شاہین
حماد ظہیر
……………
ایک شاہین صفت بچے کی کہانی جس کے اندر شاہین کی جسمانی خوبیاں بھی پیدا ہوگئی تھیں
……………
اسکول بس اُونچے نیچے پہاڑی راستوں سے گزر رہی تھی کہ سامنے کوئی رکاوٹ آنے کی وجہ سے رُک گئی۔ دو نقاب پوش دندناتے ہوئے اس میں گھس آئے اور سب کے ہاتھ کھڑے کرا دیئے۔
بچے جواب تک ہنسی مذاق اور شور شرابا کرنے میں مصروف تھے ان کی طرف ایک نقاب پوش بندوق تانے کھڑا ہوگیا، جبکہ دوسرے نے ڈرائیور کو زد پہ لے کر ہدایات دینی شروع کردیں۔
’’آپ لوگ ہمیں کہاں لے جارہے ہیں؟‘‘ ایک بچہ ہمت کرکے بولا۔
’’تھوڑی دیر کی بات ہے، خود ہی دیکھ لینا۔‘‘ نقاب پوش سردمہری سے بولا۔
تھوڑی ہی دیر بعد بس ایک ویران جگہ پر عمارت کے ڈھانچے کے پاس رک گئی اور نقاب پوشوں نے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر اندر لے جانا شروع کر دیا۔ کچھ بچے بس سے اُترنا نہیں چاہ رہے تھے، ان کو زبردستی مار مار کر دھکے دیے گئے تو وہ عمارت کے اندر گئے۔ جب سب اندر جا چکے تو ایک نقاب پوش نے عمارت کو باہر سے تالا لگا دیا اور پھر نقاب اُلٹ کر ڈرائیور کو تالی ماری۔
’’واہ وا۔۔۔ کیا لمبا ہاتھ مارا ہے۔ پارکوں سے بچے اغوا کرنے سے آدھی محنت اور اتنے بہت سے بچے!‘‘ ڈرائیور بھی ہنس کر بولا۔
’’اور وہ آدھی محنت مجھ اکیلے نے کی ڈرائیوری کی نوکری حاصل کرنے میں۔‘‘
’’ابھی محنت پوری نہیں ہوئی۔ ابھی تو ہم تمھارے ہاتھ پیر اور منھ میں پٹی باندھ کر تمھیں کہیں راستے میں پھینکیں گے، تاکہ تم پر شک نہ ہو اور پھر تم لوگوں کو جھوٹی کہانیاں سناتے رہنا۔‘‘ دوسرا نقاب پوش بولا۔
ابھی یہ لوگ باتیں کرتے عمارت سے پلٹ کر بس کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ٹھٹھک کر رک گئے۔
وہاں ایک بڑا سا پرندہ انسانی انداز میں کھڑا اُنھیں گھور رہا تھا۔
*۔۔۔*
’’باادب، باملاحظہ ہوشیار! یاسر صاحب بھی ریسنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘ فراز نے یاسر کا مذاق اُڑایا۔
’’لگتا ہے کچھوے اور خرگوش کی کہانی سے متاثر ہیں، تبھی جیت کی اُمید لگائے ہیں۔‘‘ جبران بولا۔
’’مقابلے صرف جیت کے لیے نہیں ہوتے دوستو، یہ ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔‘‘ یاسر نے بھی منھ کھولا۔
’’او بھائی اس کا منھ نہ کھلواؤ۔ باتوں میں اس سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ جانتے نہیں کہ اکثر تقریری مقابلے یاسر ہی جیتتا ہے۔ اس کی عقابی روح نہ بیدار کرو۔‘‘ فاروق نے اپنے ساتھیوں کو روکا۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے نوجوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
یاسر نے زور سے شعر پڑھا اور خلاؤں میں گھورنے لگا۔
’’تم سے سائیکل تو ٹھیک سے چلتی نہیں ہے یاسر، تم کمزور اتنے ہو اور خواب دیکھ رہے ہو جہاز اُڑانے کے، ایئر فورس میں جانے کے، اتنے موٹے موٹے چشموں کے ساتھ تو یہ مرتے دم تک ممکن نہیں۔‘‘ جبران بولا۔
’’سائیکل میں ا نجن نہیں ہوتا اس لیے جان چاہیے ہوتی ہے جہاز میں تو انجن ہوتا ہے بھائی!‘‘ یاسر نے دلیل دی ۔
’’اور یہ چشمے؟‘‘
’’شاید ان کا علاج بھی ممکن ہو اور یہ اُتر جائیں۔‘‘
’’بس کرو یارو، عقابی روح بیدار ہو رہی ہے، ابھی یہ ایک جذباتی سی تقریر کردے گا اور ہم سائیکل ریس میں حصہ لینے سے رہ جائیں گے۔‘‘ فاروق نے بحث ختم کرائی اور سب اپنی اپنی سائیکلیں لے کر باہر نکل آئے۔
*۔۔۔*
اسکول کا سالانہ اسپورٹس فیسٹول چل رہا تھا۔ سائیکل ریس تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ انیس شرکا واپس پہنچ چکے تھے۔ ایک کا انتظار تھا کہ وہ آئے تو پھر اگلے مقابلے کو شروع کرایا جائے۔ اسٹیج کے برابر میں بجلی کا سامان ، مائیک اور لاؤڈ اسپیکر رکھا ہوا تھا جبکہ کچھ ہی دور مختلف قسم کی آتش بازی کا سامان بھی موجود تھا جو پروگرام کے اختتام پر جلایا جانا تھا۔
یاسر ہانپتا کانپتا اپنی سائیکل پر بمشکل پیڈل مارتا داخل ہوا تو تمام ناظرین نے سکھ کا سانس لیا مگر اگلے ہی لمحے آتش بازی کے سامان میں سے زور زور سے پٹاخے چھوٹنے لگے۔ وہاں موجود شخص یوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا گویا وہ آتش بازی نہیں بلکہ بم ہو۔ وہ چلا رہا تھا۔
’’یہ سارا مواد پھٹنے والا ہے، دور ہوجاؤ۔ دور ہوجاؤ۔‘‘ اب تو بجلی کے سامان کے ساتھ کھڑے ہوئے لوگ بھی سرپٹ بھاگے اور ساتھ ہی اسٹیج بھی دیکھتے دیکھتے خالی ہوگیا۔
اسٹیڈیم میں بیٹھے لوگ بڑی دیر سے مختلف قسم کے تماشے دیکھ رہے تھے مگر یہ تماشا ان سب سے بڑھ کر دلچسپ تھا اور پھر یاسر نے اس تماشے کو چار چاند لگا دیئے۔ اس نے اپنی سائیکل کا رخ آتش بازی کے سامان کی طرف موڑ دیا۔
’’چلو بھئی، لگتا ہے عقابی روح بیدار ہو گئی۔‘‘ فراز نے ہاتھ جھاڑے۔ جبکہ فاروق چلایا۔
’’یاسر، کیا حماقت کررہے ہو، وہاں مت جاؤ۔‘‘یاسر نے کچھ سنا ہی نہیں ۔ اس پر تو ایک دھن سوار تھی اور وہ اس تیزی سے آتش بازی کے قریب جا رہا تھا گویا وہ ہی ریس کی اختتامی حد اور جیت کانشان ہو!
سارے تماشائی انہماک سے اسے دیکھ رہے تھے، کچھ نے اپنے دل بھی تھام رکھے تھے۔
ابھی یاسر آتش بازی سے کچھ ہی دور تھا کہ اس نے ایک ہاتھ سے وہاں رکھی پانی کی ٹنکی پکڑ لی، جس سے اس کی رفتار بہت کم ہو گئی مگر پانی کی ٹنکی بھی پانی بہاتی اس کے ساتھ ہولی۔ سب کی سمجھ میںآگیا کہ اس کا ارادہ پانی کو آتش بازی پر بہانا ہے مگر دھماکا پہلے ہوتا ہے یا پانی پہلے پہنچتا ہے۔ یہ تجسس برقرار تھا۔
یاسر کے لیے اپنا آپ اور سائیکل گھسیٹنا ہی کافی مشکل کام تھا، اب ساتھ میں پانی کی ٹنکی بھی تھی۔ اسے کافی مشقت اُٹھانی پڑرہی تھی مگر اس پر ایک جنون سوار تھا۔
یہاں تک کہ اس نے ٹنکی آتش بازی پر اُلٹ دی مگر ساتھ ہی دھماکا بھی ہوچکا تھا۔ کچھ سامان پانی سے بُجھ بھی گیا ہوگا مگر کچھ پھٹ بھی گیا۔ یاسر بھی سائیکل سمیت اچھل کر کچھ دور جاگرا جبکہ آتش بازی اُڑ اُڑ کر اسٹیج اورتماشائیوں پر جا کر گرنے لگی۔
جواب تک تماشا دیکھ رہے تھے اب وہ بھی بوکھلا چکے تھے اور اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ لیکن مواد کم ہونے کی وجہ سے جلد ہی اس پر قابو پا لیا گیا۔
*۔۔۔*
’’ بابا۔۔۔ یہ ہے وہ لڑکا!‘‘ مس عائشہ نے یاسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے والد ڈاکٹر خبیب سے کہا۔
’’اوہ۔۔۔ اچھا!‘‘ ڈاکٹر خبیب نے سلام کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ پھر بولے:’’میں تمھارے خیالات جاننا چاہتا ہوں لڑکے۔‘‘
’’میرے پاس تو خیالات کا ایک سمندر ہے ڈاکٹر صاحب، آپ کس قسم کے جاننا چاہیں گے، نظریاتی، سائنسی یا ذاتی؟‘‘ یاسر نے اُلٹا سوال کر دیا۔
’’بہت خوب!‘‘ ڈاکٹر خبیب مسکرائے۔
’’ان سب کا کوئی نچوڑ ہو تو بتا دو۔‘‘ مس عائشہ بھی مسکرا کر بولیں۔
’’علامہ اقبال کے نظریات میرے نظریات ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ تھیوری پیش کرنے میں بوڑھے ہو گئے، جبکہ میں بطور نوجوان ان کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہوں۔‘‘ یاسر بولا تو ڈاکٹر خبیب نے پھر اسے سراہا۔
’’بہت خوب!‘‘
’’اب مسئلہ یہ ہے کہ اقبال نوجوانوں کو ایسا دیکھنا چاہتے تھے جن کی نگاہ بلند ہو اور ضرب کاری۔۔۔ مگر میں جسمانی طور پر بہت نحیف ہوں اور آنکھیں بھی بہت کمزور ہیں، مگر میرا ماننا ہے کہ میڈیکل سائنس کے ذریعے ان مجبوریوں پر قابو پا لیا جائے گا۔‘‘
’’بہت خوب!‘‘ ڈاکٹر خبیب ایک بار پھر بولے بغیر نہ رہ سکے۔
’’مس۔۔۔ آپ کا گھر پہاڑی کے اوپر الگ تھلگ بنا کچھ عجیب سا ہے، آپ مجھے یہاں کیوں لائی ہیں؟‘‘ یاسر نے مس عائشہ سے پوچھا۔
’’تمھیں میں نے بلایا تھا برخوردار۔‘‘ڈاکٹر خبیب بولے۔
’’میں ایک سائنسدان ہوں اور فوج سے ریٹائرڈ ہوں۔سائنسدان تو عام سا لفظ ہے دراصل میری فیلڈ جینیٹک انجینئرنگ ہے۔ میں نے فوج میں کئی کامیاب تجربے کیے مثلاً کس طرح بلی کی اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت انسان میں منتقل ہو یا چیتے کی ہوا ہی میں رخ بدلنے کی صلاحیت۔ مگر ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے ایک بڑے آئیڈیے پر کام شروع کر دیا۔ اپنی زندگی بھر کی کمائی اور تجربہ لگا کر میں انسان کو اُڑانا چاہتا تھا۔ عقاب کی طرح۔‘‘
ڈاکٹر خبیب یہاں تک کہہ کر رکے تو یاسر جوش سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے مٹھیاں بھینچ لیں اور اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ڈاکٹر خبیب اور مس عائشہ کو اس کی آنکھوں کی چمک موٹے چشمے کے پیچھے سے بھی صاف نظر آنے لگی۔
مس عائشہ بولیں: ’’الحمد اﷲ بابا کا کام مکمل ہوگیا۔ لیکن اِنھیں یہ فارمولا فوج کو دینے سے پہلے کسی پر تجربہ کرنا ہے تاکہ کوئی کمی یاخامی ہو تو دور کی جاسکے۔ اس کے لیے انہیں کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو اس تجربہ کی بھینٹ چڑھنے کو تیار ہو کیونکہ یہ مکمل طور پر ناکام بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
’’دوسرے یہ کہ وہ شخص منفی خیالات کا حامل نہ ہو کہ تجربہ کامیاب ہونے کی صورت میں اس طاقت کا غلط استعمال کرے یا پھر یہ کہ اسے عوام میں مشہور کر دے۔‘‘ ڈاکٹر خبیب بولے۔
’’طاقت؟ آپ میرا حال دیکھ ہی رہے ہیں۔‘‘ یاسر نے اپنے ہی اوپر طنز کیا گویا کہ وہ اس تجربے کے لیے جسمانی طور پر فٹ نہیں۔
’’جسمانی طاقت تو بہت آجائے گی میرے فارمولے سے، ذہنی اور روحانی طاقت درکار تھی جو کہ مجھے لگتا ہے کہ تم میں ہے، پچھلے ہفتے کا واقعہ دیکھ کر۔‘‘ اُنھوں نے اسپورٹس فیسٹول کے واقعہ کا حوالہ دیا۔
’’ہمیں صرف عقابی روح چاہیے، عقاب اسے بابا خود بنا لیں گے۔‘‘
’’ کیا تم اس تجربے کے لیے خود کو پیش کرنے کو تیار ہو؟‘‘
’’ضرور۔۔۔ کیوں نہیں، میں تو خود اس قسم کی چیز ایجاد کرنا چاہتا تھا۔‘‘ مس عائشہ نے پوچھا تویاسر نے کہا۔
ڈاکٹر خبیب نے دعائیہ انداز میں ہاتھ اٹھا کر خدا کا شکر ادا کیا۔
*۔۔۔*
’’ہیرو ہیں میرے بھیا ہیرو۔‘‘ اریبہ نے اپنی سہیلیوں سے کہا۔ وہ سب چھٹی کے بعد اپنی اسکول وین کے انتظار میں کھڑی ہوئی تھیں، جو پہلے بوائزسیکشن سے بچے لیتی تھی پھر گرلز سیکشن آتی تھی۔
’’لو بھلا ہیرو ایسا ہوتا ہے کہ زور کی ہوا چلے تو اُڑ ہی جائے۔‘‘ آمنہ بولی تو سب ہنسنے لگیں۔
’’ہاں ہاں مجھے تو لگتا ہے کہ اس کے بھیا کی سائیکل غلطی سے مڑ گئی تھی آتش بازی کی طرف اور اس واقعہ کے بعد اُنھوں نے سب سے پہلے اس ہینڈل اور بریک درست کرائے ہوں گے۔‘‘ زینب بھی ہنس کر بولی۔
’’اور پانی کی ٹنکی کیا خود چل کر گئی تھی؟‘‘ اریبہ نے یاد دلایا۔
’’بریک نہ لگنے پر اُنھوں نے اسے پکڑ کر روکنا چاہا ہوگا۔‘‘ آمنہ نے خیال ظاہر کیا۔
’’جو بھی چاہا تھا وہ سب نے دیکھا تھا، اور وہ بے شمار لوگوں کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور وہ واقعی ہیرو ہیں۔ بس آگئی ہے چلو۔‘‘ اریبہ نے بات ختم کی اور وہ سب بس میں چڑھ گئیں۔
اریبہ نے پیچھے بیٹھے اپنے یاسر بھیا کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور بیٹھ گئی۔ بس چل پڑی اور بچوں کی زبانیں بھی، یہاں تک کہ اسے دو نقاب پوش لوگوں نے روک لیا اور کسی نامعلوم عمارت میں لے گئے۔
*۔۔۔*
نقاب پوش جب کچھ بچوں کو اتارنے کے لیے دھکے دے رہے تھے تو یاسر نے دیکھا کہ بچے لڑکھڑا کر بس سے اُتر رہے تھے اور گر بھی رہے تھے۔ یاسر بھی بس سے اترتے ہی گر پڑا اور فوراً کروٹ لے کر بس کے نیچے ہو گیا۔
جب نقاب پوش بچوں کو لے کر عمارت میں چلے گئے تو وہ بس کی دوسری جانب سے نکلا۔ اس کے اسکول بیگ میں ڈاکٹر خبیب کا دیا ہوا عقابی لباس موجود تھا جو انہوں نے یاسر کو مختلف تجرباتی مرحلوں سے کامیابی سے گزرنے کے بعد دیا تھا۔
جب تک نقاب پوش واپس پلٹے، وہ باآسانی عقابی لباس پہن کر بس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا اور اب ایک بڑا سا عقاب نظر آرہا تھا۔
اس کا تمام جسم اور چہرہ اس لباس میں ڈھک گیا تھا۔
’’ہیں۔۔۔ یہ کک کیا؟‘‘ ڈرائیور اُسے دیکھ کر ہکلایا، جبکہ نقاب پوش نے فوراً پستول نکالی اور اس پر یکے بعد دیگرے کئی فائر کر دیے۔
گولی اگر اسے لگتی تب بھی جسم میں داخل نہ ہوپاتی، مگر اس نے اِدھر اُدھر کر سارے ہی وار خطا کر، یہاں تک کہ نقاب پوش کا پستول خالی ہوگیا۔
’’کون۔۔۔کون ہو تم۔‘‘ نقاب پوش سہم کر بولا۔
یاسر نے جواب دینے کے بجاے ان پر جھپٹا مارا اور اس زور سے ان کے سر آپس میں ٹکرائے کہ اُنھیں دن میں تارے نظر آگئے اور وہ چکرا کر گر گئے۔
اب یاسر نے ڈرائیور کو دبوچا۔ اس کی جیب سے بس کی چابی نکالی اور زوردار تھپڑ رسید کرنے شروع کر دیئے۔ ڈرائیور ہٹاکٹا تھا اور یاسر اس کے آگے بالکل بچہ، مگر ڈرائیور پوری طاقت لگانے کے باوجود بھی کچھ مزاحمت نہیں کر پا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بھی بے سدھ ہو کر گر گیا۔
یاسر نے نقاب پوش کی جیب سے چابی نکالی اور جا کر عمارت کو کھول دیا۔ بچے ڈرے سہمے نکلے اور پھر سامنے ایک انسان نما بڑے سے عقاب کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ جس نے ان کو آزاد کرایا تھا۔
عقاب نے اسکول کی سمت دوڑ لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے پرواز کر گیا اور دور کہیں پہاڑوں کی چٹانوں میں گم ہو گیا۔
*۔۔۔*
کافی دیر تو بچے اسی طرف دیکھتے رہے جس طرف عقاب گیا تھا۔ انہیں یقین ہی نہیںآرہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا وہ خواب دیکھ رہے ہیں۔
’’واہ یار، یہ آدمی تھا یا پرندہ؟‘‘ جبران بولا۔
’’مجھے تو کوئی مکس قسم کی چیز ہی لگ رہی تھی۔‘‘ فراز ہنسا۔
’’ لیکن اسے کیسے پتا چلا کہ ہم سب پھنسے ہوئے ہیں اور پھر ہمیں بچانے بھی آگیا۔‘‘فاروق نے حیران ہو کر تعریف کی۔
’’عقاب ہے، ہیلی کاپٹر کی طرح اوپر سے دیکھتا رہتا ہوگا کہ کہاں کوئی مسئلہ ہے، پھر وہاں چلا جاتا ہوگا۔‘‘ جبران نے کہا۔
’’ارے ، وہ ہماری عقابی روح کدھر ہے، ڈھونڈو، کہیں اسے بھی یہ عقاب تو نہیں اٹھا لے گیا؟‘‘ فراز ہنسا۔
دوسری طرف لڑکیوں میں بھی اسی قسم کی چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔
’’ مجھے لگتا ہے کہ یہ رُخ تھا جو سند باد جہازی کو ملا تھا۔‘‘ آمنہ نے اپنا خیال پیش کیا۔
’’ کیا پتا شاہین اور شہباز اتنے ہی بڑے ہوتے ہوں، ہم نے انہیں کبھی قریب سے دیکھا بھی تو نہیں۔‘‘ زینب بولی۔
’’ارے مگر وہ یوں دو ٹانگوں پر چلتے تھوڑی ہیں۔‘‘ اریبہ نے اس کے اندازے کو رَد کیا۔
’’مگر وہ ہماری مدد کو کیسے آگیا اور کیوں آگیا؟‘‘ سب ہی سوچ میں پڑ گئیں۔
’’ہیرو اسی طرح آتے ہیں جان بچانے۔‘‘ زینب نے کہا۔
’’ارے میرے بھیا کدھر ہیں، نظر نہیں آرہے۔‘‘ اریبہ بے چین ہو کر بولی اور عمارت کی طرف دوڑی۔
وہاں یاسر کے دوست بھی اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ سب نے مل کر اسے تلاش کر لیا مگر وہ نہ ملا۔
اریبہ نے بُری طرح رونا شروع کر دیا ۔ اب وہ یاسر کو عمارت کے باہر کے علاقہ میں ڈھونڈ رہے تھے۔
’’ مجھے نکالو۔ مجھے نکالو۔‘‘ اچانک یاسر کی پھنسی پھنسی آواز آئی۔ سب خاموش ہو کر اندازہ کرنے لگے کہ آواز کہاں سے آئی ہے۔
’’آپ کہاں ہیں بھیا؟‘‘ اریبہ نے پوچھا۔
’’ یہاں بس کے نیچے۔‘‘
سب نے جھک کر دیکھا تو یاسر اپنا بیگ لیے مٹی میں اَٹا ہوا بس کے نیچے پڑا تھا۔ اس کے دوستوں نے اسے ہاتھ دے کر باہر نکالا۔
’’تم یہاں کیا کررہے تھے؟‘‘فاروق بولا۔
’’مم۔۔۔ میں شاید بس سے اترتے ہوئے گر کر بے ہوش ہو گیا تھا، وہ ۔۔۔ ڈا۔۔۔ ڈاکو کہاں ہیں؟‘‘ یاسر ڈر کر بولا۔
’’ لو جی۔۔۔ یہاں اتنا کچھ ہو گیا اور یہ مزے سے بے ہوش پڑے رہے۔‘‘ فراز نے مذاق اُڑایا۔
’’ کیا کچھ ہوگیا۔‘‘ یاسر نے پوچھا۔
’’کہانیاں بعد میں سننا۔ ابھی ڈاکوؤں کا انتظام کرتے ہیں، اِنھیں باندھنا پڑے گا اور پھر واپسی کی بھی کوئی ترکیب نکالنی پڑے گی۔‘‘ فاروق نے کہا اور وہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے۔
جلدی سے اریبہ آگئی اور یاسر کے کپڑے جھاڑنے لگی۔ اریبہ نے چشمے کی گرد صاف کرنے کے بعد اسے اپنی آنکھ پر رکھ کر دیکھا کہ آیا وہ صاف ہوا یا نہیں اور پھر چونک کر بولی۔
’’ارے مجھے تو اس میں سے بالکل صاف نظر آرہا ہے، کیا اس کا نمبر زیرو ہو گیا ہے؟‘‘
یاسر نے جلدی سے اس سے چشمہ جھپٹا اور بولا: ’’اسے چھوڑو۔۔۔ یہ بتاؤ کہ یہاں یہ سب ہوا کیسے؟‘‘
پھر اریبہ نے اسے عقاب کا قصہ سنانا شروع کیا تو وہ اس انہماک سے سننے لگا گویا واقعی اسے کچھ بھی پتا نہ ہو۔
*۔۔۔*