۵ ۔ سوئے حبش
محمد حمید شاہد
۔۔۔۔۔۔۔
کَانَ اِیْضَاءَ وَ کَانَ النُّوْرَ نَتْبَعَہُ
بَعْدَ لاَ لہَ وَ کَانَ السمعَ البَصَرَا
وہ روشنی تھے وہ نور تھے کہ خدا کے بعد ہم آپؐ
کا اتباع کرتے تھے، وہی ہماری سماعت اور
وہی ہماری بصارت تھے (حسانؓ بن ثابت
نئی سر زمین
رجب کا مہینہ
۴۵ھ عام الفیل
۵ھ بعد بعثت
گیارہ(۱۱) مرد اور چار(۴) خواتین چھپتے چھپاتے مکہ سے نکل کر شعیبہ کی بندرگاہ کی جانب بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ ظلم و جبر کی بستی مکہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چھاڑ کر، جب ستم کی چکی میں پستے پستے پیمانۂ صبر جواب دے گیا۔ تو محمدؐ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا:
لَو خَرَجْتُمْ اِلٰی اَرْضِ الْحَبْشَۃِ فَاِنَّ بِہَا مَلِکًا لاَیُظْلَمُ عِنْدَہٗ اَحَدٌ وَہِیَ اَرْضُ صِدْقٍ حَتّٰی یَجْعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ فَرَجًا مِمَّا اَنْتُمْ فِیْہِ
اچھا ہو کہ تم حبش نکل جاؤ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے۔ جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سرزمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا نہ کرے تم وہیں ٹھہرے رہو!
اور اب یہ ننھا مُنّا قافلہ اس حکم کی تعمیل میں گھربار، عزیز و اقارب، مال و اسباب اور کاروبار کو چھوڑ کر حبش کی جانب چلا جا رہا ہے۔ اِس قافلے کے سالار عثمانؓ بن عفان ہیں جب کہ اُن کی بیوی ر۱قیہؓ بنت محمدؐ بھی ہمراہ ہیں۔ اِدھر جب مکہ کے ستم گروں کو یہ خبر ہوتی ہے کہ مشقِ ستم بننے والے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں۔ تو تعاقب کی غرض سے خوب بھاگتے دوڑتے ہیں۔ مگر صیاد کے ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی شکار کشتی میں سوار ہوجاتا ہے۔ حبش کی زمین پر قافلے والے پاؤں رکھتے ہیں تو سکون محسوس کرتے ہیں۔ یہاں دین محمدؐ پر پوری طرح عمل پیرا ہونے میں آزادی، عبادت الٰہی میں آزادی، کوئی اذیت دینے والا نہیں اور نہ ہی کوئی طعنے دینے والا ہے۔ پرانی تجارت گاہ ہونے کی وجہ سے رزق کمانے کی سہولت بھی میسر ہے۔ یوں زندگی کے دِن امن و سکون سے بسر ہونے لگتے ہیں۔
لمحات وارفتگی
قریش کا ایک بہت بڑا مجمع حرم پاک میں جمع ہے۔ اپنے مشن سے ایک آن نہ غافل ہونے والے محمدؐ اس قدر لوگوں کو جمع دیکھتے ہیں تو دعوتِ حق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ربّ کائنات کی جانب سے اس موقع پر زبانِ محمدؐ سے سورہ نجم کی آیات جاری ہوجاتی ہیں:
وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰیO مَا ضَلَّ صٰحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیO وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الہَوٰیO۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ اللہ کتنا پُرسوز کلا م ہے یہ۔ شور مچانے والوں کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ نت نئی شرارتیں سوجھنے والے ذہن مبہوت ہوجاتے ہیں اور کان اِس رَس بھری آواز کو سنتے چلے جاتے ہیں۔ سننے والوں میں وہ بھی موجود کہ جن کی کمریں بڑھاپے نے خمیدہ اور بال چاندی کی مانند سفید کر دیے ہیں اور وہ بھی کہ جن کی جوانی کے چرچے چہار سو ہیں۔ اپنے بھی، غیر بھی، حامی بھی، مخالف بھی، سبھی ہمہ تن گوش اور کلام الٰہی سے مسخر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
آپؐ کی زبانِ اقدس سے اب یہ آیتِ مبارکہ جاری ہو رہی ہے:
فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا
جونہی یہ آیت سجدہ لبوں پر آتی ہے۔ آپؐ قبلہ رُخ ہوکر ربِّ کائنات کے حضورؐ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ آپؐ کو سجدہ ریز ہوتے دیکھ کر سبھی سجدے میں جا پڑتے ہیں۔ جوانوں کی پیشانیاں زمین کو چوم لیتی ہیں۔اور وہ بوڑ۲ھے جو اپنے بڑھاپے کی وجہ سے سجدہ نہیں کرسکتے۔ مٹی اُٹھا کر پیشانی پر مل کر اس فعل کی تقلید کر دیتے ہیں۔ یہ لمحاتِ وارفتگی گزرتے ہیں تو ظالموں کی رگِ حمیت پھڑک اُٹھتی ہے۔ پھر لوگ بھی طعنے دینا شروع کر دیتے ہیں۔
’’کہ تم تو ہمیں اس بات سے منع کرتے ہو کہ محمدؐ کی تقلید نہ کرو مگر حیف ہے تم پر کہ تم خود اُس کے کلام سے متأثر ہوگئے۔‘‘
یہ چبھتے فقرے اور طنز کفار سنتے ہیں تو آئیں بائیں شائیں کرکے رہ جاتے ہیں اور اس فعل کی لایعنی تاویلیں کرنے لگتے ہیں۔
فیصلہ
مکہ مطیع ہوگیا۔
ہاں! مکہ مطیع ہوگیا!
حبش میں موجود غریب الوطن مسلمان جب یہ سنتے ہیں تو بہت خوش ہوتے ہیں اور وطن کی یاد ستانے لگی ہے۔ باہم صلاح و مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مکہ واپس پلٹنا چاہیے۔ سو رختِ سفر باندھا جاتا ہے اور مکہ کی جانب چل پڑتے ہیں۔ دل خوشی سے پھولے نہیں سما رہا کہ ظلم و جبر کی بستی حق کو قبول کر چکی ہے۔ مگر جب مکہ کے قریب پہنچتے ہیں تو اصل حقیقت منکشف ہوئی کہ کفّار تو محض سورۃ نجم سن کر سجدہ ریز ہوئے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی عقلوں پر ابھی تک پتھر پڑے ہوئے ہیں۔
صیاد کے دام میں ایک مرتبہ پھر شکار پہنچ جاتا ہے۔ تو تشدد جوبن پر پہنچ جاتا ہے۔ ظلم کی آندھی شدّت سے چلنے لگتی ہے۔ سِتم اس بار بھی ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ تو مجاہدین پھر سوئے حبش نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر اِس مرتبہ قافلہ پہلے سے بہت بڑا ہے۔ پچاسی مرد اور سترہ عورتیں۔ ادھر یہ قافلہ حبش کی زمین پر اُترتا ہے تو اُدھر مکہ میں کہرام مچ جاتا ہے۔ کہرام کیوں نہ مچتا؟ بااثر گھرانوں میں سے کسی کا بھائی دعوتِ حق قبول کرکے غریب الوطن ہوا۔ تو کسی کا بیٹا، کسی کا باپ صابی ہوگیا تو کسی کا چچا۔ غرض بہت سے بااثر گھرانے اِس ہجرت سے متأثر ہوئے ہیں۔ اس لیے فیصلہ ہوتا ہے حبش میں اُنھیں چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے۔ عمرو۳ بن عاص اور عبداللہ ۴بن ابی ربیعہ کفّار کی جانب سے سفیر بنتے ہیں۔ ستم گروں کے سفیر حبش کے بادشاہ نجاشی سے ملنے اور دعوتِ حق کے پروانوں کو واپس ستم کی بھٹی میں پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے حبش کی زمین پر اترتے ہیں۔ نجاشی کے درباریوں میں بے پناہ دولت تقسیم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’تمہارے ہاں ہمارے شہر سے کچھ گمراہ لوگ بھاگ آئے ہیں۔ ہم اُنھیں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نجاشی سے بات کریں گے مگر تم ایسا رویہ اختیار کرو کہ اُنھیں صفائی پیش کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔ درباریوں کو خریدنے کے بعد نجاشی کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں۔ سجدہ بجا لانے کے بعد بیش قیمت تحائف پیش کرتے ہوئے مدعا آمد بیان کرتے ہیں کہ :
’’ہمیں اشرافِ مکہ نے آپ کے پاس سفیر بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے شہر کے چند سر پھرے اور نادان لوگوں نے ہمارے دھرم کو چھوڑ کر ایک نیا دین گھڑ لیا ہے، جس طرح یہ دین ہمارے لیے خطرناک ہے اسی طرح یہ آپ کے دین کے لیے بھی خطرناک ہے۔ لہٰذا ان بھگوڑوں کو ہمارے حوالے کر دیا جائے۔‘‘
رشوت کھا کر ایمان بدلنے والے درباری بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’اِن لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہیے کیونکہ ان کے اپنے علاقے کے لوگ انھیں بہتر جانتے ہیں۔‘‘
مگر نجاشی برہم ہوتے ہوئے کہتا ہے:
’’میں مہاجرین کو سنے بغیر اِن کے حوالے کیسے کردوں ۔یہ لوگ پناہ کی غرض سے میرے ملک آئے ہیں۔پہلے میں ان کا نقطہ نظر سنوں گا۔‘‘
چنانچہ نجاشی آپ کے جانثاروں کو بلا بھیجتا ہے۔ جانثارانِ محمدؐ دربارِ نجاشی میں حاضر ہوتے ہیں تو بڑے وقار اور تمکنت کے ساتھ، دستور کے مطابق سجدہ بھی نہیں کرتے۔ پوچھا جاتا ہے:
’’تم نے بادشاہ وقت کو آخر سجدہ کیوں نہ کیا؟‘‘
جعفرؓ بن ابی طالب اصحابِ رسولؐ کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ہمارے رسولؐ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ خدا کے سوا کوئی سجدے کے لائق نہیں۔‘‘
نجاشی سوال کرتا ہے:
’’یہ کیا معاملہ ہے؟ عیسائیت اور بُت پرستی کے علاوہ وہ کون سا مذہب ہے جو تم نے بنا لیا ہے۔ مجھے اس نئے دین کے متعلق کچھ بتلاؤ۔‘‘
جعفرؓ بن ابی طالب آگے بڑھتے ہیں اور پورے اعتماد و وقار کے ساتھ اسلام کی تعلیمات رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں:
’’اے بادشاہ! ہم جاہلیت میں پڑی ہوئی قوم تھے۔ بتوں کو پوجتے، مرے جانوروں کا گوشت کھاتے، فحش کام کرتے، قطع رحمی کرتے، نہ ہمسایوں کا خیال رکھتے اور نہ ہی عہد وپیمان کا پاس اور ہم میں سے طاقت ور سدا کمزور کو ختم کرنے میں لگا رہتا۔
ہم اس حال میں تھے کہ ربِّ کائنات نے ہماری طرف ہم میں سے ہی ایک رسول بھیجا، جس کے نسب، جس کی صداقت، جس کی امانت اور جس کی پاک دامنی کو ہم جانتے تھے۔ اُس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایاکہ ہم اُس کی توحید کے قائل ہوں۔ اور اُس کی عبادت کریں اور اُن پتھروں اور بتوں کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہم اور ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔ اُس نے ہمیں راست گوئی، امانت داری، صلۂ رحمی، ہمسائیگی اور عہدو پیمان کی پاسداری کا اور حرام افعال اور خونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا۔ ہم کو فواحش سے، جھوٹ سے، یتیموں کا مال کھانے سے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے روکا۔
ہمیں صرف خداوند واحد کی عبادت کرنے اور کسی چیز کو اُس کے ساتھ شریک نہ کرنے کی تلقین کی اور ہمیں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔
پس ہم نے اُس کی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے اور جو کچھ وہ اللہ کی طرف سے لایا تھا۔ اُس میں اُس کی پیروی کی۔ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا، جس چیز کو اُس نے ہم پر حرام کر دیا، ہم نے اُسے حرام کیا اور جس کو اُس نے ہمارے لیے حلال کیا، اُسے ہم نے حلال کیا۔ اس پر ہماری قوم ہم پر ٹوٹ پڑی۔ اُس نے ہم کو عذاب دیے اور دین کے معاملے میں ہم پر ظلم توڑے تاکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بتوں کی طرف پھیر دیں اور ہم اُن تمام خبائث کو پھر سے حلال کر لیں، جنھیں پہلے حلال کیے ہوئے تھے۔
آخرکار جب انھوں نے ہم پر سختی کی اور ہماری زندگی تنگ کر دی اور ہمارے دین کے راستے میں حائل ہوگئے تو ہم آپ کے ملک کی طرف نکل آئے اور دوسروں کے بجائے آپ کے ہاں آنا پسند کیا اور آپ کی پناہ چاہی۔ اس اُمید پر کہ اے بادشاہ! آپ کے ہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا۔‘‘
’’کیا تم وہ کلام سنا سکتے ہو جو خداوند کی جانب سے تمھارے رسول پر نازل ہوا ہے؟‘‘
جعفرؓ بن ابی طالب کی معروضات سننے کے بعد نجاشی کہتا ہے تو جعفرؓ جواب دیتے ہیں:
’’کیوں نہیں؟‘‘
اور سورۃ مریم انتہائی سوز سے سنانے لگتے ہیں:
کٓہٰیٰعٓصٓ O ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا O اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا۵O
نجاشی کلام الٰہی سنتا جا رہا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ بہہ کر داڑھی کو تر کر رہی ہیں۔ تلاوت ختم ہوتی ہے تو کہنے لگتا ہے:
’’خدا کی قسم! یہ کلام اور انجیل ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں۔‘‘
اور ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی سُنا دیتا ہے کہ:
’’مہاجرین کو واپس نہیں کیا جائے گا۔‘‘
عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ منہ لٹکا کر نجاشی کے دربار سے پلٹتے ہیں اور سرجوڑ کر سوچنے لگتے ہیں۔ دفعتاً عمرو بن العاص کو ایک تجویز سوجھتی ہے اور عبداللہ بن ابی ربیعہ سے کہنے لگتا ہے:
’’میں دربارِ نجاشی میں کل پھر جاؤں گا اور اس مرتبہ ایسی بات رکھوں گا کہ نجاشی مہاجرین کو ہمارے ساتھ بھیجنے پر مجبور ہوجائے گا۔‘‘
اگلے روزجب دربار خوب جم جاتا ہے اور نجاشی آ دربار میں بیٹھتا ہے۔ تو عمرو بن العاص دربار میں حاضر ہو کر ایک طویل سجدہ تعظیم کرنے کے بعد گویا ہوتا ہے کہ:
’’اے بادشاہ! یہ مہاجرین حضرت عیسیٰ۶ علیہ السلام کے بارے میں بہت غلط نظریات رکھتے ہیں۔ ذرا انھیں بلا کر پوچھیے تو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کے کیا نظریات ہیں؟‘‘
مہاجرین پھر بُلائے جاتے ہیں اور نجاشی چھوٹتے ہی سوال کرتا ہے:
’’تمھاراعیسیٰ ؑ ابن مریم کے بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟
جعفرؓ بن ابی طالب آگے بڑھ کر بلاجھجک کہتے ہیں:
ہُو عبداللّٰہ و رسولہ و کلمتہٗ القاہا الٰی مریم العذراء
’’وہ اللّٰہ کے بندے اور رسول ہیں اور اُس کی طرف سے ایک روح اور کلمہ ہیں۔ جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا تھا۔‘‘
نجاشی جو یہ سنتا ہے تو تنکا زمین سے اُٹھا کر پکار اُٹھتا ہے:
’’خدا کی قسم! جو کچھ تم نے کہا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے برابر بھی زیادہ نہیں۔‘‘
دربار میں موجود پادری ، نجاشی کی زبان سے یہ بات سنتے ہیں تو بہت جزبز ہوتے ہیں۔ نتھنے طیش سے پھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کے سانسوں کی خرخراہٹ بھی سنائی دینے لگتی ہے، مگر نجاشی اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور ایک مرتبہ پھر فیصلہ سنا دیتا ہے کہ:
’’مہاجرین کو ہرگز واپس نہیں کیا جائے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
۱۔ حضرت زینبؓ کے بعد ۳سال قبل نبوت میں پیدا ہوئیں۔ عتبہ نے طلاق دے دی تو ان کا نکاح حضرت عثمانؓ سے ہوا۔ حبش کی ہجرت میں حضرت عثمانؓ کے ساتھ تھیں۔ حضورؐ نے اس موقع پر کہاتھا کہ ابراہیم ؑ اور لُوط ؑ کے بعد عثمانؓ پہلے شخص ہیں۔ جنھوں نے اپنی ’بی بی‘ کو ساتھ لے کر ہجرت کی۔ حبش میں رقیہؓ کے ہاں عبداللہ پیدا ہوا جو چھ سال زندہ رہنے کے بعد چل بسا۔ حبش سے مکہ اور پھر مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ تو رقیہؓ بیمار ہوگئیں۔ یہ زمانہ غزوہ بدر کا تھا۔ حضرت عثمانؓ ان کی تیمارداری کی وجہ سے شریک جہاد نہ ہوسکے، جس روز فتح کا پیغام زیدؓ بن حارثہ نے مدینہ میں سنایا۔ اُسی روز رقیہؓ نے وفات پائی۔ حضورؐ غزوۂ بدر کی وجہ سے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے۔
۲۔ ایک مشرک اُمّیہ بن خلف نے سجدہ کرنے کی بجائے کچھ مٹی اُٹھا کر پیشانی سے لگا لی۔ اور کہا: میرے لیے بس یہی کافی ہے۔ اسی طرح ولید بن مغیرہ بھی بڑھاپے کی وجہ سے سجدہ نہیں کر سکا تو اُس نے بھی مٹھی بھر مٹی اُٹھا کر اپنی پیشانی پر لگا لی۔ ایک اور بوڑھے مشرک ابواحیحہ سعید بن العاص نے بھی پیشانی پر مٹی لگا کر سجدہ نہ کرنے کی تلافی کی۔
۳۔ عمرو نام، ابوعبداللہ اور ابومحمد کنیت تھی۔ والد کا نام عاص بن وائل تھا۔ عمرو جب تک اسلام نہ لائے ڈٹ کر مخالفت کی، مسلمانوں کو ایذا رسانی میں پیش پیش رہے۔ غزوہ خندق میں مشرکین کی جانب سے شرکت کی۔ اِسی غزوہ کے بعد اسلام سے متأثر ہونا شروع کیا۔ پھر حبش میں نجاشی کے پاس پہنچے تو اُسے بھی اسلام سے متأثر پایا۔ اُس کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کی۔ پھر خالد بن ولید کے ساتھ مدینہ آکر دربارِ نبویؐ میں حاضر ہوئے۔ پھر مکہ اور کچھ عرصہ بعد مدینہ واپس آ گئے۔ فتح مکہ کے بعد مختلف سریے ان کی سربراہی میں بھیجے گئے۔ حضورؐ نے مختلف حکمرانوں کی جانب انھیں سفیر بنا کر بھیجا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں مصر ان کے حوالے کیا گیا، پھر فلسطین چلے گئے۔ حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کے جھگڑنے پر ان کو بلایاگیا کہ مشورہ دیں۔ پھر جب امیرمعاویہ کا مصر و شام پر مستقل قبضہ ہوگیا تو عمرو مصر کے گورنر بنے۔ اپنے عہدِ حکومت میں ۴۳ ہجری کو وفات پائی۔
۴۔ اِن کے والد کا نام ابوربیعہ بن المغیرہ تھا۔
۵۔ پارہ نمبر۱۲۔
۶۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عبرانی نام یسّوع ہے۔ ان کی والدہ کا نام مریم تھا۔ ان کے ماموں کا نام ہارون تھا۔ نانا کا نام عمران تھا۔ خدا کے نبی تھے۔ جب مریم ؑ جوان ہوئیں تو فرشتے نے آ کر اُن کے سامنے اللہ کی جانب سے بشارت سنائی کہ ان کے پیٹ سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوں گے۔ اگرچہ اُن کو کسی مرد نے نہیں چھوا۔ بشارت کے مطابق بچہ ہوا تو نام عیسیٰ (یسّوع) رکھا گیا۔ بچپن مصر میں گزرا، تیس سال کی عمر میں تبلیغ شروع کی۔