تیسرا کمرہ
سیما صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھوں!کھوں!کھوں!
مسلسل کھانسی کی یہ آواز اب محلے کے روز مرّہ کے معمولات کا ایک حصہ بن چکی تھی۔ یہ حکیم صاحب کی کھانسی تھی۔ جس کے اب اہلِ محلہ عادی ہوچکے تھے۔ البتہ جس رات کھانسی کی آواز نہ آتی تو بے چینی ہوتی اور کسی چیز کی کمی کا احساس ہوتا ۔
حکیم صاحب عجیب و غریب اور بے حد پراسرار شخصیت کے مالک تھے۔ نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ محلے کے کسی شخص سے کوئی مطلب نہ رکھتے تھے ۔ سنتے تھے کہ موصوف پرانے حکیم ہیں اور اب تک کئی مریضوں کو ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرچکے ہیں۔ مگر یہ محض اندازے ہی تھے۔
حکیم صاحب صبح سویرے، منھ اندھیرے گھر سے نکلتے ۔ بندوق کی گولی کی طرح۔ ناک کی سیدھ میں کہیں نکل جاتے پھر رات گئے واپس آتے اور دروازہ اس قدر پھرتی سے بند کرتے جیسے خدشہ ہوکہ ان کے ہمراہ ’’ کوئی اور بھوت‘‘ بھی اندر نہ گھس آئے۔ عمر کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل تھا بہرحال سوسے کم ہی کے تھے۔چہرے مہرے سے تقریباً فوت شدہ لگتے تھے۔ پائجامہ ٹخنوں سے کافی اوپر اور گھٹنوں سے تھوڑا نیچے تک ہوتا….. لہٰذا اسے یقین سے پائجامہ کہنا دشوار تھا۔ اٹنگا سا کرتا جوگردشِ زمانہ سے جالی دار ہوچکا تھا۔ پاؤں میں ہوائی چپل اور چہرے پر بھی ہوائیاں ہی اُڑتی نظر آتی تھیں۔ ہاتھ میں ایک بٹوہ دباے رہتے تھے گویا خزانے کی کنجیاں اُسی میں ہوں۔
ابتداء میں لوگوں کو بڑا تجسس تھا کہ معلوم کریں کہ یہ حضرت آسمان سے ٹپکے ہیں یا زمین سے اُگے ہیں؟ کہاں سے آئے اور کہاں جاتے ہیں؟ مگر حکیم صاحب نے اپنے گرد ایسا حصار کھینچ رکھا تھا کہ کسی کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔
پھر یوں ہوا کہ مسلسل تین روز تک اہلِ محلہ کو حکیم صاحب کی کھانسی کی آواز سنائی نہ دی۔ لا محالہ تشویش ہوئی کہ خدا خیر کرے، کہیں موصوف نے اپنی بنائی ہوئی دوا تو نہیں آزما لی؟ پڑوسیوں نے بہت دروازہ دھڑدھڑایا مگر کوئی جواب نہ پایا۔ بالآخر محلے کے ایک لڑکے نے زور آزمائی کا فیصلہ کیا۔ وہ دور سے دوڑتا ہوا آیا اور دروازے کو ٹکر ماری۔ دروازہ اتنا کمزور تھا کہ پہلی ہی ٹکر میں لڑکا دروازے سمیت اندر جاگرا۔ لوگ بھرامارکر اندر داخل ہوئے۔ حکیم صاحب اپنے بستر پر پڑے سورہے تھے۔ انہیں جگانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کیونکہ وہ ابدی نیند سوچکے تھے۔
چند ہی لمحوں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے محلے میں پھیل گئی۔ سیانوں کو فکر دامن گیر ہوئی کہ حکیم صاحب کی تدفین کیسے ہوگی؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم تدفین کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں مگر اس کے بدلے حکیم صاحب کے گھر کا مال و اسباب ہمارا ہوگااس پر محلے کے دیگر افراد نے ناک بھوں چڑھائی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ حکیم صاحب لاوارث آدمی تھے چنانچہ ان کا مال و متاع سب اہلِ محلہ کا حق ہے۔ ایک بزرگ نے یہ بھی فرمایا کہ تمام مال و اسباب کسی یتیم خانے میں بھجوادو۔ اس تجویز پرکچھ لوگ بصد احترام ان بزرگ کو کرسی سمیت اٹھاکر ان کے گھر پٹخ آئے۔
ایک مدبر شخص نے جھگڑے کا تصفیہ کرتے ہوئے کہا: ’’پہلے چل کر جائزہ لے لیا جائے کہ حکیم صاحب کل کتنا مال و اسباب چھوڑ گئے ہیں۔ ‘‘ایک خاتون نے اپنی بالکونی سے لٹک کر صورتحال پر رواں تبصرہ کرتے ہوئے کہا:’’ بڈھا لاکھ دو لاکھ تو چھوڑ ہی گیا ہوگا۔ اپنے اوپر تو دھیلا نہیں خرچ کرتا تھا۔‘‘ بہت چیخ پکار، توتکار کے بعدایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اندر جاکر مال و اسباب کی فہرست تیار کرکے اس کی قیمت کاتخمینہ لگائے۔ اس کے علاوہ ایک اعلا سطح کا کمیشن بھی بٹھایا گیا جو یہ فیصلہ کرے گا کہ مال کس طرح تقسیم ہو؟ بعدازاں وہ کمیشن لیٹ گیا کیونکہ اندر جانے والی کمیٹی باہر آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
مکان میں کل تین کمرے تھے۔ پہلے کمرے میں گھستے ہی عجیب و غریب بساند سے دماغ پھٹنے لگا۔ پورا کمرہ رنگ برنگی ادویہ سے بھرا پڑا تھا۔ ادویہ بالکل سڑچکی تھیں۔ شیشیاں ڈھکن کے رنگ کے ساتھ جڑ گئی تھیں۔ معلوم نہیں انہیں اسٹاک کرنے میں کیا مصلحت تھی؟
’’یقیناًحکیم صاحب نہایت کنجوس آدمی تھے اور اپنی کسی فالتو چیز کو بھی پھینکنے کے روادار نہ تھے۔ ‘‘ایک رکن نے بڑبڑاتے ہوئے تجزیہ کیا۔
حکیم صاحب سے شناسائی کادعویٰ رکھنے والے کمیٹی کے دوسرے رکن نے منھ بنا کر کہا:’’مرحوم کنجوس ہی نہیں مکھی چوس بھی تھے۔‘‘
’’مکھی چوس؟‘‘پہلے نے سوالیہ انداز میں حسبِ توفیق حیران ہوکر پوچھا۔
’’جی ہاں! مکھی چوس یعنی اگر دودھ یا چاے میں مکھی پڑجائے تو یہ مکھی نکال کر چوس لیتے تھے تاکہ دودھ یا چاے ضائع نہ ہو۔‘‘
’’کیا۔‘‘کمیٹی کے ارکان نے حیرت کے اظہار کے لیے منھ کھلا چھوڑ دیا اور دوسرے کمرے کی طرف بڑھے۔
دوسرا کمرہ کھولا گیا تو کمیٹی کے ارکان کی آنکھیں اندھیرے میں چمکنے لگیں۔ کیونکہ یہ کمرہ کرنسی نوٹوں اور سِکوّں سے بھرا پڑا تھا۔ روشنی کا انتظام ہوا تو وہ بن کھلے مرجھا گئے کیونکہ یہ ساری کرنسی اب متروک ہوچکی تھی۔ سکہ رائج الوقت کی ایک پائی بھی اس میں موجود نہ تھی۔ کچھ مغل بادشاہوں کے زمانے کے سِکے تھے اور کچھ جنگ عظیم کی یادگارتھے۔ دوسری جانب اخبارات کا ڈھیر چھت کی بلندیوں کو چھوتا نظر آرہا تھا۔ اخبارات اتنے پرانے تھے کہ یرقان کے مریض معلوم ہورہے تھے۔ کونے میں ایک بے ڈھنگی سی الماری تھی جس میں باوا آدم کے زمانے کے کپڑے ٹھسے تھے، چند زنانہ کپڑے تھے جو کسی زمانے میں اس گھر میں کسی خاتون کی موجودگی کا پتا دے رہے تھے۔ کمیٹی کا ایک رکن صدمے سے نڈھال ہوکر گھر کی اکلوتی کرسی پر ڈھے گیا۔ مگر جب کرسی کی اکلوتی ٹانگ اپنی بقیہ تین ٹانگوں کی یاد میں چرچرائی تو وہ فوراً اٹھ گئے۔ باورچی خانے میں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ برآمدے کے نوادرات یعنی کاٹھ کباڑ کو دھکیلتے ہوئے، کاغذ قلم ہاتھ میں لیے پژمردہ انداز میں تیسرے کمرے کی طرف بڑھے ۔ اس کے دروازے پر ڈیڑھ کلو کا تالا منھ چڑا رہا تھا جسے دیکھ کر کمیٹی کے ارکان کی باچھیں کھل کر کانوں سے جاملیں۔ تالے کا واضح مطلب یہ تھا کہ ’’مال‘‘ اس کمرے میں موجود ہے۔ تالا توڑ کر دروازہ کھولا گیا۔ بدبو کے بھبھکے نے ان کا استقبال کیا جسے بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا گیا۔ کمرے میں عجیب سی سیلن بھی محسوس ہوئی۔ یہاں ایک بہت بڑا مقفل صندوق رکھا تھا۔ کمیٹی والوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ صندوق پر گردموجود نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حکیم صاحب اس کو وقتاً فوقتاً کھولتے رہے ہوں۔ صندوق کا تالا بڑی مشکل سے ٹوٹا۔ اس کا بھاری بھر کم ڈھکن اٹھانے کی کوشش میں ڈھکن تو کھل گیا مگر اسی جھونک میں کمیٹی کے دو ارکان صندوق میں منھ کے بل جاگرے۔ حواس بحال ہوئے تو صندوق کے اندر رکھی ہوئی چیز کو دیکھ کر کمیٹی کے سب ارکان آنکھیں بند کرکے اور حلق پھاڑ کر چیخنا شروع ہوگئے اور چیختے ہی چلے گئے کیونکہ اندر حکیم صاحب کی بیوی کی مسالا لگی لاش موجود تھی۔