سُقّے کا گدھا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بوڑھے سُقّے کے پاس ایک تھکا ہوا، لاغر گدھا تھا۔ بوڑھا آدمی گھر گھر پانی بیچ کر بہت مشکل سے روزی کماتا تھا۔ اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنے گدھے کے لیے غلہ خرید سکے۔ بے چارے گدھے کو جس کی پُشت پر بھاری بوجھ اُٹھانے کی وجہ سے زخم پڑگئے تھے، خشک گھاس یا چارہ ذرّہ بھر بھی میسر نہ تھا۔ جب بادشاہ اصطبل کے رکھوالے نے گدھے کی حالت دیکھی تو اسے اس پر ترس آیا۔ اس نے پانی فروخت کرنے والے اپنے دوست سے غصے میں پوچھا: ’’یہ بے چارہ جانور اس طرح کیوں نظر آتا ہے؟‘‘ بوڑھے آدمی نے جواب دیا۔ ’’محترم، میں بڑی مشکل سے اپنا پیٹ بھرتا ہوں۔ میرے بارے میں کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ میں اپنے گدھے کے لیے خوراک مہیا کرسکتا ہوں؟‘‘
بادشاہ کے اصطبل کے رکھوالے نے کہا: ’’چند دنوں کے لیے یہ گدھا مجھے دے دو اور بادشاہ کے اصطبل میں اِسے توانا ہونے دو۔‘‘
اس بوڑھے آدمی نے اسے اپنا گدھا دے دیا اور اصطبل کا رکھوالا اسے بادشاہ کے اصطبل میں لے گیا، جہاں اُس نے اسے باندھ دیا۔ گدھے نے بہت حیرت سے خوب صورت عربی گھوڑوں کو دیکھا، جن کے لیے اصطبل میں وافر خوراک موجود تھی۔ جب گدھے نے گھوڑوں کی اس نسل کو دیکھا جسے بھوسہ، جو اور دیگر اقسام کا چارہ کھلایا جارہا تھا تو اس نے اپنے اوپر غور کیا اور افسوس کرتے ہوئے کہا: ’’اے میرے مالک تو مجھے ان گھوڑوں کا سا آرام اور زندگی گزارنے کا انداز کیوں نہیں دیتا؟ تکلیف اور پریشانی صرف میرے ہی لیے کیوں ہے؟ میں تو اپنی پشت کے زخموں کی وجہ سے ایک جگہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا۔ میرا پیٹ خالی ہے۔ میں مصیبت زدہ ہوں۔ مگر ان کے پاس رزق کی اتنی بہتات اور کثرت ہے۔‘‘
ایک صبح گدھا خود رحمی سے لوٹنے پوٹنے کے عمل میں مصروف تھا کہ ایسے میں ’’جنگ شروع ہوگئی ہے!‘‘ کی آوازیں سنائی دیں۔ عربی گھوڑوں پر زین کَسی گئی اور اُنھیں جنگ کے لیے تیار کردیا گیا۔ گدھا اکیلا اصطبل میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا اور گھوڑے خونریز جنگ میں حصہ لے رہے تھے۔
وہ گھوڑے جو دشمن کے تیروں اور نیزوں کا شکار بنے تھے زخمی، رَگڑ کی وجہ سے خراش زدہ اور تھکے ماندے اصطبل میں لوٹے۔ ان کے سم بندھے ہوئے تھے، ان کے زخمی اجسام سے تیر نکالے گئے، زخموں کا علاج کیا گیا اور تلوار اور نیزے سے پھٹے ہوئے اعضا پر مرہم پٹّی کی گئی۔
جب گدھے نے گھوڑوں کو اس بُری حالت میں، چند ایک کو شدید زخمی اور دیگر کو مرتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنی حالت پر شکر ادا کیا اور دعا کی کہ ’’اے مالک، میں اپنی غربت اور بھوک کو قبول کرتا ہوں۔ میرے لیے یہی کافی ہے کہ آپ مجھے اس مشکل فرض سے دور رکھتے ہیں اور مجھے جنگ کی سختیوں میں مبتلا نہیں کرتے۔ مجھے بہت زیادہ خوراک کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس دنیا کے تمام عیش و آرام کی حاجت، بس مجھے ایسی آزمائش میں مبتلا مت کرنا کہ میرے زخموں سے تیر اور نیزے نکالے جائیں۔‘‘