شاپنگ بیگ
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔
میں پریشان تھا کہ آخر اس کو اپنا شاپنگ بیگ یاد کیوں نہیں آیا….؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
گاہک کے دکان سے چلے جانے کے بعد میری نظر اس شاپنگ بیگ پر پڑی۔ میں فوراً اٹھ کر دکان سے نکل آیا۔ دائیں بائیں دور تک نظریں دوڑائیں، لیکن وہ گاہک کہیں نظر نہ آیا۔ اب تو میں گھبرا گیا۔ میں نے جلدی سے اس شاپر کو ٹٹولا اس میں کچھ کپڑے ٹھونسے گئے تھے۔ ان کپڑوں کو جلدی جلدی باہر نکال کر بنچ پر رکھا…. اور پھر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ان کپڑوں میں سونے کے زیورات لپیٹ کر رکھے گئے تھے۔ میں نے جلدی سے وہ کپڑے جوں کے توں اس شاپنگ بیگ میں ٹھونس دیے اور بیگ کو دکان کے سیف میں رکھ دیا۔
اب یہ اطمینان تو ہو چکا تھا کہ اس میں کوئی دھماکا خیز مواد نہیں ہے…. بس سونے کے زیورات ہیں اور ظاہر ہے…. کوئی دم میں زیورات کا مالک واپس آنے والا ہوگا…. لہٰذا میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا…. پھر جوں جوں وقت گزرنے لگا، پریشانی ایک بار پھر مجھے اپنے حصار میں لینے لگی۔ میں سوچ رہا تھاکہ آخر اس شخص کو اپنا شاپنگ بیگ اب تک کیوں یاد نہیں آیا۔ وہ تو عام چیزوں کا بیگ تو تھا نہیں…. اس میں تو سونے کے زیورات تھے اور میرے اندازے کے مطابق زیورات اتنے کم نہیں تھے۔ کم از کم دس تولے کے تو ضرور تھے…. اور آج کل دس تولے سونے کی قیمت تین ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے وہ شخص اتنی بڑی رقم کی چیز کیسے بھول گیا۔
وہ دن اس الجھن میں گزر گیا۔ دوسرے دن بھی وہ گاہک نہ آیا…. اب تو میری الجھن حد درجے بڑھ گئی…. سب سے بڑی الجھن یہ تھی کہ اسے اب تک اپنے زیورات کیوں یاد نہیں آئے۔ وہ انہیں بھول کیسے گیا؟
تیسرا دن بھی گزر گیا…. پھر تو دن ایک ایک کرکے گزرتے چلے گئے…. میری الجھن کا کیا پوچھنا، بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی…. آخر میں نے ایک عالم دین سے اس بارے میں پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے…. انہیں میں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ معاملہ ایک بڑی رقم کا ہے۔ انہوں نے کہا۔
”ایک ماہ تک انتظار کریں، رقم کا مالک نہ آئے تو اس کی طرف سے صدقہ کردیں۔“اب میں نے ان سے پوچھا۔
”اور اگر نقدی زیادہ ہو…. ہو سکتا ہے…. وہ اس رقم سے اپنی بیٹی کا زیور خریدنے نکلا ہو اور میری دکان سے نکلنے کے بعد اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا…. اور کچھ مدت بعد وہ مر جائے…. اس صورت میں کیا ہوگا؟ “
اس کے جواب میں عالم دین نے کہا۔
” صورت حال اگر یہ ہے تو ابھی آپ اس امانت کو جوں کا توں رکھیں۔“
مجھے یہ بات پسند آئی۔ میں نے اس شاپر کو اپنے سیف کے ایک خفیہ خانے میں رکھ دیا…. دن گزرتے چلے گئے…. یہاں تک کہ تین سال بعد ایک پریشان حال شخص میری دکان میں داخل ہوا…. وہ کافی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا۔ میں سمجھ نہ سکا کہ وہ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہا ہے…. آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا۔
” آپ میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟“
”تین سال پہلے کا ایک دن یا د کرانے چلا ہوں…. میں یہاں آیا تھا…. کچھ کپڑا دیکھا تھا، پسند نہیں آیا تھا۔ اس لیے کچھ خریدے بغیر دکان سے نکل گیا تھا…. اور میں اپنا شاپنگ بیگ یہیں چھوڑ گیا تھا….“ یہاں تک کہہ کر وہ خاموش ہو گیا….
اب میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا…. دیکھتا چلا گیا۔ پھر بولا۔
” اس میں کیا تھا….؟“
”سونے کے زیورات تھے۔“ وہ بولا۔
” اور آپ فوری طور پر واپس کیوں نہ آئے…. سونے کے زیورات کو آپ بھول کیسے گئے۔“
” اس لیے کہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ جو شاپنگ بیگ میں آپ کی دکان پر چھوڑ آیا ہوں…. اس میں زیورات ہیں۔“
” کیا مطلب؟ “ میں حیرت زدہ رہ گیا، کیونکہ یہ اس نے ایک اور عجیب بات کہہ دی تھی۔
” ہاں ! یہی بات ہے…. مجھے معلوم نہیں تھا…. دراصل وہ بیگ میرا نہیں تھا۔ کسی سے بدل گیا تھا۔ آپ کی دکان سے پہلے میں ایک اور دکان پر کپڑا دیکھنے کے لیے گیا تھا…. وہاں میں جس گاہک کے ساتھ بیٹھا اس کے پاس بھی ویسا ہی شاپنگ بیگ تھا…. لیکن اس وقت نہ اس نے اس بات کی طرف دھیان دیا، نہ میں نے…. میں اس سے پہلے دکان سے نکل آیا اور آپ کی دکان میں آگیا۔ جب کہ جس کا وہ بیگ تھا، وہ اس دکان میں کافی دیر رکا رہا…. پھر وہ میرا والا بیگ اٹھا کر چلا گیا…. اسے یہ بات اپنے گھر جا کر معلوم ہوئی…. اب تو وہ سر پیٹ کر رہ گیا…. اور میں آپ کے پاس اس لیے نہیں آیا کہ میرے بیگ میں بے کار اور پرانے کپڑے تھے…. اور گاؤں سے آنا میرے لیے مشکل تھا…. لہٰذا میں نے اس بیگ کو سر سے جھٹک دیا، جب کہ زیورات کا مالک پاگلوں کی طرح اپنا بیگ تلاش کرتا رہا۔ سب سے پہلے وہ اس دکان پر گیا۔ جس میں وہ اور میں جمع ہو گئے تھے۔ دکان دار نے اسے بتایا کہ اسے کوئی بیگ نہیں ملا۔ اب وہ بے چارہ کیا کہتا…. وہاں سے بے یقینی کے عالم میں گھر آگیا۔ جو بیگ وہ غلطی سے لے آیا تھا، اس نے اس کی چیزوں کو دیکھا۔ اس میں صرف پرانے کپڑے تھے۔ اس نے جان لیا کہ دراصل اس کا بیگ بدل گیا ہے…. اور ایسا بھول میں ہوا ہے۔ اب اس نے اخبارات میں اشتہارات شروع کیے…. لوگوں سے ذکر کرتا رہا…. کرتا رہا آخر اس کا یہ ذکر مجھ تک پہنچ گیا…. میں تو اپنے بیگ کو قریب قریب بھول ہی گیا تھا، کیونکہ اس میں تو کوئی خاص چیز تھی نہیں…. لیکن یہ ساری کہانی سن کر مجھے یاد آگیا۔ میں تو تین سال پہلے اپنا شاپنگ بیگ ایک دکان پر بھول آیا تھا…. کہیں وہ بیگ اس بے چارے کا تو نہیں تھا۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ میں سیدھا یہاں چلا آیا۔ ابھی میں اس سے نہیں ملا ہوں…. کیونکہ پہلے میں یقین کر لینا چاہتا ہوں کہ ایسا ہوا ہے، پھر آپ کے بارے میں بھی تو طرح طرح کے خیالات آتے رہے ہیں۔ یہ کہ بھلا آج کل اتنے دیانت دار لوگ کہاں ملتے ہیں۔ میرا مطلب یہ کہ امید نہیں تھی …. لیکن پھر بھی چلا آیا کہ کیا خبر …. میں اسے یہ خوشی دے سکوں۔“
اس کے خاموش ہونے پر میں بولے بغیر اٹھا اور سیف میں سے بیگ نکال کر اس کے آگے رکھ دیا۔ اس کی حیرت قابل دید تھی…. اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا…. پھر وہ اٹھا اور بے اختیار مجھ سے لپٹ گیا۔ کتنی ہی دیر وہ میری دیانتداری پر تبصرہ کرتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔
” اب مجھے یہ امانت اس تک پہنچا نی ہے…. جو اس کے لیے تین سال سے دربدر پھر رہا ہے۔“
” میری خواہش ہے…. میں بھی آپ کے ساتھ چلوں۔“
”ہاں ہاں ! کیوں نہیں…. آپ تو اس معاملے میں برابر کے شریک ہیں…. اور یہ آپ ہی کی ذات ہے…. جس کی وجہ سے آج ہم یہ زیورات دینے کے قابل ہیں…. شوق سے چلیے۔“
میں نے دکان بند کی اور اس کے ساتھ چل پڑا…. کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم اس گاؤں میں پہنچے اور پھر اس کے گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے ہمارے دل دھک دھک کررہے تھے۔ ہم سوچ رہے تھے…. ہم جو اسے یہ خوشی دے رہے ہیں ۔ وہ اسے سنبھال بھی پائے گا یا نہیں…. آخر دروازہ کھلا…. وہ باہر نکلا۔ وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا…. ایک مسلسل تلاش نے اسے گویا ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا تھا۔ حسرت اور یاس نے اس کے چہرے پر ڈیرہ جمالیا تھا…. اس نے ہم دونوں کے چہروں پر ایک نظر ڈالی …. پھر بولا۔
”فرمائیے! آپ کون ہیں…. مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟“
” آپ کی تلاش کامیاب ہو گئی …. آج ہم آپ کی امانت آپ کی لوٹا رہے ہیں…. یہ ہیں آپ کے زیورات۔“
یہ کہتے ہوئے میں نے اس کا بیگ اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیا…. وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا شاید اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
” کیا…. کیا واقعی…. اس میں میری بچی کے زیورات ہیں۔“
” ہاں بابا….“ ہم دونوں بولے۔
اس نے پاگلوں کے سے انداز میں بیگ جھپٹ لیا ، پھر اسے الٹ دیا…. اور کپڑوں سے نکلنے والے زیورات کو تک کرپھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے…. اس کا رونا ہم سے دیکھانہ گیااور ہم بھی اس کے ساتھ رونے لگے…. یہ رونا اس قدر خوشی کا رونا تھا کہ روکے نہیں رک رہا تھا…. ہمیں ایک بے پایاں خوشی ملی تھی…. یہ خوشی ان آنسوؤں کے بغیر نظر آہی نہیں سکتی تھی۔
٭….٭