ٹوٹ بٹوٹ
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
باپ تھا اس کا میر سلوٹ
پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
کھاتا تھا بادام اخروٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
ہر اک اس کی چیز ادھوری
کبھی نہ کرتا بات وہ پوری
ہنڈیا کو کہتا تھا ہنڈی
لوٹے کو کہتا تھا لوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
امی بولی بیٹا آؤ
شہر سے جاکر لڈو لاؤ
سنتے ہی وہ لے کر نکلا
جیب میں ایک روپے کا نوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
اتنا اس کا جی للچایا
رستے میں ہی کھاتا آیا
کھاتے کھاتے آئی ہچکی
دانت میں اسکے لگ گئی چوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
بھائ اسے اٹھانے آیا
ابا گلے لگانے آیا
امی اس کی روتی آئی
ہائے میرا ٹوٹ بٹوٹ
ہائے میرا ٹوٹ بٹوٹ
ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ