ترائچو
مصنف: اینجل کرالی چیوف
ترجمہ: احفاظ الرحمن
۔۔۔۔۔
اینجل کرالی چیوف بلغاریہ کا بہت بڑا ادیب ہے۔اس نے بچوں کے لیے بہت سی کہانیاں لکھی ہیں جن کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
۔۔۔۔۔
ترائچو کی امی نے اس سے کہا۔”بطخوں کو پریشان مت کرو،میرے بیٹے۔تم بہت برے لڑکے ہو۔تمہارے دل میں ذرا بھی رحم نہیں ہے۔“
ترائچوروٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے بطخوں کو پکارنے لگا:”آآ،آآ،آآ“
ننھی بطخیں گردن اٹھائے جیسے ہی اس کے پاس پہنچیں، اس نے ایک بچے کی گردن پکڑ لی اور اسے اوپر اٹھا کر ہوا میں گھمانے لگا۔ اسی وقت بوڑھی بطخ اپنے بچے کو بچانے کے لیے دوڑ پڑی اور اس نے ترائچو کے پاؤں میں کاٹ کھایا۔
ترائچو نے بچے کو نیچے گرادیا اور گلی میں بھاگتا ہوا دریا کی طرف جا نکلا۔
پل پر پہنچ کر اس نے ایک پتھر اٹھا کر بطخوں پر دے مارا، جو بڑے مزے سے پانی میں تیر رہی تھیں۔ خوف زدہ بطخوں نے پر پھیلائے اور ادھر ادھر بکھر گئیں۔
”ترائچو!“ کسی نے پیچھے سے آواز دی۔
”ہاں، بڑے میاں وِلکو۔تم بوری میں کیا لیے جا رہے ہو؟“
”میرے پاس تھوڑے سے گیہوں تھے۔چکی پر پسوانے جا رہا ہوں۔ بوری ذرا بھاری ہے۔ اس لیے میں اسے نیچے رکھ کر سستا رہا تھا۔اب یہاں کوئی ایسا شخص نہیں جو اسے اٹھانے میں میری مدد کر سکے۔آؤ، میرے بیٹے، میری مدد کرو۔“
ترائچو نے بوری اٹھا کر بوڑھے ولکو کی پیٹھ پر رکھ دی اور وہ ہانپتا ہوا چکی کی طرف چل پڑا۔وہ جھکا ہوا چل رہا تھا اور بار بار ٹھوکریں کھا رہا تھا،کیونکہ اس کی آنکھیں کم زور تھیں اور اس کی ایک چپل ٹوٹی ہوئی تھی۔
بجائے اس کے کہ ترائچو بوڑھے شخص کی بوری اٹھا کر خود چکی تک پہنچا دیتا، وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس بڈھے کو بے وقوف کیسے بنایا جائے۔کیا وہ بوری کی رسی کھول دے یا اڑنگا لگا کر اسے گرادے؟
”نہیں۔ ایک اور ترکیب ہے۔“اس نے خود سے کہا۔اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔
اس نے جیب سے چاقو نکال کر کھولا اور بوڑھے وِلکو کی طرف دوڑ پڑا۔وہ دبے پاؤں اس کے قریب گیا اور چاقو سے بوری کاٹ ڈالی۔گیہوں کے دانے سرخ چشمے کی طرح بوڑھے ولکو کے پیچھے گرتے رہے،اور اسے خبر تک نہ ہوئی۔چکی تک پہنچتے پہنچتے اس کی پوری بوری خالی ہوگئی۔چڑیوں کا غول کا غول جمع ہو گیا اور دانے چگنے لگا۔
ترائچو نے بطخوں پر ایک دو پتھر اور پھینکے اور پھر گھر روانہ ہوگیا۔شام کے وقت اس کا باپ آٹے میں اٹا ہوا واپس آیا۔ کھانے کی میز پر ترائچو کی ماں نے پوچھا۔”چکی پر کوئی خاص بات تو نہیں ہوئی؟“
”ہاں، ہوئی“باپ نے جواب دیا۔”مجھے بوڑھے وِلکو پر بڑا ترس آرہا ہے۔ بے چارہ بوڑھا! تمہیں تو معلوم ہے کہ اس کے پاس صرف سیب کا ایک درخت ہے۔اس کے تمام سیب جمع کرکے ان کے بدلے گیہوں خریدا تھا۔غریب بوڑھا جب چکی کی طرف آرہا تھا تو کسی کمینے نے چاقو سے اس کی بوری کاٹ ڈالی اور اس کا سارا غلہ گرگیا۔چکی پر پہنچ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔تم جانتی ہو کہ وہ اکیلا ہے اور کوئی ایسا شخص نہیں جو اس کی مدد کرے۔“
”وہ کون تھا جس نے اس کی بوری کاٹی تھی؟“
”مجھے نہیں معلوم۔ اگر معلوم ہوجائے تو میں اس کا ہاتھ توڑ دوں۔“ باپ نے کہا۔
ترائچو نے بڑی مشکل سے نوالے حلق سے نیچے اتارے اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
”کہاں جا رہے ہو؟“ باپ نے پوچھا۔
”سونے جا رہا ہوں۔ مجھے نیند آرہی ہے۔“
”جاؤ۔ صبح جلدی اٹھنا ہے۔ کچھ چیزیں خریدنے شہر جائیں گے۔میں تمہیں جوتے خرید دوں گا تاکہ تم اگلے دن اسکول جانے لگو۔“
بستر میں گھس کر ترائچو بوڑھے وِلکُو کے بارے میں سوچنے لگا۔اس نے خیال ہی خیال میں اسے بھوسے کے ڈھیر پر بیٹھے دیکھا۔ اس کے گالوں پر آنسو بہ رہے تھے۔اچانک کسی شخص نے اسے ٹھوکر ماری اور بولا۔”اٹھو!“
ترائچو اٹھ کر بیٹھ گیا۔کھلی ہوئی کھڑکی سے خزاں کا پورا چاند دکھائی دے رہا تھا اور بوڑھا ولکو کسی شیطانی روح کی طرح کھڑکی کے پاس کھڑا تھا۔اس نے بائیں ہاتھ میں بوری پکڑ رکھی تھی اور دائیں ہاتھ میں ایک کانٹوں والی چھڑی تھی۔
”بوری میں گھس جاؤ۔“ بوڑھا چیخا۔اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔
”کیوں؟“ ترائچو نے لرز کر کہا۔
وہ بوری کے اندر نہیں گھسنا چاہتا تھا لیکن جب اس نے بوڑھے کی چھڑی دیکھی تو چپ چاپ اس میں گھس گیا۔ولکو نے اسے کندھے پر اٹھایا اور چل پڑا۔ترائچو نے چیخنے چلانے کی کوشش کی لیکن خوف سے اس کی زبان گنگ ہو گئی۔بوڑھا اسے چکی کی طرف لے جا رہا تھا۔اس نے دروازے کو پیر سے ٹھوکر ماری اور اندر داخل ہو گیا۔ اندر کوئی بھی نہ تھا۔صرف چکی کا پتھر تیزی سے گھوم رہا تھا۔
”میرے پاس اب گیہوں نہیں ہیں، اس لیے میں تمہیں پیسوں گا۔پیپے کے اندر چلے جاؤ۔“
بوڑھے ولکو نے ترائچو کو پیپے کے اندر ڈال دیا۔اس نے ایک بار پھر چیخنے کی کوشش کی لیکن اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔ وہ گونگا ہو گیا تھا۔چکی نے اسے ایک منٹ میں پیس ڈالا۔
بوڑھے ولکو نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔”افسوس!اس لڑکے سے آٹے کے بجائے صرف بھوسا نکلا۔“
اس نے پسے ہوئے بھوسے کو بوری میں بھرا اور اپنے گھر لے گیا۔بطخوں نے اسے دیکھا تو وہ دوڑی دوڑی آئیں۔
”ہم بھوکی ہیں۔“ وہ چلائیں۔
”بس تھوڑی دیر رک جاؤ۔میں تمہیں کھانا دیتاہوں۔“بوڑھے ولکو نے پسے ہوئے بھوسے کو ناند میں ڈالتے ہوئے کہا۔پھر اس نے بھوسے کو گرم پانی سے گوندھا اور بطخوں سے بولا:
”آؤ بطخو! اپنا پیٹ بھرلو۔“
ترائچو نے ایک بارپھر چیخنے کی کوشش کی لیکن منہ سے آواز نہ نکلی کیوں کہ اس کا منہ ہی نہیں تھا۔
اور پھر وہ ایک دم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔اس کا بدن پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔اس نے تھوڑا سا پانی پیا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ زندہ ہے تو اٹھ کر احاطے کی طرف چلا گیا۔ وہاں اس کا باپ گاڑی جوت رہاتھا۔
”ابو!“ ترائچو نے کہا۔”کیا ایک جوڑی جوتوں کی قیمت سے ڈیڑھ من گیہوں خریدا جا سکتا ہے؟“
”ہاں“ اس کے باپ نے جواب دیا۔”لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟“
”اس لیے کہ کل شام بوڑھے ولکو کی بوری میں نے ہی کاٹی تھی۔میں جوتے نہیں خریدوں گا۔آپ اس کے بدلے بوڑھے ولکو کے لیے ڈیرھ من گیہوں خرید لیجیے۔میں ننگے پاؤں بھی اسکول جا سکتا ہوں۔“
باپ نے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”بیٹے مجھے معلوم تھا تمہارا دل برا نہیں ہے۔تم اپنے کیے پر ضرور پچھتاؤ گے۔چلو، شہر جانے کی تیاری کرو۔بڑے میاں ولکو کی فکر مت کرو۔ کل رات میں نے اس کی بوری اپنے آٹے سے بھر دی تھی۔