سورج مُکھی اور پری زاد
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔
سب اسے سورج کا پری زاد کہتے تھے ۔کیونکہ اسے اندھیرا ذرا نہیں بھاتا تھااور ہر وقت وہ سو رج کی روشنی میں کھیلتے رہنا چاہتا تھا۔جب تک سورج نہ چمکتا وہ گھر سے باہر نہیں نکلتا ۔اندھیرا ہونے سے پہلے ہر صورت وہ اڑ کر واپس گھر لوٹ آتا۔وہ ہر وقت ڈرتا رہتا کہ کہیں اندھیرے میں گھر سے باہر نہ رہ جائے۔
ایک دن سب پریو ں اور پری زادوں کو ایک تقریب میں شریک ہونے جانا تھا ۔یہ تقریب ایک باغ میں ہونی تھی۔ جو اس جنگل سے بہت دورتھی جس میں یہ سب رہتے تھے۔ جوں جوں تقریب والا دن نزدیک آتا جارہا تھا ان سب کی خوشیوں میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا تھا۔اور وہ سب بڑی شدت سے تقریب کا انتظار کر رہے تھے ۔
لیکن سورج کے پری زاد کے منہ میں ایک ہی بات تھی وہ سب دوستوں سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ کیا تقریب والے دن سورج چمکتا رہے گا؟اس کی بار بار یہی بات سن کر آخر اس کے دوست ناراض ہونے لگے انہوں نے پری ز اد کو کہا کہ اگر اسے بارش سے ڈر لگتا ہے تو پھر تقریب میں ہی نہ جائے ۔
سورج کا پری زاد انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا وہ انہیںبتا رہا تھا ۔مجھے بارش سے ڈر نہیں لگتا ۔لیکن مجھے اندھیرا ذرا پسند نہیں ہے ۔پھر ایک سہ پہر کو وہ سارے تقریب میں شرکت کے لےے باغ کی طرف اڑگئے ۔سورج کے پری زاد نے اپنے سر پر چمکتا ہوا سورج دیکھااور اپنے اردگر د پھیلی روپہلی روشنی کو دیکھا اور بولا ۔میں بہت خوش ہو ں لیکن میری خواہش ہے کہ ہم جلد واپس آجائیں ۔میں چاہتا ہوں اندھیرا ہونے سے پہلے گھر پہنچ جاﺅں ۔
اس کے سارے دوستوں نے اسے پیشکش کی کہ جس طرح وہ اکٹھے آئے ہیں اسی طرح واپس بھی اکٹھے ہی جائیں گے ۔تقریب بہت ہی شاندار تھی ۔اور سارے دوست مل کر ہلا گلاکر رہے تھے ۔اور انہیں واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں لگ رہی تھی۔
پھر سورج کے پری زاد نے سنہری رنگ کے آسمان کو قرمزی رنگ میں تبدیل ہوتے دیکھا کیونکہ سورج اب اپنے روپہلی پردوں کو اوڑھ کر سونے جارہا تھا اس کے سارے دوست کہنے لگے ۔ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے ۔لیکن تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاﺅ۔
ٍٍ لہٰذا بے چارہ سورج کا پری زاد اکیلا ہی گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔لیکن جلدی میں وہ راستہ کھو بیٹھا جد ھر سے وہ آیا تھا۔ سفر بہت طویل تھا اور اند ھیرا چھاتا جارہا تھا۔ اس لیے وہ راستہ تلاش نہیں کر سکا۔ آخر وہ مایوس ہو کر واپس مڑا اُس کا خیال تھا کہ وہ باقی دوستوں کا انتظار کر کے ان کے ساتھ ہی جائے گا ۔لیکن جب وہ باغ میں پہنچا تو اس کے دوست وہاں سے جاچکے تھے۔
اب سورج کا پری زاد تنہا رہ گیا تھا۔اور مکمل اندھیرا تھا ۔وہ اِدھر اُدھر اُڑتا رہا اس کے پر تھک گئے ۔اب اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے ۔تب ہی اسے ایک متر نم آواز سنائی دی ۔”کیا مسئلہ ہے ؟“یہ ایک لمبی شاخ پر اُگا ہوا روپہلی پھول تھا جو جھک کر اسے دیکھ رہا تھا۔
پری زاد بولا”میں اکیلا ہوں اور مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے “۔پھول نے کہا ۔لیکن اندھیرے کے اندر بھی کتنی خوبصورتی ہوتی ہے ۔یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتا اندھیرے میں تارے ٹمٹماتے ہیں ۔ہوائیں گنگناتی ہیں ۔درخت ایک دوسرے سے سر گوشیوں میں کہانیاں سنتے ہیں ۔
پری زاد بو لا:”اچھا مجھے تو ان باتوں کا علم ہی نہیں تھا۔“پھول بولا :”مجھے بھی سورج کی روشنی بہت پسند ہے ۔لیکن مجھے خوشی ہے کہ رات اندھیرا لے کر آتی ہے جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو سب مزے سے آنکھیں بند کر کے نیند کی وادی میں چلے جاتے ہیں اور آرام کرتے ہیں۔“
پری زاد بولا: ”لیکن میرے پاس تو آج بستر ہی نہیں ہے۔“پھول بو لا :”میرے پاس آجاﺅ ۔میں اپنی پنکھڑیوں میں تمہارے لیے بستر بنا دیتا ہوں ۔او رتمہیں جھولا بھی جھلا تا رہو ں گا۔“
پری زاد آرام سے پھول کی پنکھڑیوں میں لیٹ گیا ۔پھول نے اسے جھولا جھلایا ہو ا نے گیت سنایا ۔وہ مزے سے سو گیا ۔جب وہ صبح نیند سے جا گا تو سورج اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔او رپھو ل کی پنکھڑیاں مکمل کھلی تھیں۔
پری زاد چھلانگ لگا کر اترا ۔اس نے پھول کا شکریہ اد ا کیا۔ اب وہ آسانی سے اپنے گھر کا راستہ ڈھونڈ سکتا تھا۔اس نے پھول سے کہا۔اب وہ کبھی اندھیرے سے نہیں ڈرے گا۔ پھر بولا: ”میں آپ کا نام تو نہیں جانتا لیکن پیارے پھول ! میں نے تمہارے لیے صحیح نام سو چ لیا ہے ۔میں آج سے آپ کو سورج مکھی کہوں گا۔“