شہزادہ اور گل بہاری کا پھول
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن ایک شہزادہ اپنے باغ کی سیر کو آیا ۔اس باغ میں ایک ندی بھی بہتی تھی ۔جس کی لہروں کی آواز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ گاناگارہی ہو۔ باغ میں بڑے بڑے درخت تھے جن کے سائے کی وجہ سے ہمیشہ وہاں ٹھنڈک رہتی تھی ۔بہت ہی نرم ملائم گھاس تھی ۔ایسا لگتا تھا جیسے پورے باغ میں سبز قالین بچھا ہو۔اس گھاس میں انتہائی خوبصورت پھول اُگے ہوئے تھے۔
شہزادہ ندی کے قریب دم بخود کھڑا ہوگیا اور پھر اونچی آواز میں کہنے لگا۔”اے پیارے درختو ،پھولو اور بہتے ہوئے پانی ۔تم سب میرے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہو ۔لیکن آج میری درخواست مانواور مجھے بتاﺅ کہ تم میرے لیے کیا کر تے ہو؟اے بوڑھے برگد! پہلے تم بتاﺅ میرے لیے کیا کرتے ہو؟
شہزادے کی درخواست سن کر بوڑھے برگد سے ایک خوشی سے بھر پور آواز آئی ۔شہزادہ عالم !میں سارا دن دھوپ اور گرمی میں یہاں کھڑا رہتا ہوں اور اپنی شاخیں بچھائے رکھتا ہوں ۔سہ پہر کے بعد گھوڑے اور بھیڑ بکریاں آتی ہیں اور میرے سائے میں آرام کرتی ہیں یہ میرا کام ہے جو میں سارا دن آپ کے لیے کرتا ہوں ۔شہزادے نے بوڑھے برگد کا جواب سنا اور اسے شاباش دی ۔
شہزاہ پھر ندی کی طرف مڑا جو اس کے پیچھے بہہ رہی تھی اور اس سے پو چھنے لگا۔اے پیاری ندی !تم میرے لیے سارے دن میں کیا کرتی ہو؟ندی نے گنگناتے ہوئے جواب دیا۔پیارے شہزادے!میں سارا دن گنگناتے ہوئے اس باغ سے گزرتی ہوں۔یہاں سے جانور میرے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔اور میری وجہ سے باغ بھی ہر ا بھرا رہتا ہے۔شہزادے نے مسکرا کر گنگناتی ندی کو بھی شاباش دی ۔
اسی گنگناتی ندی کے کنارے پر ایک سفید گل بہاری کا پھول اُگا ہوا تھا۔ گل بہاری نے جب شہزادے کے سوال، بوڑھے برگد اور گنگناتی ندی کے جواب سنے تو اپنے آپ سے کہنے لگی ۔کاش شہزاہ مجھ سے یہ سوال نہ ہی کرے کہ میں اس کے لیے کیا کرتی ہوں ؟میں تو کچھ بھی نہیں کرتی۔
لیکن اسی وقت شہزادے کی نظر گل بہاری کے پھول پر پڑی ۔اس نے پھول سے پوچھا ۔اے پیارے پھول گل بہاری !تم میرے لیے کیا کرتے ہو؟گھبرائے ہوئے پھول نے سر جھکا لیا اور سوچنے لگا کہ شہزادے کو کیا جواب دے؟وہ تو بہت چھوٹا سا پھو ل تھا۔پھر شرماتے ہوئے اس نے اپنا چہرہ اٹھایا اور اپنی پیاری آوازمیں کہنے لگا ۔”شہزادہ عالم !میں کوشش کرتاہوں کہ آپ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے رہیں ۔میں بہت ننھا سا پھول ہوں۔اس لیے کوشش کرتاہوں کہ میں سب سے بہترین پھول بنوں ۔“
ٍ شہزادہ مسکرایا اور کہنے لگا ۔”بہت اچھے ۔ننھے گل بہاری میں یہاں سے جاﺅ ں گا تو تما م ننھے بچوں کو تمہارے جواب بتاﺅں گا ۔اور آج سے میں تمام دنیا کو بھی درخواست کروں گا کہ تمہیں ننھے بچو ں کا پھول کہا جائے ۔ننھے گل بہاری کا رنگ شرمانے سے گلابی ہوگیا اس نے اپنا چہرہ پنکھڑیوں میں چھپا لیا اور آج تک وہ اکثر اپنا چہرہ چھپائے رکھتا ہے۔
بچوتم بھی اپنے ماں باپ کے ننھے پھول ہو ۔صاف ستھرے ہو کر اماں بابا کے سامنے آیا کر و تاکہ گل بہاری کے پھول کی طرح وہ بھی تمہیں زیادہ پیار کریں اتنا تو تم کر ہی سکتے ہونا !