اسٹیشن
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔
سسپنس سے بھرپور بہت ہی پرانی ایک کہانی
۔۔۔۔۔۔۔
”آپ نے کیا کہا… میرے ملک کے دارالحکومت کا اسٹیشن آپ ڈائنا مائٹ سے اڑا دینا چاہتے ہیں۔“
”جی ہاں! یہی بات ہے۔“
”آپ ہوش میں تو ہیں… میں اس ملک کا صدر ہوں۔“
”اور ہم اس ملک کے صدر ہی سے بات کرنے کے لیے آئے ہیں… صدرصاحب! آپ نے ابھی ہماری پوری بات نہیں سنی۔“ وفد کے سربراہ کے چہرے پر اب تک پرسکون مسکراہٹ تھی۔
”اگر آپ مہمان نہ ہوتے تو میں فوری طور پر آپ کو رخصت ہوجانے کے لیے کہتا، میں آپ کی کوئی تجویز سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔“
”معاف کیجیے گا… آپ نے ابھی تک پوری بات نہیں سنی… ہمارا تعلق دراصل دنیا کی سب سے بڑی فلم کمپنی سے ہے… ہماری کمپنی جب کوئی فلم بناتی ہے تو کوئی مصنوعی سین نہیں فلماتی، بلکہ تمام سین اصلی ہوتے ہیں۔ اس وقت ہمارا مسئلہ ایک اسٹیشن اڑانا ہے، اور اس منظر کو فلمانا ہے۔“
”آپ اپنے ملک کے صدر سے نہیں، پاک لینڈ کے صدر سے بات کر رہے ہیں۔“
”جی ہاں! بالکل… ہمارے ملک کے اسٹیشن میں اور آپ کے دارالحکومت کے اسٹیشن میں بالکل کوئی فرق نہیں، دونوں کا ڈیزائن بالکل ایک ہے… اسی لیے ہم یہاں آئے ہیں۔“
”لیکن کیوں؟ آپ کو اگر اسٹیشن اڑا کر ان مناظر کو فلمانا ہے تو اسی کو اڑائیں۔“
” ہم اپنے ملک کا اسٹیشن نہیں اڑاسکتے۔“
”کیا مطلب… فلم آپ بنا رہے ہیں،اسٹیشن کو اڑا کر مناظر فلمانے کا مسئلہ ہے، اپنا اسٹیشن اڑانا نہیں چاہتے… تو آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں یہ اجازت آپ کو دے دوں گا۔“
”اس لیے کہ اسٹیشن اڑانے کے بعد ہم خود آپ کو پورا اسٹیشن بنا کر دیں گے اور اس کے علاوہ۔“
”اور اس کے علاوہ کیا؟“ صدر صاحب نے چونک کر کہا۔
”اور اس کے علاوہ… ہم آپ کو ایک کھرب ڈالر بھی ادا کریں گے… یہ ایک کھرب ڈالر آپ حکومت کے خزانے میں جمع کراسکتے ہیں… آپ کے ملک کو مالی تقویت ملے گی۔“
”اوہ! تو یہ بات ہے۔“ صدر صاحب نے لمبا سانس بھرا۔
”جی ہاں! اب سمجھ میں آئی بات آپ کے۔“ سربراہ نے طنزیہ کہا۔
”ہاں! پوری بات سمجھ میں آگئی۔“ صدر صاحب مسکرائے۔
”تب پھر آپ کا کیا جواب ہے، اگر آپ سوچنے کے لیے مہلت چاہتے ہیں تو ہم ہوٹل مون لائٹ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔“
”نہیں! اس میں سوچنے کی تو کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں۔“ صدر مسکرائے۔
”گویا آپ کو بات منظور ہے؟“
”آپ کا اندازہ درست نہیں… یہ سودا مجھے منظور نہیں… آپ نے ایک کھرب کی بات کی ہے، دس کھرب دینے کی بات کریں تب بھی نہیں… اس غرض کے لیے آپ اپنا اسٹیشن ہی اڑائیں ۔“ صدر صاحب کا لہجہ سرد ہوتا چلا گیا۔
وفد کے ارکان کے چہرے تن گئے۔ پھر صدر صاحب کی آواز گونجی:
”اب آپ جاسکتے ہیں… میرے پاس آپ کے لیے مزید وقت نہیں… کچھ اور ملاقاتیوں کو وقت دے رکھا ہے۔“
وفد کے ارکان اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، جب کہ صدر صاحب کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ تھی۔
٭
رات کے تین بجے صدر صاحب کے خاص فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ اس فون پر ان سے صرف خاص لوگ ہی بات کر سکتے تھے۔ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔ ان کے علاوہ اس فون کا نمبر کسی کو معلوم نہیں تھا، اس لیے انہیں ریسیور اٹھانا پڑا۔ فوراً ہی ان کے ایک خاص کارکن کی آواز سنائی دی:
”سر! ایک ہول ناک خبر ہے۔“
”میں خود کو تیا ر کر چکا ہوں۔“ وہ ٹھہری ہوئی آواز میں بولے۔
”ہمارے دارالحکومت کا اسٹیشن اڑا دیاگیا ہے۔“
”نن… نہیں۔“ وہ تیار ہوجانے کے باوجود دھک سے رہ گئے۔
”یہ کارروائی رات کے ایک بجے شروع ہوئی تھی سر، جب اچانک دھماکے شروع ہوئے۔ ایک ہی وقت میں پورے اسٹیشن کی عمارت میں دھماکے ہوئے ہیں اور خیال ہے کچھ بھی نہیں بچا۔“
”نہیں… نہیں۔“ وہ چلائے۔
”مکمل تفصیلات صبح سے پہلے ممکن نہیں سر، اور انسانی جانیں کتنی ضائع ہوئی ہیں، یہ معلوم ہونے میں تو ابھی بہت وقت لگے گا۔“
”مجھ میں اور کچھ سننے کی ہمت نہیں۔“
”یہ کہہ کر انھوں نے فون بند کر دیا۔ پھر وہ پتھر کے بت جیسے ہوگئے۔ تین دن بعد وہ بات کرنے کے قابل ہوئے۔ اس وقت تک پورا ملک سو گوار ہوچکا تھا۔ ہر کوئی کھویا کھویا سا تھا کہ یہ کیا ہوا؟ یہ کیوں ہوا؟ آخر تین دن بعد رات کے آٹھ بجے صدر صاحب نے اپنے مشیر خاص سے رابطہ کیا:
”کیپٹن فارس کو میرے پاس بھیج دیں۔“
”جی کیا مطلب؟“ مشیر خاص کانپ گئے۔
”میں نے یہی کہا ہے، کیپٹن فارس۔“
”یس سر،یس سر۔“ مشیر خاص کی آواز کانپ گئی۔
ایک گھنٹے کے بعد ایک نوجوان صدر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا۔
”آئیے کیپٹن! آپ اندازہ لگا چکے؟“
”یس سر! آپ نے مجھے اسٹیشن کے سلسلے میں بلایا ہے۔“
”ٹھیک ہے، یہ بات میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی کہ چھ ماہ پہلے عالمی شہرت یافتہ فلم کمپنی کا ایک وفد میرے پاس آیا تھا۔“
”جی کیا مطلب، فلم کمپنی کا وفد۔“ کیپٹن فارس کے لہجے میں حیرت تھی، کیوں کہ کسی فلمی وفد کو بھلا ملک کے صدر سے کیا کام ہوسکتا تھا۔
”ہاں!“ انھوں نے کہا اور پھر تمام تفصیل سنا دی۔
کیپٹن فارس یہ بات سن کر سکتے میں آگئے۔ پھر انھوں نے کہا:
”سر! یہ بات آپ کو اسی وقت بتانا چاہیے تھی۔“
”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ لوگ اس قدر خوف ناک قدم اٹھا سکتے ہیں، اس وقت میں نے ان لوگوں کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔“
”مطلب یہ کہ یہ کام انھی لوگوں کا ہے۔ اب اگر آپ حکومتی سطح پر حکومت سے بات کرتے ہیں تو وہ صاف انکار کر دیں گے کہ اس معاملے سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں، ضرور کسی تیسری طاقت کو اس گفتگو کا پتا چل گیا ہوگا۔ بس اس نے موقعے سے فائدہ اٹھایا ہے، ان کا جواب یہی ہوگا نا سر۔“
”ہاں! اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں حکومت سے بات نہیں کروں گا۔ اسٹیشن کی عمارت کے تباہ ہونے کا مجھے جتنا دکھ ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ ان لوگوں کی ہلاکت کا ہے جو اس وقت عمارت میں موجود تھے۔ اب تک شاید ہم اس تعداد کا اندازہ نہیں لگا پائے۔“
”ہاں سر! آپ مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔“
”یہ مجھ سے نہ پوچھیے کیپٹن فارس کہ میں کیا چاہتا ہوں، میں خود نہیں جانتا۔ میں نے آپ کو کیوں بلایا ہے، میں نہیں جانتا، آپ کو کیا کرنا ہے۔ میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا، سمجھے آپ کیپٹن فارس۔“ صدر صاحب روانی کے عالم میں کہتے چلے گئے۔ ان کی آواز جذبات کی شدت سے رندھ گئی۔
”تب پھر میں اجازت چاہوں گا۔“
”ہوں ٹھیک ہے، لیکن ۔“ صدر صاحب کہتے کہتے رک گئے۔
”فرمائیے۔“ کیپٹن فارس رک گئے۔
”ہم دونوں کے پاس جو سیٹ ہے، آپ اس کے ذریعے مجھے حالات ضرور بتاتے رہیں گے۔ اس کی فری کوئنسی چیک نہیں ہوسکتی، نہ بات چیت سنی جاسکتی ہے۔“
”ٹھیک ہے سر! لیکن۔“
”اب آپ نے بھی ایک عدد لیکن جڑ دیا۔“ صدر اداس انداز میں مسکرائے۔
”یس سر! بعض باتیں ایسی بھی پیش آسکتی ہیں جو میں شاید آپ تک پہنچانا پسند نہ کروں۔“
”خیر اس کی اجازت ہے۔“
”شکریہ سر۔“ کیپٹن فارس نے مسکرا کر کہا ، پھر جانے کے لیے مڑ گئے۔
”ایک منٹ کیپٹن فارس!“ صدر صاحب کی آواز نے ان کے پاﺅں جکڑ دیے۔
”یس سر!“ وہ مڑے۔
”کیا مجھ سے گلے نہیں ملیں گے۔“
”اوہ، یس سر۔“
انھوں نے کہا، تیزی سے ان کی طرف مڑے اور پھر گرم جوشی سے ان کے گلے سے لگ گئے، نہ جانے کیوں صدر صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”ان آنسوﺅں کو گرنے نہ دیجیے گا سر! اللہ حافظ۔“
”اللہ حافظ!“ صدر صاحب بھرائی ہوئی آواز میں بولے۔
٭
کیپٹن فارس کو ریکارڈ روم میں داخل ہوتے دیکھ کر ریکارڈ کیپر زور سے اچھلا، اس کی آنکھوں میں خوف اور جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔
”سس… سس… سر آپ۔“
”گھبرانے کی ضرورت نہیں… مجھے صرف ایک فائل چاہیے۔“ کیپٹن فارس مسکرائے۔
”حکم کریں سر!“
”چھ ماہ پہلے ایک فلم کمپنی کا وفد آیا تھا، اس وفد نے صدر صاحب سے ملاقات کی تھی، مجھے اس وفد کی فائل چاہیے۔“
”چھ ماہ پہلے کس تاریخ کو سر؟“
”نوجوان۔“ انھوں نے اسے گھورا۔
”انتظار فرمائیے سر!“
”اور آپ کا کام ہی کیا ہے، لوگوں کو انتظار کروانا۔ زیادہ دیر نہ لگے۔“ کیپٹن فارس نے منہ بنایا۔
”یس سر! بس ابھی آیا۔“
یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا چلا گیا۔ جلد ہی فائل کیپٹن فارس کے سامنے تھی۔ انھوں نے پوری فائل کو وہیں بیٹھ کر دیکھا۔ فائل میں وفد کے ارکان کی تصاویر بھی تھیںا ور نام وغیرہ بھی۔ مطلب یہ کہ پوری معلومات اس میں موجودتھیں۔پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
”ٹھیک ہے۔ میں یہ فائل لے جارہا ہوں۔“
”یہاں دستخط کر دیں سر! تاکہ کوئی مجھ سے جواب طلب نہ کرے۔“
”کچا کام تو کبھی آپ کرتے ہی نہیں۔“ کیپٹن فارس نے مسکرا کر کہا، پھر دستخط کر کے باہر نکل آئے۔
ان کے نکلنے کے فوراً بعد ریکارڈ کیپر اندرونی کمرے میں آیا۔ اس نے کمرے کا دروازہ بند کیا، پھر غسل خانے میں داخل ہوا، غسل خانے کا دروازہ بھی بند کیا اور غسل خانے کے فرش کی ایک ٹائل ننھے سے ایک آلے کی مدد سے اکھاڑی۔ اس خانے میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر سیٹ رکھا تھا۔ اس پر اس نے فری کوئنسی ملائی اور سلسلہ ملنے پر بولا:
”ریکارڈ کیپر بشارت نوشاہی سر۔“
”بہت خوب! تو ادھر کام شروع ہوگیا ہے۔“
”یس سر! لیکن ڈیوٹی ملک کے ذہین ترین انسان کیپٹن فارس کو سونپی گئی ہے جو آج تک کسی مہم میں بھی ناکام نہیں رہا۔“
”فکر نہ کرو، یہ اس کی زندگی کی آخری مہم ہوگی۔ تمہارا انعام تمہارے بنک میں جمع ہوجائے گا۔“
”شکریہ سر!“
٭
پڑوسی ریاست کے امیر نے کیپٹن فارس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھا:
”کیپٹن فارس! آپ اس طرح بغیر اطلاع۔“
”ہاں میرے دوست! جب میں بغیر اطلاع آتا ہوں تو اس کی خاص وجہ ہوتی ہے۔“
”میں سمجھ گیا، کوئی خاص مہم درپیش ہے اور آپ کو کسی دشمن ملک میں پہنچنا ہے، لہٰذا بندوق آپ میرے کندھے پر رکھ کر چلائیں گے۔“ امیر مسکرایا۔
”یہاں اس غرض سے آنے کا یہی تو فائدہ ہے، کچھ بتانا نہیں پڑتا۔“
”جس حلیے میں جانا ہے، وہ تصویر دے دیں، کاغذات تیار کرا دیتا ہوں۔“
جواب میں کیپٹن فارس مسکرا دیے۔ تصویر ان کی جیب میں پہلے سے تیار تھی۔ اسی شام کیپٹن فارس کا حلیہ تبدیل ہوچکا تھا۔ اس تبدیل شدہ حلیے کے مطابق کاغذات ریاست کے امیر کی ہدایت پر تیار ہوچکے تھے۔ یہ کاغذات ایک سیاح کے تھے، ایک غیر ملکی سیاح کے جس نے اسی ریاست میں اپنی باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور یہیں رہنے لگا تھا۔ ایسا شخص اس ریاست میں واقعی موجود تھا، تاکہ ریاست پر یا ریاست کے امیر پر کوئی الزام عائد کرے تو وہ اس شخص کو پیش کر کے صاف بچ جائیں اور جواب میں کہہ سکیں کہ فلاں شخص نے دراصل اس شخص کا میک اپ کیا تھا اور اس کے کاغذات لے اڑا تھا، لہٰذا اس میں ریاست کا کیاقصور! اور یہ ترکیب بھی ریا ست کے امیر کو کیپٹن فارس نے سجھائی تھی۔
اس کے دو دن بعد کیپٹن فارس وہاں سے جانے والے ایک جہاز میں سوار ہو رہے تھے۔ حلیے اور وضع قطع سے بالکل سیاحوں جیسے لگ رہے تھے۔ ائیر پورٹ پر اتر کر انھوں نے ایک ٹیکسی پکڑی اور ایک ہوٹل کا نام لیا۔ انہیں کئی مہمات کے سلسلے میں پہلے بھی یہاں آنا پڑا تھا۔ یہاں یوں بھی دارالحکومت ان کا دیکھا بھالا تھا۔ لہٰذا ان کی کسی حرکت سے نئے یا اناڑی پن کا اظہار نہیں ہورہا تھا۔
ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں ہوٹل تھری مون کے سامنے اتار دیا۔ وہ بے فکری کے انداز میں چلتے ہوئے اندر داخل ہوگئے۔ انھوں نے اپنا کمرہ یہاں پہلے ہی بک کروا لیا تھا، لہٰذا جوں ہی کاﺅنٹر پر پہنچے اور اپنا تعارف کرایا، کلرک نے رجسٹر دیکھا اور بولا:
”اوہ یس! روم نمبر117۔“
”شکریہ۔“ یہ کہہ کر انھوں نے کرایہ وغیرہ ادا کیا۔ بیرے نے سامان اٹھایااور کمرہ نمبر117 کی طرف جانے لگا۔
کمرے کے دروازے پر رک کر بیرے نے چابی تالے کے سوراخ میں گھمائی۔
”بس آپ جائیں۔“
”میں سامان اندر پہنچا دیتا ہوں سر۔“
”نہیں… بس… اور یہ لو۔“
انھوں نے ٹپ کے طور پر ایک نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ نوٹ لے کر بیرے نے ان کا شکریہ ادا کیا اور جانے کے لیے مڑ گیا۔
کیپٹن فارس نے اپنا بیگ اٹھایا، دروازے کا ہینڈل گھمایا اور اندر داخل ہوگئے۔ ساتھ ہی ایک کھردری آواز ان کے کانوں میں گونجی:
”خوش آمدید کیپٹن فارس!“
ان کی زندگی میں ایسے بے شمار لمحات آئے تھے۔ لہٰذا وہ ذرا بھی نہ اچھلے، نہ چونکے، نہ گھبرائے بلکہ پرسکون آواز میں گویا ہوئے:
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرا نام کیپٹن سام ہے۔“
”اس بار غلط فہمی آپ کا مقدر ہے کیپٹن فارس۔“ آواز پھر گونجی۔
”آپ نے پھر میرا نام غلط لیا۔“
اس بار یہ کہتے ہوئے ان کا دل دھڑک اٹھا۔ کمرے میں کل سات افراد موجود تھے۔ یہ ساتوں وہی تھے جن کی تصاویر وہ فائل میں دیکھ چکے تھے۔ گویا اسی فلم کمپنی کے وفد کے ارکان۔ کوئی اور ہوتا تو اس وقت مارے حیرت اور خوف کے اس کا برا حال ہوتا، لیکن وہ کیپٹن فارس تھے، اس قسم کی مہمات ان کا روز کا کام تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنے دین اور وطن کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
”آپ بیٹھ جائیں، پہلے ہماری بات سن لیں، تاکہ آپ کی خوش فہمی رفع ہوجائے اور آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہیں۔“ ان میں سے ایک نے کہا۔
وہ خالی کرسی پر بیٹھ گئے۔ کمرے میں موجود سب لوگ پہلے ہی بیٹھے ہوئے تھے، البتہ ان سب کے ہاتھوں میں پستول بالکل تیار تھے۔ کیپٹن فارس نے اپنے چہرے سے اطمینان اب بھی رخصت نہ ہونے دیا۔
”کیپٹن کے ہاتھ باندھ دیے جائیں۔“
فوراً ہی اندرونی کمرے سے چار لمبے تڑنگے آدمی بھاری قدموں کی آواز پیدا کرتے ، ان کے دائیں بائیں آکھڑے ہوئے اور انہیں کرسی سے جکڑ دیا۔
”میرا خیال ہے، اب تم اپنی کہانی ہماری زبانی اطمینان سے سن سکو گے۔“ ایک نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”اچھی بات ہے۔ سنائیے پھر۔“
”چھ دن پہلے آپ کے ملک کے دارالحکومت کا ریلوے اسٹیشن بموں سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس حادثے میں ان گنت لوگ بھی مارے گئے تھے۔ اس سے چھ ماہ پہلے ایک فلم کمپنی کے وفد نے آپ کے ملک کے صدر سے ملاقات کی تھی۔ فلم کمپنی کو اسٹیشن کی تباہی کامنظر فلم بند کرنا تھا، لیکن ہم نے اپنے ملک کے اسٹیشن کو اڑانے کے بجائے آپ کے دارالحکومت کا اسٹیشن اڑانے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ ڈیزائن دونوں کا بالکل ایک جیسا تھا۔ کسی کو فلم دیکھتے ہوئے احساس نہ ہوتا کہ کون سا اسٹیشن اڑایا گیا ہے، لیکن آپ کے ملک کے صدر نے ہماری پیش کش کو منظور نہیں کیا تھا۔ اگرچہ ہم نے ایک کھرب ڈالر ادا کرنے کی پیش کش کی تھی، لیکن آپ کے صدر نے پھر بھی منظور نہیں کی تھی۔ اب چھ ماہ بعد کسی نے آپ کے دارالحکومت کا اسٹیشن اڑا دیا ہے تو آپ کے صدر صاحب یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کام دراصل ہمارا ہے۔ لہٰذا انھو ں نے آپ کو بلایا، آپ بہت خاص مہموں پر روانہ کیے جاتے ہیں، صدر صاحب نے آپ کو ساری بات بتائی، وہاں سے آپ ریکارڈ آفس گئے۔“
”کیامطلب ؟“ اس بار کیپٹن فارس اپنی حیرت پر قابو نہ رکھ سکے۔
”کیوں کیپٹن ہوگئے نہ حیرت زدہ۔“
”اچھا تو پھر؟“ کیپٹن فارس نے اپنی حیرت پر قابوپاتے ہوئے کہا۔
”اور وہاں سے ہم لوگوں کی فائل لی، پھر پڑوسی ریاست پہنچے، اس ریاست کا امیر تمہارا دوست ہے۔“
”آخر آپ کو یہ تمام باتیں کیسے معلوم ہیں۔“
”اس تمام راستے میں ایک غدار موجود ہے۔ اس غدار کی وجہ سے ہم یہ سب کچھ معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔“
”اور اس غدار کا نام؟“ کیپٹن فارس کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔
”ہم اس کا نام ابھی نہیں بتائیں گے۔ جب تمہاری زندگی کے آخری لمحات باقی رہ جائیں گے، تب بتائیں گے اور اب ہم تمہیں اپنے اسٹیشن کی سیر کرائیں گے۔ کیا تم ہمارے دارالحکومت کا اسٹیشن دیکھنا پسند کرو گے؟“
”ہاں کیوں نہیں۔“ کیپٹن فارس کی آواز ڈوب گئی۔
”کیپٹن فارس مہمان ہیں۔ مہمان کو موت سے پہلے ہم سیر کرائیں گے۔ انتظام کر دیا جائے۔“ وفد کے سربراہ نے کہا۔
کیپٹن فارس کا سر جھک گیا۔ وہ مسلسل غور کر رہے تھے، اس بات پر نہیں کہ ان کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ نہیں، وہ صرف یہ سوچ رہے تھے کہ وہ غدار کون ہے؟ روانہ ہونے سے پہلے ان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی۔ پھر ایک بند گاڑی میں بٹھایا گیا، وہ ساتوں افراد ان کے ساتھ بیٹھے اور گاڑی روانہ ہوئی۔
”اسٹیشن کا ایک برج ہے، بہت اونچا بالکل تمہارے اسٹیشن جیسا۔ اس برج سے تمہیں نیچے دھکا دیا جائے گا۔ کیا یہ موت تمہیں پسند ہے؟“
”اس میں پسند ناپسند کی کون سی بات ہے۔ موت، موت ہے۔“ انھوں نے کہا۔
”اور دھکا دینے سے پہلے تمہیں غدار کا نام بتا دیا جائے گا۔“
”شکریہ۔“ انھوں نے جواب میں کہا۔
پھر گاڑی رک گئی۔ انہیں نیچے اتارا گیا۔ یہ دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ اسٹیشن کی عمارت کے چاروں طرف لاکھوں آدمی جمع تھے۔
”یہ۔ اتنے بہت سے لوگ یہاں کیوں موجود ہیں۔“ انھوں نے پھنسی پھنسی آواز منہ سے نکالی۔
”انہیں یہاں موت کا نظارہ دکھانے کی دعوت دی گئی ہے۔ انہیں تمہاری ساری کہانی معلوم ہے۔ انہیں معلوم ہے، تمہیں اس برج پر چڑھایا جائے گا اور پھر اوپر سے نیچے دھکا دے دیا جائے گا۔ وہ منظر کس قدر دل خوش کن ہوگا۔“
”افسوس۔“ ان کے منہ سے نکلا۔
”اپنی موت پر افسوس کر رہے ہو؟“
”نہیں۔“ انھوں نے پرسکون آواز میں کہا۔
”تب پھر؟“
”جب میں چھلانگ لگاﺅں گا، اس وقت بتاﺅں گا۔“
”کیا بتاﺅ گے۔“
”یہ کہ مجھے افسوس کس بات پر ہے۔“
”شاید تم حواس کھو بیٹھے ہو۔“
”نہیں، مسلمان کبھی موت کے خوف سے حواس نہیںکھوتا۔ میرے حواس بجا ہیں۔ آپ اپنا کام کریں۔“
”اب کیا کام باقی رہ گیا ہے۔ بس تمہیں اس برج تک لے جانا ہے۔“
”اور میں چل رہا ہوں برج کی طرف۔“
ان کے قدم اٹھتے چلے گئے۔ لاکھوں آدمی مختلف آوازیں نکال رہے تھے۔ طنز کر رہے تھے۔ ہنسی اڑا رہے تھے۔ قہقہے لگا رہے تھے اور وہ اوپر کی طرف قدم اٹھا رہے تھے۔ آخر وہ برج تک پہنچ گئے۔ اب وہ سب کو نظر آرہے تھے اور وہ سب کو دیکھ رہے تھے۔ وفد کا سربراہ ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ باقی چھ افراد چند قدم پیچھے کھڑے تھے۔ برج کی چند انچ اونچی دیوار کے ساتھ لا کر کھڑا کرنے والے مسلح افراد تھے۔
”وہ لمحہ آپہنچا کیپٹن۔“
”کیا مجھے اس طرح باندھے ہاتھوں نیچے گرایا جائے گا۔“ انھوں نے پوچھا۔
”کیا تم چاہتے ہو، تمہارے ہاتھ کھول دیے جائیں۔“
”چاہتا ضرور ہوں، لیکن اگر کھولیں گے نہیں تو کوئی شکایت بھی نہیں کروں گا۔“
”ان کے ہاتھ کھول دیے جائیں۔“ وفد کے سربراہ نے کہا۔
ہاتھ کھول دیے گئے۔ انھوں نے ایک انگڑائی لی۔ انگڑائی لیتے وقت ان کے ہاتھ سر کے پچھلے حصے تک گئے۔
”اب آپ وعدے کے مطابق اس غدار کا نام بتا دیں۔“
”اوہ ہاں ضرور۔ اس کا نام ہے ریکارڈ کیپر بشارت نوشاہی۔“
”اب آپ مجھ سے پوچھیں گے، مجھے افسوس کس بات پر ہورہا تھا۔“
”ہاں یہ میں جاننا چاہتا ہوں۔“
”آپ ناکام ہوگئے۔“
”کیا کہا کیپٹن فارس! ہم ناکام ہوگئے، شاید موت کو سامنے دیکھ کر آپ ہوش کھو بیٹھے ہیں۔“
”یہ بات نہیں، بات یہی ہے کہ آپ ناکام ہوگئے۔ میں جب کسی مہم پر نکلتا ہوں تو میرے سامنے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں۔“
”دو پہلو! کیا مطلب؟“
”پہلی بات یہ میرے ذ ہن میں ہوتی ہے کہ میں اپنے پروگرام کے عین مطابق کام یاب ہوجاﺅں اور سرخرو ہو کر اپنی قوم کے سامنے آسکوں گا۔ دوسرا پہلو میرے سامنے یہ ہوتا ہے کہ میں ناکام بھی ہوسکتا ہوں اور اس صورت میں موت میرا مقدر بن جائے گی، لیکن؟“
”لیکن کیا؟“
”لیکن موت کی صورت میں بھی دوسروں کو شکست دینے کا انتظام کر کے گھر سے نکلتا ہوں۔“
”ہاہا! اور تم کیا انتظام کر کے چلے تھے بھلا۔ ہم نے تمہاری اچھی طرح تلاشی لی ہے۔“
”ہاں، اس میں شک نہیں، لیکن میرے پاس دو چیزیں ہیں۔“ کیپٹن فارس بھرپور انداز میں مسکرا دیے۔
”دو چیزیں۔“ وفد کے سربراہ کی پیشانی پر بل پڑتے نظر آئے۔
”ہاں! دو چیزیں۔ روانہ ہونے سے پہلے میں ہمیشہ اپنا میڈیکل چیک اپ کراتا ہوں، لیکن کوئی نہیں جانتا، اس میڈیکل چیک اپ میں دراصل کیا ہوتا ہے۔“
”کک! کیا ہوتا ہے۔“
”میرے جسم کے اندر انتہائی طاقت ور بم فٹ کیا جاتا ہے۔“
”کیا، نن نہیں۔“
”اور میرے دماغ کی کھوپڑی میں ایک بٹن نما ٹرانسمیٹر فٹ کیا جاتا ہے، جس کا بٹن میں کھوپڑی پر دباﺅ ڈال کر دبا سکتا ہوں، اسی لیے میں نے ہاتھ کھولنے کی درخواست کی تھی۔“
”جھوٹ! بالکل جھوٹ!“
”میں چھلانگ لگا رہا ہوں۔ میرے ساتھ تم بھی دوسری دنیا میں آرہے ہو، وہیں پوچھ لوں گا، میری بات جھوٹ تھی یا سچ؟ اور یہ اسٹیشن بھی بدلے میں تباہ ہورہا ہے۔ ان گنت لوگ بھی موت کا جام پینے کو ہیں۔ دیکھو ان کی طرف جو ہنس رہے ہیں، قہقہے لگا رہے ہیں۔ ابھی ان کے قہقہوں کا گلا گھٹ جائے گا۔ خوشی کی جگہ لمحے بھر کو ان کی آنکھوں میں خوف پھیل جائے گا۔ یہ اس طرح بھاگیں گے کہ نہ جانے کتنے تو پیروں تلے کچلے جائیں گے۔ کتنے عمارت کے ملبے تلے دب کر مریں گے۔ یہ ہے تمہاری بھیانک حرکت کا جواب۔“
”نن… نہیں… نہیں۔“
وفد کے ساتوں ارکان حلق پھاڑ کر چلائے۔ ساتھ ہی کیپٹن فارس نے چھلانگ لگا دی۔ کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اور پھر وہاں قیامت کا منظر نظر آیا۔
٭
برج پر ہونے والی گفتگو صدر صاحب سن چکے تھے۔ دھماکا ہونے کے بعد وہ بہت دیر تک بت بنے بیٹھے رہے۔ آخر انھوں نے گھنٹی بجائی، فوراً ہی ایک فوجی آفیسر اندرداخل ہوا:
”مشیر خاص کو بلائیں اور ریکارڈ کیپر بشارت نوشاہی کو گرفتار کر کے میرے سامنے لے آئیں۔“
”جی سر! گرفتار کر کے۔“ آفیسر چونکا۔
”ہاں! جلدی کریں۔“
”ابھی لیں سر۔“
چند منٹ بعد ہی وہاں مشیر خاص داخل ہوئے۔ اسی وقت فوجی جوان بشارت نوشاہی کو ہتھکڑی پہنائے اندر داخل ہوئے۔
”یہ! یہ کیا سر! نوشاہی کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں؟ ایوان صدر کے ریکارڈ کیپر کو۔“
”یہ غدار ہے۔ اس کی وجہ سے کیپٹن فارس جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔“
”کیا! نہیں۔“ مشیر خاص لرز گئے۔ ان کا رنگ زرد پڑ گیا۔ یوں لگا جیسے بدن کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔
صدر صاحب انہیں تفصیل سناتے چلے گئے۔ مشیر خاص بار بارنہیں نہیں کہتے رہے۔ صدر صاحب خاموش ہوگئے۔
”اور سر بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ۔“ مشیر خاص کہتے کہتے رک گئے۔
”بس آپ اس سے آگے کچھ نہیں کہیں گے۔“ صدر صاحب نے ہاتھ اٹھا دیا۔
”نہیں سر مجھے نہ روکیں۔ میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ مجھے کہنے دیں۔ مجھے کہنے دیں۔ کیپٹن فارس آپ کے چھوٹے بھائی تھے۔ سگے بھائی۔“
یہ کہتے ہوئے مشیر رونے لگے۔ صدر صاحب کی آنکھوں سے بھی ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ آنسوﺅں سے لبریز آنکھوں سے وہ دور خلا میں دیکھ رہے تھے۔ شاید خلا میں انہیں کیپٹن فارس مسکراتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
جب کہ کمرے میں موجود تیسرا شخص بشارت نوشاہی پتھر کے مجسمے کی طرح ساکت کھڑا تھا۔ شاید کیپٹن فارس کے مقابلے میں وہ اپنے کردار کو دیکھ رہا تھا اور خود کو زمین میں دھنستا محسوس کر رہا تھا۔
٭٭٭