طارق بن زیاد
طارق بن زیاد بن عبداللہ ہسپانیہ کے پہلے فاتح اور اسلام کے پہلے والی تھے۔ دنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے۔ طار قبن زیاد نے ایک مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم سپین کو فتح کیا تھا۔ اور یہاں دین اسلام کاعلم بلند کیا تھا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پراسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس نے یورپ کو سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت فکر عطا کی تھی۔ اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔
طار ق بن زیاد ایک متقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان تھے۔ ان کے حسن اخلاق کی بنیاد پر عوام اور فوجی سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی جو ایک ماہر حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔ طارق رحمتہ اللہ علیہ نے فن سپہ گری میں شہرت حاصل کی اور ان کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔
افریقہ کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوت سے خطرہ لاحق تھا۔ موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکامات کا جائزہ لیکر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دیکر اسے ہسپانیہ کی فتح کےلئے روانہ کیا۔
اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے جو بعد میں جبل الطارق کہلایا۔
طارق نے جنگ کےلئے محفوظ جگہ منتخب کی اور اس موقع پر اپنی فوج کو ایک نہایت ولولہ انگیز خطبہ دیا اورکہا کہ ہمارے سامنے دشمن اورپیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اس نے جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تھا۔ تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں ضرور ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دی جائے یا یہ جان جان آفرین کے سپرد کردی جائے۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔
آٹھ دن کا رن پڑا اور آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اورشہنشاہ راڈرک بھاگ نکلا جس کے انجام کا پتہ نہ چلا سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی
طارق بن زیاد کی کامیابی کی خبر سن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملا۔اور دونوں نے مل کر کئی اور علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا۔