سوداگر کی قسم
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوداگر جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ اسے ایک آواز سنائی دی:
”ٹھہرو… ورنہ تیروں سے تمہارا جسم چھلنی کر دیا جائے گا۔“
اُس نے چونک کر دیکھا۔ اس کے سامنے تین ڈاکو کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تیر اور کمان تھے۔ تیر کمانوں میں چڑھے ہوئے تھے۔
”ہم صرف تین ہی نہیں ہیں۔ اوپر درختوں پر بھی نظر ڈال لو۔“ ان میں سے ایک بولا۔
سوداگر نے اُوپر دیکھا۔ کئی درختوں پر اسے آدمی نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بھی تیر اور کمان تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ ڈاکوﺅں کے درمیا ن گھِر گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار اس جنگل سے گزرا تھا، لیکن کبھی کسی ڈاکو نے ا س کا راستہ نہیں روکا تھا۔ اس وقت بھی وہ اپنا مال فروخت کر کے آرہا تھا اور اس کے پاس بہت بڑی دولت تھی۔
”تم لوگ کیا چاہتے ہو؟“ اس نے لاپروائی سے کہا۔
”ہم ڈاکو ہیں اور ڈاکو کیا چاہتے ہیں، یہ تم اچھی طرح جانتے ہوگے۔“ ایک ڈاکو نے کہا۔
”اچھی بات ہے… تو پھر تم مجھے لوٹ لو… بلکہ تکلیف نہ کرو، میں خود ہی ساری دولت جو میرے پاس ہے، تمہاری طرف اچھال دیتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے… تم بہت عقل مند ہو… اچھال دو۔“ اسی ڈاکو نے کہا۔ شاید وہ ان کا سردار تھا۔
سوداگر نے نقدی کی تھیلی گھوڑے کی زین میں سے نکالی اور ان کی طرف اچھال دی۔ ایک ڈاکو نے تھیلی دبوچ لی اور بولا۔
”اب اپنے گھوڑے پر سے اُتر آﺅ۔“
”کیوں؟“ سوداگر نے حیران ہو کر پوچھا۔
”اس لیے کہ ہم تمہارا گھوڑا بھی لینا چاہتے ہیں۔“ ڈاکو نے مسکرا کر کہا۔
”لیکن میں پیدل اپنے گھر کس طرح جاﺅں گا۔ میرا گھر یہاں سے بہت دور ہے۔“
”تمہیں گھر جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ تمہاری زندگی کا آخری دن ہے۔“ ڈاکو نے بے رحمی سے کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھیوں نے قہقہہ لگایا۔
”اوہ!“
سوداگر کے منہ سے نکلا۔ وہ سمجھ گیا کہ ڈاکو اسے ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ آخر اُس نے ہمت کر کے کہا۔
”آخر کیوں… تم لوگ مجھے مارنا کیوں چاہتے ہو… اس سے تمہیں کیا ملے گا، میرے پاس جو کچھ تھا، وہ تو میں پہلے ہی تمہارے حوالے کر چکا ہوں۔“
”اس جنگل پر ہم نے ابھی ابھی قبضہ کیا ہے۔ اب ہم یہاں مستقل طور پر رہیں گے۔ اگر ہم نے تمہیں چھوڑ دیا تو تم سب لوگوں کو باخبر کر دو گے۔ حکومت کے لوگ آئیں گے اور ہمیں گرفتار کر لیں گے۔ اس لیے ہم تمہیں کس طرح چھوڑ دیں۔“ ڈاکوﺅں کے سردار نے کہا۔
”سنو سردار… میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ کسی کو بھی تمہارے بارے میں نہیں بتاﺅ ں گا۔تم کہو تو میں بڑی سے بڑی قسم کھانے کے لیے تیار ہوں۔“
”ہم اتنے بے وقوف نہیں۔ یہاں تم قسم کھا لو گے اور جا کر لوگوں کو بتا دو گے، حکومت کے آدمیوں کو ادھر بھیج دو گے۔“
”دیکھو… میں بیوی بچوں والا ہوں… میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں… ان پر ترس کھاﺅ… تمہارے دلوں میں رحم بالکل نہیں۔“ اس نے گڑگڑا کر کہا۔
”رحم دل تو ہم بہت ہیں۔ مگر کیا کریں۔ اگر ہم تمہیں چھوڑتے ہیں تو خود مصیبت میں پھنستے ہیں۔“ سردار بولا۔
”سنو… میں اپنے بچوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کسی کو تمہارے بارے میں نہیں بتاﺅں گا… بس اس راز کو اپنے سینے میں ہی محفوظ رکھوں گا… اگر میں اپنی قسم توڑدوں تو اپنے بچوں کی صورت تک نہ دیکھوں۔“
ڈاکو سوچ میں پڑ گئے۔ آخر سردار نے کہا:
”مجھے تمہاری قسم پر اعتبار آگیا ہے… ٹھیک ہے، تم جاسکتے ہو… یاد رکھو… اگر تم نے اپنی قسم توڑی تو ہم حکومت کے آدمیوں سے تو کسی نہ کسی طرح نبٹ ہی لیں گے… تمہیں ہرگز زندہ نہیں چھوڑیں گے۔“
”بے فکر رہو۔ میں اپنے وعدے پر قائم رہوں گا۔“
ڈاکوﺅں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اور وہ گھوڑا دوڑاتا ہوا جنگل سے نکل آیا۔ اس نے جان بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ ہاتھ سے جانے والی دولت کا اسے کوئی غم نہیں تھا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ ڈاکوﺅں سے وعدہ کر آیا ہے کہ ان کے بارے میں کسی کوکچھ نہیں بتائے گا۔تو! کیا ڈاکو اسی طرح جنگل عبور کرنے والوں کو لوٹتے رہیں گے۔ جان سے مارتے رہیں گے۔ وہ چونک اُٹھا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اب کیا کرے۔ آخر اس نے ایک فیصلہ کیا۔
اس واقعے کو تین دن گزر گئے۔ تیسرے دن صبح سویرے ڈاکو اپنے ٹھکانے سے باہر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں تیر کمان تھے۔
اچانک ایک فائر کی آواز آئی اور ان میں سے ایک نیچے گر گیا۔ ابھی وہ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ ایک ساتھ پانچ فائر ہوئے اور چھ ڈاکو تڑپنے لگے۔ صرف ڈاکوﺅں کا سردار رہ گیا تھا۔
گولیاں ایک درخت پر سے آئی تھیں۔ اسی درخت سے آواز آئی:
”سردار! تیر کمان پھینک دو۔ اب صرف تم زندہ بچے ہو۔“
سردار نے جو یہ آواز سنی تو اس کا خون کھول اُٹھا۔ یہ اُسی سوداگر کی آواز تھی۔ اس نے گرج کر کہا:
”تو تم نے اپنی قسم توڑ دی… کیوں؟“
”غلط سمجھے… میں نے اپنی قسم نہیں توڑی… میں نے تمہارے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتایا… لیکن میں نے یہ کب قسم کھائی تھی کہ خود بھی تم سے مقابلہ کرنے کے لیے واپس نہیں آﺅں گا… دیکھ لو… میں تنہا ہوں… اور میں نے تمہارے چھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا… اب تمہاری باری ہے… میں تمہیں لوگوں کو لوٹنے اور جان سے مار دینے کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں۔“
اس کے ساتھ ہی ایک فائر اور ہوا اور سردار تیورا کر گرا۔ اس کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ یہ اس کی آخری چیخ تھی۔ اس کے بعد سوداگر نے درخت پر سے چھلانگ لگائی۔ ان سب کو دیکھا۔ وہ مر چکے تھے۔ اس کے بعد وہ ڈاکوﺅں کے غار میں داخل ہوا، جس سے ڈاکو نکلے تھے۔
اُس غار میں دولت کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ سوداگر نے اس ڈھیر کو دیکھا اور مسکرانے لگا۔ یہ اس کا انسانی ہمدردی کا انعام تھا۔
٭٭٭