لینڈ کا مشہور شہر
کنوئیر بیلٹ:بجلی سے چلنے والا ایک بیلٹ جس کی مدد سے سامان منتقل کیا جاتا ہے ۔۔۔ دیارغیر: پردیس، انجان جگہ
مندوب: نمائندہ جسے حکومت یا ادارے کی طرف سے مخصوص اختیارات دے کر کہیں بھیجا جائے۔۔۔ اوور ہیڈ برج: پُل، فلائی اوور
نفاست: صفائی، خوب صورتی۔۔۔شناسا: جان پہچان والا، واقف کار
IDSB: مسلم ممالک کی غیر سرکاری تنظیموں کی یونین
پبلک پالیسی: عوام کے حوالے سے حکمت عملی
این جی او: غیر سرکاری تنظیم۔۔۔ سالیڈیرٹی: یکجہتی
رئیس: سردار، سر براہ۔۔۔ سوغات: تحفہ
واک تھرو گیڑ: مخصوص دروازہ جواندر سے گزرنے پر دھات اور بارودی موادکا پتا لگاتا ہے ۔۔۔ پر تپاک: گرم جوشی سے
انتھک: محنتی۔۔۔ ایکڑ: رقبے کی اکائی
آڈیٹوریم: وہ عمارت جو مختلف قسم کے اجتماعات کی سماعت کے لیے مختص ہو
لابی: انتظار گاہ یا کھلا کمرہ جو کسی بڑی عمارت یا ہوٹل میں استعمال ہو
سویلین: غیر فوجی محکمے کا اہلکار
کو آرڈی نیٹر:ساتھ کام کرنے والا، معاون
ٹرانسلیٹر: مترجم۔۔۔ انٹیلی جنس:خفیہ پولیس کا ایک شعبہ
علوی: حضرت علی کی وہ اولاد جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہ ہو
رت جگا: رات بھر جاگنے کا عمل
ہز ایکسی لینسی: his excellency،قابل احترام
کمٹمنٹ: پختہ عزم۔۔۔ لمس: چھونا، پکڑن