سلطان محمد فاتح
سلطان محمد فاتح کا نام تاریخ اسلام میں اس لیے درخشاں ہے کہ اس نے مسیحی بازنطینیوں کے قبضے سے قسطنطنیہ کو نجات دلائی اور اس کو سلطنت اسلامی میں شامل کیا۔ یہ بادشاہ بے حد شائستہ، ادب و شعر کا قدر دان اور اعلیٰ درجے کا سخی اور فیاض تھا۔
سلطان محمد فاتح ترکان عثمانی کے سلسلہ سلاطین میں محمد ثانی کے نام سے موسوم ہے، وہ سلطان مراد ثانی کا سب سے عزیز فرزند تھا۔ 1417 کے قریب پیدا ہوا۔ اس کے باپ نے وصیت کی تھی کہ جس طرح بھی ہوسکے قسطنطنیہ کو ضرور فتح کرنا، کیوں کہ جب تک یہ دشمن کے قبضہ میں ہے، سلطنت عثمانیہ ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے گی، چنانچہ محمد فاتح نے 1451 میں تخت نشین ہوتے ہی تیاریاں شروع کردیں۔ محمد اول نے قسطنطنیہ کے سامنے مشرقی ساحل پر ایک قلعہ بنایا تھا۔ محمد ثانی نے تین مہینے کے اندر یورپی ساحل پر دو ہزار کاریگروں کی مدد سے ایک اور قلعہ تعمیر کردیا جس کو رومیلیا حصار کہت ہیں اور جو آج تک موجود ہے۔
اس کے بعد قسطنطنیہ کے محاصرے کی تیاری شروع کردی۔ بڑی بڑی توپیں بنوائیں، سمندر کا رستہ بند کرنے کے لیے جنگی کشتیاں بھیجیں اور خود ادرنہ سے نوے ہزار فوج لے کر چلا۔ رومیوں نے سمندر میں زنجیریں باندھ رکھی تھیں، اس لیے ترکوں کا بیڑا داخل نہ ہوسکا۔ اس پر سلطان محمد ثانی نے خشکی پر چھ میل تک لکڑی کے تختے بچھوا کر انہیں چربی سے چکنا کیا اور راتوں رات ان تختوں پر سے کشتیوں کو دھکیلتا ہوا صبح باسفورس میں قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے پہنچ گیا۔ رومیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عثمانیوں کا بیڑا خشکی پر سفر کرکے آبنائے میں پہنچ جائے گا۔ وہ سخت بدحواس ہوگئے۔ 22 مئی 1453 کو عام حملے کا اعلان ہوا، قسطنطنیہ کا قیصر مارا گیا۔ گولا باری سے فصیل ٹوٹی اور شیران اسلام دھاڑتے ہوئے قسطنطین کے شہر میں داخل ہوگئے۔ سلطان ابا صوفیہ کے گرجا میں گیا اور نماز ظہر ادا کی۔ یہ وہ شہر تھا جس کے فاتح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد سے لے کر اس وقت تک کئی مہمیں اس شہر کو فتح کرنے میں ناکام رہی تھیں، اس فتح کی وجہ سے سلطان محمد ثانی کو فاتح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔