اسپیڈ بریکر
حماد ظہیر
…………………………………
اور آخر کار موقع ہمارے ہاتھ آہی گیا۔ شجاعت مرز اکے سارے نہیں تو کافی حد تک بدلے ہم نے چکا ہی دےئے۔
…………………………………
’’ بھبھ بھبھ بھائی۔۔۔ یہ کہاں آگئے ہیں ہم ؟‘‘
مرزا بھلبھلائے ۔
’’ موت کے جزیرے پر ‘ اب یہاں سے واپسی آسان نہیں ‘‘ ہم نے بھنویں اچکائیں۔
’’ مم مگر یہاں نہ آدم‘ نہ آدم زاد‘ کوئی ذی روح تک نہیں ہے!‘‘ مرزا نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چڑیا کو ڈھونڈنا چاہا۔
’’ اسی لیے توموت کا جزیرہ کہہ رہے ہیں‘ کیاسکون ہے یہاں واہ واہ !‘‘ ہم خوش ہو کربولے۔
’ ’ یار ! یہاں سے نکلنے کی کرو‘ کہیں یہ کسی سوئی ہوئی مچھلی کی پیٹھ نہ ہو!‘‘
’’ ہو تو اور بھی اچھا ہے۔ اسی پہ بیٹھ کر سمندر کی سیر کرلیں گے!‘‘ ہم جلدی سے بولے۔
’’ مگربھائی‘ جب یہ سمندر کے اندر غوطہ لگائے گی۔ تب کیا کرو گے؟‘‘ شجاعت نے ہمیں دعوت فکر دی۔
’’ پر یہ مچھلی ہے ہی کب‘ یہ تو جزیرہ ہے اور جزیرہ غوطہ نہیں لگاتا!‘‘ ہم نے جان چھڑائی۔
’’ مگر کوئی شرارتی جزیرہ لگا بھی سکتا ہے!‘‘ شجاعت نے منہ بنایا۔
ہم لوگ چلتے چلتے رک گئے‘ جیسے راستے کا تعین کررہے ہوں‘ ایک ویٹر نے بڑے ادب سے ہم سے پوچھا۔
’’ آپ لوگ کدھر جانا پسند کریں گے۔ مجھے آپ کی مدد کرکے خوشی ہوگی!‘‘
’’ لابی میں!‘‘ ہم جلدی سے بولے۔
’’ کیا ہمیں وہاں جوس وغیرہ مل جائیں گے؟‘‘
مرزا نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’ جی بالکل‘ وہاں آپ سے آرڈر لینے کیلئے کئی اور بیرے بھی موجود ہوں گے!‘‘ اس نے ہمیں راستہ دکھایا۔
ہم آرام آرام سے چل رہے تھے‘ جبکہ مرزا تیز تیز قدم اٹھار ہے تھے۔
’’ وقار سے چلو‘ کیا کہیں گے لوگ‘ پہلی مرتبہ آیا ہے فائیو اسٹار میں!‘‘ ہم نے سرگوشی کی اور ماحول میں کھو گئے۔
کیا صاف ستھرا اور چمکدار ماحول تھا۔ روشنی‘ فانوس‘ قالین وغیرہ۔ مگر مرزا کو بڑی جلدی تھی۔ وہ رکنے ہی میں نہ آرہے تھے۔ مجبوراً ہمیں بھی اپنی رفتار بڑھانی پڑی۔
’’ آخر اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘ ہم تنک کر بولے۔
’’ میں دراصل اس لیے تیز تیز چل رہا ہوں کہ سردی کم لگے!‘‘ شجاعت نے گویا انتہائی اہم راز پر سے پردہ اٹھایا ۔
’’ اس سے تو بہتر ہے کہ ہم اسکٹیر نکال لیں‘ اور اس پر پھسلنا شروع کردیں۔‘‘ ہم نے مشورہ دیا۔
’’ آئیڈیا برا نہیں ۔ اس منوں ٹنوں برف پر تو چلنا بھی آسان بات نہیں ۔ اگر گر پڑے تو خود بخود ممی بن کر سالوں کیلئے فریز ہو جائیں گے!‘‘
شجاعت نے چاروں طرف حد نگاہ تک پھیلی ہوئی سفید برف کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’ یہاں اگر افریقہ اور گرم ممالک کے لوگ آجائیں تو کس قدر خوش ہوں!‘‘ ہم بھی خوش ہو کر بولے جیسے ہمارا تعلق بھی افریقہ ہی سے ہو۔
’’ قطعی خوش نہ ہوں گے، بلکہ جان بچا کر بھاگنا چاہیں گے، میری طرح۔‘‘ شجاعت بولا۔
’’ ارے تو بھاگو نا‘ روکا کس نے ہے!‘‘ ہم چڑ کر بولے۔
’’ کیسے بھاگوں‘ میرے تو پاؤں دھنس دھنس رہے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہمارے پاؤں بھی ریت کے اندر چھپ گئے تھے۔
’’ انہیں جلدی سے نکال لو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے بعد آنے والے کو زمین پر ہماری ٹوپیاں پڑی ہوئی ملیں!‘‘ شجاعت نے اپنے پاؤں نکالنے کیلئے ہمارے کندھے پرزور ڈالا تو ہم کچھ اور دھنس گئے۔
’’ واہ ۔۔۔ واہ۔۔۔ ریت کے اندر ہونے کا تو مزہ ہی الگ ہے!‘‘ ہم نے تالی بجائی۔
’’ ہاں بالکل۔۔۔ ابھی اور مزہ آئے گا جب یہ صحرا کی گرم ریت تمہارے پیروں کا چرغہ تیار کردے گی!‘‘ شجاعت بھنایا اورلگا ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں کھینچنے۔
’’ کاش ہمارے ساتھ ایک اونٹ ہوتا!‘‘ شجاعت حسرت سے بولا۔
’’ میرے ساتھ تو ہے!‘‘ ہم اطمینان سے بولے۔
’’ کوئی کھجور کا پیڑ ہی مل جائے کہ سایہ ہو!‘‘
شجاعت کا حال پتلا ہورہا تھا۔
ہم نے نظریں دوڑائیں اور اشارہ کرکے دکھایا۔
’’ وہ دیکھو۔۔۔ لگتا ہے وہاں کچھ پیڑ ہیں!‘‘
ہم دونوں ہی نے دوڑ لگادی۔ ہم اتنے بے ہنگم طریقے سے دوڑ رہے تھے کہ ریت اور پانی اڑ اڑ کر ادھر ادھر بکھر رہا تھا۔ مگر ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ہم پیڑوں کے جھرمٹ میں پہنچ گئے۔
’’ ام ۔۔۔ یم ۔۔۔ یہ تو ناریل کے پیڑ ہیں۔‘‘ مرزا تشویش سے بولے۔
’’تو سمندر کے کنارے کیا گنے کے کھیت ملیں گے تمہیں!‘‘
’’ہاں۔۔۔ یہ تو ہے!‘‘ مرزا نے اثبات میں سر ہلایا اور ساحل کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے مزے لینے لگے۔
’’ آنکھیں کھولو شجاعت اور وہ دیکھو۔۔۔ تمہاری اونٹ کی خواہش بھی پوری ہوگئی !‘‘ ہم نے اسے اونٹ دکھایا۔
وہ بڑے غور سے اونٹ کو دیکھتارہا۔ پھر اس نے ہمیں دوڑتے ہوئے گھوڑے دکھائے۔
ہم بھلا اس سے پیچھے کیسے رہ سکتے تھے‘ کچھ ہی دیر میں ہم نے اسے ایک کتا دکھا دیا۔
یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ببر شیر دکھانے کی باری ہماری آئی۔
’’ بس یار اب اور کوئی جانور نہیں بچا ہوگا چڑھا گھر میں‘‘ شجاعت اکتا کر بولا۔
’’ ارے بطخ رہ گئی نا۔ ہم تو زو آتے ہی بطخ دیکھنے ہیں!‘‘ ہم نے یاد دلایا۔
’’ یار بعد میں دیکھ لینا۔ لوگ ہمیں اس طرح سے دیکھ رہے ہیں‘ جیسے ہم بھی چڑیا گھر کے بھالو ہوں!‘‘
’’ ہم نہیں میں بولو!‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔
’’ ہاں ہاں۔۔۔ تم ہی !‘‘ وہ لاپرواہی سے بولا۔
ہم آگے آگے چل رہے تھے‘ شجاعت پیچھے پیچھے گھسٹ رہا تھا۔
آخر اس نے کسی سے پوچھا۔
’’ باہر نکلنے کا راستہ کدھر ہے؟‘‘
جواب میں ایک بورڈ کی طرف اشارہ کیا گیا جس پر لکھا تھا‘ اخراج ۔۵ کلو میٹر۔
’’ ارے باپ رے۔ کس شیطان کی آنت میں پھنس گئے۔‘‘
مرزا گھبرا کر بولے۔
’’ تیز تیز چلو۔ ورنہ دم بھی گھٹ سکتا ہے۔ سانس گہرے گہرے لینا‘ ورنہ آکسیجن کی کمی سے بے ہوش ہو جاؤ گے!‘‘ ہم نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
’’ اس کان سے کونسی معدینیات نکلتی ہوں گی؟‘‘
مرزا بھنویں اچکا کر بولے۔
’’ میرا خیا ل ہے‘ کوئلہ نکلتا ہوگا!‘‘
’’ یعنی جب تم باہر نکلو گے تو کسی کو حیرت نہ ہوگی!‘‘
’’ کسی دیوار کو ہاتھ نہ لگانا‘ ورنہ دھماکہ بھی ہوسکتا ہے‘‘ ہم نے انتباہ کی۔ کان کنی کے واقعات میں دھماکہ عام سی بات تھی۔
’’ زمین پر بھی پاؤں مت رکھنا‘ ورنہ پھٹ جائے گی!‘‘ مرزا بھی جل کربولے۔
’’ مانا کہ زمین پتھریلی ہے‘ جس سے میری جوتی پھٹ جائے گی‘ مگر پھر بھی میں تو چوٹی پر پہنچ کر ہی دم لوں گا!‘‘ ہم نے ارادہ کی پختگی بتائی۔
’’ یہ کے ٹوہے یا ہمالیہ؟‘‘ مرزا نے اکتا کر پوچھا۔
’’یہ تواوپر پہنچ کر ہی پتا چلے گا نا!‘‘ ہم نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
’’ ہاں ہاں۔۔۔ اوپر تو بورڈ لگا ہوگا کہ یہ ہمالیہ ہے۔ چوٹی سر کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ ہم کب سے آپ کیانتظار میں پلکیں بچھائے بیٹھے تھے!‘‘
شجاعت جل بھن کرکباب ہورہا تھا۔
’’ دیکھو دیکھو‘ شرافت سے چوٹی سر کرنی ہے تو کرو‘ ورنہ یہاں سے ایک دھکا دیا تو سیدھے بحیرۂ عرب میں جا کر گرو گے!‘‘
’’ تم دراصل مجھ سے جلتے ہو ‘ کہ میں تم سے پہلے نہ چوٹی سر کرولوں اور پھر بچے جنرل نالج میں میرا نام لیں!‘‘
’’ ہاں کہ ایک ہزارپچاسویں نمبر پر ہمالیہ کس نے سر کیا۔‘‘
’’ پر یہ کیسے کہہ رہے ہو کہ یہ ہمالیہ ہی ہے؟‘‘
’’ یقین نہیں آرہا تو مٹی چیک کرلو!‘‘ ہم نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔
’’ یہ مٹی نہ تو ہمالیہ کی ہے نہ ہی کے ٹوکی۔ بلکہ یہ مٹی تو اس دنیا کی لگتی ہی نہیں ہے!‘‘
شجاعت پر تفکر لہجہ میں بولا۔
’’ ہاہاہا۔۔۔ بالکل ٹھیک۔ یہ مٹی تو چاند کی ہے۔ وہ دیکھو نیچے۔۔۔ وہ رہی زمین!‘‘ ہم نے مرزا کو زمین دکھائی۔
’’ ارے ‘ ہوائی جہاز ہمیشہ نیچے سے دیکھنے کو ملتے ہیں‘ آج ان کی چھت نظرآرہی ہے!‘‘ مرزا خوش ہو کر بولے۔
’’ ایک پتھر پھینکوں‘ نیچے دنیا میں!‘‘ ہم بے قراری سے بولے۔
’’ نابابا نا۔۔۔ میزائل بن کر گرے گا نیچے!‘‘
’’ تو پھر کسی دشمن ملک ہی پر مار دیتا ہوں!‘‘ ہم نے وضاحت پیش کی۔
’’ اس بات کی کیا گارنٹی ہوگی کہ اس سے کوئی معصوم جان نہیں جائے گی۔‘‘ مرزا نے ہمیں روکا اورلگے نیچے دنیا میں جھانکنے۔
’’ ارے ارے بھائی۔۔۔ سنبھل کر جھانکو۔ چاند پرباؤنڈری وال نہیں ہے۔ کہیں نیچے مت گر جانا!‘‘
’’ گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدان جنگ میں!‘‘
شجاعت نے کہا اور نیچے چھلانگ لگا دی۔
ہمیں خوف لگا لہٰذا ہم سیڑھیوں سے نیچے اترے اور پھر ہم بھی سوئمنگ پول میں کود گئے!
’’ چلو بھئی بہت کھیل لیا‘ اب باہر آجاؤ!‘‘
انکل کی آواز بہت دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔
’’ نہیں انکل‘ ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے!‘‘
’’ تین گھنٹے ہوگئے ہیں تم لوگوں کو‘ ابھی تک جی نہیں بھرا؟‘‘
’’ بالکل نہیں۔‘‘
’’ کسی اسٹیج پر کامیابی ہوئی؟‘‘
’’ یہ حمزہ کا بچہ کہیں ٹکنے ہی کب دیتا ہے۔ ایک جگہ سمجھ آئی نہیں ہوتی یہ دوسری لگا دیتا ہے!‘‘ مرزا نے ہیلمٹ اتار دیا اور لگے ہماری شکایت کرنے ہم بھلا کیسے پیچھے رہتے۔ ہم نے بھی اپنا ہیلمٹ اتار اور ورچول ریالیٹی (Virtual Reality) گیم سے باہر آگئے۔ اس ہیلمٹ میں تین طرف اسکرین تھی۔ لگانے کے بعد ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ آپ کہیں اورحقیقتاً پہنچ گئے ہو۔
’’ ہم جہاں بھی جاتے ‘ شجاعت وہاں سے بھاگنے کی فکر میں لگ جاتا‘ چلو چلو کرنے لگتا تھا!‘‘ ہم نے جرح کی۔
’’ تو تم لوگوں نے کوئی اسٹیج ٹھیک سے نہیں کھیلا۔۔۔ صرف بھٹکتے رہے‘ اور کوئی کامیابی حاصل نہ کی!
ہیں نا؟‘‘ انکل نے آنکھیں نکالیں۔
ہم دونوں خاموش رہے۔
’’ اگر تم کسی بھی ایک اسٹیج پر تھوڑے سے صبر و استقامت سے رک جاتے تو ضرور کوئی نہ کوئی کامیابی حاصل کرلیتے۔ کوئلے کی کان سے متصل ہیرے کی کان تھی۔ صحرا میں تیل کے کنویں اور جزیرے میں خزانہ مد فون تھا۔ یہی حال ہماری زندگیوں کا بھی ہے۔ ہم دس تماشوں میں لگ کر تھوڑا سا مزہ ضرور اڑا لیتے ہیں‘ لیکن یکسوئی سے ایک ہی منزل کی جانب چل کر نہ ہی کوئی بڑی کامیابی خود حاصل کرتے ہیں‘ نہ اپنے ملک و ملت کو دے کر جاتے ہیں۔
ہم نے جیسے ہی دیکھا کہ انکل نصیحتوں کو پلندہ ہمارے اوپر لادنے والے ہیں‘ بچنے کیلئے جلدی سے بات بنائی۔
’’ یعنی اپنی پسند اورمزاج کے مطابق ایک ہی منزل متعین کریں اور اس تک پہنچ کر ہی دم لیں!‘‘ چلو شجاعت‘ دوبارہ شروع کرتے ہیں اور اب کامیاب ہو کرہی لوٹیں گے!‘‘
کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں ایک انتہائی گہرے اورخشک کنویں میں بند‘ ٹکریں مار رہے تھے۔ ہمارے اردگرد مینڈک پدک رہے تھے۔ لیکن اسٹیج تبدیل نہ ہورہا تھا کیونکہ کنٹرول اس مرتبہ شجاعت مرزا کے پاس تھا!
*۔۔۔*