شکاری صاحب اور بھوت
شفیق الرحمٰن
۔۔۔۔۔
میرا دوست اور میں تقریباً رات کے نو بجے گاؤں کے قریب پہنچے۔ میرے ایک ہاتھ میں لاٹھی تھی، دوسرے میں لالٹین۔ میرے دوست نے بھی لاٹھی تھام رکھی تھی۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں لالٹین کی جگہ مونگ پھلیوں اور اخر وٹوں والے تازہ گڑ کی پوٹلی تھی۔ ہمارے ذمے دو کام تھے۔ پڑوس کے گاؤں کے نمبر وار صاحب کو گڑ کا تحفہ پیش کر کے ا نہیں بتائیں کہ ان کا بھیجا ہوا مالی بیمار ہے۔ اگر وہ نیا مالی بھیجیں تو اسے ساتھ لے آئیں۔
ہم اپنے گاؤں سے دوپہر کو روانہ ہوئے تھے۔ لیکن راستے میں منڈی لگی ہوئی تھی۔ شام تک وہاں کی سیر کی۔ سورج غروب ہونے پر اچانک یاد آیا کہ چار پانچ میل کا سفر کرنا ہے۔ چنانچہ ایک دکان دار سے لالٹین کرائے پر لے کر دوسرے گاؤں کا رخ کیا۔
گاؤں سے سو گز ادھر ہی ہمیں کتوں کے ایک لشکر نے گھیر لیا۔ ہمارا خیال تھا کہ لالٹین ہمیں مدد دے گی اور اُس کی روشنی میں ہم کتوں کو اچھی طرح پیٹ سکیں گے لیکن روشنی میں کتے خوب نشانہ باندھ کر حملہ کر رہے تھے ۔یکا یک میرے دوست کا لٹھ لالٹین پر پڑا۔ اندھیرا ہوتے ہی افراتفری مچی گئی۔ غلطی سے میں نے ایک کتے کی دم پر پاؤں رکھ دیا ،اُس نے نعرہ لگایا۔ دوسرے کتوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ ہم دونوں ایسے سرپٹ بھاگے کہ منٹوں میں گاؤں پہنچ گئے ۔
چوپال میں روشنی تھی۔ لوگ بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔
’’ وہ دیکھو! شکاری صاحب بیٹھے ہیں۔ ضرور کوئی کہانی سنا رہے ہوں گے ۔‘‘میرا دوست بولا۔
شکاری صاحب بڑے دلچسپ انسان تھے ۔پتا نہیں عمر بھر نوکری کی تھی یا زمینداری۔ لیکن اُن کی باتوں سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ سوائے سیر سپاٹے اور شکار کھیلنے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ ان کی کہانیاں ایسی ہو تیںکہ اُن پر کچھ یقین آتا، کچھ نہ آتا۔ بڑے بوڑھے تو اُن کے قصوں پر مسکراتے رہتے لیکن ہم لڑکوں کو یہ باتیں بڑی دل چسپ معلوم ہو تیں۔ کہانی کو ختم وہ بہت اچھی طرح کرتے تھے۔ مثلاً شیر کے شکار کے واقعات سناتے وقت ایسا ہولناک سماں باندھتے کہ سب کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ۔ آخر میں بڑی مصیبتو ں کے بعد شیر نظر آتا اور بندوق کا ذکر ہوتا تو کہتے ۔’’شیر دُور کھڑا دھاڑ رہا تھا۔ میں نے بندوق کو مضبوطی سے تھام کر نشانہ لیا اور اللہ کا نام لے کر لبلبی دبادی۔ لیکن اتفاق ملاحظہ ہو کہ شیر بندوق کی زد سے فقط چارفٹ دُور تھا۔ گولی زناٹے سے گئی مگر شیر کی دم سے چار فٹ ادھر ٹھنڈی ہو گئی۔ خود شیر نے پیچھے مڑ کر گولی کو زمین پر گرتے دیکھا…‘‘
ریچھ کے شکار کے سلسلے میں بتاتے کر کتنی تکلیفوں اور کس قدر انتظار کے بعد ریچھ دکھائی دیا۔ وہ مزے سے ندی کے کنارے بیٹھا آرام کر رہا تھا۔ میں نے بھری ہوئی بندوق اُٹھائی، نشانہ لیا اور لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ یکایک خیال آیا کہ میرے پاس تو ہتھیار ہے لیکن ریچھ نہتا ہے۔ اگر ریچھ کے پاس بھی بھری ہوئی بندوق ہوتی تب تو کوئی بات بھی تھی اور پھر وہ آرام کر رہا تھا۔ چنانچہ میں نے گولی نہیں چلائی۔‘‘
اگر کوئی انھیں ٹوک دے تو خفا ہو جاتے تھے۔ اس لیے بچوں کو کہانیاں نہیں سناتے تھے۔ کیونکہ بچے بے صبری دکھاتے اور بار بار پوچھتے پھر کیا ہوا؟ پھر آپ نے کیا کیا ؟شیر نے آپ پر حملہ کیوں نہیں کیا؟
مجھے یاد تھا کہ پچھلے مہینے جب وہ چیتے کے شکار کی کہانی سنا رہے تھے تو بچوں نے انھیں کافی پریشان کیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے…’’سنسان جنگل، ہو کا عالم، چاروں طرف گہری تاریکی… اور سامنے گھنے درختوں میں چھپا ہوا خونخوار چیتا …!‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ایک بچے نے پوچھا۔
’’پتا بھی کھڑکتاتو میرا دل دھڑکنے لگتا۔ فوراً بندوق لے کر آہٹ کی طرف لپکتا، آنکھیں پھاڑ پھاڑکر دیکھتا ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘دُوسرے بچے نے پوچھا۔
’’ایسے ڈراؤنے منظر کی ذرا تصویر تو بنا ئیے،ذرا سوچیے کہ…‘‘
’’تصویر بنالی …پھر کیا ہوا؟‘‘
’’اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ چیتا سامنے کھڑا ہے۔ بندوق جو چلاتا ہوں تو گولی ندارد۔ معلوم ہوا کہ جلدی میں کارتوس ڈالنا بھول گیا تھا… اب اندازہ کیجیے کہ…‘‘
’’اندازہ کر لیا …پھر کیا ہوا؟ ‘‘
’’پھر میں نے کارتوس بھرا۔ ادھر چیتے نے چھلانگ لگائی اور سیدھا…‘‘
’’پھر کیا ہوا…؟‘‘
’’پھر خاک ہوا۔دھول ہوا…میرا سر ہوا…!‘‘وہ جھنجھلا کربولے۔
’’اور اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
’’اُس کے بعد چیتے نے مجھے کھا لیا۔‘‘ شکاری صاحب نے جواب دیا اور پھر کبھی انھوں نے بچوں کے سامنے کہانیاں نہیں سنائیں ۔
قریب پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ شکاری صاحب بھوتوں کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہم نے اُن سے بے شمار قصے سنے تھے۔ لیکن بھوتوں کا ذکر انھوں نے کبھی نہیں کیا تھا۔ آج پہلی مرتبہ یہ موضوع چھڑا تھا۔
بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمیں واپس اپنے گاؤں پہنچنا تھا، اس لیے میں نے اپنے دوست سے کہا کہ فوراً نمبردار صاحب کو گڑدے کر مالی سے متعلق پوچھ کر سیدھے واپس چلیں لیکن وہ بولا۔’’ کچھ بھی ہو شکاری صاحب سے بھوتوں کی کہانی توآج ضرور سنیں گے۔ ‘‘
ہم ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ وہ ایک شخص کا قصہ سُنا رہے تھے جو ہر روز صبح کی نماز پر غیر حاضر ہوتا لیکن بقیہ چاروں نمازیں مسجد میں ادا کرتا۔ لوگ اس سے وجہ پوچھتے تو ٹال مٹول کر جاتا۔ آخر جب گاؤں والوں نے مجبور کیا تواُس نے بتایا کہ جب وہ صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے توایک بھیانک سی چیز اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ یہ چیز بالکل سیاہ ہوتی ہے اور اُس کا راستہ روک لیتی ہے ڈر کر اسے واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
یہ سن کر لوگ مذاق اُڑانے لگے کہ کیسا ڈرپوک انسان ہے۔ ایک دن ایک بزرگ نے ترکیب بتائی کہ اگر اس چیز پھر قابو پانا چاہتے ہو تو صبح کو اپنے دونوں ہاتھوں پر سیاہی مل کر نکلو۔ جونہی وہ سایہ سامنے آئے ہمت کر کے سیاہی اُس کے منہ پر مل دو۔ اس پر تو وہ اور بھی ڈرا لیکن بزرگ نے بہت بندھائی اور چاروناچار وہ تیار ہو گیا۔
اگلی صبح کو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص ہنستا ہوا چلا آ رہا ہے مسجد میں پہنچتے ہی بڑے فخر سے بولا ۔’’بھائیو! آج میں نے اس بھیانک سائے کے منہ پر سیاہی مل دی ہے لیکن لوگوں نے دیکھا کہ ساری سیاہی اُس کے چہرے پر لگی ہوئی تھی۔ در اصل وہ اپنے وہم سے خوف زدہ تھا۔ سایہ وایہ کچھ نہیں تھا۔ اس کا وہم اُسے ڈرایا کرتا۔
یہ کہانی سنا کر شکاری صاحب نے حقے کے کئی کش لگائے اور اپنی سفید مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے:’’میں کئی مرتبہ آسیب زدہ مکانوں میں رہا ہوں۔ بے شمار بھوتوںسے واسطہ پڑا ہے۔ یہ بھوت دو قسم کے تھے۔ کچھ بھوت تو ایسے تھے جو آسیب زدہ مکانوں میں کافی عرصے سے رہتے تھے جنھوں نے میری موجودگی کو بالکل محسوس نہیں کیا اور نہ کبھی بُرا مانا۔ میں انھیں دیکھ کر ادھر اُدھر ہو جایا کرتا اور وہ مجھے دیکھ کر ٹل جاتے۔ دوسری قسم کے بھوت وہ تھے جو مکانوں میں نئے نئے آئے تھے جنھیں میری موجودگی ناگوار محسوس ہوئی۔ وہ میری چار پائی، بستر، میزیں وغیرہ کھینچ کریہ ظاہر کرتے رہتے تھے کہ وہ اکیلے رہنا چاہتے ہیں ۔چنا نچہ ایسے موقعوں پر میں مکان بدل دیا کرتا تھا۔ ان دو قسموں کے علاوہ تیسری قسم کے بھوت سے کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا تھا لیکن اس گاؤں میں آکر ایسے بھوت سے بھی واسطہ پڑا جو خواہ مخواہ میرے پیچھے لگ گیا۔ بلا کسی وجہ کے…‘‘
میں نے اپنے دوست کو یاد دلایا کہ اگر ہم فوراً نمبردار صاحب سے مل کر واپس روانہ نہ ہوئے تو گھر والے بہت خفا ہوں گے لیکن وہ نہ مانا۔
شکاری صاحب حقے کا کش لگا کر بولے ۔’’ہاں! تو میں نے اُس بھوت کو نہ چھیڑا، نہ خفا ہونے کا موقع دیا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ بھوت اور میں ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ ہوا یوں کہ کھیتوں میں پانی دینے کی باری رات کو آئی۔گھڑی دیکھ کر رات کے پورے ساڑھے دس بجے میں گھر سے نکلا۔ پگڈنڈی والا راستہ ذرا لمبا تھا۔ میں نے سوچا کہ کھیتوں میں سے نکل جاؤں تو جلد پہنچ جاؤں گا۔ راستے میں پرا نا مرگھٹ آتا ہے جہاں ہندو اپنے مُردے جلاتے ہیں۔ مر گھٹ میں جو کیکر کے چار درخت ہیں، اُن کے پاس سے گزرتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی میرے پیچھے پیچھے آرہا ہے۔ میں تیز تیز چلنے لگا۔ اُس نے بھی رفتار تیز کر دی۔ میں آہستہ ہوا، وہ بھی آہستہ ہو گیا۔ گھبرا کر میں نے بھاگنا شروع کر دیا۔ وُہ بھی پیچھے سرپٹ بھا گا۔ میری ہمت جواب دے رہی تھی۔ آخر میں رک گیا۔ وہ بھی رک گیا۔ میں ڈر سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک ہونق سی شکل سامنے کھڑی تھر تھر کانپ رہی ہے۔ خوف کے مارے میرے منہ سے نکلا ۔’’ہی ہی ہی ہی! ‘‘دیکھنے میں وہ اوسط درجے کا بھوت تھا یعنی اس کی شکل نہ تو کچھ ایسی اچھی تھی اور نہ ڈراؤنی۔ کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر کا نپتے اور ہی ہی کرتے رہے۔ آخر میں نے دلیر بن کر اپنے آپ سے کہا ،چلو بھئی، گیارہ بجے پانی لگانا ہے، اس نے بھی نقل اتارتے ہوئے کہا ،چلو بھئی، گیارہ بجے پانی لگانا ہے۔
میں اپنے کھیتوں کی طرف چل دیا۔ وہ بھی پیچھے ہولیا۔وہاں پہنچ کر میں نے کدال سے نالے میں شگاف کیا۔ اُس کے ہاتھ خالی تھے لیکن اُس نے میری نقل اتاری ۔کھیت میں پانی آنے لگا اور میں ایک طرف مٹی کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ وہ بھی سامنے بیٹھ گیا اور مجھے گھورنے لگا۔ میرا ڈر آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا اور اب مجھے غصہ آ رہا تھا۔ آخر یہ بھوت چاہتا کیا ہے؟ کیا یہ نہیں جانتا کہ شریف آدمیوں کو بلا وجہ گھورنا انتہا درجے کی بدتمیزی ہے؟ پورے تین گھنٹے میں وہاں رہا اور پورے تین گھنٹے وہ ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھتا رہا۔ پھر میں نے سوچا کہ ایسے غیر مہذب بھوت کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں اِدھر اُدھر دیکھتا رہا حتیٰ کہ دھائی بج گئے۔ ہیں نے انگڑائی لے کر گھڑی دیکھی اور اپنے آپ سے کہا ،پانی بند کر کے گھر چلتے ہیں، اُس نے بھی انگڑائی لی، کلائی کو دیکھا اور بولا ،پانی بند کر کے گھر چلتے ہیں۔
واپسی پر وہ مرگھٹ تک ساتھ آیا اور کیکر کے چار درختوں کے پاس غائب ہو گیا۔ کئی دنوں تک میں اس کے متعلق سوچتا رہا۔ اگلے ہفتے میری باری پھر رات کو آئی۔ مجھے پگڈنڈی والا راستہ لینا چاہیے تھا۔ پھر خیال آیا کہ شاید یہ نرا و ہم ہی ہویا بھوت کو غلط فہمی ہوئی ہو۔ اس نے مجھے کوئی اور شخص سمجھا ہو۔ میں پھر مرگھٹ کے راستے سے گزرا ۔کیکر کے درختوں کے پا س میں اور بھوت آگے پیچھے چل رہے تھے۔ اُس رات بھی وہ نقلیں اُتارتا رہا ۔میں اپنی کمر کھجاتا،وہ بھی اپنی کمر کو کھجاتا۔ میں نے دو چھینکیں ماریں۔ اُس نے بھی فوراً دو چھینکیں مار دیں۔ میں کھانسا،وہ بھی کھانسا۔ پوری طرح غصہ تو مجھے اُس وقت آیا جب میں نے ایک فلمی گانا شروع کیا اور اُس نے بھونڈی آواز میں نقل اُتاری ۔ دوست، احباب، سب جانتے ہیں کہ میری آواز ماشاء اللہ سُریلی ہے اور دھنوں سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ ایسے نفیس گیت کا یوں ستیا ناس ہوتے دیکھ کر میرا برا حال ہو گیا۔ اگلے روز میں ایک بزرگ کے پاس گیا اور درخواست کی کہ ایسے بدتمیز اور بد ذوق بھوت سے میرا پیچھا چھڑائیے۔ اُنھوں نے میرے لیے دعا مانگی اور ایک تعویذ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اسے دہنے بازو پر باندھ لوں۔ لیکن کچھ دیر سوچ کر انھوں نے تعویذ واپس لے لیا اور فرمایا کہ اگر بھوت ہو بہو وہی کرتا ہے جو تم کرتے ہو تو اُس سے محنت مشقت کیوں نہیں کراتے؟ اُس سے کھیتوں میں گوڈی کراؤ۔
چنا نچہ رات کو میں نے دو کھرپے، دو درانتیاں اور دیگر اوزار سنبھالے۔ مرگھٹ کا راستہ لیا۔ کیکر کے درختوں سے بھوت کو پکڑا اور کھیتوں میں گوڈی شروع کر دی ۔نقل اُتارنے کا تو وہ ماہر تھا،فوراً گوڈی کرنے لگا۔ تھک کر میں ماتھے سے پسینا پوچھتا تووہ بھی اپنے ماتھے سے پسینا پو نچھتا۔ میں گوڈی چھوڑ کر سانس لیتا تو وہ بھی ہانپتا ہوا میرے سامنے آ بیٹھتا اور گھورنے لگتا ۔پھر ہم دونوں سر گرمی سے اپنے اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ۔تب میں نے سوچا کہ یہ بھوت اتنا برا نہیں ہے۔ فقط اسے گھورنے کی بیہودہ عادت کہیں سے پڑ گئی ہے۔ اگر کسی طرح یہ عادت چھڑا دی جائے تو یہ اچھا خاصا معقول بھوت بن سکتا ہے۔ صبح کے چار بجے تک میں نے اُس سے خوب کام لیا، پھر تھک کر کھرپا ایک طرف پھینک دیا اور کہا ،بہت تھک گئے ہیں۔ اب چلنا چاہیے۔ اُس نے بھی کھرپاپھینکتے ہوئے کہا ،بہت تھک گئے ہیں۔ اب چلنا چاہیے ۔میں خوش خوش گھر پہنچا۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اگر یہ بھوت کھیتی باڑی میں میرا ہاتھ بٹانے کو تیار ہے تو اسے معمولی سی تنخواہ دے دیا کروں گا۔ لیکن اگلے دن جو کھیتوں کو دیکھتا ہوں تو فقط اس حصے میں گوڈی ہوئی تھی جس میں میں نے کام کیا تھا۔ جس حصے میں بھوت ہاتھ چلاتا رہا تھا وہ گھانس پھونس سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے اس قدر غصہ آیا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ آخر یہ بھوت مجھے سمجھتا کیا ہے؟ سیدھا اُن بزرگ کے پاس گیا اور التجا کی کہ ایسے کام چور، نکمے بھوت کی میں شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا۔ انھوں نے حسب معمول میرے لیے دعا مانگی اور ایک تعویذ دے کر فرمایا کہ میں اسے بائیں بازو پر باندھ لوں ۔پھرکچھ سوچ کر تعویذ واپس لے لیا اور میرے کان میں کچھ سرگوشیاں کیں جن کا تعلق بھوت سے تھا۔
میں یہ بتانا بھول گیا کہ وہ بھوت روز بروز بد تمیز ہوتا جا رہا تھا۔ شروع شروع میں وہ مجھ سے دو تین گز کے فاصلے پر رہتا۔ اب قریب آتے آتے بالکل ساتھ آکھڑا ہوتا، گستاخیاں کرتا، منہ چڑا تا ،غرض کہ ایسی بے تکلفی برتتاجیسے برسوں کا واقف بھوت ہو۔ اُس دن تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بھوت اب بالکل نہیں سدھر سکتا۔ لہٰذا میں نے بزرگ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے کھیت میں دو گڑھے کھودے ۔ ایک کو فقط مٹی اور راکھ سے بھرا اور اوپر ایک بڑی ساری اینٹ رکھ دی۔ دوسرے میں کوئلے اور لکڑی ڈال کر دیا سلائی دکھائی اور اوپر راکھ ڈال کر ویسی ہی اینٹ رکھ دی۔ رات کے گیارہ بجے مرگھٹ کا رخ کیا۔ کیکر کے درختوں کے پاس بھوت انتظار کر رہا تھا۔ اُسے ساتھ لے کر کھیتوں میں پہنچا۔ اُس رات اُس سے طرح طرح کے تماشے کرائے۔ میں نے چھلانگیں لگا ئیں ۔بھوت نے بھی جھلانگیں لگائیں۔ میں نے بیٹھکیں نکالیں، اُس نے بھی نکالیں۔ نئی فلمی دھنیں گائیں اور بھوت نے فورا ًاچھے بھلے گانوں کا بیڑا غرق کر دیا۔ غرض کہ چار پانچ گھنٹوںمیں تھک کر چور ہو گیا۔ اُدھر بھوت کی حالت بھی قابل رحم تھی۔آخر میں نے انگڑائی لے کر کہا ،’’تھک گئے بھئی! ا‘‘س نے بھی انگڑائی لے کر کہا ،’’تھک گئے بھئی! ‘‘پھر میں نے گڑھوں کی طرف چلتے ہوئے کہا ۔’’کہیں بیٹھ کر سستا لیں۔‘‘ وہ بھی گڑھوں کی طرف چلتے ہوئے بولا۔ ’’کہیں بیٹھ کرسستالیں۔‘‘ میں جلدی سے ٹھنڈی اینٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ بھی جلدی سے دوسری اینٹ پر بیٹھ گیا جو دہک رہی تھی۔ بیٹھتے ہی اس نے ایسی دہشت ناک چیخ ماری کہ میں بھی ڈر گیا۔ آپ تو سب جانتے ہی ہیں کہ بھوت آگ سے ڈرتے ہیں۔ قصہ مختصر، اُس رات سے وہ ایسا غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔کئی بار رات کو میں مرگھٹ کی طرف سے گزرا لیکن بھوت پھر کبھی دکھائی نہیں دیا۔
شکاری صاحب نے کہانی ختم کر کے مونچھوں کو تاؤ دیا اور حقے کے کش لگانے لگے ۔ہم نے نمبر دار صاحب کو تلاش کیا تو پتا چلا کہ وہ تو کبھی کے جاچکے ہیں۔ واپسی پر کتوں کے لشکرنے ہمیں پھر گھیرا اور میں نے اس پھرتی سے لٹھ گھمایا کہ وار میرے دوست کی کمر پر پڑا۔ گڑکی پوٹلی اُس کے ہاتھ سے گر گئی اور ہم سرپٹ اپنے گاؤں کی طرف بھاگے۔ راستے میں ہم نے فیصلہ کیا کہ گھر والوں سے کہہ دیں گے کہ گڑ کتے کھا گئے اور لالٹین بھی اُنہی نے توڑ دی۔ ہمیں پگڈنڈی کا لمبا راستہ لینا چاہیے تھا لیکن جلدی میں ہم سیدھے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے۔ مرگھٹ کو بار کر کے جب کیکر کے چار درخت آئے تو ہم بالکل نہیں ڈرتے۔ دراصل ہم بے حد خوش تھے کیونکہ ہمیں بھوتوں کو دفع کرنے کا آسان ترین نسخہ معلوم ہو گیا تھا۔