skip to Main Content

تحریری علاج

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
راشد اور رشید نے لڑائی جھگڑے سے ناک میں دَم کر رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔

”آپ نے ان دونوں کا کچھ سوچا؟“ ارشدصاحب کی بیگم نے چاے کی پیالی ارشد صاحب کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”کن دونوں کا؟ یہ اپنے راشد اور رشیدکا؟“ ارشدصاحب لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے بولے۔
”تو اور کس کا پوچھ رہی ہوں۔ سارے فساد کی جڑ یہی دونوں ہیں۔“ ارشدصاحب کی بیگم اپنی چاے کی پیالی ہاتھ میں لے کر قریبی صوفے پر بیٹھ گئیں۔
”اوں ہوں، اولاد کو اس طرح نہیں کہتے۔“ ارشد صاحب نے ٹوکا اور لیپ ٹاپ پر مصروف رہے۔
”آپ کو کیا معلوم اولاد کرتی کیا ہے۔ آپ تو آتے ہیں سال میں ایک بار مہینے بھر کے لیے اور اس بار تو صرف دس دن کے لیے آئے ہیں۔ ان میں بھی سو طرح کے کام ہوتے ہیں۔ رشتہ داروں، دوستوں سے ملنا ملانا، تحفے اور امانتیں پہنچانا، خریداری کے لیے جانا۔ پھر ذرا دیر کو گھر میں ہوتے ہیں تو یہ دفتر کا کام نگوڑا جان نہیں چھوڑتا۔“
”دفتر تو زندگی کے ساتھ جڑاہوا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اللہ روزی دے رہا ہے۔ دفتر کا کام تو کرنا ہی ٹھہرا۔ چلو ابھی نہیں کرتا۔ چاے تو پی لوں۔“ ارشد صاحب نے لیپ ٹاپ سے ہاتھ ہٹا لیا اور کرسی سے ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گئے۔ ”جی، آپ فساد کی جڑوں کا ذکر فرما رہی تھیں!“
”اوں ہوں، اولاد کو اس طرح نہیں کہتے۔“ ارشد صاحب کی بیگم نے ان کی نقل اُتاری اور ہنسنے لگیں۔ ارشد صاحب بھی ہنسی میں شریک ہو گئے۔
”میں سچ کہہ رہی ہوں۔ یہ دونوں تو ہاتھ سے نکلے جارہے ہیں۔ آپ کے نہ ہونے سے ان کی لڑائیاں عروج پر ہیں۔ لڑائی بلا ناغہ، پڑھائی میں ناغہ ہی ناغہ۔ جب دیکھو لڑ رہے ہیں۔ جب دیکھو جھگڑ رہے ہیں۔“
”اب میں بھی کیا کروں، سعودی عرب میں کام ہی کچھ ایسا ہے۔ دونوں ملکوں میں وقت کا فرق بھی ہے۔ میں فیکٹری سے رات گیارہ بجے اپنے اپارٹمنٹ پہنچتاہوں۔ اس وقت پاکستان میں رات کا ایک بج رہا ہوتا ہے۔جوتے موزے اُتار کر سب سے پہلے تم لوگوں سے اسکائپ پہ بات کرتا ہوں۔ تب کہیں جا کے کھانا گرم کر کے کھاتا ہوں، پھر نماز پڑھتا ہوں۔ اس سارے کام میں وہاں بھی رات کا ایک بج جاتا ہے۔ صبح پھر وہی فیکٹری!“ ارشد صاحب چاے کی چسکی لیتے ہوئے بولے۔
”ہاں یہ تو ہے۔ اللہ کا فضل ہے۔ آپ کی اس ملازمت سے کتنے ہی کام چل رہے ہیں۔ بچوں کو کیا احساس کہ ان کے ابو گھر سے دُور کتنی محنت مشقت کر رہے ہیں۔“ ارشد صاحب کی بیگم ٹھنڈی سانس بھر کر بولیں۔
”ہوجائے گا احساس ان شاء اللہ۔ مجھے معلوم ہے بیگم میرے یہاں نہ ہونے سے آپ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے مگر اپنی اولاد کے لیے یہ سب کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اللہ اس کا اجر دینے والا ہے۔“
”اللہ حساب بھی لینے والا ہے۔ اس نے اولاد دی ہے تو اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی دی ہے۔ جانے کیوں یہ دونوں اتنے جھگڑالو ہو گئے ہیں۔ عمر میں بھی تو سال بھرکاہی فرق ہے نا۔“ ارشد صاحب کی بیگم بولیں۔
”ویسے مجھے سعودیہ سے آئے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں۔ ان دنوں میں یہ دونوں ذرا سدھر گئے ہیں شاید۔“
”رہنے بھی دیجیے!“ ارشد صاحب کی بیگم ہاتھ ہلا کر بولیں۔”آپ گھر میں ہوتے ہی کب ہیں۔ آپ کے سامنے یہ دونوں بڑے نیک بنے رہتے ہیں۔ آپ کا قدم گھر سے نکلنے کی دیر ہے۔ پھر دنگل دیکھنے کے لیے تماشائی صرف میں ہی تو رہ جاتی ہوں یا پھر سال بھر کی گڑیا!“
”اچھا؟“
”جی۔۔ی۔۔ی!!! اب آپ کے آنے سے ایک دن پہلے ہی کی بات ہے۔ رشید نے اپنے اسکول کی کاپی کھانے کی میز پر چھوڑ دی تھی۔ راشد صاحب وہاں بیٹھے برگر کھا رہے تھے۔ برگر میں اُنھوں نے ڈھیروں کیچپ انڈیل لیا جو میز پر گرکر رشید کی کاپی پر نقش و نگار بنا گیا۔“
”ہوں، رشید کو اپنی کاپی کھانے کی میز پر نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔“ ارشد صاحب بولے۔
”ارے تو بھول گیا نا وہ اٹھانااپنی کاپی، وہیں بیٹھا ہوم ورک کررہا تھا پہلے۔راشد آنکھیں بند کرکے برگر کھا رہا تھا کیا؟ اب آگے کی سنیے۔ رشید نے اپنی کاپی اٹھائی تو وہ کیچو کیچپ ہو رہی تھی۔اس کے ہاتھ بھی کیچپ میں لتھڑ گئے تھے جو اس نے میرے دوپٹے سے صاف کیے۔ پھر راشد کو برا بھلا کہا۔اس نے غلطی نہیں مانی۔ رشید نے راشد کی کاپی نکال کراس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ ایک دوسرے کی خوب مرمت کی۔اس دھینگا مُشتی میں شیشے کا گلدان کرچی کرچی ہوگیا۔میں شور سن کر دوڑکر گئی۔ دونوں لڑاکا مرغوں کو بڑی مشکل سے الگ کیا مگر پھرراشد نے رشید کا اسکول بیگ باتھ روم لے جا کر پانی سے بھرے ٹب میں ڈبو دیا۔ دھینگا مُشتی کا دوسرادور شروع ہو گیا۔“
”چچ چچ چچ!“ ارشد صاحب نے اظہارِ افسوس کیا۔
”آپ تو بڑے آرام سے بیٹھے چچ چچ کر رہے ہیں۔ مجھ سے پوچھیے۔ میرا ہی جگر ہے جو ان دونوں کو سنبھال رہی ہوں۔ ساتھ میں گھر کے بکھیڑے اور گڑیا کے ڈھیروں کام۔“
”ہاں، مجھے اندازہ ہے۔“ ارشد صاحب دھیرے سے مسکراے۔
”صرف اندازے نہ لگائیں۔ آئے ہیں تو ان دونوں کی کچھ اصلاح کر کے جائیں۔ ابھی بھی دونوں لڑہی رہے ہوں گے۔ آپ گھر میں ہیں نا، اس لیے اونچی آواز میں نہیں لڑ رہے۔“
اسی وقت کسی بھاری چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ ارشد صاحب اور ان کی بیگم دونوں چونک گئے۔
”ہاے اللہ خیر!“ ارشد صاحب کی بیگم گھبرا کر بولیں اور ارشد صاحب چاے کی پیالی وہیں پٹخ کر بچوں کے کمرے کی طرف دوڑے۔ ان کی بیگم پیچھے پیچھے تھیں۔
بچوں کے کمرے میں عجب حال تھا۔ چھوٹی الماری زمین پر گری ہوئی تھی۔ رشید کے کپڑوں پر روشنائی کے تازہ تازہ دھبے تھے اور راشد صاحب کی قمیص اور پتلون پر دہی سے جا بجا آرائش نظر آرہی تھی۔ دہی بھی شاید ابھی ابھی ”استعمال“کیا گیا تھا۔ اس کے قطرے آستین کے کناروں سے ٹپک رہے تھے۔
”یہ کیا ہورہا ہے؟ میں پوچھتا ہوں یہ ہو کیا رہا ہے؟“ کمرے اور بچوں کی حالت دیکھ کر ابو کا پارہ بہت بلند ہو چکا تھا۔
”یہ سب رشید کی وجہ سے……“ راشد نے جواب دینے کی کو شش کی ہی تھی کہ اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی رشید نے بات کاٹ دی۔
”میں نے کچھ نہیں کیا ابو، راشد بڑا معصوم بن رہا ہے۔“
”آپ دونوں ……“ ارشد صاحب مارے غصہ کے جملہ مکمل نہ کر سکے۔ دونوں بچے سر جھکائے چُپ چاپ کھڑے تھے۔
ارشد صاحب دونوں بچوں کو چند لمحوں تک گھورتے رہے۔ پھر جیسے اُنھوں نے رکا ہوا سانس خارج کیا۔
”آپ دونوں پہلے یہ الماری اٹھانے میں میری مدد کریں۔ پھر منھ ہاتھ دھو کرلباس تبدیل کریں اور سو جائیں۔اچھا نماز پڑھ لی؟“
دونوں بچوں نے اپنے جھکے ہوئے سر نفی میں ہلائے۔
”پہلے نماز ادا کریں، پھر سو جائیں۔ میں آپ دونوں سے کل بات کروں گا۔“
بچوں کی مدد سے الماری اُٹھانے کے بعد ارشد صاحب واپس اپنے کمرے میں آگئے۔اب وہ سخت بے چینی کا شکار تھے۔ دفتر کا کام کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اُنھوں نے دفتر ای میل کر کے اطلاع دے دی کہ وہ کل صبح ساری فائلیں بھیج دیں گے۔ اس کے بعد اُنھوں نے وضو کیا اور دو رکعت صلوٰۃ الحاجات ادا کرنے کھڑے ہوگئے۔ نماز کے بعد اُنھوں نے بہت عاجزی سے دعا کی کہ اللہ ان کے دونوں بیٹوں کوبہت اچھی سیرت و کردار عطا فرمائے، سعادت مند بنائے اور والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آنسو بہتے رہے اور وہ بڑی دیر تک یہی دعائیں کرتے رہے۔
اگلے دن بچوں کے اسکول کی چھٹی تھی۔ ارشد صاحب کو ان کی بیگم بتا چکی تھیں کہ چھٹی والے دن بچے دیر تک سوتے رہتے ہیں، لیکن ارشد صاحب نے بچوں کو صبح فجر کی نماز سے پہلے زبردستی جگا دیا۔ بچے منھ بسورتے ہوئے اُٹھ گئے۔ ارشد صاحب بچوں کو اپنے ساتھ لے کر مسجد گئے۔ بچے اتنی صبح جاگنے کے عادی نہ تھے۔ بار بارمنھ پھاڑ کر جمائیاں لے رہے تھے۔ ارشد صاحب نے بچوں کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق، جمائی آئے تو منھ پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے۔
فجر کی نماز کے بعد ارشد صاحب بچوں کو قریبی پارک لے گئے۔بچوں کو صبح کے وقت پارک بہت اچھا لگا۔ ٹھندی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور مختلف پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ابو کی ہدایت پربچے بیٹ اور بال بھی ساتھ لے گئے تھے۔ پارک میں تینوں نے تقریباً ایک گھنٹہ تک کرکٹ کھیلی۔ وہاں آئے ہوئے تین لڑکے بھی کھیل میں شامل ہوگئے۔بڑا مزہ آیا۔ گھر واپس پہنچنے کے بعد ارشد صاحب نے بچوں کو غسل کر کے ناشتہ کی میز پر پہنچنے کا حکم دیا۔ تقریباً بیس منٹ بعد بچے ناشتہ کی میز پر موجود تھے۔ ناشتہ کے بعد ارشد صاحب نے دونوں بچوں کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ دونوں بچے کچھ پریشان سے آکر بیٹھ گئے۔
”ہاں بھئی، آپ دونوں کو تحفہ تو میں نے دیا ہی نہیں۔“ ارشد صاحب نے بات کا آغاز کیا۔تحفہ کا ذکر چھڑا تو بچوں کے چہرے کِھل اُٹھے، لیکن ابو کا اگلاجملہ سن کر دونوں کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ ابو کہہ رہے تھے:
”لیکن، یہ تحفے آپ لوگوں کو فوراً نہیں ملیں گے۔ آپ لوگوں کو ایک کام کرنا ہوگا۔“
بچوں کے چہرے سوالیہ نشان بن گئے۔ ابو نے اپنی میز کی دراز کھولی اور اس میں سے دوقلم اور دو خوب صورت سی نوٹ بکس نکال لیں۔راشد کو ایک قلم اور ایک نوٹ بک تھماتے ہوئے بولے:
”یہ نوٹ بک رشید کی ہے!“
دونوں بچوں کے چہروں پر حیرانی رَقْص کرنے لگی اور راشد نے کہا: ”ابو، میرا نام راشد ہے۔آپ رشید کی نوٹ بک مجھے دے رہے ہیں۔“
”بالکل رشید کی نوٹ بک ہے، اسی لیے تو دے رہا ہوں!“ ابو مسکراے۔”آج پورا دن راشدآپ کو رشید کی رپورٹ لکھنی ہے۔ اس نے کون سے اچھے کام کیے اور کون سے بُرے۔دائیں طرف کے صفحہ پر اچھے کام اور بائیں طرف کے صفحہ پر بُرے کام لکھیے گا۔ رات دس بجے یہ نوٹ بک مجھے واپس کر دیں اور یہ نوٹ بک راشد کی ہے جس پر رشید کو راشد کی رپورٹ لکھنی ہوگی۔“ اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے ایک قلم کے ساتھ دوسری نوٹ بک رشید کے ہاتھوں میں دے دی۔
”اب دیکھتے ہیں کہ کیا رپورٹ ملتی ہے۔ اس کے بعد ہی آپ لوگوں کو تحفہ دینے پر غور کیا جائے گا اور ہاں! خراب رپورٹ پر سزا بھی مل سکتی ہے۔“
دونوں بچے اپنی اپنی نوٹ بک لے کر کمرے سے، کچھ اُلجھے ہوئے سے نکل گئے۔
راشد نے کمرے سے نکلتے ہی رشید کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ وہ کیا کرتا ہے۔ کس طرح بات کرتا ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ رشید بھی اس پر کڑی نظر رکھ رہا ہے۔ اسی وقت امی نے باورچی خانے سے آواز دی۔ ”راشد…… راشد!“
عام دنوں میں تو امی کسی ایک بچے کو آواز دیتی رہ جاتی تھیں اور وہ اپنے کھیل میں مگن رہتا تھا، پھر امی دوسرے بچے کو آوا ز دیتی تھیں، وہ بھی سنی اَن سنی کر دیتا تھا، مگر آج صورتِ حال مختلف تھی۔ راشد کی نگرانی ہورہی تھی۔ وہ فوراً باورچی خانے میں پہنچ گیا۔”جی امی!“
امی نے اتنی سعادت مندی پر اسے حیرانی سے دیکھا اور بولیں: ”بیٹا! انڈے لے آؤ۔“
راشد نے اپنی عادت کے مطابق کہنا چاہا۔ ’امی، رشید کو کہہ دیں، مگر اس نے زبان پر آیا ہوا جملہ بڑی مشکل سے روکا۔ رپورٹ خراب ہو سکتی تھی۔
”ابھی لے آتا ہوں، لائیے پیسے دیجیے، کتنے انڈے لانے ہیں؟“
امی نے بے یقینی سے اسے دیکھا اور کیبنٹ کی دراز کھول کر پیسے تھما دیے۔ ”ایک درجن لے آؤ۔“
راشد انڈے لینے کے لیے نکلا تو اسے فکر تھی کہ اب وہ رشید کی نگرانی کیسے کرے گا۔ اس نے سوچا کہ وہ انڈے لے کر جلد سے جلد گھر واپس آجائے گا۔ اسی وقت باہر سے آواز آئی۔ ”دودھ والا۔“
امی نے آواز دی،”رشید! دیکھو دودھ والا آیا ہے۔“ عام دنوں میں کئی بار آواز لگانے کے بعد خود امی ہی کو دودھ لینے کے لیے دروازے تک جانا پڑتا تھا لیکن آج رپورٹ بن رہی تھی۔ رشید امی کی ایک آواز سنتے ہی دروازے پر تھا۔ اس سے پہلے وہ آنے والے کسی فرد کو سلام نہ کرتا تھا لیکن راشد کو گزرتے دیکھ کر اس نے دودھ والے کو سلام کیا۔ دودھ والے نے بڑے زور سے جواب دیا اور بولا:”مولاخوش رکھے، اَج گھر او،چھٹی اے؟ دُدھ کِنّا کاکے؟“

راشد انڈے لے کر گھر لوٹا تو امی نے اسے پودوں کو پانی دینے پر لگا دیا۔ راشد نے نہ چاہتے ہوئے بھی پانی کے پائپ کو نل کی ٹونٹی سے لگایا اور پانی دینے لگا۔ اس کی خواہش تھی کہ اُکتا دینے والے اس کام کو جلدی نمٹا دے۔ وہ پانی دینے کی جلدی میں ہر طرف پانی اُڑا رہا تھا۔ چند لمحوں میں اس نے پورا صحن تر بتر کر دیا۔چند منٹ پہلے دکان سے سودا آیا تھا۔ آٹے کی تھیلیاں، دالیں اور مسالے وغیرہ دکان والا گھر کے دروازے کے اندر رکھ گیا تھا۔ راشد نے دکان سے آنے والے سودے کو بھی پانی دے دیا۔!اب اسے گھر سے باہر لگی کیاری میں بھی پانی دینا تھا۔ پائپ گھر سے باہر نکال کر وہ باہر کی کیاری میں دُور سے پانی پھینکنے لگا۔ اس کوشش میں سامنے والی آنٹی، موٹر سائیکل چلاتا ایک نوجوان اور دو مکان چھوڑ کر رہنے والے صدیقی انکل بھی وہاں سے گزرتے ہوئے زد میں آگئے۔ ان سب نے خاصی ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ ساری صورتِ حال رشید کے لیے بڑی خوشی کا باعث تھی۔ اس نے خوب نمک مرچ لگا کر راشد کی رپورٹ لکھی، لیکن کچھ ہی دیر بعد راشد کو موقع مل گیا۔
امی نے رشید سے کہا کہ کھڑکیوں پر لگے پردے اُتار دے۔ رشید نے منھ تو بنایا لیکن پردے اتار دیے۔ امی واشنگ مشین میں کپڑے دھو رہی تھیں۔ اُنھوں نے پردے بھی دھو دیے اور رشید سے کہا کہ دھلے ہوئے پردے سوکھنے کے لیے چھت پر لٹکا آئے۔ رشیدنے تنک کر کہا، ”واہ! پردے کھڑکیوں سے میں اتاروں اور سوکھنے کے لیے بھی میں ہی لے جاؤں؟“
امی نے راشد کو آواز دی۔ راشد نے پردے چھت پر لے جاتے ہوئے، رشید کو کام چور کہہ دیا۔ اس پر رشید کے آگ لگ گئی۔ وہ راشد کے پیچھے پیچھے چھت پر پہنچ گیا۔ دونوں میں تکرار ہوئی اور قریب تھا کہ مار کٹائی شروع ہو جاتی، راشد نے رپورٹ لکھنے کی دھمکی دی جس پر لڑائی ٹل گئی۔ نیچے آکر راشد نے رپورٹ بہر حال لکھ ڈالی۔
ظہر کا وقت ہوا تو دونوں بچوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی نماز کے لیے جانا پڑا، حالانکہ ابو گھر پر نہیں تھے۔ مسجد سے واپس آئے تو امی نے کھانا نکال دیا۔ رشید نے کھانے میں چاول دیکھ کر بلند آواز میں احتجاج کیا اور کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ آخر امی کو مجبورا ًآٹا گوندھ کر روٹی پکانی پڑی۔رشید کا یہ کارنامہ بھی راشد نے خوش ہو کر نوٹ بک کے بائیں صفحہ پر تفصیل سے درج کر دیا۔ کھانے کے بعد امی نے کہا کہ برتن اٹھانے میں مدد کریں، لیکن یہ حکم چونکہ کسی ایک بچے کو نہیں دیا گیا تھا اس لیے دونوں بچے بے نیازی سے اٹھ کر لاؤنج میں آگئے۔ تھوڑی دیر تک دونوں ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھتے رہے۔ پھر راشد نے کہا کہ کارٹون لگا تے ہیں۔ رشید کرکٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس پر دونوں میں تکرار ہو گئی۔عام دنوں میں تو بات دھینگا مُشتی تک آسانی سے پہنچ جاتی مگر آج دونوں ایک دوسرے کو غصیلی نظروں سے دیکھ کر رہ گئے۔
کچھ دیر بعد دونوں کو نیند آگئی۔ امی نے عصر کی جماعت ہونے سے پندرہ منٹ پہلے دونوں کوآواز دی۔ رشید تو آنکھیں مَلتا ہوا اٹھ بیٹھا لیکن راشد پڑا سوتا رہا۔ رشید نماز عصر پڑھ کر مسجد سے آیا تو راشد اسی طرح سو رہا تھا۔ رشید نے فوراً رپورٹ لکھ ڈالی۔ اسی طرح پورا دن گزر گیا۔ راشدتمام وقت چوکنا رہا کہ رشید اس کی خراب رپورٹ نہ لکھ دے۔ یہی کیفیت رشید کی تھی۔ کئی بار تو یہ ہوا کہ دونوں بچے صرف ایک دوسرے پر نظریں جمائے بیٹھے رہے۔راشد نے نوٹ بک میں لکھ دیا کہ رشیدبڑی دیر تک بیٹھا میری نگرانی کرتا رہا۔ اس طرح اس نے کوئی اور کام نہ کر کے وقت ضائع کیا۔
رات ٹھیک دس بجے دونوں بچے اپنی اپنی نوٹ بک لے کر ابو کے کمرے کے دروازے پر تھے۔ ابو لیپ ٹاپ پر کام کر رہے تھے۔ دونوں بچوں نے سلام کیا۔ ابو نے لیپ ٹاپ سے سر اٹھا کر دیکھا اور خوش ہو کر بولے:
”آئیے بیٹھیے۔“
دونوں بچوں نے اپنی اپنی نوٹ بکس پیش کر دیں۔ ابو نے مسکرا کر کہا۔”ٹھیک ہے، میں دونوں رپورٹس پڑھوں گا۔ آپ کی امی بھی مجھے رپورٹ دیں گی۔ مجھے خود بھی اندازہ ہورہا ہے کہ اللہ کے فضل سے آج آپ دونوں کا دن بہت سکون سے گزرا ہے۔“
”ابو!“یہ راشد کی آواز تھی۔ابو اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔”ابو! ہم دونوں کو ایک دوسرے سے شکایت ہو سکتی ہے کہ جان بوجھ کراس نے رپورٹ خراب لکھ دی ہے۔“
”اچھا! تو پھر کیا کریں؟“ ابو نے پوچھا۔
”ہر ایک اپنی رپورٹ خود لکھے تو صحیح رہے گا۔“ راشد نے تجویزدی اور رشید نے بھی تائید میں سر ہلایا۔
”ایسی بات ہے؟ تو یہ لے لیں۔“ ابو نے اپنی دراز سے نکال کر دونوں بچوں کو ایک ایک نوٹ بک تھما دی۔ ”کل رات دس بجے ہر بچہ اپنی اپنی رپورٹ لے کر آئے گا۔“ دونوں بچے ابو کو سلام کر کے کمرے سے نکل گئے۔
اگلے دن اسکول جانا تھا۔ راشد اور رشید دونوں نے خود کو بہت پُرسکون محسوس کیا۔ گزشتہ روز تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ہر وقت گھور رہا ہو۔ دونوں بچوں نے اپنی اپنی رپورٹ خود تیار کی۔ راشد نے ظہر اور مغرب کی نمازیں نہیں پڑھیں۔اسکول سے واپس آکر کھانے کے بعد وہ سو گیا تھا اور مغرب کے وقت وہ بیٹھا ٹی وی پر میچ دیکھ رہا تھا جو بڑے سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہو چکا تھا، لیکن چونکہ اپنی رپورٹ خود تیار کرنی تھی، اس لیے فکر نہ تھی۔ راشد نے اپنی نوٹ بک میں اطمینان سے لکھ دیا کہ کسی وجہ سے ظہر اور مغرب کی نمازیں چھوٹ گئیں۔ رشید نے بھی اپنی نوٹ بک میں اپنی چھوٹی سے چھوٹی نیکی نمایاں کر کے لکھی اور بُرے کاموں کا ذکر سرسری انداز میں کیا۔البتہ دونوں نے کوشش کی کہ آپس میں لڑائی نہ ہو۔
اگلی رات دس بجے دونوں بچے اپنی اپنی نوٹ بک لے کر ابو کے کمرے میں موجود تھے۔ ابو نے نوٹ بکس لے کر رکھ لیں اور بولے: ”ٹھیک ہے، میں ان کا جائزہ لوں گا۔“
اگلی رات دس بجے ابو نے دونوں بچوں کو آواز دی۔ دونوں چراغ کے جن کی طرح ایک آواز میں ابو کے کمرے میں موجود تھے۔
”السلام علیکم ابو۔“
”وعلیکم السلام بیٹے، آئیے بیٹھیے۔“ دونوں بچے بیٹھ گئے تو ابو نے کہنا شروع کیا۔”میں نے دونوں دنوں کی رپورٹس کا جائزہ لیا۔ پہلے دن دونوں کی رپورٹس میں اچھے کام تو بہت کم لکھے ہوئے ہیں لیکن بُرے کاموں کی فہرست لمبی ہے۔ دوسرے دن کی رپورٹس میں صورتِ حال اُلٹی ہے۔ ان میں اچھے کاموں کی فہرست لمبی ہے جبکہ بُرے کام اِکا دُکا لکھے گئے ہیں۔کیا آپ لوگ جانتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟“
بچے سوچ میں پڑ گئے۔ ابو مسکراے اور بولے: ”اس لیے کہ پہلے دن ہر بچے کو دوسرے کی رپورٹ لکھنی تھی۔ ہر بچے کی خواہش یہ تھی کہ دوسرے کی کوئی برائی لکھنے سے نہ رہ جائے اور اگر کوئی اچھا کام کیا ہے تو اسے معمولی سا بنا کر پیش کیا جائے۔ دوسرے دن صورتِ حال مختلف تھی۔ ہر بچے کو اپنی رپورٹ خود لکھنی تھی، ہر ایک نے اپنے اچھے کاموں کی رپورٹ خوب بڑھا چڑھا کر لکھی اور برے کاموں کا ذکر سرسری سا کر دیا۔ یہ بات مجھے پسند نہیں آئی کیونکہ میرے بچوں نے دیانت داری سے کام نہیں لیا۔“
دونوں بچوں کے سر جھک گئے۔ ہر ایک کا چہرہ یہ کہہ رہا تھا کہ ابو ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں۔ ابو نے بات جاری رکھی۔
”میرے پیارے بچو، کسی کی رپورٹ بالکل درست اور کھرے انداز میں لکھنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں۔ اس لیے، کہ کوئی بھی فرد کسی دوسرے کے ساتھ چوبیس گھنٹے نہیں رہ سکتا۔ دوسری بات، اگر وہ رہ بھی لے تو دوسرے کی نیت اور ارادوں کا بالکل درست اندازہ کیسے لگا سکتا ہے اور مکمل غیر جانب دار ہو کر کیسے رپورٹ لکھ سکتا ہے؟ اس کے علاوہ یہ امکان بھی ہو سکتا ہے کہ ایک فرد اپنی رپورٹ لکھنے والے کو کچھ دے دلا کریا کوئی دھمکی دے کر اس بات پر تیار کر لے کہ وہ اس کی رپورٹ اچھی لکھ دے گا۔“
دونوں بچے کچھ شرمندہ سی نظروں سے ابو کو دیکھ رہے تھے جو کہہ رہے تھے:
”میرے بچو! اسی لیے ہمارے رب اور مالک نے ہماری رپورٹ لکھنے کا کام اپنی ایک اور مخلوق، فرشتوں کے حوالے کر دیا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ ہم جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں، وہ اس کو اپنی نوٹ بک میں لکھتے جاتے ہیں۔ نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہمارے دائیں کندھے پر اور گناہ لکھنے والا فرشتہ ہمارے بائیں کندھے پر رہتا ہے۔“
دونوں بچوں نے غیر ارادی طور پر اپنے کندھوں پر نظر ڈالی۔ ابو مسکراے اور بات جاری رکھی۔
”ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’کراماً کاتبین‘ کہا ہے یعنی معزز لکھنے والے۔ اس کا مطلب یہ کہ وہ بہت دیانت دار ہیں۔ کسی کی رپورٹ لکھتے ہوئے کوئی کمی زیادتی نہیں کرتے۔ کوئی ان کو رشوت نہیں دے سکتا۔وہ کبھی اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر نہیں ہوتے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا، یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ یعنی تم جو کرتے ہو، وہ اسے جانتے ہیں۔“
دونوں بچوں نے سر ہلایا۔
”آپ نے یہ کبھی سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرشتے کیوں مقرر کیے ہیں؟“
دونوں بچے سوچ میں پڑ گئے۔
”اس لیے میرے پیارے بچو کہ ہم سب کو اللہ نے اس دنیا میں آزمانے کی غرض سے تھوڑے عرصے کے لیے بھیجا ہے۔ ایک دن یہ ساری دنیا ختم کر دی جائے گی اور تمام انسان حشر کے میدان میں پیش ہو جائیں گے۔ ہر ایک کو اپنا اپنا نامہئ اعمال اٹھانا ہوگا۔ جس نے دنیا میں نیک کام زیادہ کیے ہوں گے اس کے سیدھے ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جائے گا اور جس نے برے کام زیادہ کیے ہوں گے ان کو بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ اٹھانا ہوگا۔یہ وہی اعمال نامہ ہوگا جو ہمارے کندھوں پر موجود فرشتے لکھ رہے ہیں۔قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت لوگ چیخ اٹھیں گے کہ یہ کیسی کتاب ہے جس میں ہمارا کوئی عمل چھوٹا یا بڑا لکھنے سے نہیں رہ گیا ہے۔“
دونوں بچے بہت متاثر نظر آرہے تھے۔
”دنیا کی زندگی بہت چھوٹی ہے میرے بچو، جبکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ کی ہے۔ دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ اٹھانے والا آخرت کے امتحان میں کامیاب قرار دیا جائے گا۔ اسے ہمیشہ کے لیے جنت کا آرام ملے گا۔ وہ ہمیشہ جوان اور صحت مند رہے گا اور جو چاہے گا کھائے گا پیے گا۔اسے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔اور سنو! جنت میں کسی کے دل میں دوسروں کے خلاف کوئی کھوٹ، کینہ یا نفرت نہ ہوگی۔ وہاں آپ دونوں میں کبھی کوئی لڑائی نہ ہوگی۔“
دونوں بچوں نے شرمندگی سے سر جھکا لیے۔ ابو کہہ رہے تھے: ”اور جس کے بائیں ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جائے گا وہ ناکام قرار دیا جائے گا۔ اسے جہنم کا سخت عذاب دیا جائے گا۔ میرے بچو، آپ کو یہاں ذرا سی چوٹ لگ جائے تو ماں باپ بے چین ہو جاتے ہیں۔ آپ لوگوں کو شاید یاد نہیں، راشد چھوٹا سا تھا، اس نے ایک بار گرم استری کو ہاتھ لگا دیا تھا۔ اس کی دو انگلیاں جل گئی تھیں۔ ہم لوگ کئی دن پریشان رہے۔ اس انسان کا کیا حال ہوگا جس کو بھڑکتی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔“ ابو کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
”ابو! ……اللہ نے چاہا تو……اب آپ یا امی کو مجھ سے…… کوئی شکایت نہ ہوگی۔“ راشد نے رک رک کر کہا۔
”ابو ……ان شا ء اللہ……مجھ سے بھی!“ رشید نے بھی یقین دلایا۔
ابو کا چہرہ خوشی سے روشن ہوگیا۔ اُنھوں نے باہیں پھیلا کر اپنے دونوں بچوں کو آغوش میں سمیٹ لیا۔ دونوں کے ماتھے پر بوسہ دے کر بولے:
”بیٹا،اصل بات یہ ہے کہ اپنے رب کو ناراض کبھی نہ کریں۔ ہمارا رب یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اس کی کسی بھی مخلوق کو دکھ نہ دیں۔ والدین، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کا تو حق بہت زیادہ ہے۔ان سب رشتوں کی شکل میں اللہ نے ہمیں عظیم نعمتیں عطا کی ہیں، ان کی قدرکریں، ان سے پُر خلوص محبت کریں، ان کے حقوق ادا کریں اور ان کو کبھی تکلیف نہ پہنچائیں۔“
دونوں بچے ابو کی بات بڑے غور سے سن رہے تھے۔پھر ابو کہنے لگے:
”میرے بچو!تمام والدین اپنے بچوں کا بھلا چاہتے ہیں۔ میرے والدچاہتے تھے کہ ان کے بچوں کی تربیت بہت اچھی ہو۔ اُنھوں نے میرا نام ارشد پتا ہے کیوں رکھا؟اس کا مطلب ہے، نہایت ہدایت پایا ہوا۔ پھر اللہ نے مجھے پہلا بیٹا دیا تو اس کا نام بھی آپ کے دادا نے رکھا، راشد، اس کے معنی بھی ہیں، ہدایت پانے والا، پھر سال بھر بعد اللہ نے دوسرا بیٹا دیا تو آپ کے داداہی نے اس کا نام رکھا،رشید، اس کا مطلب بھی وہی ہے، ہدایت پایا ہوا۔ آپ کے دادا کا نام پتاہے کیا تھا؟“
”ارشاد احمد!“ دونوں بچے ایک ساتھ بولے۔
”شاباش، ارشاد کا مطلب ہے، ہدایت۔ آپ کے دادا کا کہنا تھا کہ ان شاء اللہ ان کے بیٹے ارشدارشاداور دونوں پوتوں راشد ارشد اور رشید ارشد کو ہمیشہ اللہ کی ہدایت اور رحمت حاصل ہوگی۔“
”جی!“ دونوں بچوں نے سعادت مندی سے سر ہلائے۔

”اس لیے میرے پیارے بچو، اس دنیا میں اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک یہ خیال رکھنا کہ اللہ ہمارے ہر عمل ہی نہیں ہمارے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے واقف ہے۔ لیکن اس نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے فرشتوں کو مقرر کر دیا ہے جو ہمارے ہر عمل کی رپورٹ تیار کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ قیامت کے دن ہمارے اپنے اعضا، ہاتھ پاؤں، آنکھیں، زبان، یہاں تک کہ ہمارے جسم کی کھالیں تک ہمارے اعمال کی گواہی دیں گی۔ اللہ ہمیں اس وقت کی سختی سے محفوظ رکھے۔“ ابو کی آوازبھرّا گئی تھی۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر ابو اُٹھے اور یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے،”آپ لوگ یہیں بیٹھیں، جائیے گا نہیں۔“
راشد اور رشید ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھتے رہ گئے۔ چند لمحوں بعد کچھ کھڑکھڑاہٹ کی سی آواز آئی۔ دونوں بچوں نے دروازے کی طرف دیکھا۔ ابو اندر داخل ہوئے، وہ ایک ہاتھ سے بہت خوب صورت سائیکل کا ہینڈل تھامے ہوئے تھے۔ پیچھے پیچھے امی بھی کمرے میں داخل ہوئیں۔ ان کا ہاتھ بھی ویسی ہی خوب صورت سائیکل کے ہینڈل پر تھا۔دونوں سائیکلیں ایک جیسی تھیں، صرف رنگ مختلف تھے۔ ابو نے سائیکل راشد کے ہاتھ میں اور امی نے سائیکل رشید کے ہاتھ میں تھما دی۔
”اپنے پیارے بچوں کے لیے ”تحریری علاج“ کی کامیابی کی خوشی میں!“ امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بچوں کے چہرے سوالیہ نشان بن گئے۔
”ہاں! مگر اب دوبارہ یہ ”تحریری علاج“ آپ دونوں سے کروانے کی نوبت نہ آئے۔ یہ کام فرشتوں ہی کو کرنے دیں!“ ابو نے ہنس کر کہا۔
دونوں بچے بات کو سمجھ کر جھینپی ہوئی ہنسی ہنسنے لگے۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top