سیٹھ بریانی والا
اشفاق احمد خان
۔۔۔۔۔
سیٹھ بریانی والے کی چٹخارے دار بریانی کھا کر آدمی ہر چیز کو بھول جاتا ہے۔ ایک بار جو اس کی دکان پر آتاوہ اسی کاہوکر رہ جاتا۔ سیٹھ بریانی تو بیچتاہی تھا لیکن جو مزہ بریانی کے ساتھ اس کا رواں تبصرہ دیتا، وہ کہیں اور بھلا کہاں مل سکتا تھا۔
’’ارے شیخ صاحب! زندگی بھر ایسی بریانی نہ چکھی ہوگی۔‘‘
’’میاں جی! مہاراجے ترستے ہیں اس بریانی کو۔‘‘
’’کسی مردے کو ہماری بریانی سنگھا دو وہ بھی جی اٹھے گا۔‘‘
اور یہ خالی خولی باتیں نہیں تھیں، دیگ میں سفید اور زرد د مکتے چاول یوں علیحدہ علیحدہ پڑے ہوتے گویا ابھی گن کر رکھے ہیں۔ مجال ہے جو بوٹی کا ایک ریشہ بھی الگ ہو جائے اور یہ اس بریانی کا کمال تھا جس نے اسے فٹ پاتھ سے اٹھا کر ایک چمکتی دمکتی بڑی دکان کا مالک بنا دیا۔ اس کے خیر خواہ اس پر رشک کرتے اور بدخواہ؟ وہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کسی کو پھلتا پھولتا دیکھ نہیں سکتے۔
ان ہی بدخواہوں میں علیم الدین نام کا ایک آدمی بھی تھا۔ اس نے بھی سیٹھ بریانی والا کے قریب بریانی کی دکان کھولی تھی لیکن جو ہجوم سیٹھ بریانی والے کی دکان پر ہوتا، اس کا دسواں حصہ بھی اسے نصیب نہ تھا۔ اپنے تئیں اس نے بڑی کوشش کی کہ اپنی بریانی کا معیار بھی بڑھائے لیکن سیٹھ بریانی والے کی بریانی کے کمال کو وہ نہیں پہنچ پایا۔ صبح شام اسی فکر میں پریشان رہتا۔ اس نے کوشش کر کے اس طریقے کو بھی جان لیا، جس کے مطابق سیٹھ بریانی والا اپنی بریانی پکاتا تھالیکن پتاچلنے کے باوجود بھی وہ کچھ نہ کر سکا۔ آخرنا کام ہو کروہ سیٹھ بریانی والے کا دشمن بن گیا۔
سیٹھ بریانی والا طبیعت کا بڑا کھرا آدمی تھا، لگی لپٹی رکھے بغیر ہر بات کہہ دیتا۔ اس نے دن رات محنت سے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ شہر کے اکثر لوگ اس سے واقف تھے اور اس کے ہنر کو سراہتے۔ سیٹھ کو بھی یہ احساس تھا کہ اس کی باکمال بریانی نے اسے پورے شہر میں مشہور کر دیا۔ وہ علیم الدین سے بھی واقف تھا۔ اس نے تو اول روز سے ہی یہ کوشش کی تھی کہ اس کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر رہیں لیکن علیم الدین اس راہ پر آتا ہی نہ تھا۔ وہ اس سے ملنا تو دورا سے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
ایک دن سیٹھ بریانی والا اپنی دکان سجانے لگا تو نہ جانے کیوں اس کا دل گھبرا گیا اور ذہن میں طرح طرح کے وسو سے آنے لگے۔ اس دن ہر چیز تیار کروا کر وہ دکان پر آبیٹھا۔ دیگیں سجاتے ہی گاہک آنا شروع ہو گئے۔ دکان پر اس نے چھ ملازم رکھے ہوئے تھے۔ گیارہ بجے کے قریب علاقے کا تھانے دار چند سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ سیٹھ نے اسے دیکھتے ہی خوش آمدید کہا لیکن اس نے سیٹھ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور دیگوں کے ڈھکن اٹھا اٹھا کر جھانکنے لگا۔
’’سر کار مجھے حکم کریں ۔‘‘سیٹھ نے حیرانی سے کہا کیونکہ اس سے قبل ایسا نہیں ہوا تھا۔
’’خاموش رہو!‘‘ تھانے دار نے اسے ڈانٹا۔ وہ اس وقت ایک دیگ کا ڈھکن اٹھارہا تھا۔
’’او ہو!یہ لال لال کیا چیز چمک رہی ہے اندر؟‘‘ تھانے دار نے پوچھا۔
’’بوٹیاں ہیں سرکار ۔‘‘سیٹھ نے جواب دیا۔
تھانیدار نے ایک سپاہی کو اشارہ کیا تو اس نے لپک کر دیگ میں ہاتھ ڈالا اور جب باہر نکالا، تو اردگرد کھڑے گاہکوں کے منہ سے حیرانی سے ’’اوہ‘‘ اور ’’یہ کیا؟ ‘‘کی آوازیں نکلیں۔
سپاہی کے ہاتھ میں دوعد دلال بیگ نظر آ رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دوکان پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ بریانی کھاتے ہوئے گا ہک بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ دو آدمی تو قے کرنے لگے۔
’’ہونہہ! تو تم اپنے گاہکوں کو یہ الا بلا کھلاتے ہو؟ یہ ہوتی ہیں تمہاری بوٹیاں ؟‘‘تھانے دار نے طنزیہ نگا ہوں سے سیٹھ بریانی والے کو گھورا جو بے جان بت کی طرح کھڑا تھا۔
’’مجھے بریانی بیچتے ہوئے دس سال کا عرصہ ہو گیا ہے، آج تک کوئی گاہک اس میں سے ایک کیڑا بھی نہیں نکال سکا ۔‘‘سیٹھ بولا۔
’’لیکن آج تو سیٹھ صاحب کمال ہو گیا! اتنے بڑے بڑے لال بیگ نکل آئے۔‘‘ تھانے دار نے ڈنڈے کو گھماتے ہوئے کہا۔
’’یہ جھوٹ ہے ۔‘‘سیٹھ بولا۔
’’جھوٹ کا پتہ تو تھانے جا کر چلے گا سیٹھ بریانی والا! ‘‘تھانے دار نے کہا اور اسے دھکیلتا ہوا تھانے لے گیا۔ سپاہیوں نے دکان کو تالا لگا دیا۔
سیٹھ بریانی والے کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ اب وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ اس کی ساکھ بہت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ یہ بات اس کے ذہن میں کسی طرح بھی نہیں سما رہی تھی کہ اس کی دیگ میں لال بیگ آجائیں۔ وہ تو انتہا کا صفائی پسند تھا۔ یونہی سوچتے سوچتے اسے ایک خیال آیا تو وہ چونک اٹھا ۔واقعی یہ عجیب بات ہے۔ دیگ میں لال بیگ آئے کہاں سے؟ اور پھر بالکل او پر جنھیں سپاہی نے اتنی آسانی سے نکال لیا؟ دیگیں دکان میں رکھنے کے بعد میں نے خود ہر دیگ کو دیکھا بھالا تھا۔ کسی میں بھی لال بیگ نہیں تھے۔ اس کے خلاف یہ کسی کی سازش تو نہیں؟ اور اگر سازش ہے بھی تو وہ اس کا توڑ کیسے کرے؟‘‘
اب اتفاق کی بات دیکھئے کہ پولیس کے ایک ایس پی صاحب کے ہاں بھی دو پہر کے وقت اس کی بریانی جاتی تھی۔ دو پہر کے وقت ایس پی کا خانساماں آیا تو دکان بند تھی۔ وہ ادھر ادھر سے معلوم کر کے چلا گیا اور ڈرتے ڈرتے اپنے صاحب کو ساری بات کہہ دی۔ ایس پی صاحب پہلے تو حیران ہوئے پھر بولے:
’’نا ممکن! یہ بات نا ممکن ہے! آج تک ایسا نہیں ہوا۔ اتنی نفیس بریانی صفائی کے بغیر نہیں بن سکتی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ غلطی سے لال بیگ دیگ میں جا گرے ہوں۔‘‘
جی جناب خانساماں نے ادب سے کہا۔
’’میں خود دیکھتا ہوں، سیٹھ کو اس غلطی پر تھانے نہیں لے جانا چاہیے تھا ۔‘‘ایس پی صاحب بولے۔
کچھ دیر بعد وہ تھانے پہنچے تو عملہ ان کے اچانک دورے سے حیران اور پریشان ہو گیا۔ جب انہیں ان کی آمد کے مقصد کا پتا چلا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ تھانے دار بوکھلا گیا، وہ تو سیٹھ کو یوں ہی تھانے لے آیا تھا اور سرزنش کرنے کے بعد اسے چھوڑنے والا تھا۔
سیٹھ بریانی والے کو ایس ایس پی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے پوچھا ۔’’کیوں سیٹھ ، یہ کیا چکر ہے؟‘‘
’’چکر تو جناب میں بھی نہیں سمجھ پایا۔ میرے خلاف کوئی سازش معلوم ہوتی ہے۔ سارا شہر طویل عرصے سے میری بریانی کھا رہا ہے، ایک دفعہ بھی کسی نے شکایت نہیں کی۔ ‘‘سیٹھ نے جواب دیا۔
’’تو پھر لال بیگ؟‘‘ ایس پی صاحب نے پوچھا۔
تھانے دار صاحب نے جھٹ میز کی دراز سے ایک لفافہ نکالا اور سیٹھ کے سامنے رکھ دیا۔ سیٹھ بریانی والا نے بغوران کا معائنہ کیا اور پھر ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا:
یہ میری دیگوں کے پکنے کے بعد ان میں گرے ہیں۔ پہلے یا پکنے کے دوران گرتے تو ان کا نام و نشان نہ ملتا۔‘‘
’’ آپ درست کہتے ہیں۔‘‘ ایس پی صاحب نے سیٹھ کی تائید کی۔
اس سے قبل کہ تھانے دار کچھ کہتا سیٹھ کا ایک ملازم اندر داخل ہوا اور سیٹھ کے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔ وہ حیرانی سے سر ہلاتا جاتا ۔ اور ملازم کے بات ختم کرتے ہی وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور بولا:
’’لیجئے جناب کھیل ختم ہو گیا۔ یہ کمال میرے ایک ملازم نے کیا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘ ‘ایس پی صاحب بولے۔
’’پرانا قصہ ہے صاحب !علیم الدین نام کا ایک شخص میری دکان کے قریب ہی بریانی فروخت کرتا ہے لیکن میرے مقابلے میں اس کی دکانداری نہیں چلی۔ اس نے میرے ایک ملازم کو لالچ دے کر یہ لال بیگ دیگ میں ڈلوائے تھے تا کہ میرا کاروبار چوپٹ ہو جائے۔‘‘
’’مگر اسے کس طرح پتہ چلا؟‘‘ ایس پی صاحب نے ملازم کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’علیم الدین نے لال بیگ دیگ میں ڈلوا کر تھانے دار صاحب کو اطلاع دی تو یہ مجھے گرفتار کرنے آگئے حالانکہ علیم الدین نے ملازم سے صرف یہی کہا تھا کہ ذرا اس کی ساکھ خراب کرنی ہے ۔میری گرفتاری کے بعد اس ملازم نے سچ بات بتادی۔‘‘
’’ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں سیٹھ بریانی والا۔ آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔‘‘ ایس پی صاحب نے کہا۔
’’تکلیف تو جناب آپ نے میری خاطر کی۔‘‘
’’وہ میرا فرض تھا۔ آپ کی صفائی اور نفاست کا میں قائل تھا اس لیے چلا آیا۔‘‘ ایس پی صاحب نے کہا ۔’’اورہاں اس علیم الدین کو سازش کرنے کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔‘‘ انہوں نے تھانے دار کو حکم دیا۔
’’جی بہتر جناب !‘‘تھانے دار نے کہا۔
’’نہیں جناب چھوڑ دیں اس بات کو ۔‘‘سیٹھ بولا۔
’’اس نے آپ کو نقصان پہنچایا ہے سیٹھ صاحب! ‘‘ایس پی صاحب بولے۔
’’اسے سزا مل گئی ہے۔ میرے اسی ملازم نے ہر شخص کو اس کے بارے میں بتادیا ہے ۔‘‘سیٹھ نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ،جیسے آپ کی مرضی ۔‘‘یہ کہہ کر ایس پی صاحب رخصت ہو گئے۔ اگلے دن سیٹھ بریانی والا اسی شان سے دکان پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے علیم الدین کی دکان کی طرف دیکھا تو وہ بالکل سُنسان نظر آئی۔ سیٹھ کو اس پر بڑا ترس آیا۔ وہ اس کے پاس گیا اور اس کی خیریت پوچھی۔
’’کیسے ہو بھائی علیم الدین؟‘‘
علیم الدین زمین میں گرا جار ہا تھا۔ سیٹھ بریانی والا نے اسے تسلی دی اور کہا ۔’’بھائی میں تمہارا دشمن نہیں ،تم کیوں میرے مخالف بن گئے ہو؟‘‘
علیم الدین کچھ دیر چپ رہا پھر بولا ۔’’سیٹھ تم عجیب آدمی ہو!میں نے تمہیں تھانے پہنچایا اور تم نے انہیں میرے خلاف کارروائی سے روک دیا۔ اب میں تم سے کوئی بات نہیں چھپاؤں گا۔ تمہاری ترقی دیکھ کر میں جلتا اور کڑھتا تھا ۔تمہاری بریانی میں ایسی کیا بات ہے کہ سارا شہر اس کا دیوانہ ہے۔ حالانکہ میں بھی تمہارے والے طریقے سے پکاتا ہوں۔‘‘
سیٹھ بریانی والا کرسی پر بیٹھا اور بولا ۔’’تم جانتے ہو کہ عزت دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ میں نے کام بڑے خلوص، دیانت اور محنت سے شروع کیا تھا۔ میری عادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنا دیا اس پر شکر کرتا ہوں اور دوسروں کو ترقی کرتے دیکھ کر جلتا کڑھتا نہیں۔ میرے دل میں کسی کے خلاف کینہ یا حسد پیدا نہیں ہوتا۔ شایداللہ تعالیٰ کو یہی بات پسند ہے اور اس نے مجھے اتنی عزت دی۔ تم بھی یہ بات آزما کر دیکھ لو۔‘‘
’’بات تمہاری واقعی سچی ہے سیٹھ! اور سچ پوچھو تو میں اب تمہاری بریانی کا راز جان گیا ہوں۔‘‘
’’وہ راز کیا ہے؟‘‘سیٹھ نے مسکرا کر پوچھا۔
’’جو شخص برائیوں سے بچے تو اس کے اندر نیکی کی مہک پیدا ہو جاتی ہے ،یہی مہک تمہارے اندر موجود ہے تمہاری ہر شے اس سے متاثر ہوتی ہے۔‘‘
’’بھئی واہ! تمہیں کتنی دور کی سوجھی ۔‘‘سیٹھ بریانی والے نے ہنس کر کہا۔ ‘‘
علیم الدین بولا ۔’’دور کی بات نہیں سیٹھ ،نزدیک کی، جسے میں نے دُور کر رکھا تھا۔‘‘