skip to Main Content

تاج محل

راز یوسفی
۔۔۔۔۔

مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر میں ایک چھوٹی سی تحصیل کا نام ’’نواں شہر ‘‘ہے۔ نواں شہر کا ایک چھوٹا سا اسٹیشن ہے،جہاں دن میں صرف ایک مرتبہ گاڑی آتی ہے تو اسٹیشن پر تھوڑی سی چہل پہل ہو جاتی ہے۔ تازہ روٹی، چائے گرم کی آوازوں سے اسٹیشن کا ماحول گونج اٹھتا ہے، لیکن گاڑی کے چلتے ہی ہر طرف ایک گہرا سناٹا چھا جاتا ہے اور یوں معلوم ہونے لگتا ہے، اسٹیشن نہ ہو کوئی قبرستان ہو۔
اسٹیشن سے باہر نکل کر ایک پکی سڑک ایک چھوٹے سے قصبے میں پہنچ جاتی ہے جس کا نام ’’سلوہ ‘‘ہے۔ یہ قصبہ اسٹیشن سے ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ مجھے اس قصے کے ٹوٹے پھوٹے گھروں، گندے جوہڑوں اور غلیظ گلیوں سے اتنی ہی محبت ہے جتنی اپنی پیاری امی سے کیونکہ میری امی اسی قصبے میں پیدا ہوئی تھیں اور اس طرح یہ چھوٹا سا قصبہ میری ننھیال بن گیا۔
پاکستان بننے سے کچھ پہلے جب میں پہلی باراس قصبے میں گیا تو وہاں پہنچ کر میرا دل بہت گھبرایا۔ میں نے شہر میں اونچی اونچی عمارتیں دیکھی تھیں، صاف ستھری سڑکیں اور پختہ گلیاں دیکھی تھیں، مٹی کے دیوں کی جگہ بجلی کتے ہنڈے دیکھے تھے۔ مگر اس قصبے میں تو اس قسم کی ایک بھی چیز نہ تھی۔ وہاں صرف چار پانچ سو کچے پکے اور ٹوٹے پھوٹے گھر تھے۔ تنگ و تاریک گلیاں تھیں۔ یا ہرطرف بو پھیلاتے ہوئے جو ہر جن کے کناروں پہ کالی کالی کا ہی جمی ہوئی تھی۔ مجھے یہ سب کچھ ایک آنکھ نہ بھایا مگر کسی نہ کسی طرح گرمی کی چھٹیاں تو گزارنی ہی تھیں اس لیے صبرشکر کرتے ہی بن پڑی۔
دو چار دن تو میری طبیعت بڑی اُداس رہی اور میں کچھ کھویا کھویا سا رہا۔ لیکن جب میری نانی جان نے مجھے خوب پیٹ بھر کر دودھ پلایا، کھیر کھلائی اور چوسنے کے لیے ڈھیر سے آم میرے سامنے رکھ دیے تو طبیعت خوش ہو گئی۔ شہر میں یوں تو سب کچھ ملتا ہے، مگر دود ھ اور مکھن کی اتنی افراط کہاں؟
گھر سے باہر نکل کر جب میں نے ہرے بھرے کھیتوں کی طرف نظر دوڑائی تو اور بھی آنکھوں کو طراوت نصیب ہوئی اور دل باغ باغ ہو گیا۔ اب میں اتنا خوش رہنے لگا تھا کہ یہاں سے جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ انہی دنوں وہاں ایک سالانہ میلا لگا۔ جس میں بڑی رونق رہی۔ آس پاس کے دیہاتوں سے بہت سے لوگ اس میں شامل ہوئے۔ دکانیں لگیں، جھولے لگے، قوالیاں ہوئیں، بھنگڑا ہوا۔ غرض بڑا لطف رہا اور طبیعت خوب بہلی رہی۔ یہ میلا قبرستان کے پاس ہی ایک میدان میں لگاتھا۔
اس روز قبرستان میں ایک پکی سی قبر پر بہت سے ہار چڑھائے گئے اور لوگوں نے قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعائیں مانگیں۔ میری امی اور نانی جان بھی قبرستان پہنچیں۔ انھوں نے بھی اس قبر پر پھول چڑھائے، دعا مانگی۔ میں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا لیے۔پھر ہم وہاں سے چلے آئے۔
کچھ دور آگے چل کر میں نے ایک بڑی خوب صورت سی کو ٹھی دیکھی۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایسے ویران سے جنگل میں ایسی خوشنما کو ٹھی میں نے کبھی شہر میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ اس کا نمونہ بالکل اس ’’تاج محل ‘‘جیسا تھا جو آگرہ میں ہے اور میں نے جس کی تصویر کتابوں میں دیکھی تھی۔
اس کو ٹھی کے ایک بڑے سے دالان میں بہت سی عورتیں بیٹھی ہوئی قرآن شریف پڑھ رہی تھیں۔ امی جان اور نانی جان نے بھی وہاں بیٹھ کر قرآن شریف پڑھا اور پھر ہم گھر کی طرف چل دیے۔ میں ابھی تک حیرت میں گم تھا اور سوچ رہا تھا ،وہ قبر کس کی تھی؟ یہ کو ٹھی کس کی ہے؟ اور اتنی ڈھیر سی عورتیں یہاں بیٹھ کر قرآن شریف کیوں پڑھ رہی تھیں؟
میرے ننھے سے دماغ نے اس گتھی کو سلجھانے کی ہر چند کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی ۔آخر تنگ آکر میں نے نانی جان سے پوچھ ہی لیا ۔
’’نانی جان! کچھ مجھے بھی تو بتائیے، وہ قبر کس کی تھی اور جس کو ٹھی میں ہم گئے تھے وہ کس کی تھی؟ ‘‘
’’بیٹا! وہ قبر ایک بہت بڑے آدمی کی تھی اور وہی اس کو ٹھی کا مالک تھا۔ ‘‘
’’کون تھا وہ؟‘‘
’’میں تمھیں اِس کے بارے میں سب کچھ رات کو بتاؤں گی۔ یہ بڑی لمبی کہانی ہے ۔‘‘
میں چپ ہو گیامگر سارا دن میرے دل میں لگن رہی کہ کب رات ہو اور کب میں نانی کی زبانی وہ سب باتیں معلوم کروں جو میرے دماغ میں چیونٹیوں کی طرح رینگ رہی تھیں۔
گرمیوں کا موسم تھا اور چودھویں کا چاند آسمان پر چمک رہا تھا۔ جب کو ٹھے پر چار پائیاں بچھ گئیں اور نانی جان نے پان کی گلوری منہ میں رکھ لی تو میں نے فوراً ہی دن والی بات چھیڑ دی۔
’’نانی جان! آپ وہ قصہ سنایئے جس کے بارے میں آپ نے وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’ہاں! خوب یاد آیا۔ لوسنو یہ قبر شبیر کی ہے جو اسی گاؤں کے ایک غریب پٹواری کا لڑکا تھا۔ اسے بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا ۔جب دُوسرے بچے کھیلتے تھے تو وہ پڑھتا تھا اور جب وہ سوتے تھے تووہ جاگتا تھا۔ اپنی عجیب عادتوں کی وجہ سے اُس کے ساتھی چڑانے کے لیے اسے ’’بچھّا کہہ کر پکارتے تھے مگریہ برا نہیں مانتا تھا۔
دن رات کی محنت اور انتھک کوشش سے اس نے میٹرک پاس کیا۔ پھر کسی نہ کسی طرح بی۔ اے کر لیا۔ گاؤں میں وہ پہلا لڑکا تھاجس نے اتنی تعلیم پائی تھی۔ سب لوگ اسے حیرت سے دیکھتے تھے مگر اس نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اب وہ ولایت جانے کے خواب دیکھنے لگا۔ جب ایک دن اس نے اپنے باپ کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایک غریب پٹواری اتنی اونچی چھلانگ کیسے لگا سکتا تھا۔ اپنے باپ کو پریشان دیکھ کر اس نے کہا۔ ’’ابا جان! آپ پریشان نہ ہوں۔ میں صرف آپ سے ولایت جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ باقی تمام انتظام میں آپ کر لوں گا۔ ‘‘
باپ مسکرا کر رہ گیا۔
پھر وہ نمبردار سے جا کر ملا اور اس سے مدد چاہی مگر نمبردار تو ایک جاہل کسان تھا۔ اُس نے شبیر کا مذاق اڑایا۔ اور کہنے لگا:
’’برخوردار! ولایت جانا تو راجوں مہاراجوں کا کام ہے ۔تم جھونپڑی میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھتے ہو ۔میری مانو تو شہر میں جا کر کسی دفتر میں بابو بھرتی ہو جاؤ ۔‘‘
پاس بیٹھے ہوئے دُوسرے دیہاتیوں نے بھی دل کھول کر اس کا مذاق اُڑایا۔ مگر اس کی تیوری پر ذرا بھی بل نہ آیا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر سیدھا گاؤں کے مہاجن ’’لالہ کروڑی مل ‘‘کے پاس گیا اور اپنی پوری کہانی سنا کر اس سے مدد مانگی۔ وہ بڑا کایاں آدمی تھا، بھانپ گیا کہ ایسے نیچے گھرانے میں اتنی اونچی بات کہنے والا کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا۔ اُس نے روپیہ ادھار دینے کے لیے کچھ شر طیں پیش کیں۔ جسے بشیر نے فوراً ہی قبول کرلیا اور کچھ دنوں بعد ولایت چلا گیا۔
پانچ سال کے بعد وہ ولایت سے بہت بڑا انجینئر بن کر واپس آیا۔ خدا نے اسے اس کی محنتوں کا پھل دیا اور غریب پٹواری کی دن رات کی دُعائیں قبول ہو ئیں۔ وہ لوگ جو کبھی بشیر کا مذاق اڑاتے تھے، اب اس کی راہ میں آنکھیں بچھا رہے تھے۔
بشیر آتے ہی بہت بڑا افسر بن گیا۔ اُس نے سب سے پہلے ایک عالی شان مسجد بنوائی۔ جہاں پانچوں وقت خدا کا نام گونجنے لگا۔ پھر ایک اسکول جاری کرا یا جو پرائمری سے مڈل اور مڈل سے ہائی ہو گیا۔ وہ گاؤں جہاں کھیتیاں صرف اِس لیے خشک رہتی تھیں کہ وہاں پانی کی کمی تھی پھر ہری بھری ہو گئیں کیونکہ اُس نے وہاں ٹیوب ویل لگوا دیے تھے۔
پھر گاؤں سے باہر اس نے وہ عالی شان کو ٹھی بنوائی جو تم نے آج صبح دیکھی تھی۔ یہ کو ٹھی کئی سال میں بنی تھی۔ سیکڑوں راج مزدوروں نے مل کر اسے تاج محل کا نمونہ بنایا تھا۔ وہ اس کو ٹھی میں بادشاہوں کی طرح رہتا تھا اور اُس کے بیسیوں نوکر چاکر تھے۔ مگر ایک دن جب وہ جالندھر سے گاؤں کی طرف آرہاتھا تو راستے میں اس کی موٹر ایک تیز رفتار ٹرک سے ٹکرا گئی اور وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اب ہر سال اس کی یاد منانے کے لیے یہاں میلا لگتاہے اور قرآن شریف پڑھ کر اس بڑے آدمی کی روح کو ثواب پہنچایا جاتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top