skip to Main Content
تبدیلی کا سفر

تبدیلی کا سفر

احمد عدنان طارق

سیمی اچھی سے اچھی چیز کی تلاش میں چیزوں کو تبدیل کرکے پچھتاتا رہا۔

اس بونے کانام سیمی تھا۔ وہ آج بہت خوش تھا۔ اس نے پچھلے دنوں خاصے پیسے بچائے تھے۔ اب وہ اپنی سواری کے لیے ایک سفید خرگوش خریدنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ایک دن وہ بازار گیا اور اس نے ایک سفید خرگوش خریدا۔ خرگوش ریشم کی طرح نرم جلد والااور برف کی طرح سفید تھا۔ وہ اس پر سوار ہو گیا تاکہ گھر واپس جاسکے۔ اس نے خرگوش کو ایڑ لگائی تو وہ جنگل میں قلانچیں بھرنے لگا۔ 
سیمی کو بہت مزا آرہا تھا۔ راستے میں وہ ایک اور بونے بنٹی سے ملا ۔ جس نے ہاتھوں میں ایک بڑی پیاری رنگ برنگی مرغی تھامی ہوئی تھی۔ سیمی خرگوش سے اترا اور مرغی کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ 
’’یہ بڑی پیاری مرغی ہے۔‘‘ بنٹی اسے بتانے لگا۔ ’’یہ بڑی خاص مرغی ہے کیونکہ یہ ایک انڈہ روزانہ ناشتے کے وقت دیتی ہے۔ ایک چاے کے وقت اور اگر چاے کے وقت کوئی دوست آجائے تو اس کے لیے ایک مزید انڈہ بھی دے دیتی ہے۔‘‘ سیمی حیران تھا۔ اس نے اتنی اچھی مرغی کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔ اس کا دل مرغی کے لیے مچلنے لگا۔ اس نے بنٹی سے کہا۔ 
’’دیکھو یہ میرا نیا خرگوش ہے۔‘‘ بنٹی نے اسے دیکھا اور کہنے لگا۔ ’’بہت عمدہ ہے لیکن یہ انڈے نہیں دے سکتا۔ ‘‘ سیمی اب پریشان لگ رہا تھا، بولا :’’نہیں یہ انڈے تو نہیں دے سکتا۔ ‘‘ بنٹی کہنے لگا ۔’’ذرا دیکھو ! مجھے پتا ہے تمھیں انڈے کھانا بہت پسند ہے اور تم میرے بہترین دوست بھی ہو میں اپنی مرغی کا تبادلہ تمھارے خرگوش سے کر لیتا ہوں۔ اگر تم پسند کرو تو اس تبادلے سے تمھیں ہر روز انڈے کھانے کو ملیں گے۔ ‘‘ سیمی نے انڈوں کے بارے میں سوچا تو اس کے منھ میں پانی بھر آیا۔ وہ خرگوش سے اور پرے ہوگیا اور کہنے لگا :’’ میں خوشی سے تبادلہ کروں گا۔ اپنی مرغی مجھے دے دو۔‘‘ بنٹی نے اپنی مرغی اس کے حوالے کر دی اور سیمی کے سفید براق خرگوش پر سوار ہو گیا۔ اس نے سیمی کو خدا حافظ کہا اور روانہ ہو گیا۔ سیمی نے مرغی بغل میں دبائی اور جنگل میں چلنے لگا۔ وہ مسلسل انڈوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی ملاقات راستے میں ایک پری زاد شہریار سے ہوئی۔ شہریار نے رک کر اسے سلام کیا۔ سیمی نے اس سے کہا۔ 
’’سہ پہر بخیر! ذرا میری پیاری مرغی کو دیکھو۔ یہ ایک انڈا ناشتے کے وقت او رایک چاے کے وقت دیتی ہے اور اگر چاے پر کوئی دوست آجائے تو اس کے لیے ایک اضافی انڈہ بھی دے دیتی ہے۔کیسی ہے؟‘‘ شہریار بولا:’’ کیا بات ہے۔ ہر روز انڈے ملیں تو مزا آجائے لیکن کچھ دنوں کے بعد تمھیں اکتاہٹ ہوجائے گی۔ ‘‘ سیمی فوراً بولا۔
’’ نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘ شہریار بولا۔
’’ایسا ضرور ہوگا۔ اب ذرا دیکھو! میرے پاس کیا ہے؟ یہ دن میں دوانڈوں سے کہیں بہتر ہے۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ جیب میں ڈالا اور اس میں سے ایک چھوٹا سا چوہا نکالا ۔ جو اپنی سیاہ آنکھیں جھپک جھپک کر سیمی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سیمی بے اختیار بولا: ’’ بڑا ننھا منا سا چوہا ہے۔ لیکن ایک ننھے منے چوہے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟‘‘ شہریار بولا۔
’’ میں تمھیں سمجھاتا ہوں۔ یہ فرش پر پڑے ہوئے روٹی اور ڈبل روٹی کے تمام ٹکڑے ہڑپ کرجاتا ہے اور پھر فرش کو جھاڑو سے صاف کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیا یہ مزے کی بات نہیں ہے۔ اچھے خاصے کام کرنے سے بچت ہوجاتی ہے۔ کیوں ہے نا؟‘‘
اب حقیقت یہ تھی کہ سیمی کھانا کھاتے وقت روٹی کے ٹکڑے زمین پر گراتا تھا۔ ہر کھانے کے بعد اس کے نزدیک ڈبل روٹی کے چور ے کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ اسے چوہے کا فائدہ سن کر اس میں دلچسپی ہونے لگی۔ شہریار جانتا تھا کہ سیمی کیا سوچ رہا ہے۔ اس نے کہا۔
’’سیمی سنو۔ تم میرے سب سے اچھے دوست ہو۔ اس لیے میں صرف تمھارے لیے ہی ایسا کرسکتا ہوں کہ تمھیں تمھاری مرغی کے بدلے میں اپنا چوہا دے دوں۔ جس کے بعد تمھیں گھر میں فرش صاف کرنے کے لیے جھاڑو نہیں پھیرنی پڑے گی۔ ‘‘ سیمی نے اپنی مرغی شہریار کے حوالے کی اور بولا: ’’ٹھیک ہے۔ میں تبادلے کے لیے تیار ہوں۔ اپنا چوہا مجھے دے دو۔‘‘ لہٰذا شہریار نے اپنا چوہا سیمی کو دے دیا۔ اس کی مرغی لی اور اسے خدا حافظ کہہ کر اپنے راستے پر ہو لیا۔ سیمی بھی جیب میں چوہے کو ڈالے جنگل میں آگے بڑھ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شکر ہے فرش صاف کرنے سے جان چھوٹی۔ پھر وہ راستے میں ایک بالشتے نامی سے ملا جو منھ سے ایک بانسری لگائے کوئل کی طرح کو کو کررہا تھا۔ سیمی نے اسے سلام کیا اور اسے کہنے لگا ۔
’’ ذرا میرا چوہا دیکھنا۔ یہ میری کھانے کی میز پر گرے ہوئے تمام ڈبل روٹی کے چورے کو کھا لیا کرے گا۔ جس سے مجھے صفائی نہیں کرنی پڑے گی۔ کیسا ہے!! ‘‘ بالشتیا نامی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔
’’توبہ توبہ میں تو کبھی چوہا نہ پالوں خصوصاً جب تمھارے گھر کے پڑوس میں ایک جادوگرنی رہتی ہو اور جس کے پاس اس کی پالتو بلی ہو۔ اسے چوہے کی خوشبو آگئی تو وہ دس منٹ میں اسے چٹ کر جائے گی۔‘‘ سیمی یہ سن کر پریشان ہو کر بولا: ’’ میں نے تو اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اب میں کیا کروں۔‘‘ نامی نے بانسری بجائی تو ایسا لگا جیسے کوئی بلبل گا رہی ہو۔ سیمی متاثر ہو کر بولا ۔ ’’ کمال کی دُھن ہے۔ جب میں تمھیں ملا تو بانسری سے کوئل کو کو کررہی تھی اب بلبل کی آواز نکل رہی ہے۔‘‘ نامی نے دوبارہ بانسری بجائی تو چڑیوں کے چہچہانے کی آواز آنے لگی۔ سیمی حیران ہو کر سنتا رہا۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولا: ’’ کاش اس چوہے کے بجاے میرے پاس یہ بانسری ہوتی۔ ‘‘ یہ سن کر نامی ہنسنے لگا ۔ وہ بولا: ’’تم میرے سب سے پیارے دوست ہو۔ میں تمھیں اپنی بانسری دیتا ہوں اور تم مجھے اپنا چوہا دے دو۔‘‘ سیمی نے خوش ہو کر اپنا چوہا نامی کے حوالے کر دیا۔ نامی نے اسے بانسری دی اور چوہا اپنی جیب میں ڈالا۔ سیمی کو خدا حافظ کہا اور دوڑ کر جنگل میں غائب ہو گیا ۔ 
سیمی بھی جنگل میں آگے چل پڑا۔ اس نے بانسری کو ہار کی طرح گلے میں لٹکا لیا۔ وہ ابھی تک پرندوں کی مترنم آوازوں سے مسحور تھا راستے میں وہ تزئین کو ملا جو ایک پری تھی۔ وہ سیمی کو دیکھ کر رکی اور اسے سلام کیا۔ سیمی نے سلام کا جواب دیا اور کہنے لگا۔ ’’ ذرا میری پیاری بانسری کو دیکھنا۔ یہ کسی بھی پرندے کی آواز نکال سکتی ہے۔ ہے نا عجیب و غریب چیز ؟‘‘ لیکن تزئین نے بانسری کے متعلق خاص رغبت کا اظہار نہ کیا وہ بولی: ’’کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ پرندوں کی آوازوں سے تمھارا کیا فائدہ ہے۔ تمھیں پوری محنت سے سانس کھینچنا پڑتا ہے جس سے بہت بھوک لگتی ہے۔ ‘‘ سیمی پھر پریشان ہو گیا ۔ وہ بولا: ’’ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے۔ مجھے تو ابھی بھی بھوک محسوس ہو رہی ہے لیکن اب تو میرے پاس کھانا کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔‘‘ تزئین بولی۔ ’’دیکھو میرے پاس کیا ہے؟‘‘ اس نے ایک ڈبہ نکالا اور اسے کھولا ۔ سیمی نے دیکھا تو اس میں ایک فولاد سے بنی سوئی تھی۔ یہ دیکھ کر سیمی بولا۔
’’ یہ تو ایک معمولی سوئی ہے۔‘‘ تزئین نے اسے بتایا۔ ’’غور سے سنو! یہ بہت ہی غیر معمولی سوئی ہے۔ یہ جرابوں اور عام کپڑوں میں ہونے والے سوراخوں کو خود بخود سی دیتی ہے۔ اب اس کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘ یہ سن کر سیمی کی نظروں کے سامنے اس کے گھر میں پڑے ہوئے تمام پھٹے ہوئے کپڑے گھوم گئے۔ وہ بولا: ’’واقعی ایسا ہوتا ہے ۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ کاش اتنی فائدہ مند چیز میرے پاس ہوتی۔ ‘‘
تزئین پری یہ سن کر بولی: ’’ تم میرے اچھے بھائی ہو میں تمھیں تمھاری مشکل کا حل بتاتی ہوں۔ میں تمھاری بانسری لے لیتی ہوں اور اس کے بدلے میں اپنی سوئی تمھیں دے دیتی ہوں۔‘‘ سیمی نے خوشی خوشی اپنی بانسری پری کے حوالے کی اور اس سے سوئی لے لی۔ پھر پری نے اسے خدا حافظ کہا اور اُڑ گئی۔ سیمی پھر جنگل میں روانہ ہوگیا۔ وہ اب کپڑوں کی خودبخود سلائی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ سوچنے میں اتنا مصروف تھا کہ چلتے ہوئے اس نے راستے کا خیال نہیں رکھا اور راستے میں بھٹک گیا۔ وہ شدید پریشانی میں بولا: ’’اوہو یہ نئی مصیبت ہے۔ میں نے راستہ کھو دیا ہے۔ رات ہونے کو ہے اور مجھے سردی بھی لگ رہی ہے۔ میں بھوکا ہوں۔ اب میں کیا کروں۔‘‘ وہ خاصی دیر جنگل میں راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ بہت پریشان اور تھکا ہوا تھا۔ اردگرد کسی کی رہائش نہیں تھی اور نہ ہی کوئی اسے راستے میں ملا۔ آخرکار وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور بے اختیار رونے لگا۔ 
ایک بوڑھی جادوگرنی جو اپنی اُڑنے والی جھاڑو پر سوار تھی اسے روتا دیکھ کر نیچے اتری اور اس سے مسئلہ پوچھنے لگی۔ سیمی نے اسے بتایا ۔ ’’ میں گم ہو گیا ہوں۔ میں ہوائی پہاڑی پر رہتا ہوں اور اب وہاں تک پہنچنے کا راستہ نہیں جانتا کیا تم مجھے جھاڑو پر بٹھا کر گھر چھوڑ دو گی۔‘‘ 
جادوگرنی بولی: ’’ اس بارے میں مجھے سوچنا پڑے گا لیکن اگر میں تمھارا کام کروں تو اس کے بدلے میں تم مجھے کیا دو گے۔‘‘ سیمی نے پوچھا۔ ’’ کیا تم کچھ لیے بغیر میرے ساتھ نیکی نہیں کرسکتیں۔‘‘ 
جادوگرنی بولی: ’’ میں نیک جادوگرنی نہیں ہوں۔ نیک لوگ ہی ہمدردی کرتے ہیں۔اگر تمھارے پاس ایک چاندی کا سکہ ہے تو میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ دیتی ہوں۔‘‘ 
سیمی بولا: ’’ میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے میں نے تمام رقم بازار میں خرچ کر دی تھی۔ ‘‘ جادوگرنی کے پوچھنے پر اس نے خرگوش کے خریدنے سے لے کر سوئی کے تبادلے تک اسے تمام روداد بتا دی۔ اس نے جادوگرنی کو سوئی دکھائی جادوگرنی کی آنکھیں سوئی کو دیکھ کر چمکنے لگیں۔ 
وہ بولی: ’’ اس سوئی کے بدلے میں تمھیں گھر چھوڑ دیتی ہوں۔ ‘‘ سیمی نے انکار کرتے ہوئے اسے کہا کہ اسے سوئی کی ضرورت ہے۔ جادوگرنی نے شانے اُچکاتے ہوئے لاپروائی سے کہا: ’’ ٹھیک ہے تو پھر میں چلتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چھلانگ لگا کر جھاڑو پر سوار ہو گئی۔ یہ دیکھ کر سیمی بے چین ہو کر چلایا ۔’’ رکو ۔ رکو ۔ مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔ میں تمھیں اپنی جادو کی سوئی دے دیتا ہوں۔ بس تم مجھے میرے گھر پہنچا دو۔‘‘ جادوگرنی نے اس سے سوئی لی ۔ اُسے جھاڑو پر بیٹھنے کے لیے کہا اور پھر جھاڑو انھیں لے کر ہوا میں بلند ہوئی اور طوفانی رفتار سے سفر کرنے لگی۔ 
سیمی جھاڑو کو پورے زور سے پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے جھاڑو پر سفر کرنے کا ذرا بھی تجربہ نہیں تھا اور وہ بہت خوفزدہ بھی تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ گھر پہنچے کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک طریقہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ آخر کیوں اس نے خرگوش کا تبادلہ کیا جو اسے بڑے آرام سے گھر چھوڑ سکتا تھا۔ وہ آگے کی طرف سفر کرتے رہے اور ہوا سیمی کے کانوں میں سیٹیاں بجاتی رہی۔ اسے اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور پھر سیمی کی پسندیدہ ٹوپی اس کے سر سے اُڑی اور ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں گم ہو گئی۔ 
سیمی نے بے چارگی سے سوچا کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو اس نے یہ ٹوپی بے حد پسند کرکے خریدی تھی لیکن میں تو جادوگرنی کو رکنے کا بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ کہیں وہ اسے پھر چھوڑ کر نہ چلی جائے۔ لہٰذا وہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔ پھر سیمی کو یوں لگا کہ سردی سے اس کے ہاتھ اتنے ٹھنڈے ہو گئے ہیں کہ وہ گرنے لگا ہے اسی وقت اسے نیچے ہوائی پہاڑی نظر آئی۔ جھاڑو نیچے اُتر آئی۔ اب سیمی گھر میں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولے۔ جادوگرنی پھر فضا میں بلند ہوچکی تھی اور جادو کی سوئی ساتھ لے گئی تھی۔ 
سیمی بہت افسردہ تھا۔ وہ اپنے خوابوں میں پچھتاتا رہا کہ کیوں اس نے خرگوش چھوڑا جو اسے گھر لاسکتا تھا۔ مرغی سے اسے انڈے کھانے کو مل سکتے تھے۔ چھوٹا چوہا صفائی میں اس کی مدد کرسکتا تھا۔ بانسری سے پرندوں کی خوبصورت آواز یں سن سکتا تھا۔ اور سوئی سے پھٹے کپڑے سی سکتا تھا۔ پھر وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو تھے۔ وہ بولا: میں ہمیشہ میانہ روی سے کام لوں گا اور خدا نے جو عنایت کر دیا اسی سے کام چلاؤں گا۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top