تاریخ کا پیریڈ
محمدالیاس نواز
…………………………………
سراحمد کا سوال تھاکہ دنیا کی مستند تاریخ اور منفرد مؤرخ کون سے ہیں..
…………………………………
اسٹوڈنٹس کی تمام تر توجہ حاصل کرنے کا یہ ایک بہترین حربہ تھا کہ سر احمد نے کلاس میں آتے ہی بلیک بورڈ پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگایا اور مُڑ کر انتہائی سنجیدہ نگاہوں سے طلباء کی طرف دیکھنے لگے۔جن کے چہروں کا تجسس یہ پوچھ رہا تھا کہ بغیر کسی لفظ یا جملے کے خالی سوالیہ نشان کا کیا معنی…؟رہی سہی کسران کے اس عجیب و غریب سوال نے نکال دی’’میں آپ لوگوں کو کیا پڑھاتا ہوں‘‘حیرانی بھرے لہجے میں جواب آیا ’’سر!!!…آپ تاریخ پڑھاتے ہیں‘‘
چند لمحے خاموشی رہی پھر آواز آئی’’ہوںںں…تو آج میں تاریخ کے استاد کی حیثیت سے تاریخ کے طلباء سے یہ سوال کرتاہوں کہ دنیا کی سب سے مستند تاریخ کونسی ہے اور سب سے منفرد مؤرخ کون ہیں؟‘‘کلاس میں خاموشی چھاگئی۔
سر نے مختلف زاویوں سے اپنا سوال دہرایا۔اور ہر ایک کا چہرہ دیکھتے رہے …مگر خاموشی ہی رہی ۔تھوڑی دیر میں طلباء میں سے ایک نے جواب دینے کیلئے ہاتھ بلند کیا تو سر نے کہا’’ہاں بولومگر…. ٹھہرووو!….اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ قرآن کریم میں جو گزری قوموں کے قصے بیان کئے گئے ہیں وہ سب سے مستند تاریخ ہیں اور چونکہ اس تاریخ کامؤرخ خود اللہ ہے تو اس طرح وہ منفرد مؤرخ ہے ….تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بات اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں مگر میں انسانی مؤرخین کی لکھی ہوئی تاریخوں میں سب سے مستند تاریخ اور منفرد مؤرخین کی بات کر رہا ہوں‘‘۔ سر کی بات مکمل ہوئی تو جواب کے لئے اٹھا ہوا ہاتھ نیچے ہو چکا تھا۔اگلے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد طلبا کی طرف سے تاریخ کی چند کتابوں کے نام لئے گئے جو سر احمد نے مسترد کر دئیے۔
آج کلاس کا منظر ہی بدلا ہوا تھا۔سراحمدجواب کی تلاش میں طلباء کو دیکھ رہے تھے جبکہ اوسط (درمیانے ) درجے کے طلبأ کنکھیوں سے ہمیشہ جواب دینے والے ذہینوں کے چہروں کو تک رہے تھے مگر آج سارے ذہینوں کے زبانیں گنگ تھیں ۔کوئی ہوا میں گھور رہا تھا تو کوئی اپنے جوتوں کو تک رہا تھا۔جب سر نے دیکھ لیا کہ کسی کے پاس انکے سوال کاجواب نہیں ہے تو وہ تعجب سے بولے ’’کمال حیرت کی بات ہے کہ تاریخ کے طلباء کو مستند تاریخ اور منفرد مؤرخین کا نہیں پتامگر میرایہ خیال ہے کہ اس میں ہماری یعنی اساتذہ کی کوتاہی زیادہ ہے اسی لئے آ ج اس فرض کا قرض اتارنے لگا ہوں۔
طالب علم بچو، یادرکھو! عام طور پرتاریخ کسی ملک ، قوم ،جنگ یا واقعہ کی ہوتی ہے مگرمیرااگلا جملہ لکھئے کہ’’ دنیا کی یہ مستند ترین تاریخ کسی پرانے کھنڈر،قبر،سکے یا تہذیب کی تاریخ ہے نہ کسی سیاح کا سفرنامہ ہے بلکہ ایک ہستی(شخصیت) کے افعال ، احکام،اقوال، احوال اور امور کی تاریخ ہے‘‘۔شاید یہ جملہ مشکل ہو اور سب کی سمجھ میں نہ آیا ہوتواب میں اس جملے کی وضاحت کرنے لگا ہوں:
یہ مستند ترین تاریخ ایک ہستی کے عملی طور پر کئے گئے کاموں اور انجام دئیے گئے امور کی،مختلف مواقع پر اپنے ساتھیوں اور جاں نثاروں کو دئیے گئے احکامات کی،زندگی کے ہر شعبے میں پیش آنے والے مسائل سے متعلق قیمتی باتوں،سنہری اقوال اور لا زوال اصولوں کی اور مؤرخین کی جانب سے ان کے دیکھے گئے احوال کی تاریخ ہے۔
اب میں اس تاریخ اور اسکے مؤرخین کی انفرادیت اور خصوصیات بیان کرنے جا رہا ہوں :
میرے بچو!عام طور پر تاریخ بیان کرنے والے یعنی مؤرخ کاواقعے سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا اور جس کا تعلق واقعہ سے ہوتا ہے وہ مؤرخ یعنی واقعہ بیان کرنے والا نہیں ہوتا۔مثال کے طور پرآپ کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیاجو آپ نے اپنے دوست کو سنایا ۔ دوست نے وہ واقعہ لکھ دیااور اس واقعے کا مؤرخ بن گیا حالانکہ نہ تووہ واقعہ اس کے ساتھ پیش آیا اور نہ ہی اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔مگر یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ جس ہستی کی زندگی کی تاریخ ہے اسکے مؤرخ اس ہستی کے پیروکار اور شاگرد ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس شخصیت کے ساتھ دکھ سکھ کے واقعات میں شریک تھے ، اس ہستی کے احکامات کو محفوظ کرنے کے ساتھ اس پر عمل کرنا نجات سمجھتے تھے اور پھر ان احکامات و احوال کو آگے بیان کرنا زندگی کا مقصد جانتے تھے،تو اس طرح انکا برہ راست ہر واقعے اور حکم سے تعلق ہوگیا۔
بچو!دوسرا فرق اور انفرادیت یہ ہے کہ موؤخ اگر واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے بھی تو اپنی پسند کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور جو بات پسند نہیں ہوتی اسے چھوڑدیتا ہے چاہے وہ واقعہ یا وہ بات کتنی ہی اہم کیوں نہ ہومگریہ تاریخ جس ہستی کی زندگی کی ہے اُس ہستی کا قول ہے کہ’’ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اسکو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کرلے‘‘ان مؤرخین سے کوئی بات بڑھانے کی امیدتوویسے بھی نہیں تھی مگر اس قول نے رہا سہا امکان بھی ختم کردیا اور اس ہستی نے یہ بھی کہاکہ’’تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کو جس نے میری بات سنی پھر اسے یاد رکھا اور جس نے نہیں سنی ہے اس تک اسے پہنچا دیا‘‘۔تو چھپانے کا امکان بھی ختم ہو گیا۔
اور پھر بڑھانا، گھٹانایا چھپانا وہاں ہوسکتا ہے جہاں ایک واقعے کو ایک ہی شخص بیان کر رہا ہومگر یہاں تو ایک ایک بات کو کئی کئی لوگ بیان کر رہے تھے بھلا گھٹایا یا بڑھایا کیسے جا سکتا تھااور یہ اس تاریخ کی انفرادیت ہے کہ یہ عرصے کے لحاظ سے چھوٹی سی ہے مگرمؤرخین ہزاروں اور لاکھوں میں ہیں۔
اور اس سے بھی عجیب بات یہ کہ اس تاریخ کے اکثر مؤ رخین لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے‘‘۔اب سوال یہ کہ انہوں نے تاریخ کیسے مرتب کی ۔توانکا حافظہ ہی اتنے کمال کا تھا اور پھر ان لوگوں میں لکھنے کے بجائے یاد رکھنے اور حفظ کرنے کا دستور اور رواج تھا۔اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ جس صلاحیت کو انسان جتنا زیادہ استعمال کرے وہ اتنی ہی بڑھتی ہے ۔جیسے آپ لوگوں میں جو لوگ لکھنے میں محنت کرتے ہیں وہ بہت اچھا لکھتے ہیں اور جو یاد کرنے میں کرتے ہیں وہ اس میں کمال رکھتے ہیں۔یہی حال ان لوگوں کا تھا کہ ان لوگوں نے اپنی یاد کرنے کی صلاحیت کو کمال تک پہنچایا ہوا تھا کیونکہ وہ قوم اپنی اس صلاحیت کو صدیوں سے استعمال کرتی آرہی تھی اور وہ لوگ ایک لفظ کا یاد کر کے محفوظ رکھنا دس کتابوں سے زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ اور پھر یہ تاریخ لکھنے سے پہلے ان کے بہت سے شوق اور مشغلے تھے مگر جب ان لوگوں میں اس تاریخ کا شوق پیداہوا،سارے مشغلے چھوڑ کر اسی کے ہو گئے اور اپنی ساری تقسیم شدہ صلاحیت ،ذہانت اور شوق اسی پر لگا دیا۔
پھر ایک اور عجیب بات کہ یہ لوگ جس سرزمین پر رہتے تھے وہاں رزق کی قلت رہتی تھی اورروزی روٹی کیلئے سخت محنت کرنی پڑتی تھی اور دور دراز سفربھی ،مگرحیرت کی بات ہے جب ان لوگوں نے اس مستند تاریخ کو یاد رکھنا اور اسکے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا تو کچھ ہی عرصے میں دنیا کی بڑی بڑی سلطنتوں کے تاج اور مال و اسباب ان کے قدموں میں آنا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے انہیں روزی روٹی کی فکر بھی نہ رہی اور اس طرح وہ صرف اور صرف اسی کے ہو رہے‘‘۔
اتنی تفصیل کے بعد کلاس کے تقریباً اکثر اسٹوڈنٹس سر احمد کی بات کو جان چکے تھے مگر ایک طالب علم نے ہاتھ اٹھایا اور بولا’’سر آپ نے کہا کہ یہ ایک شخصیت کی زندگی اور احکامات کی تاریخ ہے جو انکے ماننے والوں یا شاگردوں نے مرتب کی تو کیا آپ’’علم حدیث‘‘ کی بات کر رہے ہیں‘‘۔حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ طالب علم ’’جگن ناتھ‘‘ایک غیرمسلم خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس وقت اس تاریخ کے سب سے زیادہ مستند ہونے کی دلیل بن کر کھڑا تھا۔سر احمدچند لمحے مبہوت کھڑے رہے پھر نمناک آنکھوں کے ساتھ کہا ’’ہاں یہ علم حدیث ہے جونبی کریم ﷺ کے افعال ، احکام،اقوال اور احوال کی مکمل تاریخ ہے اور انسانی تاریخ میں سب سے مستند اور منفرد تاریخ ہے اور اسکے مؤرخین صحابۂ کرام ،اور ان کے شاگرد(تابعین) ہیں۔
صحابہ کرام کا جو تعلق نبی کریم ﷺ کی زندگی اور آپکی ذات کے ساتھ تھا وہ کسی مؤرخ کا اپنی تاریخ کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا کہ جو نہ صرف یہ کہ ہر بات کو یاد رکھتے تھے بلکہ اس پر عمل کرتے اور آپ کے ہر حکم کو اللہ کا حکم جانتے تھے اور انکی آپ سے بیعت ہی اسی بات پر تھی اور پھر جو کچھ وہ یاد رکھتے اور عمل کرتے آپ ﷺ اسکی خود نگرانی فرماتے اور اس میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی پیش پیش تھیں تو بھلا اس سے مستند تاریخ اور کیا ہو سکتی تھی اور عقل کی بات تو یہ ہے کہ ایک مؤرخ کا پوری سلطنت کی تاریخ لکھنا آسان ہے یا کسی ایک ہستی کی زندگی کو ہزاروں مؤرخین کا مرتب کرنایہ ہر انسان سمجھ سکتاہے۔اب میں چند واقعات آپ کو سناتا ہوں۔
حضرت عمرؓ اور انکے ایک پڑوسی صحابی کا یہ معمول تھا کہ جس دن حضرت عمر کام پر جاتے تو وہ صحابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جو کچھ سنتے وہ حضرت عمر سے بیان کرتے اور اگلے دن وہ کام پر جاتے اور حضرت عمر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جو کچھ سنتے وہ ان صحابی کو بتاتے۔
حضرت ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی کا یہ طریقہ تھاکہ جب آپ کسی کے پاس حدیث سننے اور اس کی تحقیق کیلئے جاتے اور پتا چلتا کہ وہ شخص سو رہا ہے تو آپ اپنی چادر اسکے دروازے پر بچھا کر دھول مٹی میں پڑ جاتے اور جب سونے والا خود باہر نکلتا تو پوچھ لیتے حالانکہ آپکا مرتبہ اور احترام اتنا تھا کہ آپ جس کو بلاتے وہ دوڑا چلا آتا مگر حدیث کے احترام میں آپ خود تشریف لے جاتے ۔
حضرت ایوب انصاری کا عجیب واقعہ ہے۔انہوں نے ایک حدیث آپ ﷺ سے براہ راست سنی مگر اس میں انہیں کچھ شک پیدا ہوا۔جب آپ ﷺ نے وہ حدیث فرمائی تھی اس وقت حضرت ایوب کے ساتھ ایک اور صحابی عقبہ بن عامر بھی موجود تھے جو اِس وقت مصر میں قیام پذیر تھے ۔ یہ معمولی شک مٹانے کیلئے حضرت ایوب انصاریؓ مدینہ سے مصر روانہ ہوئے وہاں جا کر انہوں نے عقبہ بن عامر سے کہاکہ میرے سامنے وہ حدیث دہرائیں ۔انہوں نے دہرائی تو اِن کا شک دور ہو گیا اور یہ بغیر رکے اسی وقت واپس روانہ ہوگئے۔
ذہانت اور حافظے کے بارے میں ایک واقعہ حضرت ابو ہریرہؓ کا آپ کو سناتا ہوں ۔
ایک بار اُموی حکم ران مروان بن حکم کو آپ کے حافظے پر شک ہوا ۔اس نے آپ کو محل میں بلایااور حدیثوں کے بارے میں پوچھنے لگا۔پردے کے پیچھے اس نے ایک شخص کو بٹھا رکھاتھا جو ان حدیثوں کو لکھتا جا رہا تھا۔ مروان نے آپؓ سے حدیثوں کی ایک کثیر تعداد سنی۔ ایک سال کے بعد مروان نے دوبارہ آپؓ کو بلوایا اور انہیں حدیثوں کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس وقت وہی شخص پہلی لکھی ہوئی حدیثوں کو اب بیان کی جانے والی حدیثوں سے ملاتا رہا ۔اسی کا بیان ہے کہ ایک حرف کا بھی فرق نہیں تھا۔
پھر صحابہ کے شاگردوں (تابعین)کی شان دیکھئے کہ وہ اپنے استاد سے جوحدیث سن لیتے بس اسی کو کافی نہیں سمجھ لیتے تھے بلکہ اپنے استاد کے دیگرساتھیوں (یعنی دیگرصحابہ)کے پاس اسکی تحقیق کرنے جاتے اور اس مقصد کیلئے ایک ایک حدیث کی خاطرکئی کئی دنوں کے پیدل سفر کرتے اور ذہانت میں یہ بھی کم نہ تھے۔
تابعین میں سے ایک شخص ابن راہویہ کی امیر عبداللہ خراسانی کے دربار میں کسی عالم سے کسی بات پر بحث ہوگئی تو انہوں نے امیر سے کہاکہ آپ اپنی کتب خانے سے کتاب منگوا کر دیکھئے گیارہویں صفحے کی ساتیوں سطر پر وہی لکھا ہے جو میں کہہ رہاہوں۔
یہ تو تھی محنت ،مشقت اور ذہانت کی بات ۔شوق کا یہ حال تھا کہ لوگ بڑے بڑے سرمائے اس پر خرچ کرتے تھے۔مدینہ کافروخ نامی ایک عام آدمی جب ایک لمبے عرصے کیلئے پردیس گیا اور اپنی بیوی کو ایک کثیر رقم دیکر گیاتو اسکی بیوی نے ساری کی ساری اپنے بچے کو عالم بنانے میں خرچ کی اور جب وہ واپس آیا تو اسکا جوان بیٹاربیعہ مشہور عالم اورمسجد نبوی کامدرس بن چکا تھا۔جس پر اس نے بیوی کو سراہا‘‘۔
اتنے میں پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجی سر نے بلیک بورڈ سے سوالیہ نشان مٹایا۔ دوبارہ ایک اور سوالیہ نشان لگایا اور طلبہ سے آخری جملہ کہہ کر نکل گئے کہ ’’اب دیکھنایہ ہے کہ تاریخ کے طلباء کواس مستند تاریخ کی کتنی باتیں یاد ہیں‘‘
قارئین!مجھے اسپتال میں کاغذمیسر نہیں ہے۔ اِدھر میری تحریر کا ایک محترم کرداریعنی استادکلاس روم سے نکل گیا ہے۔اُدھر میرے والد کی انجیو گرافی مکمل ہوگئی ہے اور اِدھراسپتال کے پیشنٹ روم کے ٹشوؤں پر تحریر…..