ٹارزن اور نیلا گیدڑ
چالاک لومڑی جنگل سے نکل کردریا پر پانی پینے گئی تو وہاں ایک گیدڑ بیٹھا دکھائی دیا ۔اس گیدڑ کا رنگ نیلا تھا ۔لومڑی نے آج تک نیلاگیدڑ نہیں دیکھا تھا ۔اس نے گیدڑ کے پاس آکر پوچھا ۔’’گیدڑ بھائی !تم کو ن ہو،کہا ں سے آئے ہو؟۔‘‘
گیدڑ نے جواب دیا ۔’’میں نیلا پر بت کے جنگل سے آیا ہوں ۔‘‘
’’نیلا پر بت…؟‘‘لومڑی نے حیرت سے کہا ۔’’کیا کسی ملک کا نام ہے ؟‘‘
’’ہاں ۔‘‘گیدڑ نے کہا ۔’’نیلا پربت نیلے پہاڑوں کو کہتے ہیں ۔پہاڑکی طرح اس علاقے کے جانور بھی نیلے ہیں ۔لیکن بارش نہ ہونے کے سبب وہا ں کا سرسبز جنگل خشک ہوگیا ہے ۔اب وہاں کھانے کو کچھ نہیں ملتا اس لئے مجھے یہاں آنا پڑا ۔تمہارا جنگل کیسا ہے ؟۔‘‘
چالاک لومڑی نے بڑے فخر سے کہا ۔’’خدا کا شکر ہے کہ ہمارا جنگل نہایت سرسبز و شاداب ہے ۔اللہ کی تمام نعمتیں ہمیں دستیاب ہیں ۔کھانے پینے کی چیزوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔میں تمہارے جنگل میں رہوں گا۔‘‘نیلے گیدڑ نے کہا ۔’’مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔تمہاری مہربانی ہوگی ۔‘‘
’’مہربانی کیسی ۔وہاں جس کا دل چاہے آکر رہے ۔ساری زمین اللہ کی ہے ۔سب کو یہاں رہنے کا حق ہے ۔‘‘
نیلا گیدڑ خوش ہوکر لومڑی کے ساتھ چل پڑا ۔لومڑی اسے اپنے جنگل میں لے آئی اور نیلا گیدڑمزے سے وہاں رہنے لگا ۔اس جنگل کے جانوروں نے نیلے گیدڑ کو دیکھا تو بہت حیران ہوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ۔’’کتنا خوبصورت رنگ ہے اس گیدڑ کا شاید یہ زمین کی مخلوق نہیں ہے ۔‘‘
’’مجھے تو لگتا ہے کہ یہ چاند سے آیا ہے ۔‘‘ایک بندرنے ہنس کر کہا ۔
ایک لنگور بولا ۔’’میں نے اسے چالاک لومڑی کے ساتھ آتے دیکھا تھا ۔چلو اسی سے پوچھتے ہیں ۔‘‘
وہ جانور چالاک لومڑی کے پاس گئے تو نیلا گیدڑ بھی وہاں موجود تھا ۔بندر نے لومڑی سے پوچھا ۔’’چالاک لومڑی!یہ گیدڑ کو ن ہے ؟۔‘‘
’’یہ میرا مہمان ہے ۔‘‘چالاک لومڑی نے کہا ۔’’اب یہ یہاں رہے گا ۔‘‘
’’مہمان توہے مگر آیا کہاں سے ہے۔ چاند سے یا مرّیخ سے ؟‘‘گنجے لنگور نے پوچھا ۔
’’میں چاند سے آیا ہوں ۔‘‘نیلا گیدڑ بولا ۔’’میں چاند کا شہزادہ ہوں ۔‘‘
’’شاید اسی لئے تمہارا رنگ نیلا ہے ۔‘‘بھالوں نے کہا ۔
لنگور بولا ۔’’چاند کے شہزادے !تم یہا ں کس کی اجازت سے رہنے آئے ہوں ؟‘‘
’’مجھے کسی کی اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے ۔میری مرضی جہاں بھی رہوں ۔‘‘نیلے گیدڑ نے غصے سے کہا ۔’’جائو اپنا کام کرو ۔ورنہ سب کی ٹانگیں توڑ ڈالوں گا ۔‘‘
یہ سن کر جانورڈر گئے ۔اتنے میں ٹارزن اور منکوادھر آنکلے ۔جانوروں نے انہیں نیلے گیدڑ کے بارے میں بتایا ۔ٹارزن نے گیدڑ سے کہا ۔’’چاند پر تو جاندار نہیں ہوتے تم کس چاند سے آئے ہو ۔؟‘‘
’’جہا ںسے بھی آیا ہوں ۔تم پوچھنے والے کو ن ہو۔جائو اپنا راستہ پکڑوں ۔‘‘نیلے گیدڑ نے غصے سے کہا ۔
لومڑی نے گھبرا کر نیلے گیدڑ سے کہا ۔
’’ادب سے بات کرو ۔ٹارزن ہمارا سردار ہے ۔اس کی عزت کرنا ہم سب کا فرض ہے ۔‘‘منکو نے غصے سے نیلے گیدڑ کو گھورا اور ٹارزن سے بولا ۔’’ سردار !کہو تو دو چار گھونسے مار کر اس کا دماغ درست کردوں ۔‘‘
’’نہیں ۔ آئو چلیں ۔بے چارہ ابھی نیا نیا ہے نا ۔‘‘ٹارزن اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہا ںسے روانہ ہوتے ہوئے لومڑی سے کہا ۔’’چالاک لومڑی! اسے یہ بھی سمجھا دینا کہ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر رکھنا بہت نقصان دہ ہوتا ہے ۔‘‘
اس کی بات سن کر لومڑی مسکرائی ۔پھر نیلے گیدڑ کو سمجھانے لگی ۔’’اپنے سے طاقت ور کے ساتھ دشمنی نہیں رکھنی چاہئے ۔ارے تم تو گیدڑ ہو،یہاں کے تو شیر بھی ٹارزن کو اپنا سردار مانتے اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں ۔‘‘
لومڑی کی باتیں نیلے گیدڑ کی سمجھ میں آگئیں اور اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ان اصولوں پر عمل کرے گا ۔