شیشے کا گھر
نیر کاشف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا شیشے کے گھر سے بھی زیادہ نازک کوئی چیز ہوسکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمنہ اور مریم نے جب سے ماریہ آپی کی پاکستان آمد کی خبر سنی تھی تب سے ہی خوشی اور جوش کے مارے پیر زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ ’’وہ کس تاریخ کو آئیں گی؟‘‘
ننھی مریم آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے حمنہ سے سوال کرتی۔ ’’اب کتنے دن رہ گئے؟‘‘ دونوں بہنیں انگلیوں پر دن گنا کرتیں۔ ’’وہ پوری چھٹیوں میں ہمارے گھر پر ہی رہیں گی نا؟ یہ مشترکہ کیا گیا سوال امی جان سے تھا۔
’’جی ہاں بیٹے! ساری چھٹیاں آپ کے گھر آپ کے ساتھ گزاریں گی۔‘‘ امی جان بھی تو بھانجی کی آمد کی خبر سے بے حد خوش تھیں۔ آخر کار وہ دن آہی گیا جب ماریہ آپی میٹھی سی مسکراہٹ اور ڈھیر سارے تحفوں کے ساتھ ان کے گھر آگئیں۔ بہت سے دوسرے تحفوں کے ساتھ جو تحفہ خاص طور سے دونوں بہنوں کو بے حد پسند آیا وہ تھا ایک شیشے کا گھر۔۔۔
گھر کیا تھا، ایک چھوٹا، خوبصورت اور بے حد نازک سا محل تھا جس کے دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشے رنگین تھے اور جب ابو جان نے اس سے منسلک تار کو ساکٹ میں لگا کر بٹن دبایا تو مانو گھر مختلف رنگین روشنیوں سے جگمگا اُٹھا اور حمنہ اور مریم کی آنکھیں۔۔۔ اس سے بھی زیادہ جگمگا اُٹھیں۔
’’باجی بچیوں کو کمرے سے ہٹالیں مجھے صفائی کرنی ہے۔‘‘ کام والی خاتون نے امی جان کو آواز دی تو ماریہ باجی نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب سے سر اُٹھا کر کمرے میں جھانکا، دونوں بہنیں رنگین پنسلوں کا ڈھیر اپنے ارد گرد پھیلائے سفید کاغذ پر رنگ بکھیرنے میں مصروف تھیں۔
’’مریم! حمنہ! ذرا میرا بات تو سنیں۔‘‘ ماریہ باجی نے وہیں سے دونوں کو آواز دی تو دونوں ہی ایک دم کھڑی ہوگئیں۔ ’’بات سنو! ہماری پنسلوں کو بالکل ہاتھ نہ لگانا جیسے پڑی ہیں ویسے ہی رہنے دینا۔‘‘ کام والی سے بات کرتے حمنہ کا لہجہ ماریہ آپی کو ذرا پسند نہ آیا لیکن اُنھوں نے دونوں کو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر کہانی شروع کردی۔
’’بھئی یہ کیسا انڈا اُبالا ہے، نہیں کھانا مجھے ایسا انڈا۔ مریم نے ناشتے کی میز پر نظر پڑتے ہی زور زور سے چیخنا شروع کردیا۔‘‘ کام والی نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
’’ارے بھئی تم ایسا کرو یہ والا انڈا لے لو میرا ویسے بھی انڈا کھانے کو دل نہیں چاہ رہا ۔‘‘ صاف ظاہر تھا کہ ماریہ آپی نے مسئلے کو فوری حل کرنے کی کوشش کی تھی۔
مریم نے عجیب سی نظروں سے ماریہ آپی کو دیکھتے ہوئے اپنی پلیٹ ان کی طرف کھسکادی۔
’’ماریہ آپی!‘‘ ماحول کو بہتر ہوتا دیکھ کر حمنہ نے ماریہ آپی کو مخاطب کیا۔
’’جی فرمائیے۔‘‘ کالی مرچ کی ڈبیا کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ پوری طرح حمنہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔
’’وہ مریم کہہ رہی تھی نا کہ۔۔۔ کہ‘‘ حمنہ نے اَٹک اَٹک کر مدعا بیان کرنا شروع کیا۔
’’بھئی ’ہم‘ کہہ رہے تھے۔‘‘ ’ہم‘پر زور دیتے ہوئے مریم نے حمنہ کو آنکھیں دکھائیں اور بات مکمل کی۔
’’ وہ آپ کے پاس جو اتنا پیارا سا ایک ڈبہ ہے نا گلابی رنگ کا، بس ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس میں کیا ہے۔‘‘
’’اوہو بس اتنی سی بات! چلو ناشتہ کرکے میں تم لوگوں کو وہ گلابی ڈبہ دکھاؤں گی۔‘‘ ماریہ آپی کا جملہ ختم ہوتے ہی حمنہ اور مریم ناشتہ ختم کرنے میں مگن ہوگئی تھیں۔
’’ہاں تو جناب یہ ہے ہمارا گلابی ڈبہ، اس میں وہ چیزیں ہیں جو ہمیں بے حد بے حد عزیز ہیں کیوں کہ ان میں سے ہر چیز کسی نہ کسی پیاری شخصیت سے منسوب ہے۔‘‘ ڈبے کا ڈھکن کھلتے ہی دونوں بہنوں کی آنکھوں میں حیرت اور چہرے پر خوشی در آئی تھی۔ طرح طرح کی خوشبوئیں، قیمتی کارڈ، ہار، بندے، کڑے، تسبیح، رومال، لپ اسٹک کی کئی اقسام یعنی کہ ساری وہ چیزیں جن کسی بھی لڑکی کو دلچسپی ہوسکتی تھی اور حمنہ اور مریم کو کیوں نہ ہوتی۔
’’مگر ان سب میں جو چیز سب سے خاص ہے وہ یہ خوشبو ہے جو میری پیاری دادی جان نے اپنے انتقال سے بس چند دن پہلے مجھے تحفے میں دی تھی۔‘‘ آپی نے ایک خوبصورت سی بوتل کو پیار سے چھوتے ہوئے کہا تو دونوں ہی اس بوتل کی طرف متوجہ ہوئیں۔
’’ آپی کیا ہم اسے کھول کر دیکھ لیں۔‘‘ مریم نے آہستگی سے خوشبو کی بوتل کو ہاتھ لگایا۔
’’ہاں ضرور بس میں اس کو استعمال بہت کم کرتی ہوں تاکہ بہت دیر تک میں دادی جان کا یہ تحفہ اپنے ساتھ رکھ سکوں۔‘‘ اُنھوں نے اجازت دیتے ہوئے گویا تنبیہ بھی کردی تھی۔
’’ارے مجھے بھی دکھاؤ نا۔ ‘‘حمنہ نے مریم کی جانب ہاتھ بڑھایا اور۔۔۔ ٹھا کی آواز کے ساتھ خوشبو کی بوتل زمین پر بکھرگئی۔ تیز خوشبو کمرے میں پھیلی اور آپی کی آنکھوں سے آنسو کی ایک لکیر ان کے چہرے پر پھیل گئی لیکن اگلے ہی لمحے اُنھوں نے دونوں کو یوں مسکرا کر دیکھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
’’ارے ارے پیر بچا کے۔ ‘‘اُنھوں نے شرمندگی کے مارے کمرے سے باہر جاتی دونوں بہنوں کو نرمی سے کہا۔ ’’ ماریہ آپی ہم نے بہت غلط کیا آپ ہمیں معاف کردیں۔‘‘ مریم رو دینے کو تھی۔
’’ہاں ماریہ باجی کتنی اہم تھی یہ آپ کے لیے۔‘‘ حمنہ نے نیچے پھیلے شیشے کے ٹکڑوں کی جانب اشارہ کیا۔ ’’اف فوہ کچھ نہیں ہوا بھئی، آپ لوگ دل خراب نہ کریں، بھئی یہ کانچ کی بوتل آپ کے دل سے زیادہ اہم تو نہیں تھی۔‘‘ انھوں نے دونوں کو گلے سے لگایا اور فرش کی صفائی میں مصروف ہوگئیں۔
چھٹیاں ختم ہوئیں اور ماریہ آپی چلی بھی گئیں، معمول کے دن دوبارہ شروع ہوگئے تھے۔ آنگن میں کتابیں پھیلائے دونوں بہنیں آج کے تفویض کار (ہوم ورک) کی تکمیل میں مصروف تھیں۔ پاس ہی امی جان رات کے کھانے کے لیے سبزی کاٹ رہی تھیں اور کام والی اندر کمرے میں جھاڑ پونچھ کررہی تھی کہ زوردار چھناکے کی آواز نے سناٹے کو توڑا۔
’’ارے کیا ہوگیا خیر تو ہے۔‘‘ امی چھری میز پر رکھتے ہوئے تیزی سے اندر کی طرف دوڑیں اور فرش پر نظر پرتے ہی زبان دانتوں تلے دبالی۔
’’اُف یہ کیا کیا تم نے بچیوں کا پسندیدہ شیشے کا گھر توڑدیاافف اب تو یہ دونوں گھر سر پر اُٹھالیں گی۔‘‘
امی نے تاسف سے سر ہلاتے ہوئے فرش پر نظر دوڑائی۔
’’نہیں امی جان ہم نہیں سر پر اٹھائیں گے گھر، آپ دیکھیں آنٹی کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔‘‘ یکے بعد دیگرے بیٹیوں کے منھ سے نکلنے والے الفاظ سن کر امی اور کام والی دونوں حیران تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد دونوں بہنیں دوبارہ سے کام کرنے کے لیے کاپیاں کھول رہی تھیں۔
’’شیشے کا گھر بہت نازک تھا لیکن۔۔۔‘‘ حمنہ نے معنی خیز انداز میں مریم کی جانب دیکھا۔
’’ لیکن انسان کا دل اس سے زیادہ نازک ہے۔‘‘ مریم نے فلسفیانہ انداز میں جملہ مکمل کیا اور دونوں بہنیں ہنسنے لگیں۔