skip to Main Content

شکست کی نیند

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

وہ تعداد میں تین تھے۔
ان کے جسموں پر بھارتی فوجی وردی تھی، ان کے جوتے کیچڑ اور مٹی میں لت پت تھے، ان کے چہروں پر تکان کے آثار تھے اور وہ بیزاری سے قدم بڑھا رہے تھے۔ انہیں اس سرحدی علاقے میں مارچ کرتے ہوئے چار گھنٹے ہوچکے تھے۔ صبح ناشتے میں انہوں نے صرف دو ٹوسٹ کھائے تھے، اور اب بھوک کے مارے ان کا برا حال تھا……دھوپ شدید ہو گئی تھی اور انہیں ہر صورت اپنی کمپنی سے جاملنا تھا جس سے وہ کل رات بچھڑ گئے تھے۔
ان میں ایک عمر میں ذرا بڑا تھا، اس کے کندھوں پر لگی علامات سے ظاہر تھا کہ وہ کیپٹن کے عہدے پر ہے۔ اس کا نام ’شرما‘تھا۔ اس کے ساتھی ’گوپال‘ اور’کرشن‘ لیفٹیننٹ تھے۔
”وہ دیکھو۔“شرمانے نیچے وادی میں نظر آنے والے چھ سات مکانات کی طرف اشارہ کیا۔”یہاں یقینا کوئی گاؤں ہے…… ہمیں وہاں سے کھانا مل جائے گا اور ممکن ہے کہ ……“ وہ جملہ مکمل کرنے کے بجائے مسکرانے لگا۔اس کی مسکراہٹ بڑی مکروہ تھی۔
ان کے قدموں میں تیزی آگئی۔وہ پتھروں اور خودرو پودوں کو روندتے ہوئے، ان مکانات کی طرف چل دیے جن کی چھتیں گھاس پھوس سے بنائی گئی تھیں۔یہ مکانات ان کی توقع سے خاصے دور ثابت ہوئے اور جب وہ ان مکانات تک پہنچے تو وہ ہانپ رہے تھے۔ انہیں یہ دیکھ کر شد ید مایوسی ہوئی کہ تمام مکانات خالی تھے۔ کسی کسی میں ٹوٹی ہوئی چار پائی پڑی ہوئی تھی یا ٹوٹے پھوٹے صندوق
نظر آتے تھے۔بستی میں سناٹا تھا۔اچانک ایک چھوٹا ساکتا کہیں سے نمودار ہوا اور انہیں دیکھ کر زور زور سے بھونکنے لگا۔ کرشن نے بیزار ہو کر اپنی مشین گن اٹھائی اور کتے کی جانب اس کا رخ کر کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی۔تڑ تڑ کی بھیانک آواز سے وادی گونج اٹھی۔کتے کے جسم سے خون کے فوارے نکلنے لگے۔اس کی چیخیں بڑی بھیانک تھیں۔قریبی درختوں سے سیکڑوں چڑیاں اور دوسرے پرندے گھبرا کر اڑنے لگے تھے۔
”اوہ کرشن……!ایک معمولی کتے پر گولیاں ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔“کیپٹن شرما نے ڈانٹا۔
”سوری سر، اس کی آواز مجھے ڈسٹرب کر رہی تھی……“ کرشن نے شرمندہ ہو کر جواب دیا۔ اچانک اسے ایک مکان کے پیچھے کسی کے حرکت کرنے کی آواز محسوس ہوئی۔وہ دوڑا اور چند لمحوں میں دو لڑکوں کے بازو پکڑ کر گھسیٹتا ہوا چلا آیا۔
”لیجیے سر……“ اس نے کیپٹن شرما کے سامنے دھکا دیتے ہوئے کہا۔”یہ اس بستی میں آپ کے میزبان ہیں ……“
”ہوں ……“کیپٹن شرما نے بیزاری سے ان دونوں لڑکوں کی طرف دیکھا۔ ”کیا نام ہے تمہارا؟“
”جی میں اکرم ہوں، یہ میرا چھوٹا بھائی انور ہے۔“ بڑے لڑکے نے جواب دیا۔
”اوئے توں، اکرم ہو کہ چکرم۔ سانوں بھوک لگی ہے، کچھ روٹی ٹکر لے کر آؤ……“کیپٹن شرما نے کرخت لہجے میں کہا۔
”سر آپ کو تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا۔ گاؤں میں اب کوئی نہیں رہتا۔ یہاں سے چار میل دور ایک گاؤں ہے، وہاں سے کچھ مل جائے گا۔“ اکرم نے کہا۔
”ٹھیک ہے، پھر اپنے اس نکے کو ادھر ہی چھوڑ جاؤ…… فوراً کھانا لے کر آؤ۔اگر کوئی گڑبڑ کی تو یاد رکھو یہ تمہیں زندہ نہیں ملے گا۔“ شرما نے کہا۔
”نہیں نہیں آپ فکر نہ کریں، میں آپ کے لئے ابھی کھانا لے کر آتا ہوں۔بس آپ میرے بھائی کو کچھ نہ کہیے گا۔“
”اوئے تو جاتا ہے یا نہیں۔“ شرما نے اسے گھور کر دیکھا۔
اکرم گاؤں سے نکل کر ایک طرف دوڑنے لگا۔ اس کا رخ پہاڑوں کی سمت تھا۔وہ بڑی ہوشیاری سے دوڑ رہا تھا۔ اس نے اطمینان کر لیا تھا کہ بھارتی فوجی اس کو دیکھ نہیں سکتے اور نہ ہی اس کی سمت کا پتا چلا سکتے ہیں۔
کچھ دیر بعد وہ ایک ٹوکری میں کھانے پینے کی اشیاء لے کر دوڑتا ہوا واپس آرہا تھا۔فوجیوں نے اسے دیکھتے ہی چیخنا شروع کر دیا۔
”اب آرہا ہے…… ابھی دو منٹ تک نہ آتا تو تیرے ویر کی چھٹی کر دینی تھی ہم نے……“
پھر وہ سب کے سب کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ کھانے سے فارغ ہو کر کیپٹن شرما نے انہیں گھورا۔”اوئے تم لوگ ادھر سے ہلنا نہیں۔ کرشن تم پہرہ دو گے، میں ذرا کمر سیدھی کرلوں۔“
وہ زمین پر ہی لیٹ گیا۔ گوپال بھی اس کے قریب ہی دراز ہو گیا۔ کرشن جمائی لیتا ہوا مشین گن سنبھال کر پہرہ دینے کے لئے کھڑا ہو گیا، پھر وہ کونے میں رکھے مٹکے کے پاس گیا اور پیالے میں پانی نکال کر منہ پر چھینٹے مارنے لگا۔ شاید وہ اپنا منہ بھگونا چاہتا تھا۔ پھر اس نے وقت گزارنے کے لئے باتیں شروع کر دیں۔
”اوئے تم لوگ دن رات کشمیر کی آزادی کا رونا روتے ہو، تم لوگوں کو پاکستان میں کیا مل جائے گا؟“
”پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، وہاں اسلامی دستور ہے، اسلامی قانون ہے۔“ اکرم نے کہا۔
”چھڈ اوئے…کدھر کا اسلامی قانون…ادھر بھی سب دھندے چلتے ہیں۔“
”لیکن ان تمام برائیوں کو اسلام ہی ختم کر سکتا ہے۔“ اکرم نے جواب دیا۔
”خیر ہٹا ان باتوں کو، مجھے پتا نہیں کیوں اتنی نیند آرہی ہے؟“ کرشن نے بڑا سا منہ پھاڑ کر جمائی لی، پھر وہ ایک طرف ہو گیا۔ بیٹھے بیٹھے وہ اونگھنے لگا اور تھوڑی دیر بعد وہ بھی آڑا تر چھاپڑا ہوا خراٹے لے رہا تھا۔
پندرہ بیس منٹ بعد اکرم دبے پاؤں اٹھا، اور انور کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ انور مکان سے باہر نکل آیا۔”اب یہ لوگ چار گھنٹے سے پہلے نہیں جاگ سکتے۔ آؤ چلو مجاہدین کے مرکز اطلاع دے دیں ……، لیکن ٹھہرو……“وہ مکان کے اندر چلا گیا، واپس آیا تو اسکے ہاتھوں میں تینوں سپاہیوں کی مشین گنیں تھیں۔ اس نے مشین گنوں کو اسٹور میں بند کیا……مکان کا دروازہ باہر سے بند کر کے چٹخنی چڑھا دی،پھر دونوں تیزی سے پہاڑوں کی سمت، روانہ ہو گئے، جن کی ایک کھوہ میں مجاہدین کا مرکز تھا۔
کھوہ سے بہت پہلے ایک مجاہد نے ان کا راستہ روک لیا۔ ”پاس ورڈ……؟“ اس نے پوچھا۔
”فلاں ……“ اکرم نے اطمینان سے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے……“ اس نے انہیں جانے دیا۔
کچھ فاصلے پر پاس ورڈ پھر پوچھا گیا۔اکرم نے جلدی سے کہا۔”ہمیں کمانڈر سعید کے پاس پہنچا دیں، ہم نے دشمن کے تین فوجیوں کو پکڑ لیا ہے۔“
”کہاں ہیں وہ……“ایک مجاہد نے بے چینی سے پوچھا۔
”مست پڑے سورہے ہیں۔“ اکرم نے ہنس کر کہا۔
ایک مجاہد نے وائرلیس پر کسی سے رابطہ قائم کیا۔ صرف دو منٹ بعد سرخ و سفید رنگت والا ایک در از قد مجاہد ان کے پاس آکر رک گیا۔ اس نے خاکی رنگ کی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔چہرے پر گھنی سیاہ داڑھی تھی۔ سر پر ٹوپی تھی اور کندھے سے مشین گن لٹک رہی تھی۔
”میں کمانڈر سعید ہوں، کہو کیا بات ہے……؟“
اکرم نے کمانڈر سعید کو جلدی جلدی صورتحال سے آگاہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد مجاہدین گاؤں میں پہنچ کر تینوں بھارتی سپاہیوں کو رسیوں سے جکڑ چکے تھے۔ وہ ابھی تک بے خبر سور ہے تھے۔
”بچو! تم لوگوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔مجھے تم پر فخر ہے۔“ کمانڈر سعید نے آگے بڑھ کر دونوں بچوں کو چمٹا لیا۔”تم نے نہایت جرات سے کام لے کر اس محاذ پر بہت اہم خدمت انجام دی ہے، ہم انہیں لے جارہے ہیں۔ یہ ہمارے بہت کام آئیں گے۔“
”بھائی جان……! مجاہدین کے جانے کے بعد انور نے پوچھا۔”آپ نے ان سپاہیوں کو کیا کھلا دیا تھا؟“
”کوئی خاص بات نہیں۔“اکرم نے بتایا۔”مجھے ابا جان نے ایک بوٹی کے بارے میں بتایاتھا۔ اسے پیس کر سالن میں ملا دو تو کھانے والا چار پانچ گھنٹوں کے لئے بے خبر ہوتا رہتاہے۔“
”مجھے بھی وہ بوٹی دکھا دیجئے۔ ہو سکتا ہے مجھے بھی کچھ بھارتی سپاہیوں کی دعوت کرنی پڑے……! انور نے شرارت سے کہا اور دونوں ہنس پڑے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top