تیسرا ساتھی
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم نے اس چیز کو دیکھ کر حیرت سے پلکیں جھپکائیں۔ اس کے پاؤں کی ٹھوکر سے وہ چیز کچھ دور تک لڑھکتی چلی گئی تھی۔ وہ اپنی گیند کو بھول کر اس چیز کی طرف بڑھا۔
”ارے یہ تو کھیلنے والی گولی ہے….“ اس کے منہ سے دبی آواز میں نکلا۔
”لیکن ہے بہت خوب صورت…. کم از کم میں نے آج تک اتنی خوب صورت گولی کسی دکان پر تو دیکھی نہیں۔“ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ پھر بے خیالی میں اس نے وہ گولی اٹھا لی…. ساتھ ہی اس نے گیند کی تلاش میں نظریں گھمائیں…. گیند دور کونے میں پڑی نظر آئی۔ وہ دبے پاؤں گیند کی طرف بڑھا۔
”قاسم کے بچے…. اتنی دیر لگا دی گیند لانے میں…. خاقانی صاحب نے پکڑ تو نہیں لیا تھا۔“
” نہیں۔“ ایاز کی چلاتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
”گھر کے لوگ تو بیرونی حصے میں تھے ہی نہیں…. دروازہ کھلا ہوا تھا، بس میں تو بغیر اجازت ہی اندر چلا گیا تھا…. اور اس سے پہلے کہ کوئی صحن کی طرف نکل آتا اور مجھے دیکھ لیتا، میں گیند اٹھا لایا۔“
”ارے واہ…. یہ تم نے اچھا کیا…. ورنہ خاقانی صاحب بڑا برا کرتے…. چلو گیند کراؤ۔“
”نہیں! پہلے ادھر آؤ…. تمہیں ایک چیزدکھاتا ہوں۔“
یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ ایاز بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑا …. اور اس کے پیچھے ہی اندر داخل ہو گیا۔
”ایسی کیا چیز مل گئی۔“ ایاز نے قاسم کو گھورا۔
”چیز تو عام سی ہے، لیکن اس کا رنگ بہت ہی پیارا ہے…. کم از کم میں نے تو اتنا خوب صورت رنگ کبھی دیکھا نہیں۔“
”دکھاؤ بھئی…. ہے کیا۔“ ایاز نے منہ بنایا۔
قاسم نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور گولی نکال کر ہتھیلی اس کے سامنے کر دی…. ایاز نے اس گولی کو گھور کر دیکھا…. پھر کہنے لگا۔
”واقعی بہت خوب صورت رنگ ہے، اس کا…. لاؤ…. یہ تم مجھے دے دو۔“
”تمہیں کیوں دے دوں…. نہیں دیتا۔“
” تب میں ابو کو بتا دوں گا…. کہ تم بغیر اجازت خاقانی صاحب کے گھر میں چلے گئے تھے اور وہاں سے صرف اپنی گیند ہی نہیں، ان کے بیٹے کی گولی بھی اٹھا لائے ہو۔“
”نہیں…. نہیں…. اس طرح یہ گولی ہمیں واپس کرنی پڑے گی…. نہ تمہارے پاس رہے گی نہ میرے پاس…. تم ایسا کرو…. گیند اٹھانے کے بہانے وہاں چلے جاؤ…. وہاں ایسی اور بھی گولیاں ہوں گی…. ان میں سے ایک تم بھی اٹھا لاؤ۔“ قاسم نے ترکیب بتائی۔
” اور اگر وہاں ایسی کوئی اور نہ ملی۔“
” اس صورت میں ہم آپس میں کوئی بات طے کریں گے…. لیکن پہلے تم کوشش تو کر لو۔“
” اچھی بات ہے لیکن میں پہلے گیند اندر اچھا لوں گا تاکہ کوئی باہر نکل آئے تو اس سے کہہ تو سکوں…. گیند اٹھانے آیا ہوں۔“
”ٹھیک ہے…. یونہی سہی۔“ قاسم نے کندھے اچکائے۔
اب دونوں بھائی باہر نکل آئے۔ بلا اب قاسم نے لے لیا…. خاقانی صاحب کے گھر کے سامنے پہنچ کر ایاز نے گیند ان کے صحن کی طرف اچھال دی۔ گیند پہلے اونچی گئی، پھر سیدھی صحن کی طرف آئی۔ یہ دیکھ کر ایاز مسکرایا۔
”تم نے دیکھا…. گیند بالکل صحن میں گری ہے۔“
”ہاں! دیکھ لیا…. اب تم جاؤ۔“ قاسم نے منہ بنایا۔
”جل گئے۔“ ایاز مسکرایا۔
” میں کیوں لگا جلنے…. ؟“ اس نے جل کر کہا۔
ایاز ہنس پڑا…. پھر اس نے خاقانی صاحب کے دروازے کی طرف دوڑ لگادی۔ اتوار کا دن تھا اور صبح سویرے کا وقت…. بے نمازی لوگ اتوار کو تو خاص طور پر دیر تک سوتے ہیں…. اس لیے پورا محلہ سویا پڑا تھا…. انہیں بھی اگر کرکٹ کا جنون نہ ہوتا تو شاید وہ بھی سو رہے ہوتے…. اپنی گلی میں کرکٹ کھیلنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
دروازے پر رک کر اس نے اندر کا جائزہ لیا…. صحن میں اب بھی کوئی نہیں تھا۔ ان کی گیند آس پاس کے گھروں میں گرتی ہی رہتی تھی اور وہ گیند لینے کے لیے جاتے رہتے تھے۔ کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا تھا…. دونوں چوتھی اور پانچویں جماعت کے بچے تھے…. محلے کے سبھی لوگ انہیں پسند کرتے تھے اور عورتیں تو ان سے گھر کا سامان بھی منگوا لیتی تھیں۔ ان کی عادت تھی ، وہ بھاگ بھاگ کام کر دیتے تھے۔
ایاز بے دھڑک اندر داخل ہوگیا…. اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ گیند فوراً ہی اسے نظر آگئی…. لیکن گیند کے لیے تو وہ آیا ہی نہیں تھا…. وہ تو اس جیسی گولی کی تلاش میں آیا تھا جیسی قاسم کو ملی تھی…. اور پھر اسے ایک گولی ایک گملے کی اوٹ میں پڑی نظر آگئی۔ خاقانی صاحب نے صحن میں دیوار کے ساتھ ساتھ پھولوں کے گملے رکھے ہوئے تھے۔
گولی نظر آتے ہی اس کا چہرہ کھل گیا…. اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، گولی اٹھائی اور جیب میں ڈال لی…. پھر گیند کی طرف بڑھا…. عین اس لمحے اندرونی دروازہ کھلا ۔
” ارے…. ایاز…. یہ تم ہو….“
”جج…. جی….کر…. گگ…. گیند…. گیند اندر آگری تھی، دروازہ کھلا تھا…. اس لیے میں نے دستک نہیں دی اور گیند اٹھانے کے لیے اندر آگیا…. مم مجھے معاف کردیں انکل۔“
”کوئی بات نہیں ایاز بیٹے…. گیند اٹھا لو صبح دودھ والا آیا تھا دودھ تو لے لیا۔ دروازہ اندر سے بند کرنا بھول گیا۔“
یہ کہتے ہوئے وہ مسکرا دیے اور ایاز گیند اٹھاتے ہی باہر نکل آیا۔ باہر قاسم اس کا انتظار کر رہا تھا۔
” کیوں مل گئی۔“ قاسم نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”ہاں! انکل خاقانی صحن میں آگئے تھے۔ اس سے پہلے میں اٹھا چکا تھا۔ “
”چلو…. چلتے ہیں…. آج اتنی کرکٹ کافی ہے۔“
دونوں گھر میں داخل ہوئے…. قاسم نے بے چینی کے عالم میں کہا۔
”دکھاﺅ اپنی والی گولی۔“
ایاز نے جیب سے گولی نکال کر ہتھیلی اس کے سامنے کردی۔ ”یہ یہ…. یہ تو بالکل ایک جیسی ہے۔ چلو اچھا ہے…. اب دونوں کے پاس ایک ایک گولی ہوگئی۔“
”بھئی…. انکل خاقانی یہ لائے کہاں سے ہیں…. بہت ہی خوب صورت ہیں۔“ ایاز نے قدرے پریشان ہو کر کہا۔
” یہی تو مشکل ہے…. ہم تو یہ بات ان سے پوچھ بھی نہیں سکتے…. اس طرح تو ہماری چوری پکڑی جائے گی۔“
”ہوں…. نہ ہم گھر میں کسی کو دکھا سکتے ہیں…. ابو امی پوچھیں گے…. تم یہ کہاں سے لائے ہو۔“
” بس تو پھر ان دونوں گولیوں کو اپنے کمرے میں میز کی دراز میں رکھ لیتے ہیں۔“
”ہاں…. آؤ۔“
دونوں نے اپنی اپنی گولی میز کی دراز میں رکھی ہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی انہوں نے اپنے والد کو دروازے کی طرف جاتے دیکھا…. پھر انہوں نے خاقانی صاحب کی آواز سنی۔ ان کے رنگ اڑ گئے۔ جلد ہی خاقانی صاحب ان کے والد صاحب کے ساتھ ان کے کمرے کی طرف آتے نظر آئے۔ ان کے دل دھک دھک کرنے لگے…. پھر ان کے والد خاقانی صاحب کے ساتھ اندر داخل ہوئے۔
”ایاز…. قاسم…. تم گیند اٹھانے خاقانی صاحب کے صحن میں گئے تھے۔“
”جی ابو گئے تھے۔“
”تو بیٹا…. وہاں آپ کو دو گولیاں تو پڑی نہیں ملیں…. وہ میرے بیٹے حاطب کی ہیں…. میں اس کے لیے ایک خاص دکان سے لایا تھا۔“
”جی…. جی نہیں انکل…. ہم تو اپنی گیند اٹھانے گئے تھے۔“
”تو تمہیں وہاں کوئی گولی نظر نہیں آئی؟“ خاقانی صاحب نے غور سے ان کی طرف دیکھا۔
” جی…. جی نہیں۔“
” خیر…. کوئی بات نہیں۔“
یہ کہہ کر وہ واپس مڑ گئے…. ان کے جانے کے بعد ایاز نے قاسم سے کہا۔
”قاسم! آج ہمیں ان گولیوں کی وجہ سے جھوٹ بولنا پڑا۔“
”اﷲ ہمیں معاف فرمائے…. اس سے تو بہتر تھا…. ہم یہ گولیاں وہاں سے اٹھا کر نہ لاتے۔“
” اب …. اب کیا ہو سکتا ہے؟ اب تو یہ غلطی ہو گئی۔“ ایاز نے پریشانی کے عالم میں کہا….
اور پھر دوسرے دن صبح انہیں ایک زبردست جھٹکا لگا…. جب ان کے والد پریشانی کے عالم میں ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے بتایا….
” میرے بچو! رات ہمارے گھر میں چور گھس آئے تھے…. اﷲ کا شکر ہے، کچھ نقصان نہیں ہوا…. بس تالے ٹوٹے ملے ہیں…. تمام چیزیں اپنی جگہ پر ہیں۔“
”اوہ…. نہیں۔“ دونوں کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا۔
” میں پولیس میں رپورٹ درج کرانے جا رہا ہوں۔“
یہ کہہ کر ان کے والد چلے گئے…. اسی وقت انہیں ان گولیوںکا خیال آیا۔ انہوں نے میز کی دراز کھینچی اور پھر دھک سے رہ گئے…. دونوں گولیاں غائب تھیں۔ مارے حیرت اور خوف کے ان کی سٹی گم ہوگئی…. وہ سکتے میں آگئے…. دونوں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
جلد ہی ایک سب انسپکٹر ان کے گھر کا جائزہ لینے آپہنچے۔ ان کا نام انور خان تھا۔ یہ ان کے والد کے دوست بھی تھے۔ انہوں نے دروازوں کے تالوں کو چیک کیا…. گھر کا جائزہ لیا…. پھر کہنے لگے۔
”عجیب بات ہے…. چور جب آسانی سے اندر داخل ہو گئے تھے تو وہ کوئی چیز چرائے بغیر کیسے چلے گئے۔“
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا…. اب ان پر گھبراہٹ طاری ہو چکی تھی۔ اس لیے سوچے سمجھے بغیر ان کے منہ سے نکل گیا۔
” وہ خالی ہاتھ واپس نہیں گئے…. کچھ لے کر گئے ہیں انکل۔“
” کیا مطلب؟“ انور خان چونکے۔
”انکل! اگر آپ وعدہ کریں ہمیں کچھ نہیں کہیں گے اور ابو کی جھڑکیوں سے بھی بچا لیں گے تو ہم بتا سکتے ہیں…. وہ کیا چیز لے گئے ہیں۔“
”آپ فکر نہ کریں بیٹے…. میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا، نہ آپ کے ابو۔“
”ہاں ہاں بیٹے…. بے فکر ہو کر بتاؤ۔“
اب انہوں نے دبی آواز میں ساری بات بتا دی…. انور خان کی پیشانی پر لکیریں ابھر آئیں۔ وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ آخر انہوں نے کہا۔
”میرے بچو! آپ کو بالکل خاموش رہنا ہے۔ اس بات کاذکر کسی سے نہیں کرنا…. کیا آپ ایسا کریں گے؟“
”جی بالکل انکل! کیوں نہیں کریں گے۔“
٭….٭
دوسرے دن صبح سویرے پولیس خاقانی کے گھر کو پوری طرح گھیرے میں لے چکی تھی۔ اس کے گھر پر چھاپہ مارا گیا…. تلاشی لینے پر وہاں سے چوری کا بہت سامال برآمد ہوا۔ یہ مال سونے چاندی کے زیورات، ہیرے ، جواہرات اور قیمتی موتیوں پر مشتمل تھا۔ خاقانی کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نظر آئیں۔ اس کا رنگ دودھ کی مانند سفید نظر آرہا تھا۔ جلد ہی اس نے زبان کھول دی…. وہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا سردار تھا…. اپنے حصے کا مال وہ اپنے مکان کے ایک الگ تھلگ کمرے میں رکھتا تھا۔ اس کے دروازے پر تالا لگا کے رکھتا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹے کو اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ چند دن پہلے بھی اس گروہ نے ایک بہت دولت مند گھرانے میں واردات کی تھی۔ سردار کے حصہ میں جو مال آیا تھا، اس میں وہ دو موتی بھی تھے۔ سارا مال تو اس نے اس کمرے میں رکھ دیا۔ وہ دو موتی نما ہیرے اسے اس قدر بھائے کہ جیب میں ڈال لیے…. بے خیالی میں جیب سے نکال کر ان کو دیکھ رہا تھا کہ اس کے بیٹے حاطب نے دیکھ لیا…. بس وہ مچل گیا…. اور وہ اس سے لے لیے اور گولیاں سمجھ کر ان سے کھیلنے لگا…. خاقانی نے کوئی پروا نہ کی…. اور سوچا…. بیٹا سوجائے گا تو اس کے ہاتھوں سے لے لے گا…. لیکن اسے ان کا خیال نہ رہا…. ادھر حاطب بھی ان سے کھیلتے ہوئے انہیں صحن میں بھول گیا….جس گھرانے کے وہ زیورات تھے، انہوں نے رپورٹ میں ساری تفصیل لکھوائی تھی۔ ان میں ان ہیروں کا ذکر بھی تھا۔ یہ رپورٹ سب انسپکٹر انور کے علم میں تھی…. ان گولیوں کو جس طرح اڑایا گیا، اس سے انور خان کے لیے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہو گیا کہ واردات خاقانی نے کرائی ہے۔ پھر اسی وقت چھاپہ مارنے کا پروگرام بنا لیا گیا۔ یہ سب تو ہوا…. خاقانی کے جیل جانے کے بعد اس کی بیوی اور بیٹا حاطب بے سہارا ہو گئے۔ انہیں قاسم اور ایاز کے والد نے سہارا دیا۔ حاطب کی تعلیم بھی اپنے ذمے لی۔
پچھلے دنوں کراچی سے بچوں کے ماہنامہ ساتھی نے ”بچپن نمبر“ شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو قاسم اور ایاز کو اپنے بچپن کا یہ واقعہ یاد آگیا۔ انہوں نے سوچا انہیں یہ کہانی کسی کہانی لکھنے والے کو سنانی چاہیے۔ سو انہوں نے یہ کوشش کر ڈالی…. کہانی لکھنے والے نے وعدہ کیا کہ وہ اس کہانی کو بچپن نمبر کے لیے لکھیں گے…. آخر میں ایک بات رہ گئی…. وہ اس لیے کہ قاسم اور ایاز نے یہ بات بتائی ہی آخر میں تھی…. اس واقعے کی بنیاد پر انور خان کی مدد سے ان دونوں کو محکمہ پولیس میں ملازمت مل گئی…. کہانی لکھنے والے کو انہوں نے سب سے آخر میں بتایا۔
”اور انکل! ہماری اس کہانی میں آپ ایک اور بات بھی لکھ دیجئے گا۔“ یہ کہتے ہوئے قاسم بھرپور انداز میں مسکرایا۔
”اوہ وہ کیا؟“
”ہم دونوں کے ساتھ ہمارا تیسرا بھائی بھی پولیس ملازم ہے…. وہ بھی ہمارے ساتھ ہی کام کرتا ہے۔“
”تیسرا ساتھی….میں سمجھا نہیں۔“
” جی حاطب۔“
”اوہ….“
کہانی لکھنے والے کے منہ سے مارے حیرت اور خوشی کے نکلا۔
٭….٭