شاباش بیٹا
عبدالرشید فاروقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل رحمان جوتے اُتار کر ڈرائنگ روم میں آئے تو فیصل نے اُن کا دامن تھام لیا۔ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:
”کیا بات ہے بیٹے؟ ہمیں آرام سے بیٹھنے تو دو۔“
ٰٰٖٖفیصل نے جلدی سے اُن کا دامن چھوڑ دیا۔ وہ اطمینان سے بیٹھ گئے تو اُس نے ایک بار پھر ان کا دامن پکڑ لیا۔ یہ دیکھ کر ابو، امی، شازیہ آپی، عمران بھائی مسکرانے لگے۔
انکل رحمان نے حیرت سے ان سب کی طرف دیکھا اور پھر یوں سر ہلانے لگے، جیسے بات اُن کی سمجھ میں آ گئی ہو:
”ایسا معلوم ہوتا ہے، آپ سب نے کچھ کھانے کا پروگرام بنایا ہوا ہے اور مابدولت کو قربانی کا بکرا بنانے کا ارادہ ہے۔ یہی بات ہے نا؟“
”انکل! آپ بالکل غلط سمجھے۔ قربانی تو کچھ ماہ پہلے دی جا چکی ہے۔“ شازیہ کے چہرے پر شوخی تھی۔
”بھئی! جو بھی بات ہے، جلدی سے کہہ ڈالو۔ مجھے ایک تقریب میں شریک ہونا ہے۔“
”انکل! عہد کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں“فیصل نے کہا۔
انکل نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا:
”ساری بات میں یہ عہد کہاں سے آ گیا؟“
فیصل نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا:
”اس بات کو جانے دیں کہ کہاں سے آگیا، آپ اس کے متعلق اپنی رائے دیں۔“
انکل رحمان نے ایک نظر سب پر ڈالی اور بولے:
”میرے نزدیک عہد کو پورا ہونا چاہیے۔“
”آپ کا مطلب ہے، آدمی جو بھی وعدہ کرے، اُسے ہر حال میں پورا کرے۔“ وہ انکل رحمان کی طرف دیکھنے لگا۔
”ہاں،ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں، وہ وعدہ ہی کیا جو پورا نہ کیا جائے۔“ انکل رحمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”لیکن آپ نے اپنا ایک وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ میں جانتا ہوں۔ آپ وعدے کے بڑے پکے ہیں جو وعدہ کرتے ہیں، اُسے ہر حال میں پورا کرتے ہیں۔“ فیصل بھی مسکرایا۔
”میں نے وعدہ پور انہیں کیا؟“ انکل رحمان کے چہرے پر شدید حیرت تھی۔
”عبدالرحمن! اس کی تو عادت ہے، پہیلیاں بھجوانے کی۔ مجھ سے سنو، تم نے گزشتہ اتوار فیصل سے وعدہ کیا تھا کہ اُسے آئس کریم کھلانے لے جاؤ گے لیکن اتفاق سے تم بھول گئے، لیکن یہ نہیں بھولا، اتنی سی بات ہے۔“ فیصل کے ابو نے جلدی جلدی کہا۔
”اوہ!یہ بات ہے۔“ انکل رحمان ہنسے۔
”جی ہاں! یہی بات ہے۔“ فیصل نے برا سا منہ بنا کر کہا تو شازیہ آپی اور عمران بھائی، اس کے انداز پر بے اختیار مسکرانے لگے۔
”بیٹے! آپ جانتے ہیں، میں بے روزگار ہوں…“ انکل رحمان کچھ کہنا چاہ رہے تھے کہ فیصل نے اُن کا جملہ درمیان سے اُچک لیا:
”بے شک آپ بے روزگار ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جھوٹے وعدے کرتے پھریں۔“
فیصل کی بات سن کر انکل رحمان نے عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھا، چند لمحے خاموش رہے، پھر بولے:
”آپ کو علم ہونا چاہیے، مجھے جھوٹ سے نفرت ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ سے جھوٹے وعدے کروں،یہ بات تو آپ ابھی مان چکے ہیں کہ میں اپنے وعدے ہر حال میں پورے کرتا ہوں۔ دراصل میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ میں بے روزگار ہوں۔ نوکری کے لیے سارا سارا دن شہر کی سڑکیں ناپتا ہوں۔مختلف دفاتر کے چکر لگاتا ہوں، کافی پریشان رہتا ہوں۔ اس پریشانی میں آپ سے کیا وعدہ بھول گیا۔ آپ نے اچھا کیا کہ یاد دلا دیا۔ آپ جہاں چاہیں، آپ کو آئس کریم کھلا دی جائے گی۔ صرف آئس کریم ہی نہیں اور بھی بہت کچھ۔“
اُن کی بات سن کرفیصل خوش ہو گیا۔پھر انکل رحمان کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولا:
”اس میں کوئی شک نہیں، آپ سب سے پیارے انکل ہیں۔“
”بس بس……اب مکھن نہ لگاؤ۔“ انکل رحمان نے اُسے خود سے علیحدہ کرتے ہوئے کہا۔
”انکل!کیا حرج ہے۔ لگانے دیں اِسے مکھن۔ اوروں کوتو کھانے کے لیے نہیں ملتا، آپ پر لگایا جا رہا ہے۔ بڑے خوش نصیب ہیں آپ……“ عمران بھائی کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ شازیہ آپی ہنس رہی تھیں جب کہ ابو اور امی کے چہرے بھی کھلے پڑ رہے تھے۔
O
انکل رحمان نے فیصل کو ساتھ لیا اور بازار چلے گئے۔ موسم خوش گوار تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بازار لوگوں سے اَٹا پڑا تھا۔ وہ آئس کریم کی دکان پر پہنچے۔ فیصل نے اپنی پسند کی آئس کریم لی اور کھانے لگا۔ انکل رحمان مسکراتی نگاہوں سے اُسے دیکھ رہے تھے۔ آئس کریم کھانے کے بعد فیصل نے کہا:
”انکل! آپ نے کچھ اور بھی کھلانے کا کہا تھا……“
”بھئی! آپ کو جو بھی کھانا ہے، یہاں دکانیں موجود ہیں، خرید لیں ……“وہ ہنسے۔
فیصل نے جلدی جلدی دو برگر، تین فروٹ کیک، کھٹی مٹھی گولیوں کا پیکٹ خرید لیا۔
”بس یا کچھ اور……؟“ انکل رحمان نے دکاندار کو پیسے پکڑاتے ہوئے پوچھا۔
”بس فی الحال اتنا ہی کافی ہے……“ فیصل نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔
”اب چلیں ……“
”جی……“
انکل رحمان نے موٹر سائیکل کو کک لگائی اور پھر گھر کی جانب جانے لگے۔ اُن کے راستے میں خانہ بدوشوں کی جھگیاں تھیں۔ جب موٹر سائیکل ان کے قریب سے گزرنے لگی تو معاً فیصل کی نظر چھوٹی سی جھگی کے قریب کھیلتے ہوئے ایک بچے پر پڑی۔ اس نے انکل رحمان کو موٹر سائیکل روکنے کے لیے کہا۔ انہوں نے حیرت سے اُسے دیکھا۔ پھر کندھے اچکاتے ہوئے بریک لگا دی۔ فیصل جلدی سے نیچے اُترا اوربھاگتا ہوا، اُس بچے کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں موجود چند لوگوں نے حیرت سے اُسے دیکھا۔ فیصل نے بچے کے سامنے برگر، فروٹ کیک اور کھٹی مٹھی گولیوں کا پیکٹ رکھا اور تیزی سے واپس پلٹ آیا۔ پھرموٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھتا ہوا بولا:
”انکل! میں یہ چیزیں کھاتا ہی رہتا ہوں …… آج یہ بچہ کھائے گا تو کتنا خوش ہوجائے گا۔“ فیصل کے چہرے پر خوشی ہی خوشی تھی۔
”فیصل میاں! تم تو بہت بڑے ہوگئے ہو، مجھ سے بھی بڑے…… شاباش بیٹا!“ انکل رحمان نے اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھروہ موٹر سائیکل واپس مارکیٹ کی طرف موڑنے لگے:
”انکل! ہمارا گھر پیچھے نہیں، آگے ہے…آپ بھول گئے؟“ فیصل نے موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے کہا:
”لیکن اب آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
”دیکھتے جائیں ……“ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اور موٹر سائیکل آگے بڑھا دی۔ جلد ہی وہ آئس کریم والی دکان کے سامنے جا رُکے۔ پھر وہ آئس کریم، فروٹ کیک، برگر وغیرہ خرید نے لگے …… اور فیصل حیرت سے اُنہیں دیکھ رہا تھا۔
OOO