ترکاریوں کا مشاعرہ
منظر ایوبی
بینگن صاحب۔۔۔۔۔۔صدر مشاعرہ
ٹماٹر صاحب۔۔۔۔۔۔ سیکریٹری
شلجم صاحب، مولی صاحبہ، آلو صاحب، چقندر صاحب۔۔۔۔۔۔شعراءِ کرام
ٹماٹر صاحب: ’’حضرات خاموش ہوجائیے، اب مشاعرے کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔ اس مشاعرے کی صدارت کے لیے میں جناب بینگن صاحب کا نام پیش کرتا ہوں۔‘‘
مولی صاحبہ: ’’میں تائید کرتی ہوں۔‘‘
بینگن صاحب: ’’حضرات! میں اپنے آپ کو اس قابل تو نہیں سمجھتا کہ مشاعرے کی صدارت کروں، بہرحال میں انکار کرکے آپ لوگوں کا دل نہیں توڑنا چاہتا۔ آپ لوگ اگر مجھ ناچیز کو عزت بخشنا چاہتے ہیں تو لیجئے میں صدر بنا جاتا ہوں۔ ہاں ٹماٹر صاحب اس مشاعرے کی کارروائی شروع کریں۔‘‘
ٹماٹر صاحب: ’’حضرات! مشاعرے کا آغاز ہمارے ایک نوعمر شاعر جناب شلجم صاحب کے کلام سے ہوتا ہے۔ شلجم صاحب تشریف لائیں۔‘‘
شلجم صاحب: ’’غزل کے چند شعر جو ابھی ابھی لکھے ہیں ’ارشاد‘ فرماتا ہوں۔ اوہ معاف کیجئے عرض کرتا ہوں۔‘‘
آوازیں: ’’ارشاد، ارشاد۔‘‘
شلجم صاحب: ’’آداب عرض، آداب عرض۔‘‘
ایک آواز: ’’اجی حضرت شعر پڑھیے بعد کو آداب عرض کیجئے۔‘‘
شلجم صاحب: ’’شکریہ شکریہ، مقطع عرض کرتا ہوں۔‘‘
مختلف آوازیں: ’’مقطع یا مطلع حضرت۔‘‘
شلجم صاحب: ’’جی ہاں۔ جی ہاں مقطع۔‘‘
(اونچی آوازیں)
’’حضرات! ہمارے یہاں ایک عام رواج ہے کہ شاعر پہلے مطلع پڑھتا ہے اور پھر کچھ شعروں کے بعد مقطع۔ میں اسے بدلنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک رسم سی بن گئی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ہم پہلے مطلع ہی پڑھیں۔ میں پہلے مقطع ہی پڑھوں گا۔(شور و غل)
سیکریٹری: (شلجم صاحب سے مخاطب ہو کر)’’شلجم صاحب! پبلک چاہتی ہے کہ آپ اپنی غزل مطلع سے شروع کریں۔ ‘‘
شلجم صاحب: ’’اچھا! اگر لوگوں کو میری یہ جدت پسند نہیں تو لیجئے میں مطلع پیش کرتا ہوں۔ سنیے۔‘‘
جو کھیتوں میں اکثر اگاتے ہیں مجھ کو
وہی ایک دن بیچ کھاتے ہیں مجھ کو
آوازیں: ’’کیا بات ہے شلجم صاحب!’بیچ کھانا‘ خوب استعمال کیا ہے۔‘‘
شلجم صاحب: ’’آداب عرض حضور۔ سخن فہمی ہے آپ کی۔ بندہ کس قابل ہے۔ دوسرا شعر پیش کرتا ہوں، شاید کسی قابل ہو۔‘‘
مری قدر ان قدردانوں سے پوچھو
جوہر روز بھرتا بناتے ہیں مجھ کو
ایک آواز: ’’شلجم صاحب، خدا نظر بد سے بچائے۔ یہ عمر اور اتنے اچھے شعر۔واہ وا، واہ وا۔‘‘
شلجم صاحب: ’’آپ لوگوں کی صحبت کا اثر ہے۔ اگلا شعر دیکھئے۔‘‘
ایک آواز: ’’ہاں دکھائیے!‘‘
شلجم صاحب:
غذاؤں میں جن کے لیے ہوں میں لازم
وہ بنگلوں میں اکثر لگاتے ہیں مجھ کو
مرے ذائقے سے جو واقف نہیں ہیں
وہ چاقو چھری سے بناتے ہیں مجھ کو
آوازیں: ’’سبحان اﷲ، سبحان اﷲ۔ بہت خوب کہا ہے۔ سچ کہا ہے۔‘‘
شلجم صاحب: ’’اب تو مقطع سن لیجئے۔‘‘
میں شلجم ہوں میرا مقدر تو دیکھو
بڑے شوق سے لوگ کھاتے ہیں مجھ کو
سکریٹری: ’’اب میں آپ کی جانی پہچانی شاعرہ محترمہ مولی صاحبہ سے درخواست کروں گا وہ اپنی مشہور نظم ’آپ بیتی‘ سنائیں۔
مولی صاحبہ: ’’حضرات! میں جناب ٹماٹر صاحب کے حکم کی ضرور تعمیل کرتی لیکن اتفاق سے مجھے یہ نظم یاد نہیں ہے۔ ایک دوسری نظم پیش کرتی ہوں۔‘‘
ایک آواز: ’’جی نہیں، دوسری نظم نہیں سنیں گے ’آپ بیتی‘ سنیں گے۔ اپنی کہی ہوئی نظم کوئی نہیں بھولتا۔ کسی نے لکھ کر دی ہوگی۔‘‘
کئی آوازیں: ’’بے شک۔ بے شک۔ سچ ہے کسی سے لکھوائی ہوگی۔‘‘
مولی صاحبہ: ’’جناب صدر۔ یہ میری توہین ہے۔ اب میں کلام نہیں سناؤں گی۔‘‘
ایک آواز: ’’ٹھیک ہے۔ بیٹھ جائیے۔‘‘ (شور و غل)
سیکریٹری: ’’حضرات! یہ بزم ادب ہے۔ مچھلی بازار نہیں ہے۔ آپ لوگ شعر سننے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ خاموش بیٹھیں اور شاعروں کا کلام سنیں۔ ایسی محفلیں روز روز نہیں جمتی ہیں۔ کبھی کوئی موقع ہاتھ آجائے تو اسے غنیمت سمجھئے۔ آپ لوگوں کو ہوٹنگ کرنے کی اجازت ہے لیکن تہذیب کے دائرے سے باہر جانے کی کوشش نہ کیجئے۔ مولی صاحبہ! اس دور کی بہت بڑی شاعرہ ہیں۔ یہ اتفاق ہے کہ انہیں اس وقت اپنی نظم ’آپ بیتی‘ یاد نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے یہ نظم کسی سے لکھوائی ہے۔
مولی صاحبہ: ’’سیکریٹری صاحب! آپ بھی پبلک کی طرف داری کررہے ہیں۔ میں کہتی ہوں اس بات کو کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔‘‘
سکریٹری: ’’محترمہ! میں تو آپ کو لوگوں کے حملوں سے بچا رہا ہوں۔‘‘
آوازیں: ’’بے شک، بے شک۔‘‘
صدر: ’’خاموش، خاموش۔ سیکریٹری صاحب، آپ خواہ مخواہ اس بیکار بحث میں پڑ گئے۔ (مولی صاحبہ سے مخاطب ہو کر) مولی صاحبہ کچھ فرمانا چاہیں تو فرمائیے ورنہ کسی دوسرے شاعر کو پکارا جائے۔‘‘
مولی صاحبہ: ’’معاف کیجئے۔ میرے پیٹ میں درد نہیں ہو رہا ہے جو میں بغیر پڑھے یہاں سے نہ جاؤں۔ میرے خیال سے ہم سب شاعروں اور شاعرات کو یہاں سے فوراً اٹھ جانا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہماری بلکہ ادب کی توہین ہے۔
دوسرے شعراء: ’’ہم لوگ بغیر غزل سنائے نہیں جائیں گے۔ مولی صاحبہ تشریف لے جا سکتی ہیں۔‘‘
سیکریٹری: ’’حضرات! مولی صاحبہ کا پارہ کچھ چڑھ گیا ہے۔ میرا خیال ہے ان سے تھوڑی دیر کے بعد کچھ سنا جائے۔ ہمارے پاس بہت کم وقت ہے اور شاعروں کی فہرست کافی لمبی ہے۔ ضروری ہے کہ ہر شاعر کو موقع دیا جائے۔ اس لیے میں اب حضرت آلو صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ تشریف لائیں اور اپنی غزل سنائیں۔‘‘
آلو صاحب: ’’بھائیو! آپ جانتے ہیں کہ میں غزل کہتا ہی نہیں۔ میں تو نظم کا شاعر ہوں۔ لہٰذا میں نظم شروع کرنے سے پہلے اس کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ایک آواز: ’’آلو صاحب! نظم پیش کریں۔ پس منظر خود سمجھ میں آجائے گا۔‘‘
آلو صاحب: ’’مشکل تو یہی ہے کہ میرے بغیر بتائے آپ لوگ اس نظم کی حقیقی روح کو نہیں سمجھ سکتے۔ کہنے کو یہ بہت آسان نظم ہے لیکن اس میں، میں نے ایک تجربہ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کا پس منظر بتانا ضروری ہے۔‘‘
آوازیں: ’’ہیں، ہیں تجربہ؟ تجربہ! ‘‘
سکریٹری: ’’حضرات! آپ تجربے کا لفظ سن کر حیران نہ ہوں۔ آج کل ہماری نظموں میں نئے نئے تجربے ہورہے ہیں۔ چونکہ آلو صاحب ہمارے جدید شاعروں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ لہٰذا برسوں سے ان پر تجربے کرنے کا بھوت سوار ہے۔ بہرحال اب تو کچھ بھی ہو، ہم نے انہیں مشاعرے میں بلایا ہے جو کچھ یہ فرمائیں گے۔ سننا ہی پڑے گا۔‘‘
آلو صاحب: ملاحظہ ہو
لوگ مجھے کہتے ہیں آلو
ایک آواز: ’’حضرت نظم کا عنوان کیا ہے؟ ‘‘
آلو صاحب: ’’جی! یہ نظم بغیر عنوان کے لکھی گئی ہے۔ آپ کو اختیار ہے جو عنوان چاہیں تجویز کرلیں۔ تو عرض کرتا ہوں۔‘‘
لوگ مجھے کہتے ہیں آلو
یعنی ہر موسم میں چالو
ایک آواز: ’’جی سبحان اﷲ۔ کیا ’چالو‘ لفظ استعمال کیا ہے۔
آلو صاحب: ’’آداب۔۔۔ آگے عرض کرتا ہوں۔‘‘
میں ہوں اک ایسی ترکاری
جس سے لاکھوں کام ہیں جاری
جس سالن میں چاہو ڈالو
کچا پکا سب کچھ کھا لو
چھوٹا، موٹا، کانا، کبڑا
لمبا، چوڑا، لنگڑا، لولا
ہر صورت میں ہوں میں چالو
لوگ مجھے کہتے ہیں آلوؔ
آوازیں: ’’بہت خوب۔ آگے بڑھیے۔ آگے چلیے۔‘‘
آلو صاحب: ’’حضرات! نظم ختم ہوگئی۔‘‘
ایک آواز: ’’صاحبو! اس میں کیا تجربہ ہے؟‘‘
دوسری آواز: ’’ارے صاحب! آپ لوگ سب جاہل ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ جس مصرع سے نظم شروع ہوئی تھی اسی پر ختم ہوگئی۔ یہ تجربہ نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
تیسری آواز: ’’ٹھیک ہے، پھر تو اس نظم کا عنوان بھی ’چالو‘ ہونا چاہیے۔‘‘
آلو صاحب: ’’مجھے تسلیم ہے۔‘‘
آوازیں: ’’آدمی سمجھ دار معلوم ہوتے ہیں۔‘‘
سکریٹری: ’’جناب چقندر صاحب تشریف لائیں۔‘‘
چقندر صاحب:
جیسا باہر ویسا اندر
آوازیں: ’’ترنم سے۔ تحت اللفظ نہیں سنیں گے۔‘‘
چقندر صاحب: ’’بھائیو آج میرا گلا خراب ہے۔ نزلہ و زکام کی وجہ سے میری آواز نہیں نکل رہی ہے۔ ورنہ میں خود ہی ترنم سے غزل پیش کرتا ہوں۔‘‘
آوازیں: ’’چقندر صاحب۔ ہم تو صرف آپ کی ’گٹ کری‘ سننے آئے ہیں، ہمیں آپ کے شعروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
چقندر صاحب: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے شعر کسی قابل نہیں۔ میں کوئی گویا نہیں ہوں۔ آپ حضرات کو اشعار سننا ہیں تو سنیے ورنہ میں مجبور ہوں۔ ترنم سے نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
آوازیں: ’’نہیں سنیں گے۔ نہیں سنیں گے۔‘‘
سیکریٹری: ’’حضرات: مجھے آپ لوگوں کی راے سے قطعی اتفاق ہے۔ یہ مشاعرہ آپ کا ہے۔ لہٰذا آپ کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے، میں چقندر صاحب سے پھر درخواست کروں گا کہ وہ جس طرح بھی ہو اپنی غزل گا کر سنائیں۔‘‘
چقندر صاحب: ’’مذاق نہ اڑائیے گا۔ سنئے۔‘‘
جیسا باہر ویسا اندر
آپ کا یہ مشہور چقندر
مولی گاجر سب کھاتے ہیں
میرا عاشق بھائی مچھندر
آوازیں: (زور دار قہقہے) واہ واہ واہ وا۔۔۔ مولی صاحبہ پر چوٹ ہو گئی۔
چقندر صاحب: ’’میں نے جان بوجھ کر چوٹ نہیں کی ہے۔ بس یونہی ذہن میں مصرع آگیا۔ خیر چھوڑئیے۔ اگلا شعر سنیے۔‘‘
میری ہی شہرت پھیلی ہے
لانڈھی سے تا گدو بندر
ایک آواز: ’’واہ وا کیا شہرت پھیلائی ہے۔ ‘‘
دوسری آواز: ’’وہ بھی لانڈھی سے گدو بندر تک۔‘‘
چقندر صاحب: ’’جی ہاں۔ گدو بندر والوں کے برابر سخن فہم میں نے بہت کم دیکھے ہیں۔ میں اکثر وہاں بلوایا جاتا ہوں۔‘‘
ایک آواز: ’’اسی لیے آپ کے کلام میں اتنا زور پیدا ہوگیا ہے۔‘‘
چقندر صاحب:’’ ہمت افزائی ہے آپ حضرات کی۔‘‘
سکریٹری: ’’میرا خیال ہے کہ وقت بہت ہو گیا ہے۔ مولی صاحبہ کو زحمت دی جائے۔‘‘
مولی صاحبہ: ’’حضرات! میں علامہ اقبال سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ میری اکثر غزلیں ان کی زمینوں میں ہیں۔ یہ غزل بھی علامہ اقبال کی ایک غزل کی زمین میں ہے۔ سنیے۔ افسوس ہے کہ مطلع نہ ہوا۔‘‘
مجھے کیوں ہر اک گھور کر دیکھتا ہے
کہ بازار میں سبزیاں اور بھی ہیں
سفیدی میں ہے کوئی میرے مقابل
یہاں ویسے ترکاریاں اور بھی ہیں
ایک آواز: ’’مہمل شعر ہے۔‘‘
مولی صاحبہ: (بگڑ کر) ’’بارہ سال سے شعر کہہ رہی ہوں۔ زندگی میں آج تک کوئی مہمل شعر نہیں ہوا۔‘‘
دوسری آواز: ’’یہ خود ابھی بارہ سال کی ہیں۔ کیا پیدا ہوتے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔‘‘
دیگر آوازیں: ’’چپ رہیے صاحب۔ یہ تنقید کا موقع نہیں۔ کیوں پریشان کررہے ہیں۔ دوسروں کو سننے دیجئے۔ ہاں مولی صاحبہ ارشاد۔‘‘
مولی صاحبہ: ’’آخری شعر ہے۔‘‘
نہیں مجھ کو اہل کراچی سے شکوہ
کہ میرے لیے منڈیاں اور بھی ہیں
آوازیں: ’’بہت اچھا شعر ہے مولی صاحبہ۔سچ ہے آپ کے لیے منڈیوں کی کیا کمی ہوسکتی ہے۔
مولی صاحبہ: ’’شکریہ ۔ شکریہ۔ آداب بجا لاتی ہوں۔‘‘
سکریٹری: ’’قبل اس کے کہ میں جناب بینگن صاحب (صدر مشاعرہ) کو تکلیف دوں پہلے خود اپنا کلام سنا دوں۔ ایک نظم پیش کرتا ہوں۔ نظم آزاد ہے۔ سنیے اور سر دھنیے۔
دوستو۔۔۔ ساتھیو۔۔۔
تم کو خبر ہے کہ نہیں دیکھتے ویکھتے۔
جاگ اٹھا سارا جہاں
ہم وہیں ہیں
کہ جہاں تھے
مدتیں بیت گئیں سختیاں ہوتی رہیں ہم پہ
مگر ہم خاموش رہے
نظم کا دوسرا بند۔
جس کی جیبوں میں ہوں پیسے یارو
وہ ہمیں شوق سے کھا سکتا ہے
اور ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے
لیکن۔۔۔
میں صرف اتنا بتاؤں گا تمہیں
میں کہ ادنی سا ٹماٹر ہوں مگر
اپنے امڈے ہوئے جذبے کی قسم بلکہ۔۔۔
آپ کے سر کی قسم
میں نے سوچا ہے کہ ناگن بن کر
اپنے عشاق کو ڈس جاؤں گا
اس طرح کہ انہیں پانی نہ ملے
کاش
تم بھی مرے ساتھ چلو
تاکہ ہم منزل مقصود تک آہی جائیں
دوستو۔۔۔ساتھیو
آوازیں: ’’مرحبا۔ مرحبا۔ بہت اچھی نظم سنائی۔ ایمان تازہ ہوگیا۔‘‘
سیکریٹری: ’’اب صدر مشاعرہ جناب بینگن صاحب اپنا کلام پیش کریں گے۔‘‘
بینگن صاحب: ’’حضرات: کافی وقت ہو چکا ہے۔ مجھ سے پہلے آپ نے بڑی اچھی اچھی غزلیں، نظمیں سنیں ہیں۔ شاعر واعر تو ہوں نہیں۔ تک بند ضرور ہوں۔ میرا شوق تو صرف جلسوں، مشاعروں اور مجلسوں کی صدارت کرنا ہے۔ شعر سے اپنا کیا تعلق، پھر بھی غزل پیش کررہا ہوں۔ سنیے۔‘‘
ہے جن کو آج مرے کالے جسم سے نفرت
کبھی تو آئیں گے وہ میرے ناز اٹھانے کو
جواں کیا ہے مجھے پال پوس کے جس نے
وہی چلا ہے گلے پر چھری چلانے کو
جو چکھ سکے نہ ابھی تک ہواؤں کے تھپڑ
سمجھ رہے ہیں وہ آساں مرے مٹانے کو
مقطع پیش کرتا ہوں
جہاں شریک ہوں مولی سی شاعرات وہاں
چلے ہیں حضرت بینگن غزل سنانے کو
سکریٹری: ’’اس کے ساتھ ہی یہ محفلِ مشاعرہ ختم ہوتی ہے۔‘‘
*۔۔۔*