skip to Main Content

ٹائم مشین

کہانی: The Time Machine
مصنف: Wells H.G.
مترجم: محمد عامررشید
۔۔۔۔۔
میری کہانی ناقابل یقین لگتی ہے،لیکن اس کا ہر لفظ سچ ہے۔ میں ایک سائنس دان اور موجد ہوں۔میں وہ انسان ہوں جس نے ٹائم مشین بنائی۔لہٰذا آپ مجھے ٹائم ٹریولر کہہ سکتے ہیں۔
سال 1896۔۔۔۔
ایک شام میرے کچھ قریبی دوست جو پروفیسر تھے، رات کے کھانے کے لیے گھر آئے۔ اس موقع پر میں ایک اہم اعلان کرنے والا تھا، لیکن پہلے مجھے انہیں کچھ سمجھانے کی ضرورت تھی۔
”آپ جانتے ہیں کہ ایک لکیر کی ایک جہت ہوتی ہے، جو کہ لمبائی ہوتی ہے۔ ایک مربع کی دو جہتیں ہوتی ہیں۔ لمبائی اور چوڑائی۔ ایک مکعب کی تین ……لمبائی، اونچائی اور موٹائی ہوتی ہے،لیکن ایک مکعب کا وجود کچھ وقت تک رہتا ہے۔ اس لیے وقت چوتھی جہت ہے۔“ میں نے کہا۔
میرے دوست مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
میں نے جاری رکھا۔”جیسا کہ حال ہی میں دریافت ہونے والی تیسری جہت، ہم نے وقت کی چوتھی جہت سے ماضی یا مستقبل میں سفر کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔“
میرے دوستوں نے مجھے کہا کہ پاگلوں کی طرح بات نہ کریں۔ وقت میں سفر کرنا ناممکن ہے۔لیکن میں ان کے جوابات کے لیے تیار تھا۔ میں نے انہیں اپنی ایجاد کا ایک چھوٹا سا ماڈل دکھایا۔
ٹائم ٹریولنگ مشین۔۔۔
میرے دوستوں نے بے اعتباری سے اسے دیکھا۔

۔۔۔۔۔

میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ ماڈل کو قریب سے دیکھیں۔ ایک سیاہ لیور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، میں نے کہا۔”یہ لیور روکنے کے لیے ہے۔ یہ چھوٹا سفید لیور مستقبل کے سفر کے لیے ہے۔ آپ کو اسے دبانا ہوگا۔“
پھر میں نے لیور دبایا۔ ماڈل ہوا میں غائب ہوگیا۔۔۔ میرے ساتھی حیران تھے۔ ”اب یہ مستقبل میں ہے۔“میں نے فاتحانہ انداز میں کہا اور ان کے چہروں پر ناقابل یقین انداز دیکھ کر مسکرا دیا۔ لیکن میرے دوست یقین نہیں کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایک سستی چال کا مظاہرہ کیا ہے جو کوئی بھی جادوگر کر سکتا ہے۔ پھر میں انہیں اپنے لیبارٹری میں لے گیا۔
میں نے انہیں اپنی مکمل سائز کی ٹائم مشین دکھائی۔ ”مجھے صرف ایک چھوٹی سی پریشانی کو حل کرنا ہے۔ پھر میں اس مشین کو مستقبل میں سفر کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہوں۔ یہ ڈائل ان دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کی نشاندہی کریں گے جن میں میں ماضی یا مستقبل میں سفر کروں گا۔“
میرے ساتھیوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔ ”آپ ایک کہانیاں لکھنے والے کی طرح لگتے ہیں، موجد نہیں۔ اب ہمیں اجازت دیں۔“
یہ کہتے ہوئے وہ اپنے ہیٹ پہن کر چلے گئے۔ میں ان سے ناراض نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ انہیں میرے تصور کو سمجھنے کے لیے وقت درکار ہے مگران کے ردعمل نے مجھے کم از کم حوصلہ نہیں دیا۔
اگلے دن، میں نے اپنی مشین تیار کر لی اور ڈائلز کو صفر پر سیٹ کر دیا۔ پھر میں نے اسٹارٹ بٹن دبایا۔ میں اپنے ساتھیوں کے سامنے اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتا تھا اور ایجاد کو خودجانچنے سے بہتر اور کیا طریقہ ہے؟ میں نے محسوس کیا کہ میں ایک عجیب اور رنگین کائنات سے گزر رہا ہوں۔ میرا جسم ہل رہا تھا اور مشین زور سے لرز رہی تھی۔

۔۔۔۔۔

میرا سر گھومنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ رک گیا اور میں ارد گرد دیکھنے کے قابل ہوا۔ میں نے حیرت سے دیکھا کہ میں جس عمارت میں رہتا تھا اسے مسمار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ میں ٹائم مشین کے اندر بے حرکت تھا مگر خود کو کھلی ہوا میں محسوس کررہا تھا۔ یہ مجھ پرعیاں ہونے لگا کہ لندن اس سے بالکل مختلف نظر آئے گا جو میں مستقبل میں جانتا ہوں۔ دن تیزی سے گزر رہے تھے۔ سورج اور چاند زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے روشنی کی لمبی لکیروں سے ملتے جلتے تھے۔
کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ جس جگہ پر میرا گھر کھڑا تھا، وہ اب ایک پارک ہے۔ درخت جھاڑیوں کی طرح تیزی سے پھوٹ پڑے۔ سال حیرت انگیز رفتار سے گزرتے رہے۔ پھر میں نے ایک مستقبل کا شہر دیکھا جس میں خوبصورت ٹاورز تھے۔ لیکن جب میں اگلے ٹائم زون میں داخل ہوا تو یہ تیزی سے غائب ہو گیا۔ مستقبل کے بڑے شہر میرے سامنے ظاہر ہوئے۔ اکیسویں صدی کا شہر ایک بہت بڑی عمارت تھی لیکن تیسویں صدی میں برفانی دور نے اسے تباہ کر دیا۔
کئی صدیوں بعد، برف پگھل گئی اور ایک تیرتا ہوا شہر تعمیر کیا گیا۔ پچیسویں صدی میں، بڑی جھیل غائب ہوگئی۔ لوگ زمین کے نیچے غاروں میں رہنے لگے تھے۔۔۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ میں ٹائم مشین سے باہر گرتا جا رہا ہوں۔ اور پھر میں خلا سے نکل کر نرم زمین پر زور سے گر گیا۔ ایک گرج چمک تھی اور میری ٹائم مشین الٹ چکی تھی مگرخوش قسمتی سے کوئی نقصان نہیں ہواتھا۔

۔۔۔۔۔

طوفان کافی شدید تھا۔ میں بارش سے مکمل طور پر بھیگ چکا تھا۔ آسمانی بجلی کی چمک نے زمین کو روشن کیا تو میں پناہ کے لیے کوئی جگہ تلاش کرنے کی امید پر چل پڑا۔ جلد ہی بارش اور ژالہ باری بند ہو گئی۔کچھ فاصلے پر میں نے ایک عجیب سی عمارت دیکھی۔ یہ کافی بڑا تھا اور سب سے اوپر، ایک عجیب چہرے جیسا سفید مجسمہ تھا، جیسے دیوار سے نکل کرمجھے دیکھ رہا ہو۔
میں خوف سے بھرا ہوا تھا، جیسا کہ میرے ذہن میں مختلف امکانات تھے۔۔۔ اس عمارت کے مکین کون تھے؟ کیا وہ دیو کی طرح کی مخلوق تھے؟ اگر ایسا ہے تو کیا وہ مجھے نقصان پہنچائیں گے؟ اس طرح کے خیالات سے متاثر ہو کر، میں ٹائم مشین کی طرف بھاگا اور اسے سیدھا کر دیا۔ میں اس جگہ کو جتنی جلدی ہو سکے چھوڑنا چاہتا تھا۔
اتفاق سے میری نظر ڈائل پڑھنے پر پڑی۔ میں چونک گیا! میں مستقبل میں بہت دور جا چکا تھا۔ یہ سال 802،701 عیسوی تھا۔
جیسا کہ میں اسٹارٹ بٹن دبانے والا تھا،میں نے آوازیں سنیں۔ وہ موسیقی کی طرح لگ رہی تھیں۔ میں نے مڑ کر مستقبل کے انسانوں پر پہلی نظر ڈالی۔ وہ بہت خوبصورت مگر کافی چھوٹے تھے۔ صرف چار فٹ لمبے۔ وہ بچوں کی طرح خوش اور معصوم نظر آ رہے تھے۔ میرا خوف ختم ہو گیا۔ مستقبل کے انسان میرے پاس آئے۔ ان میں سے ایک لڑکی نے میری گردن پر پھولوں کا ہار رکھا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔

۔۔۔۔۔

مستقبل کے انسانوں نے مجھے گھیر لیا۔ وہ مجھے چھونے اور محسوس کرنے لگے۔ میں نے انہیں ٹائم مشین پر نگاہ ڈالتے دیکھا۔ مجھے اچانک خیال آیا۔ فرض کریں کہ وہ متجسس ہو گئے اور ڈائلوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا شروع کر دیا؟ ٹائم مشین سٹارٹ ہو جاتی تو پھر میں ہمیشہ کے لیے مستقبل میں پھنس جاتا۔ میں نے ڈائلز کو الگ کرنے اور انہیں اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے ان سے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سمجھتے نہیں تھے۔ مستقبل کے انسان سادہ زندگی گزار رہے تھے۔
پھر وہ مجھے کھردرے پتھروں کی ایک بڑی سرمئی رنگ کی عمارت کی طرف لے گئے۔ ہم ایک بڑے ہال سے گزرے جس میں عجیب و غریب ڈیزائن کی چھت تھی۔ پھر ہم لمبے اور نسبتاً کم اونچے میزوں سے بھرے ایک بڑے ہال میں پہنچے۔ میزوں پر پھلوں سے بھرے ہوئے برتن پڑے تھے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں انہوں نے کھانا کھایا تھا۔ مجھے کچھ پھل پیش کیے گئے اور میں نے انہیں بہت میٹھا اور مزیدار پایا۔ مگر ایک بات جو میں نے نوٹ کی کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔ پھرمیں اس ہال سے نکلا۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ ایک عجیب روشنی نے پورے منظر کو روشن کر رکھا تھا۔ یہ غیر فطری سا لگ رہا تھا۔
جیسے ہی میں سفید مجسمہ والی عمارت کی طرف آیاتو سب سے پہلی چیز جو میں نے دورسے ہی محسوس کرلی کہ ٹائم مشین اپنی اس جگہ پر موجود نہیں تھی جہاں میں نے اسے پہلے کھڑا کیا تھا۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔میں کافی دیر اسے تلاش کرتا رہا۔جھاڑیوں میں ہر جگہ۔ لیکن میں اسے تلاش نہیں کر سکا۔ پھر میں نے کوئی چیز گھسیٹنے کے نشان دیکھے جو اس عمارت کی طرف جاتے تھے مگر عمارت کے اندر جانے کا کوئی رستہ نظر نہیں آرہا تھا۔میں نے شور مچا یا۔آوازیں دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔میں نے پاس گزرنے والے چھوٹے لوگوں کے گروہ سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اس عمارت میں کس طرح جاسکتے ہیں مگر وہ خوفزدہ ہو کر دور چلے گئے۔میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ میں یہاں مستقبل میں پھنس گیا تھا۔

۔۔۔۔۔

اب مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔ میں اب اپنے ٹائم زون میں کیسے واپس جاؤں گا؟ بے ساختہ میں نے مشین کی تلاش شروع کی۔ صرف تسلی یہ تھی کہ کوئی بھی اس پر سوار نہیں ہو سکتا کیونکہ ڈائل میرے ساتھ تھے۔ میری تلاش بے نتیجہ رہی اور میں نے غصہ اور مایوسی محسوس کی۔ اس رات میں مشکل سے سویا۔
اگلی صبح ذہن پرسکون تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس سرزمین کے لوگوں سے دوستی کروں گا اور آہستہ آہستہ ایک اور ٹائم مشین بنانے کے لیے ضروری اوزار اور مواد تلاش کروں گا۔ اچانک چھوٹے لوگوں کا ایک گروہ میرے قریب آیا۔ میں نے اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن میری کوششیں ان کو صرف خوش کرتی تھیں۔ کسی طرح میں نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کا میری ٹائم مشین کی پراسرار گمشدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن پھر اور کون کر سکتا تھا اور کس وجہ سے؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ایک خوفناک چیخ سے خاموشی ٹوٹ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک لڑکی دریا میں گر گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ ڈوبتی، میں نے اپنے کپڑے اتارے اور پانی میں چھلانگ لگا دی۔

۔۔۔۔۔

میں لڑکی کو بچا کر کنارے پر لے آیا۔میں نے نوٹ کیا کہ کنارے پر موجودکسی اور نے لڑکی کو بچانے کی کوشش نہیں کی اور وہ پریشان بھی نہیں لگ رہے تھے۔ یہ پریشان کن تھا۔لڑکی سنبھل چکی تھی۔
”فکر مت کرو تم ٹھیک ہو۔“ میں نے اسے کہا۔
مجھے لگا تھا کہ وہ مجھے نہیں سمجھے گی۔ باقی لوگوں نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی کہ وہ بچ گئی ہے۔ اگر وہ مر گئی ہوتی تو وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے۔ میں نے جو کچھ کیا اس کے لیے میں نے کسی شکریہ کی توقع بھی نہیں کی تھی۔ لیکن میں غلط ثابت ہوا۔
میں ٹائم مشین کی تلاش کے لیے دوبارہ چلا گیا۔ جب میں واپس آیا تو جس لڑکی کو میں نے ڈوبنے سے بچایا تھا اس نے مجھے دو پھول پیش کیے۔ میں نے اشاروں سے اس کا نام پوچھا۔
”وینا“ اس کے منہ سے نکلا۔ پھر اس نے بیٹھ کر میرے ہاتھ کو چوما۔ اس کے بعد وہ میرے پیچھے پیچھے کسی پالتو کی طرح چل پڑی۔ میں جہاں جاتا وہ میرے ساتھ ہوتی۔
ایک رات اچانک پہاڑی کے اوپر، میں نے ایک اور مخلوق کی شکل دیکھی۔ میں جانتا تھا کہ یہ چھوٹے لوگوں میں سے نہیں ہے۔ وہ رات کو کبھی باہر نہیں نکلتے اور ایک بڑے اور بند کمرے میں سوتے تھے۔ پھر چاند بادلوں کے پیچھے سے نکلا۔ چاندنی میں وہ بندرنما انسان لگ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر مخلوق بھاگ گئی۔
”رک جاؤ، یہاں آؤ!“ میں چلایا لیکن بیکار۔ مخلوق ایک عمارت کے پیچھے غائب ہوگئی۔
اس مخلوق سے اچانک مجھ پر یہ حقیقت کھلی کہ اس جگہ پر دو مختلف قسم کے انسان تھے۔ ایک بالائی دنیا کے خوبصورت اور بچے نما لوگ تھے۔ دوسرے بدصورت اور سفاک بندر نماآدمی تھے جو زمین کی سطح سے نیچے رہتے تھے۔ اگلی صبح میں نے چھوٹے لوگوں کو بلایا اور بندر آدمی کے بنائے ہوئے نشانات کی نشاندہی کی۔ وہ خوف سے پیچھے ہٹ گئے۔ دوسری نسل زیر زمین سرنگوں میں رہتی تھی اور اونچی عمارتیں ان کی تھیں۔ وینا نے مجھے اس مخلوق کا نام ’مورلوکس‘ بتایا۔ وینا کے لوگ ’ایلوئی‘ کہلاتے تھے۔ یہ واضح تھا کہ ایلوئی، مورلوکس سے ڈرتے تھے۔
ایک دن گھومتے ہوئے مجھے کچھ کنویں نظر آئے۔ان کے قریب جا کر دیکھا تو ان میں کسی مشین کے چلنے جیسی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے اندر جھانکا تو کنویں کی دیواروں کے ساتھ ڈنڈا نما سیڑھیاں تھیں۔میں نے وینا کو باہر چھوڑا اور نیچے اترنے لگا۔وینا نے خوفزدہ ہو کر مجھے بتا یا کہ اندر ومورلوکس ہیں اور روکنے کی کوشش کی۔ میں نے سمجھایا کہ میں نے مشین تلاش کرنی ہے۔ میں ابھی آجا تا ہوں۔ میں سیڑھی سے نیچے چلا گیا۔ نیچے اندھیرا تھا۔ اچانک نرم بالوں والے ہاتھوں نے میرے چہرے کو چھو لیا۔میں نے ماچس جلائی تو چار یا پانچ مورلوکس کو ڈر کر دور بھاگتے ہوئے دیکھا۔
میں آگے بڑھا اور مشینوں سے بھرے ایک بڑے کمرے میں آیا۔ ہوا میں تازہ خون اور گوشت کی بو آ رہی تھی۔اب مجھے وہاں خوف محسوس ہوا۔وہاں بہت ساری تعداد میں مورلوکس میری طر ف آرہے تھے۔ میں بڑی مشکل سے خود کو بچا کر کنویں سے باہر نکلا۔وینا کو ساتھ لیا اور وہاں سے دور چلا گیا۔دن کی روشنی میں مورلوکس ہمارے پیچھے نہیں آسکتے تھے۔

۔۔۔۔۔

میں اور وینا چلتے چلتے کافی دور نکل آئے اور ایک ایسی عمارت دیکھی جو شاید ہمارے زمانے کا گرین پیلس میوزیم تھی۔ وہاں دیواروں پر عجیب و غریب ڈسپلے اور نوشتہ جات تھے۔ دوسرے حصے میں بندوقیں تھیں۔ لیکن وہ زنگ آلود اور خراب تھیں۔ پھر وہاں مجھے کچھ ماچسیں ملیں اور ایک ڈنڈا جسے میں ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا تھا۔جب ہم میوزیم سے نکلے تو رات ہونے والی تھی اور راستے میں جنگل تھا۔اور مورلوکس ہمارے پیچھے۔
میں نے حفاظت کے لیے لکڑیاں اکٹھی کرکے بڑی آگ جلائی۔ کچھ دیر بعد مورلوکس نظر آئے مگر آگ کی وجہ سے قریب نہیں آرہے تھے۔جیسے ہی آگ بجھی مورلوکس نے ہمیں پکڑ لیا۔ میں نے پھر ڈنڈے سے ان کا مقابلہ کیا۔ لیکن اس ہنگامہ آرائی میں دو مورلوکس وینا کو اٹھا کر لے گئے۔میں ان کے پیچھے بھا گا۔مگر وہاں بہت زیادہ تعداد میں اور مورلوکس بھی تھے۔ وہ مجھے قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے۔میں ڈنڈے کے ساتھ ان سے لڑتا رہا۔ اچانک مجھے ماچس کا خیال آیا۔میں نے ماچس جلائی تو مورلوکس مجھ سے دور ہو گئے۔

۔۔۔۔۔

پھر مورلوکس کے چیخنے کی آوازیں سنائی دیں اور وہ ایک طرف کو بھا گنے لگے۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو میری لکڑیوں سے جلائی گئی آگ جنگل میں پھیل چکی تھی اور بہت سے مورلوکس اس میں جل چکے تھے اور باقی جا ن بچانے کے لیے بھا گ رہے تھے۔میں نے وینا کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ مجھے نہ مل سکی۔ جو مورلوکس آگ سے بچ کر بھا گے تھے، ان کے ساتھ وینا نہیں تھی۔اس کا مطلب وہ وینا آگ میں جل کر مر گئی تھی۔ وہ میری قریبی دوست بن چکی تھی مگر یہ تصور ناقابل برداشت تھا کہ وہ مورلوکس کی خوراک بنتی۔۔۔یہ سوچ کر میں نے اپنی اداسی پر قابو پایا۔
اب میں ایلوئی کی خوبصورت دنیا میں تمام دلچسپی کھو چکا تھا۔ ان کی زندگی کھیت میں مویشیوں کی طرح کافی خوشگوار تھی۔ لیکن آخر میں وہ ایک مضبوط نسل کے ذریعے کھائے جانے کے لیے شکار ہوئے۔ اب مجھے پھر اپنی مشین کی تلاش تھی تاکہ میں یہاں سے نکل سکوں اور اپنی دنیا میں واپس جا سکوں۔

۔۔۔۔۔

میں دوبارہ اس مجسمہ والی عمارت کی طرف گیا۔ مگر اس بار وہاں ایک دروازہ کھلا دیکھا اور اندر چلا گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میری ٹائم مشین وہاں موجود ہے۔ جب میں آگے بڑھا۔پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ پھر میں نے دیکھا کہ کچھ مورلوکس خوفناک انداز میں میری طرف بڑھ رہی ہے! میں پھنس چکا تھا۔
اچانک مجھے اپنی جیب میں رکھی ماچس کا خیال آیا۔میں نے فوراً اسے روشن کیا۔ آگ نظر آتے ہی مورلوکس پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن جلد ہی ماچس ختم ہوگئی۔ پھر میں ٹائم مشین کی طرف بھاگا۔ یہ میرا بچنے کا واحد موقع تھا۔ میں نے ڈائلز کو دوبارہ ٹھیک کیا اور اسٹارٹ بٹن دبایا۔ ایک مورک نے میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی لیکن میں نے اس کے چہرے پر گھونسہ مارا اور وہ نیچے گر گیا بس وقت کے ساتھ ساتھ مشین آگے بڑھناشروع ہوئی اور کمرہ ٹوٹنا شروع ہوگیا۔ جلد ہی مورلوکس میری نظر سے غائب ہو گئے۔

۔۔۔۔۔

میں وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کیونکہ میں نے غلطی سے ڈائلز کو آگے بڑھایا تھا۔ ہزاروں دن گزر گئے اور میرا ماحول تیزی سے بدل گیا۔ میں نے بہت سردی اور کپکپی محسوس کی۔ کچھ منٹ بعد، چاند غائب ہوگیا اور سورج کی لکیریں سست ہونے لگیں۔ سورج ایک بڑا، سرخ مدار بن گیا اور ساکن ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ زمین نے حرکت کرنا چھوڑ دی تھی اور سورج کا ایک ہی رنگ تھا۔
میں نے سٹاپ کے بٹن کے ساتھ ٹائم مشین روک دی۔۔
فضا میں ایک عجیب سکون چھا گیا۔ ہوا بالکل نہیں تھی۔ زندگی کی واحد علامت بھوری کائی تھی جو کچھ پتھروں پر اگتی تھی۔ میں نے اپنے گال پر کچھ برش کی طرح کا محسوس کیا۔ جب میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک بہت بڑا کیکڑا تھا جو میری ٹائم مشین کے پیچھے کھڑا تھا۔
میں نے فوراً مشین سٹارٹ کی اور مستقبل میں آگے بڑھا۔
میں ہزاروں سالوں میں سفر کرتا رہا۔ اب پھر میں رک گیا سورج بڑا ہو گیا اور خستہ زمین کی زندگی دم توڑتی دکھائی دی۔ آخر میں، میں ایک ویران دنیا میں پہنچ گیا، مستقبل میں تیس ملین سال۔ یہاں، زندگی تقریباً ناپید ہو چکی تھی کیونکہ یہ ایک دائمی برفانی دور کا آغاز تھا۔

۔۔۔۔۔

ویران دنیا کے نظارے نے مجھے اداسی سے بھر دیا۔ میں وہاں کافی دیر تک بنجر خالی پن پر غور کرتا رہا اور پھر میں نے اپنے ٹائم زون میں واپس آنے کا فیصلہ کیا، میں نے اپنے وقت کے لندن واپس جانے کے لیے ڈائلز کا رخ تبدیل کیا۔ جلد ہی میرے اردگر د جانی پہنچانی عمارتیں اور زمین تھی۔ پھر میری اپنی ورکشاپ کی دیواروں نے میرے ارد گرد مادہ بنانا شروع کیا۔ کل میں نے مشین روک دی اور میں اپنی لیبارٹی میں تھا۔ مجھے اپنے پرانے ماحول میں واپس آنے پر راحت ملی۔ اب ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ جب سے میں نے اپنا ٹائم ٹریول شروع کیا۔
اگلے دن، میرے ساتھی مجھ سے ملنے آئے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ میں کہاں تھا۔ میں نے مسکرا کر کہا، ”میں آپ کو ہر چیز بیان کر دوں گا لیکن آپ کو یقین نہیں آئے گا۔“
پھر میں نے انہیں اپنے لاجواب ایڈونچر اور تجربات کے بارے میں بتایا۔ آخر میں میں نے اپنی کہانی ختم کی۔ ایک لمبی خاموشی رہی اور پھرپروفیسروں نے مجھ سے پوچھا، ”کیا آپ کسی موقع پرنشہ آور چیزیں پیتے رہے ہیں؟“ مجھے اس ردعمل کی توقع تھی لہٰذا میں نے اپنی جیب سے کچھ مرجھائے ہوئے پھول نکالے اور اپنے دوستوں کو دکھائے۔”ان کو دیکھو……!“ میں نے کہا۔
پروفیسرز نے ان کا معائنہ کیا اور کہا۔”یہ ایسی چیزوں کی مثل ہیں جو ہم نے کبھی نہیں دیکھی ہیں۔“
میں نے انہیں بتایا کہ وینا نے مجھے یہ پھول دیے تھے۔
میرے دوستوں نے مجھے ناقابل یقین نظروں سے دیکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ چلے گئے اور میں اپنے خیالات کے ساتھ تنہا تھا۔ میرے ذہن میں کوئی شک نہیں تھا کہ ٹائم مشین لوگوں کے سوچنے کے طریقے میں انقلاب پیدا کر سکتی ہے لیکن میں سوچتا تھا کہ کتنے لوگ مجھے اور میری ایجاد کو سنجیدگی سے لیں گے۔

۔۔۔۔۔

ایک ہفتہ گزرچکا تھا۔میں زندگی کا ایک وقت مستقبل میں گزار چکا تھا اور دوسرا زندگی کا وقت جو اب گزررہا تھا، وہ سست اور بورنگ لگ رہا تھا۔ اس کے علاوہ، میں نے زیادہ وقت اپنے آپ کو وینا کے بارے میں سوچتے ہوئے پایا۔
کیا یہ سب خواب تھا۔۔۔ مجھے یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ میں نے جو تجربہ کیا ہے اسی تجربے کو دوبارہ کرکے تصدیق ہو سکتی تھی۔ اس لیے میں نے مستقبل کا دوبارہ سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ شاید میں وینا کو بچا سکتا۔یا آگ میں مرنے سے پہلے اسے دیکھ سکتا۔ پھر میں نے اس بار کیمرہ بھی ساتھ لے لیا تاکہ ثبوت بھی لے کر آؤں۔۔۔۔پھر وینا کے بارے میں سوچتے ہوئے، میں ٹائم مشین کی سیٹ پر بیٹھ گیا اور اسٹارٹ بٹن کو دبا دیا۔۔

۔۔۔۔۔

(اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ٹائم ٹریولر کبھی واپس نہ آیا۔)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top