تاریخ دہرانا مہنگا پڑا
غلام زادہ نعمان صابری
۔۔۔۔۔
وہ دونوں آپس میں گہرے دوست بن گئے تھے۔خرگوش جنگل میں اور کچھوا ندی میں رہتا تھا۔ ندی جنگل کے قریب ہی تھی۔خرگوش روزانہ ندی پر جاتا،وہ وہاں سے ہری بھری،لہلہاتی گھاس چرتا اور ندی کا صاف، تازہ اور ٹھنڈا پانی بھی پیتا۔ پھر کچھ دیر وہاں آرام کرتا اور شام کو اپنے گھر کی راہ لیتا۔
کچھوا بھی ندی سے باہر نکل کر بیٹھ جاتا۔ وہ ہری بھری لہلہاتی گھاس اور طرح طرح کے چہچہاتے پرندوں کو دیکھ کر خوش ہوتا۔
ایک روز دونوں کا آمنا سامنا ہوگیا۔ دونوں کی میل ملاقات بڑھتے بڑھتے دوستی تک پہنچ گئی۔دونوں خوب گپ شپ لگاتے۔ ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے۔ خوش گوار وقت گزار کر اپنی اپنی راہ لیتے۔
ایک روز موسم بڑا سہانا تھا۔ دونوں ندی کنارے بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے،ہنسی مذاق عروج پر تھا۔ کچھوا خرگوش سے بے تکلفانہ گفتگو کرنے لگا۔اس نے خرگوش کو طنز کرتے ہوئے یہ طعنہ دیا کہ تمہارے دادا کو میرے نانا نے لوہے کے چنے چبوائے تھے،شاید تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
خرگوش،کچھوے کی بات سن کر دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوا مگر اس نے چہرے سے اپنی شرمندگی کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔وہ محض اس لئے کہ کہیں اس کا جگری دوست برا نہ مان جائے۔
خرگوش نے ایک مصنوعی سا شرمندگی بھرا قہقہہ لگایا اور بولا:
’’چھوڑو یار،وہ تو آپس میں دوست تھے جیسے میں اور تم ہو۔ ہو سکتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے ان کی بھی آپس میں شرط لگ گئی ہوگی۔ وہ تو بھلا ہومیرے دادا کا جنہوں نے دوستی کی آڑ میں تمہارے نانا کی عزت رکھ لی تھی۔ جی ہاں صرف دوستی نبھانے کی خاطر ۔‘‘
خرگوش نے بھی دبے لفظوں میں اسے کھری کھری سنا دی تھیں۔ کچھوے نے خرگوش کی چبھتی ہوئی باتیں سن کرایک بار تو غصے میں منہ خول کے اندر چھپا لیا تھا مگر پھر فوراً ہی باہر نکال لیا کہ کہیں خرگوش یہ نہ سمجھے کہ میں نے اس کی بات کا برا منایا ہے۔
کچھوے کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا مگر پھر بھی وہ جوابی حملے کی کوشش کررہا تھا۔اس نے خرگوش سے کہا۔’’ بھئی بات عزت بے عزتی کی نہیں ۔بات کچھ یوں ہے کہ تمہارے دادا کو اپنی تیز رفتاری پہ بڑا ناز تھا اور وہ غرور میں رہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ میرے نانا کو سست رفتاری کی وجہ سے ہرا کر اپنا نام روشن کر لے گا،مگرتاریخ گواہ ہے کہ تمہارے دادا کا سارا منصوبہ ناکام ہوکر اس کا غرور خاک میں مل گیاتھا۔‘‘
خرگوش،کچھوے کی بات سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور ایک بار پھر شرمندگی محسوس کرنے لگا۔
وہ سوچنے لگا، آج کچھوے کو نہ جانے کیا سوجھی ہے کہ وہ جلی کٹی باتیں کرنے لگاہے۔ آج اس کی سوچ بہت پیچھے چلی گئی ہے۔ اسے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے جیسے یہ جلی کٹی باتیں کرکے مجھے بھڑکا رہا ہے اسی طرح اس کے نانا نے میرے دادا کو بھڑکا کرطیش دلوایا ہو اور ان کی شرط لگ گئی ہو۔
خرگوش کو کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا تھا کہ کچھوا بیوقوفی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ خرگوش اپنے دادا سے کہانیاں سنتا رہتا تھا۔ اس کو اس کے دادا نے بہت عرصہ پہلے کچھوے کی کہانی سنا دی تھی، اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ صرف دوستی کی لاج رکھنے کے لئے کچھوے سے ہارے تھے۔ خرگوش ہو اور وہ کچھوے سے ہار جائے یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ویسے بھی کچھوے اور خرگوش کا آپس میں کیا مقابلہ۔
خرگوش خیالات کی دنیا سے واپس پلٹا۔اس نے کچھوے کی بات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا۔اس نے بات کو بدلنے کے لئے موسم پر گفتگو شروع کردی اور کچھوے سے کہنے لگا کہ ’’دیکھو آج موسم کتنا پیارا ہے موسم اتنا لطف دے رہا ہے کہ آج واپس جانے کو دل ہی نہیں کررہا۔مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے آج رات میں تمہارا مہمان ٹھہروں گا۔‘‘
کچھوے نے بھی خرگوش کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔اس نے خرگوش کی بات ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکال دی۔
کچھوا،خرگوش سے کہنے لگا،’’ لگتا ہے تمہیں بھی اپنے دادا کی طرح اپنی تیز رفتاری پر بڑا گھمنڈ ہے۔‘‘
خرگوش نے کہا،’’ تم میرے اچھے دوست ہو اور میں دوستوں سے کبھی ایسا سلوک نہیں کرتا جس سے دوست کی عزت پر حرف آئے اور دوستی بدنام ہو۔‘‘
کچھوے نے پھر خرگوش سے کہا،’’ تم بالکل اپنے دادا کی طرح بے وفا ہو جس نے میرے نانا کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی مگر خود ہی بدنام ہوگیا۔‘‘
کچھوے نے اتنا کہہ کر زور دار قہقہہ لگایا۔خرگوش،کچھوے کی بات سن کر چکرا گیا اور سوچنے لگا،آخر کچھوا چاہتا کیا ہے۔خرگوش نے حوصلہ کر کے کچھوے سے پوچھ ہی لیا کہ ’’آخر تم اتنی جلی کٹی باتیں کیوں کر رہے ہو اور تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
کچھوے کے دل کی بات زبان پر آ ہی گئی اور اس نے خرگوش سے کہا،’’ وہ تاریخ دھرا نا چاہتا ہے۔‘‘
خرگوش کچھوے کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ایک بے وقوف سے دوستی کر بیٹھا ہے۔اسے دادا کی بات یاد آئی ، دادا نے اسے منع کیا تھا کہ کبھی کسی بے وقوف سے دوستی نہ کرنا ورنہ رسوا ہو جاؤ گے۔
آج اسے رہ رہ کر دادا کی بات یاد آ رہی تھی مگر اب تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔خرگوش نے مجبور ہو کر کچھوے سے کہہ دیا،’’ جب اس کا دل چاہے مجھے بتا دے میں تاریخ دھرانے میں اس کا پورا پورا ساتھ دوں گا۔‘‘
کچھوا آ ج ٹلنے والا نہیں تھا اس نے خرگوش سے کہا۔’’ جب نہیں بلکہ اب، اور اسی وقت… میں ابھی اور اسی وقت نئی تاریخ رقم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
خرگوش نے کچھوے کو بہت سمجھایا کہ ’’ہم آپس میں اچھے اور سچے دوست ہیں۔ دوستی میں دوست کو آ زمانا نہیں چاہئے، ایسا کرنا دوستی کے اصولوں کے خلاف ہے۔‘‘
کچھوے کے دماغ کو نہ جانے کون سا نشہ چڑا ہوا تھا اس کی سمجھ میں خرگوش کی کوئی بات نہیں آرہی تھی۔وہ ایک ہی ضد پر قائم تھا کہ وہ آج اس کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔اس نے جب خرگوش کو حد سے زیادہ مجبور کر دیا تو اس نے دوستی کے لحاظ کو پس پشت ڈالا اور مقابلے کی ہامی بھر لی۔ خرگوش نے کہا ۔’’اللہ کریم نے تمہارے مقدر میں اگر ذلت ورسوائی لکھ دی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
شکر ہے کچھوے نے خرگوش کی یہ بات سنی نہیں۔اگلے دن دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا۔سارے جنگل نے دیکھا،خرگوش مقررہ وقت سے پہلے منزل پر پہنچ گیا تھا جبکہ کچھوا منزل سے ابھی کوسوں دور رینگ رہا تھا۔ سارے جنگل نے خرگوش کی جیت پر تالیاں بجائیں اور نعرہ لگایا ۔ کچھوے کو تاریخ دہرانا مہنگا پڑا۔کچھوے نے شرمندگی کے مارے وہیں سے ندی میں چھلانگ لگادی اور پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ اور یوں وہ خرگوش کی دوستی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔