اسکردو
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
جمعرات کا دن تھا۔
سلمان اور عثمان اپنے ابو کے ساتھ اسکردو جا رہے تھے۔ سلمان کے ابو نے یہی دن مناسب سمجھا تھا، اس لیے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود سفر پر روانہ ہوتے یا کسی کو روانہ فرماتے تو عام طور پر جمعرات کے دن کو مناسب خیال فرماتے تھے۔ گھر کے تمام افراد صبح سویرے اٹھ گئے تھے۔ سلمان، عثمان اور ان کے ابو جی نے مسجد جا کر نماز فجر باجماعت ادا کی۔ سلمان کی امی جی اور سلمان کی بڑی بہن، زینب باجی نے گھر پر نماز فجر پڑھی۔ کچھ دیر بعد سب نے مل کر ناشتا کیا۔ ابو جی نے کہا:
”چلیں بھئی، اب روانہ ہونا چاہیے، لیکن سفر پر روانگی سے پہلے دو رکعت نفل نماز ادا کر لیں۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔ سب نے دو رکعت نفل نماز ادا کی۔ پھر ایک ٹیکسی منگوائی گئی۔ سلمان اور عثمان اپنے ابو کے ساتھ اپنی امی اور باجی کو اللہ حافظ کہ کر ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ سامان ٹیکسی کی چھت پر بنے جنگلے پر رکھ دیا گیا۔ ذرا دیر میں ٹیکسی بسوں کے اڈے پر پہنچ گئی۔
گلگت جانے والی بس تیار کھڑی تھی۔ سامان ٹیکسی سے اتار کر بس میں رکھ دیا گیا۔ ابو جی ٹکٹ تو پہلے ہی لے چکے تھے۔ ٹکٹوں پر نشستوں کے نمبر لکھے ہوئے تھے۔ ابو جی، سلمان اور عثمان کو لے کر بس کی انہی نمبروں والی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
”ابو جی، یہ بس ہمیں کہاں لے جائے گی؟“ مسلمان نے پوچھا۔
”بیٹے، یہ بس ہمیں گلگت لے جائے گی جو ہمارے شہر راولپنڈی سے تقریباً چھے سو پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں ایک روز ٹھہرنے کے بعد ہم اسکر دو جانے کے لیے روانہ ہوں گے۔ اسکردو، گلگت سے دو سو اکتالیس کلومیٹردور ہے۔“
”یہ بس ہمیں کتنی دیر میں گلگت پہنچا دے گی؟“عثمان نے پوچھا۔
”اٹھارہ سے بیس گھنٹے لگ سکتے ہیں۔“ابو جان نے بتایا۔”ویسے تو اسلام آباد سے ہوائی جہاز کے ذریعے سے صرف ایک گھنٹے میں سیدھے اسکردو پہنچ سکتے ہیں اور میں نے ہوائی جہاز کے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ٹکٹ نہ مل سکے، اس لیے ہم بس کے ذریعے سے جا رہے ہیں۔ یہ سفر لمبا اور تھکا دینے والا ضرور ہے، لیکن امید ہے کہ تم لوگ سفر کا لطف اٹھاؤ گے۔“
ذرا دیر میں ڈرائیور اپنی نشست پر آ بیٹھا، اس نے ہارن بجا کر بس کے تمام مسافروں کو توجہ دلائی کہ اب ہم چلنے کے لیے تیار ہیں۔ جو مسافر بس سے باہر کھڑے تھے، وہ جلدی سے بس میں سوار ہو گئے۔
ابو جی نے سواری کی دعا پڑھی۔ سلمان اور عثمان نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ دوسرے کئی مسافروں نے بھی دعا پڑھی:
سُبْحٰنَ الَّذِی سَخَّرَلَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہ مُفْرِنِینَ وَ إِنَّا إِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْن
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اس (سواری) کو ہمارے بس میں کر دیا حالانکہ ہم اس کو قابو میں کرنے والے نہ تھے اور یقینا ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔
بس روانہ ہو گئی اور جلد ہی شہر کی مصروف سڑکوں سے نکل کر شاہراہ پر دوڑنے لگی۔ راستے میں بس کئی مقامات پر رکی۔ مسافر سستانے کے لیے بس سے اترے۔ جب بھی نماز کا وقت ہوا تو ڈرائیور نے کسی مناسب جگہ بس روک دی، جہاں، وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کا انتظام تھا۔ تمام مسافروں نے نمازیں ادا کیں۔
بس مانسہرہ، ایبٹ آباد اور دیگر مقامات سے ہوتی ہوئی تھا کوٹ پہنچ گئی۔
”ابوجی، ہم شاہراہ قراقرم پر سفر کر رہے ہیں نا؟“ عثمان نے پوچھا۔
”ہاں بیٹے، یہ شاہراہ تو حویلیاں سے ہمارے ساتھ ساتھ ہے۔“ ابو نے بتایا۔”یہ شاہراہ سات سو باون کلو میٹر لمبی ہے۔ اسے پاکستان اور چین کے دس ہزار ماہرین اور کاریگروں نے مل کر بیس سال کے عرصے میں تعمیر کیا۔ شاہراہ کی تعمیر انیس سو اناسی (1979) میں مکمل ہوئی۔“
”بیس سال؟“ سلمان نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں، سخت اور مضبوط چٹانوں کو توڑ کر سڑک تعمیر کرنے میں وقت تو لگتاہے۔“ ابو جی بولے۔”اس شاہراہ پر ننانوے بڑے پل اور سترہ سو آٹھ چھوٹے پل واقع ہیں۔ اس شاہراہ کو شاہراہ ریشم اور شاہراہ دوستی بھی کہا جاتا ہے۔“
بس تھا کوٹ سے بشام پہنچی پھر پٹن، کمیلا اور چلاس ہوتے ہوئے جنگلوٹ پہنچ گئی۔
”بچو، اب دریائے سندھ ہمارا ساتھ چھوڑ دے گا اور دریائے گلگت اس کی جگہ لے لے گا۔ اب ہم گلگت سے صرف بیالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔“ ابو جی نے کہا۔
بس چلتے ہوئے ایک سڑک پر مڑ گئی۔ کچھ دیر بعد بس گلگت شہر میں داخل ہو رہی تھی۔ بچے طویل سفر سے تھک چکے تھے۔ ابو جی نے ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیا۔ بچے کمرہ میں پہنچتے ہی بستروں پر لیٹے اور بے خبر سو گئے۔
اگلے دن ابو جی نے کہا: ”بچو، یوں تو گلگت اور اطراف میں بھی گھومنے پھرنے کی کئی جگہیں ہیں لیکن ہمیں اسکردو پہنچنا ہے۔“سب لوگ تیار ہو گئے اور بسوں کے اڈے پر جا پہنچے۔ کچھ دیر میں بس انہیں لے کر اسکر دو روانہ ہوگئی۔
اسکردو سے گلگت جانے والا راستہ پہاڑوں کو تراش کر بنایا گیا ہے اور بس اس پر دھیمی رفتار سے چل رہی تھی۔ قریب ہی برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ بھی نظر آ رہے تھے۔
”اسکردو سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر دنیا کی تیس بلند ترین چوٹیوں میں سے دس چوٹیاں پائی جاتی ہیں۔“ابو جی نے کہا۔
”چوٹیاں؟“ سلمان نے پوچھا۔
”ہاں، بلند ترین پہاڑ۔“
بس تقریباً پندرہ گھنٹوں میں اسکردو پہنچی۔ سلمان اور عثمان اپنے ابو جی کے ساتھ ماموں جی کے گھر پہنچے۔ ماموں جی ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ وہ ان تینوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، تینوں کو بٹھا کر چائے پلائی، تینوں دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ ماموں جی نے اسکردو کے بارے میں بہت سی دلچسپ اور معلوماتی باتیں بتا ئیں۔ وہ کہ رہے تھے:
”اسکردو کا نام اسکردو کیوں پڑا، اس سلسلے میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔ایک شخص آسکر گیا ہو کا خاندان اس علاقے میں آباد ہو گیا تھا۔ بلتی زبان میں ”دُو“ کا مطلب ہے، ایسی نیچی جگہ جو بلندیوں کے درمیان واقع ہو۔ آسکر دو کا مطلب ہوا، آسکر کی ایسی نیچی جگہ جو بلندیوں کے درمیان واقع ہو۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ نام ”ساگر دو“ تھا یعنی دو دریا۔ اس سے مراد دریائے سندھ اور دریائے شنکر لی جاتی تھی۔“
”ماموں جی، گرمیوں کا موسم ہونے کے باوجود یہاں تو خاصی ٹھنڈک ہے۔“ عثمان نے حیرانی سے کہا۔
”بیٹے، آپ اسکردو میں ہیں جو سطح سمندر سے دو ہزار دو سو چھیاسی میٹربلند ہے، یعنی ساڑھے سات ہزار فٹ۔“ماموں جی نے بتایا۔
”ماموں جی، آپ اسکردو میں ہمیں کہاں کی سیر کروائیں گے؟“ سلمان نے سوال کیا۔
”بیٹے، آج ہم آپ کو ایک قدیم قلعہ دکھا ئیں گے۔ یہ قلعہ مقامی زبان میں ”کھر فو چھے“ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے قلعوں کا بادشاہ۔“
سب لوگ تیار ہو کر قلعہ دیکھنے چل پڑے۔
”قلعہ بڑا قدیم ہے۔“ ماموں جی نے بتایا۔ ”یہ قلعہ تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ بعد میں بلتستان کے حکمران علی شیر خان نے اس قلعے میں سنگ مرمر کا اضافہ کیا۔“
قلعہ بہت اونچائی پر تھا۔ بچے وہاں تک پہنچتے پہنچتے تھک گئے۔ نیچے ایک محل ہے جسے علی شیر خان کی بیوی گل خاتون نے بنوایا تھا۔ ماموں جی نے بتایا کہ گل خاتون نے اسکردو میں ہلال باغ اور چہار باغ بھی لگوایا تھا اور ایک نہر تعمیر کروائی تھی۔
”بچو، آپ نے ایک بات محسوس کی؟“ ماموں جی بولے۔”چاروں طرف سے برف سے ڈھکے پہاڑوں کے درمیان اسکر دو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی صحرا ہو۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ یہ چمکتی ریت دیکھ رہے ہو۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کبھی یہاں پر دریائے سندھ بہتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ دریا نے راستہ بدل لیا اور اپنی یادگار یہ ریتیلی زمین چھوڑ گیا۔“
”ماموں جی، اسکردو میں پھل کون سے پیدا ہوتے ہیں؟“عثمان نے پوچھا۔
”بیٹے یہاں خوبانی، آڑو، ناشپاتی اور سیب کے باغات ہیں۔ آپ کو یہاں کے پھل کھلائیں گے۔“ ماموں جی مسکرا کر بولے۔
اگلے چند دنوں میں ماموں جی نے سلمان، عثمان اور ان کے ابو کو جھیل ست پارہ اور کچورا جھیل دکھائی۔ جھیل ست پارہ اسکردو سے آٹھ کلومیٹر دور ہے۔ اسے ست پارہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں سات برساتی نالوں کا پانی آ کر جمع ہوتا ہے۔ اس کو”صد پارہ گولڈ“ بھی کہتے ہیں۔ ”صد پارہ“ سے مراد فصیل یا حفاظتی دیوار ہے۔ اس کی تہ میں موجود ریت سونے کی طرح چمکتی ہے۔ ماموں جی بچوں کو اسکردو سے بتیس کلو میٹر دور کچورا جھیل بھی لے گئے، وہاں ایک جھیل ”اپر کچورا“ کے نام سے بھی ہے۔ بچوں کو یہ جھیلیں بہت اچھی لگیں۔
بچے تو چاہتے تھے کہ ابھی کچھ دن اور رکیں، ماموں جی بھی اصرار کر رہے تھے مگر ابو جی کی چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں اس لیے سلمان اور عثمان نے اپنے ابو کے ساتھ ماموں جی کو الوداع کہی۔ ماموں جی، ان لوگوں کے لیے ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کا انتظام کر چکے تھے۔ وہ سب اسکردو ائیر پورٹ پہنچ گئے جہاں اسلام آباد جانے کے لیے ہوائی جہاز تیار کھڑا تھا۔