حضرت شعیب علیہ السلام
جب حضرت یوسف علیہ السلام کے والدین اور بھائی مصر میں آگئے تو عزیز مصر نے کہا، تمہیں اختیار ہے، جہاں چاہو انہیں آباد کرو، حضرت یوسف علیہ السلام نے یہی مناسب سمجھا کہ انہیں شہر میں آباد نہ کیا جائے، کیوں کہ شہری ماحول اکثر اچھا نہیں ہوتا، چنانچہ آپ نے عزیز مصر سے کہا کہ یہ لوگ دیہات کے رہنے والے ہیں اس لیے یہ شہروں میں خوش نہ رہ سکیں گے، ان کے لیے دیہی زندگی ہی مناسب ہوگی۔
چنانچہ آپ نے اپنے بھائیوں کو ایک سر سبز علاقے میں آباد کردیا، انہی میں سے حضرت شعیب علیہ السلام اللہ کے پیغمبر ہو کر دنیا میں تشریف لائے۔
جب حضرت شعیب علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو چند ایک لوگ ہی نہیں ساری کی ساری قوم گناہوں اور بداعمالیوں میں گھری ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایک خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ خرید و فروخت میں پورا لینا اور کم تولنا ان کا عام پیشہ تھا۔ چوریاں کرتے اور ڈاکے ڈالتے۔ اس چیز نے انہیں مغرور اور متکبر بنارکھا تھا۔
آپ نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ خدائے واحد کی پرستش کرو، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ خرید و فروخت میں ناپ تول کور پورا رکھو اور لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت کھوٹ نہ ملایا کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تم اپنی ان بداعمالیوں کے نتائج سے آگاہ نہ ہو، لیکن اب جب کہ خدا کا نبی تمہارے پاس آچکا ہے تو اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کو کسی نے ہمارے برے اعمال سے نہیں روکا تھا۔
حضرت شعیب علیہ السلام بڑے فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ آپ نے ہر طریق سے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ محبت سے راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ خدا کے عذاب سے ڈرایا، مگر ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت شروع کردی۔ چند ایک غریب اور کمزور لوگ جو حضرت شعیب علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ ان سرکشوں نے ان کو ستانا شروع کردیا۔ راستوں میں بیٹھ کر ان لو لوٹ لیتے، زدوکوب کرتے اور دھمکاتے لیکن اس کے باوجود حضرت شعیب علیہ السلام خدا کی طرف سے جو پیغام لے کر آئے تھے لوگوں کو سناتے رہے۔
اس پر اس قوم کے سردار حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس آئے اور آپ کو دھمکی دی کہ اگر تم اپنے اس وعظ و نصیحت سے باز نہ آئے تو ہم مجبور ہوں گے کہ آپ کو یہاں سے نکال دیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا، میں جو کچھ کہتا ہوں، تمہاری ہی بھلائی اور بہتری کے لیے کہتا ہوں اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم نے میرا کہنا نہ مانا تو تم پر خدا کا عذاب نہ نازل ہوجائے۔
آخر جب قوم کی نافرمانی حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کے خدائی پیغام کو ٹھکرادیا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر خدا کا عذاب نازل ہوگیا، یہ عذاب دو قسم کا تھا ایک خوف ناک کڑک نے زمین کو ہلادیا اور پھر زلزلے نے تمام عمارتوں کو مسمار کردیا، ابھی یہ زلزلے کی تباہ کاریاں جاری تھیں کہ آسمان سے آگ برسنے لگی اور دیکھتے دیکھتے یہ وسیع قطعہ زمین جھلسی ہوئی لاشوں کا قبرستان بن گیا اور یہ سرزمین ایسی معلوم ہوتی تھی کہ یہاں کوئی آباد ہی نہ تھا۔ صرف حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کے چند ایک ساتھی اس عذاب سے بچے، جنہوں نے ہمیشہ اللہ کے عذاب سے پناہ مانگی تھی۔
کہتے ہیں مدین کی تباہی و بربادی کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام حضر موت کے شہر سیلون کے قریب آکر ٹھہرے اور وہیں آپ نے وفات پائی۔