ٹائم ٹیبل
حماد ظہیر
……………………………………….
مصنف کی چھٹیاں اتنی طویل ہو گئی تھیں کہ تحریر بھی طویل ہو گئی ۔۔۔
…………………..…………………..
ہماری جان مئی ہی سے نکلنا شروع ہو جاتی۔ ہم ایک ایک دن کا حساب رکھتے اور سوچتے کہ کاش یہ وقت ٹھہر سکتا اور ہماری زندگی میں جون جولائی کبھی نہ آتا۔
ٹھہرتا نہ سہی سست ہی پڑ جاتا، مگر ایسا بھی نہ ہوتا۔ جوں جوں مئی کے دن گزرتے جاتے ہماری پریشانی اور اضطراب بڑھتا جاتا، یہاں تک کہ جون آجاتا اور چھٹیاں شروع ہوجاتیں۔
آہ! چھٹیاں۔۔۔
کبھی ایسا بھی دور تھا کہ ہم سوچتے تھے کہ چھٹیاں بڑی نعمت ہیں۔ بس ان میں ایک خرابی ہے کہ گزر جلدی جاتی ہیں۔ ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ کس طرح ان چھٹیوں کو طویل بنایا جائے۔
آخر کار یہ مسئلہ پھوپھو نے حل کیا۔ انہوں نے چھٹیوں کو اتنا کٹھن اور خاردار بنا دیا کہ گزارنا تو دور کی بات وہ کھسکتی بھی نہیں تھیں!
سنا تھا کہ وہ ماضی میں استانی اور ہیڈ مسٹریس وغیرہ رہ چکی ہیں مگر ان کے انداز سے اندازہ ہوتا تھا کہ ضرور فوج میں یا جیل میں وارڈن رہی ہوں گی۔
ہماری اماؤں کو ہمیشہ شکایت رہتی کہ بچے تو چھٹیوں میں گھر سر پر اٹھا لیتے ہیں، ناک میں دم، بلکہ ناک سے لے کر حلق تک دم کر دیتے ہیں وغیرہ لیکن پھوپھو کے عمل دخل کے بعد وہی ہمیں مظلوم سمجھتیں۔
پھوپھو نے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ پاچوں بچے ساتھ رہیں گے۔ یا تو سنی ٹیپو اور عفت ہمارے یہاں آئیں گے یا پھر ہم اور فوزی آپی ان کے یہاں جائیں گے۔ یہ ہمارے لیے انتہائی خوش کن فیصلہ تھا اور بے حد سرور کا باعث ہوتا اگر دوسرا نہ ہوتا۔
دوسرا فیصلہ یہ تھا کہ پھوپھو بھی ہم پانچوں کے ساتھ ہوں گی۔
چھٹیاں شروع ہونے سے ایک دن پہلے ہمیں ٹائم ٹیبل سنا دیا گیا جسے ہم نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔
’’ کوئی ٹائم ٹیبل ایسا نہیں جو چھٹیوں میں نافذ العمل ہو۔‘‘ ہم نے خیال پیش کیا۔
’’ارے یار! ہزار مرتبہ ٹائم ٹیبل بنایا چھٹیوں میں لیکن عمل کرنے کا خیال آیا یکم اگست کو‘‘ سنی نے تاریخ کا دریچہ کھولا۔
’’پھوپھو اتنا تیز تیز بول گئیں ، میں لکھ ہی نہ سکی۔ اب اس پر عمل کیسے کروں گی؟‘‘ فوزی آپی پریشان ہو کر بولیں۔
لیکن عمل کرنے کیلئے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہ رہی۔
اگلے دن جب صبح صادق کے وقت ہمیں جگایا گیا اور ہم نہ جاگے تو جگ بھر بھر کر پانی انڈیل دیا گیا۔
پانی یقیناًزندگی کیلئے اہم ترین چیز ہے ، لیکن سوتے ہوئے جب یہ ہمارے منہ پر پڑا تو لگا کہ گویا گرم توے پر پانی کے چھینٹے دے دیئے گئے ہوں۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اگلے دن سے جب ہم سوتے تو ہر کھٹکے پر نہ صرف پوری طرح جاگ جاتے بلکہ دوڑ کر غسل خانے جاتے اور وضو کرچکنے کے بعد ہی دیکھتے کہ کھٹکا پھوپھو نے کیا ہے یا ہوا نے! سنی نے بتایا۔
’’پرستان کی سیر کے بعد میں کافی تھک چکا تھا۔ لیکن اتفاق سے مجھے گھر واپس جانے کا منتر ہی یاد نہیں آرہا تھا۔ آخر ایک شریر پری نے مجھے نہر میں دھکا دے دیا۔ جب آنکھ کھلی اس وقت تک سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔
ٹیپو تو اگلے روز سے تہجد ہی میں جاگ جاتا اور خوشیاں مناتا کہ خدا سے قریب ہے اور پھوپھو سے دور!
فجر کے بعد سب کو لائن سے بٹھا کر بھیگے ہوئے چنے کھلائے گئے۔ ایسے وقت میں جب نیند سے آنکھیں بند ہو رہی ہوں۔ اچھی سے اچھی چیز بھی نیند کے آگے ہیچ نظر آتی ہے اور ہمیں کھانا بھی پڑتا تو کیا۔۔۔ کڑوے کسیلے چنے ۔ وہ رات بھر سے بھیگے تھے۔ پہلے ان کا پانی حلق سے اتارنا پڑا۔
’’ کیا ہم ان چنوں کے چھولے بنا کر نہیں کھا سکتے؟‘‘ فوزی آپی نے پوچھا۔
’’خبردار جو چھولوں کا نام بھی لیا ہو تو۔۔۔ ہر وقت چکنائی اور مرچ مصالحہ کی پڑی رہتی ہے۔‘‘ پھوپھو نے ڈانٹا۔
’’گو کہ وہ چنے، لوہے کے چنے ثابت ہورہے تھے پھر بھی اس امید پر جلدی جلدی کھائے کہ پھوپھو سے جان چھوٹے اور کچھ سو سکیں۔
’’ میرے ختم ! اب میں جاؤں؟‘‘ ٹیپو نے جلدی جلدی چنے منہ میں ٹھونسے اور اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ارے! بڑی جلدی ختم کر لیے تم نے، لگتا ہے بہت پسند ہیں۔ لو یہ اور لے لو۔‘‘ پھوپھو نے شفقت بھرے انداز میں کچھ اور چنے اس کے پیالے میں ڈال دیئے۔
چنوں کا سلسلہ ختم ہوا تو پھوپھو بولیں ’’ چلو اب سب لوگ جوتے لے آؤ۔‘‘
’’ کیا وہ بھی کھانے پڑیں گے؟‘‘ سنی کے منہ سے پھسل گیا۔
’’جلدی سے جوتے پہن کر آؤ تاکہ ہم صبح کی سیر پر جا سکیں۔‘‘پھوپھو نے ایک نیا جھگڑا چھیڑا۔
’’ ہم ۔۔۔ ہم اس سیر کو شام کو کرلیں گے۔‘‘ ہم گھبرا کر بولے۔
’’ شام کو بھی کر لینا، لیکن ابھی تو دو گھنٹے چہل قدمی ضرور کرنی ہے، صحت کیلئے بہت مفید ہے۔‘‘
دو گھنٹے کا سن کر ہم سب کے چہرے اتر گئے۔نیند کے خمار میں اٹھنے بیٹھنے میں جان جارہی تھی نہ کہ اس قدر پیدل چلنا۔
جوتے پہنتے وقت دل چاہ رہا تھا کہ بونے بن کر اسی جوتے میں لیٹ کر سو جائیں۔
’’ ہم کہاں کہاں جائیں گے؟‘‘ فوزی آپی نے ڈوبتی سانسوں میں پوچھا۔
’’ارے چہل قدمی ہی تو کرنی ہے، کہیں کی بھی کر لیں گے، بارہ دری ہوآئیں گے!‘‘
’’ پھوپھو ! کیا ایک دری سے کام نہیں چل سکتا؟‘‘ عفت نے ڈسکاؤنٹ کرانے کی کوشش کی۔
پھوپھو نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’گھوم پھر کر واپس تو گھر ہی آنا ہے نا، آپ چلیں، میں بھی پہنچتا ہوں۔ دو گھنٹے بعد وہیں ملوں گا ۔‘‘ سنی بولا۔
’’چلو اٹھو۔۔۔ زیادہ ہوشیاری نہ دکھاؤ۔‘‘پھوپھو ہمیں اسی طرح لے کر نکلیں جس طرح گڈریا ریوڑ کو ہانکتا ہے۔
ہمیں تو ایک ایک قدم اٹھانے پر موت آرہی تھی۔ اس بات کا ہول الگ تھا کہ گھر سے جتنا دور ہوتے جارہے ہیں کم از کم بھی واپسی میں اتنا تو ضرور ہی چلنا پڑے گا۔
’’ میری بات الگ ہے۔ تم لوگوں کو تو ٹہلنے کے بجائے بھاگنا دوڑنا چاہیے۔‘‘ پھوپھو نے ہماری سست روی پر تنقید کی۔
’’ آپ اجازت تو دیں، پھر دیکھیں ہم یہاں سے کیسا بھاگتے ہیں؟‘‘ ٹیپو کو بھی شاید بستر یاد آرہا تھا اور وہ بھاگنے کی فکر میں تھا۔
سیکنڈ سیکنڈ کرکے ہم نے وہ دو گھنٹے گزارے جبکہ پھوپھو راستے بھر صبح کی سیر کے فوائد بتانے کے ساتھ ساتھ مختلف شاعروں کی زبانی صبح کی تعریفیں کرتی رہیں۔
سوچا تھا کہ گھر پہنچ کر پہلا کام یہ کریں گے کہ کم از کم دس گھنٹے سوئیں گے۔ مگر۔۔۔
حکم ملا کہ دس منٹ کے اندر اندر نہا دھو کر اور کپڑے تبدیل کرکے دوبارہ دربار میں حاضر ہو۔ مرتے کیا نہ کرتے، اس کی بھی تعمیل کی۔ یہ الگ بات ہے کہ نیند اب آنکھوں سے اوجھل ہو چکی تھی اور صبح نہ سونے کی وجہ سے طبیعت جھنجلاہٹ کا شکار تھی۔ واپس پہنچے تو دستر خوان پر عجیب و غریب چیزوں کوپایا۔
’’چلو اب ناشتہ کرو! ‘‘ پھوپھو بولیں اور اپنی پلیٹ میں کچھ نکالنے لگیں۔
’’ یہ ۔۔۔ یہ ناشتہ ہے؟‘‘ عفت حیرانی سے بولا۔
’’ نہ توس، نہ مکھن جام ، نہ آملیٹ!‘‘ ہم نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔
’’ ہاں انڈے تو ہیں۔۔۔ یہ رہے!‘‘ پھوپھو نے ایک دیگچی کا ڈھکن اتارا تو ابلے ہوئے کئی انڈے نظر آئے۔
’’ سب کو کم از کم دو دو تو کھانے پڑیں گے۔‘‘
سنی کا تو کلیجہ منہ کو آگیا۔ وہ شاید دو ڈنڈے تو کھا لیتا لیکن انڈے اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ عفت بے چاری کو بھی سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ انڈوں کو یوں مبہوت ہو کر تک رہی تھی گویا ان میں سے چوزے نکلنے کا انتظار کررہی ہو۔
’’پھوپھو ! لگتا ہے آپ نے گھر میں مرغیاں پال لی ہیں۔‘‘ ٹیپو نے شاید انڈوں کی فضول خرچی کی طرف نشاندہی کرنے کی کوشش کی۔
ہم نے سوچا کہ اگر واقعی ایسا ہوا تو سب کی آج ہی ذبح کرڈالیں گے۔ چرغے الگ نصیب ہوں گے اور انڈوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
’’ چلو اب شروع بھی کرو ناشتہ ۔ یہ ساگ ہے، یہ بھنڈی، یہ ترکاری، یہ روٹی۔‘‘ پھوپھو نے جلدی جلدی ایسی چیزوں کے نام بتائے جو ہمیں زیادہ پسند نہ تھیں۔ ہم نے تاک کر دہی پر حملہ کیا۔ مگر۔۔۔وہ دہی کم اور پھٹا ہوا دودھ زیادہ معلوم ہو رہا تھا۔
’’ یہ کس جگہ سے آیا ہے۔ اس گوالے کی تو جا کر پٹائی کرنی چاہیے۔ بھلا یہ دہی ہے!‘‘ ہم نے اب تک کا غصہ بے چارے گوالے پر اتارنا چاہا لیکن وہ گوالن نکلی۔
’’ یہ دہی میں نے جمایا ہے۔ اب ہر روز گھر ہی کا دہی کھانا ہوگا۔‘‘ پھوپھو نے بتایا۔غرض ناشتہ بھی لوہے کے چنے ہی ثابت ہوا۔
’’پھوپھو! اب ہم کچھ آرام کرلیں؟‘‘ فوزی آپی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’ہائیں۔۔۔ تمہیں ٹائم ٹیبل یاد نہیں۔ آرام کا وقت دوپہر کے کھانے کے بعد ہے۔ ابھی تو سب لوگ ایک ایک سپارہ پڑھیں گے۔ پھوپھو نے ایک گھنٹہ کا مدرسہ لگایا۔ اس کے بعد پھوپھو بولیں۔
’’ اب لڑکے باہر کی صفائی کریں گے۔ کیاریوں اور لان میں پانی دیں گے جبکہ لڑکیاں اندر کا جھاڑو پونچھا کرکے باورچی خانہ سنبھالیں گی۔‘‘
سنی نے قہقہہ لگایا اور بہت دیر تک ہنستا رہا۔ نہ جانے یہ غم بڑھ جانے پر تھا یا بے چاری لڑکیوں کی حالت زار پر۔
’’پھوپھو ۔۔۔ اگر سارا کام ہم کریں گے تو ماسی اور مالی کیا کریں گے؟‘‘ ٹیپو نے سنی کی جان بچائی۔
’’ جس طرح تم لوگوں کی دو ماہ کی چھٹیاں ہیں نا، اسی طرح میں نے انہیں بھی دو ماہ کی چھٹیاں دے دیں۔‘‘ پھوپھو نے ہاتھ جھاڑے۔ہم تھکے تھکے قدموں سے باہر کی طرف چل دیئے۔
ٹیپو نے مالی کا جبکہ ہم نے جمعدار کا کام سنبھالا۔ سنی البتہ یہی سوچتا رہا کہ آخر کس طرح پھوپھو سے پیچھا چھڑایا جائے۔
’’ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہماری سچی مچی کی پھوپھو ہیں، ان کے ساتھ کچھ برا کرنے کو دل نہیں مانتا۔ ورنہ تو ابھی انہیں اٹھاتے اور کسی اندھے کنوئیں میں پھینک آتے۔‘‘
*۔۔۔*
ظہر کے فوراً بعد کھانا ہوا جو کہ کم ہی کھانا ہوا کہ وہ فوزی آپی اور عفت کا پکایا ہوا تھا۔
’’ یار ہم لوگ گھر میں ہیں یا کسی بے گار کیمپ میں۔‘‘ سنی نے سرگوشی کی۔
’’ اس طرح تو ہم بھوکے مرجائیں گے۔‘‘ ہم نے بھی خیال پیش کیا۔
’’ اب کچھ دیر کیلئے تم لوگوں کو اجازت ہے کہ قیلولہ کرو یا جو دل چاہے کرو۔‘‘ کھانے کے بعد پھوپھو بولیں اور خود بھی اپنے کمرے کی طرف ہولیں۔
جو دل چاہے کرو، کی آزادی ملنے کے بعد ہم سب نے بڑے بڑے اچھوتے خیالات پیش کیے جس میں کیریاں توڑنے سے لے کر چین فتح کرنے اور چاند پر جانے تک کی باتیں تھیں لیکن تھکے ہوئے اتنے تھے کہ جلد ہی سب آڑے ترچھے ہو کر ادھر ادھر بے خبر سو گئے۔
*۔۔۔*
ذرا ہی دیر میں پھوپھو نے ہمیں جگا دیا۔ معلوم ہوا کہ آزادی کے چند لمحے ڈھائی گھنٹوں کی شکل میں بیت چکے ہیں۔
ہمارے اوپر سستی طاری تھی۔ ہلنے کے روادار نہ تھے۔ پھوپھو نے ہمیں بسکٹ لینے بازار بھیج دیا۔ لڑکیوں کو پھر عقوبت خانے (باورچی خانے) میں بند کر دیا گیا کہ چائے وغیرہ بنائیں۔
صبح سے تو بھوکے ہی تھے۔ اسی چائے بسکٹ سے پیٹ بھرا۔
عصر کے بعد باہر جا کر کھیلنے کی اجازت چاہی۔
’’ نہ جانے کن اچکے بدمعاشوں کے ساتھ کھیلتے ہو۔ میں تم لوگوں کو آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتی، گالم گلوچ اور بدتمیزی ہی سیکھو گے!‘‘
’’ پھر کیا کریں؟‘‘ ٹیپو نے پوچھا۔
’’ ماشااﷲ سے اتنی بڑی چھت ہے۔ اوپر چل کر جو دل چاہے کھیلو۔‘‘
’’ جو دل چاہے، سن کر ہم مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔ اب تک تو سنی برداشت کرتا آیا تھا لیکن یہاں نہ کرسکا۔ اس نے جلدی سے علی کے نمبر ملائے۔
’’ ہاں علی۔۔۔ ایک ضروری کام ہے۔ یوں کرو صاف ستھرے کپڑے پہنو، استری شدہ۔۔۔ وہ جو تم جمعہ کے جمعہ پہنتے ہو۔۔۔ ہاں اور ٹوپی لگاؤ۔۔۔ دانت اچھی طرح برش کرکے اور کنگھا کرکے ہمارے یہاں آؤ۔۔۔ چپل جوتے کو پالش کرنا نہ بھولنا۔ ادب سے آکر ہماری پھوپھو سے درخواست کرو کہ تمہارے ساتھ ہمیں کھیلنے کیلئے بھیج دیں۔ کوئی غلطی مت کرنا ورنہ ہم ساٹھ سالوں تک، معاف کرنا۔۔۔ ساٹھ دنوں تک کھیلنے نہ آسکیں گے۔۔۔ سمجھ گئے!‘‘
پھوپھو نے علی کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔
’’ میاں صاحبزادے ۔ اس حلیے میں تو کوئی نہیں کھیلتا ۔ تمہیں تو خود کھیل کی الف بے نہیں معلوم تمہارے ساتھ کیوں میں اپنے بچوں کو بھیجوں۔ ہاں اگر چاہو تو اوپر ہی آکر کھیل لو!‘‘
سنی نے ایک دو فون اور گھمائے تو ہم باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
مغرب سے عشاء تک پھوپھو نے ٹیوشن سینٹر کھول دیا۔ ہم پانچوں اپنے اپنے بستے لیے منہ بسورے بیٹھے رہے۔ کہاں تو یہ ہوا کرتا تھا کہ یکم اگست کی صبح کو ناشتہ دان نہیں ملتا تھا تو بستے کے اندر سے برآمد ہوتا اور اگر اکتیس مئی کو ناشتہ بچ گیا ہوتا تو پھپھوندی نکلتی۔
پھوپھو نے زندگی بھر پڑھایا تھا لیکن ان کا شوق پورا نہ ہوا تھا۔ وہ اب ہم پر پورا ہو رہا تھا۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ کل سے بستہ میں ناول چھپا لیا کریں گے اور کتاب کے اندر رکھ کر پڑھا کریں گے۔
آخر وہ تمام ناول بھی تو پڑھنے تھے ناکہ جن کو ہم نے سال بھر دوستوں اور رشتہ داروں سے بہانے بہانے سے مانگ کر جمع کیا تھا، اور اب ان کے واپس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، قیمت البتہ دے سکتے تھے۔
عشاء کے بعد کھانا ہوا اور ایک بار پھر ٹہلنے کی گردان ہوئی۔ راستے میں بیت بازی کی کوشش کی گئی۔ نئے پرانے اور جھوٹے سچے قصے سنائے گئے۔ واپس پہنچ کر روزنامچہ لکھوایا گیا جو پیش خدمت ہے۔ پھر یہ سب ایک ہی دن نہ ہوا بلکہ ساٹھ دن تک یہی ہوتا رہا کہ ہم ڈائری میں لکھتے۔’’وہی سب ہوا جو کل ہوا تھا! ‘‘ آخر میں ہم نے ایک مصرعہ لکھا۔
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
لکھنا بہت آسان ہے کہ ساٹھ دن گزرے، لیکن کیسے، یہ ہمارا دل جانتا ہے۔ شام کو علی کو اچھلتے کودتے دیکھا۔ وہ خوشی سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔ ہم نے وجہ پوچھی تو بولا۔ ’’ مبارک ہو ۔ حکومت نے چھٹیوں میں پندرہ مزید روز کا اضافہ کر دیا ہے۔‘‘ہم حقیقتاً رو پڑے۔ جبکہ وہ سمجھتا رہا کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔
مگر پھوپھو اصولی خاتون تھیں۔ وہ اپنی دیگر مصروفیات کو مقررہ وقت پر نمٹانے کیلئے ہمیں خیر باد کہہ گئیں۔ فوراً ہی چھت پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس کا ایجنڈا تھا۔
’’ چھٹیوں کا معمول۔ پھوپھو کے ساتھ۔ پھوپھو کے بعد۔‘‘ بڑی دیر تک غور و خوض ہوتا رہا مگر کوئی بڑا کام سمجھ نہ آیا جو ہم چھٹیوں میں کرنا چاہتے ہوں۔ اجلاس اگلے روز تک ملتوی کر دیا گیا۔
اگلے روز صبح صادق پر خود ہی آنکھ کھل گئی۔ دوسروں کو بھی جاگا پایا۔ فجر کے بعد عادتاً چنے بھی کھا لیے۔پھر وقت گزاری کیلئے چہل قدمی کی۔ گھر کا ناشتہ انوکھا ہوتا تھا، اسی لیے توس جام وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہیں پڑے۔ دو مرتبہ قرآن مجید ختم کیا تھا، اس نیک کام کو آگے بڑھانے کیلئے پھر ایک سپارہ پڑھ لیا۔ صفائی نہ کرتے اور پودوں کو پانی نہ دیتے تو وہ مرجھا جاتے۔
فوزی آپی اب اتنا برا کھانا بھی نہیں پکاتی تھیں کہ ہم کھا نہ سکتے۔ گرمیوں کی دوپہر میں باہر نکلنے سے بہتر تھا کہ اندھیرا کرکے بستروں کے ہو رہیں، شام کے بسکٹ چائے سے طبیعت بہت اچھی ہوجاتی۔ کھیلنے کودنے کے بعد کورس کی اور دیگر دوسری کتب پڑھنے کے علاوہ کوئی کام نظر نہ آیا۔ رات کا کھانا کھا کر گپیں مارتے ہوئے باہر نکل گئے۔ بھئی اگر ٹہلتے نہیں تو بدہضمی جو ہوجاتی۔
رات کو جب اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ اجلاس کی ضرورت اب باقی نہیں رہی تھی۔ لہٰذا اسے برخاست کر دیا گیا۔
لیکن جب اسکول کھلا تو ہم دوبارہ سے بگڑنا شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ اگلی چھٹیاں آنے تک پوری طرح سست اور نکمے ہو چکے تھے۔ لہٰذا جیسے ہی مئی آیا ہماری روح فنا ہونے لگی کہ اس کے بعد چھٹیاں آرہی تھیں یعنی جون جولائی۔
*۔۔۔*۔۔۔*