سرد رات کا سفر
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’حذیفہ رضی اللہ عنہ جاؤ یہ کام تم کرو لیکن خبردار کسی مشرک پر حملہ نہ کر بیٹھنا۔‘‘ ساتھ ہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اﷲ اس کی حفاظت فرمانا۔ دائیں سے بائیں سے اوپر سے اور نیچے سے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی روز سے موسم خاصا سرد اور مرعوب تھا۔ مشرق کی طرف سے چلنے والی ہوا تیر کی طرح محسوس ہوتی۔ یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی موسلا دھار بارش بھی شروع ہوگئی۔ ایسے میں اندھیرا بھی ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ ہوا کی تیزی سے ایسی خوفناک آواز پیدا ہوتی جیسے بجلی کی کڑک۔ بارش کے شروع ہوجانے سے ایک نئی پریشانی شروع ہوگئی۔ طوفانی ہواؤں نے میدان میں لگے خیمے اکھاڑ ڈالے۔ برتن الٹ گئے۔ سامان ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے۔ ہوا کے ساتھ اڑنے والی ریت کے ذرات نے لوگوں کو اندھا کر دیا۔ کہیں کوئی الاؤ روشن نہیں رہا اور یہ ساری تباہی مشرکین کے لشکر میں آئی۔ وہ جو ایک ماہ سے مسلمانوں کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ ان میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ میدان جنگ سے فرار ہونے پر آپس میں جھگڑنے لگے۔
مسلمانوں کا لشکر ان تمام تباہیوں سے محفوظ رہا۔ سرد ہوا کے جھونکے تو ادھر بھی تھے اور بھوک کی وجہ سے کمزوری بھی محسوس ہو رہی تھی مگر حوصلے کمزور نہیں تھے۔ کچھ ہی دیر پہلے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ طوفانی ہواؤں کی وجہ سے مشرکین کے لشکر میں کافی تباہی ہوئی ہے اور وہ میدان جنگ سے فرار کے منصوبے تیار کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے سرداروں کا آپس میں میدان جنگ سے فرار ہونے یا نہ ہونے پر آپس میں جھگڑا شروع ہو چکا ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال ہوا کہ کفار کی خبر لینی چاہیے کہ کیا کفار نے مدینہ سے کوچ شروع کر دیا ہے۔ تب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کون ہے جو تم میں سے جا کر یہ دیکھے کہ دشمن کیا کررہا ہے۔ میں اﷲ سے دعا کروں گا کہ جنت میں وہ میرا ساتھی ہو۔‘‘ لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی مگر بھوک اور سردی کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین میں سے ایک مجاہد کا نام لے کر پکارا۔ وہ اٹھے اور یہ سوچ کر کہ اتنے مجمع میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ ہی کو نام لیکر پکارا ہے۔اس بات سے ان میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا ہوا۔ رسول ﷲ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’حذیفہ رضی اللہ عنہ جاؤ یہ کام تم کرو لیکن خبردار کسی مشرک پر حملہ نہ کر بیٹھنا۔‘‘ ساتھ ہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اﷲ اس کی حفاظت فرمانا۔ دائیں سے بائیں سے اوپر سے اور نیچے سے۔‘‘
یہ باہمت سپاہی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان تھے۔ جنہیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اس نازک وقت میں جنت میں اپنے رفیق ہونے کی خوشخبری دی۔ جس وقت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو دشمنوں کی خبر لانے کے لیے روانہ کررہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
’’جاؤ ان شاء اﷲ نہ تو تمہیں سردی لگے گی اور نہ دشمن سے کوئی خوف محسوس ہوگا۔‘‘ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حکم سن کر تیزی سے دشمن کی طرف روانہ ہوئے اور دشمن کے لشکر میں راستہ بناتے ہوئے داخل ہوگئے۔ وہاں پہنچے تو عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ قریب ہی ابو سفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور اپنے ساتھیوں کو اندھیرے کی وجہ سے ہدایت کررہا تھا کہ اپنے اردگرد سے باخبر رہنا۔ کوئی دشمن کا آدمی ادھر نہ نکل آئے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نہایت بے خوف ہو کر اپنے دائیں بائیں بیٹھے آدمیوں سے باری باری ان کا نام پوچھا۔ جس پر انہوں نے بتا دیا کہ میں فلاں ابن فلاں ہوں۔ مگر اس آفت میں ایسے بدحواس تھے کہ انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ معلوم نہیں کیا کہ ہم نے تو تم کو اپنا نام بتا دیا تم بھی اپنا نام بتاؤ۔ اس وقت بھی تیز ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔
ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’اے قریش! ہمارے اونٹ اور گھوڑے مررہے ہیں۔ یہودیوں نے ہم سے غداری کی ہے۔ آندھی اور طوفان نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تم دیکھ رہے ہو۔ اس لیے یہاں سے بھاگ چلو میں بھی جارہا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے ابوسفیان تیزی سے اپنے اونٹ پر اچھل کر بیٹھ گیا اور تیز دوڑانے کے لیے مارنے لگا لیکن اونٹ کی گردن اور ایک پیر بندھا ہوا تھا اور اونٹ تین ٹانگوں پر اچھلنے لگا۔ ابوسفیان نے اتر کر اس کی رسیاں کھولیں مگر اسی وقت اس کے ساتھیوں نے اسے شرم دلائی کہ تم کیسے سردار ہو اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر اکیلے ہی بھاگ رہے ہو۔ تب ابوسفیان کچھ دیر ٹھہر گیا اور جلدی جلدی اپنے ساتھیوں کو چلنے کی ہدایت دینے لگا۔ اس وقت ابوسفیان حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے اتنے قریب تھا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ باآسانی اس کا کام تمام کرسکتے تھے مگر انہوں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا۔ پھر اس نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ہدایت دی: ’’تم لوگ محمداور ان کے اصحاب کے مقابلے کے لیے یہاں کھڑے رہو ورنہ وہ لوگ ہمارا پیچھا کریں گے۔‘‘
جب حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ وہاں سے مسلمانوں کے لشکر میں خیریت کے ساتھ واپس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہوا اور مٹی کا طوفان صرف کفار کے لشکر تک ہی تھا۔ یہاں طوفان کا پتا نہیں تھا۔ تمام مجاہدین اپنی جگہ بیٹھے اونگھ رہے تھے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات میں سے کسی کی چادر سردی سے بچنے کے لیے اوڑھ کر نماز ادا کررہے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کچھ دیر انتظار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دشمنوں کا سارا ماجرا سنایا اور ان کی بدحواسی بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔ اس اندھیرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک کی سفیدی نظر آئی۔ جب حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ دشمنوں کی خبر لینے گئے تھے تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی بدولت شدید سردی میں بھی انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ گرم حمام میں داخل ہو گئے ہوں۔ مگر جب اپنا کام کرکے واپس آئے تو شدید سردی نے آن گھیرا۔ سردی اور تھکن سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا برا حال تھا۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا ایک سرا حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے اوپر ڈال دیا اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اس قدر بے خبر سوئے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان فجر دی اس وقت بھی ان کی آنکھ نہ کھلی۔ آخر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو شفقت سے یہ کہہ کر جگایا: ’’قم یا نومان یعنی اے نیند کے متوالے اٹھ۔‘‘ یہ سن کر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور نماز کے لیے جماعت میں شامل ہوگئے۔ جب سب نے نماز فجر ادا کرلی تو نکلتے دن کی روشنی میں خندق کے اس پار صبح کی مدھم روشنی میں دشمن کے میدان کی طرف دیکھا۔ میدان بالکل خالی ہو چکا تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تمام اصحاب رضی اللہ عنہ کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔ اجازت پاتے ہی لوگ تیزی سے گھروں کی جانب روانہ ہوئے لیکن فوراً ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ ممکن ہے دشمن کچھ جاسوس چھوڑ گئے ہوں اور وہ یہ دیکھ کرا پنے ساتھیوں کو واپس بلالیں۔
ا س خیال کے آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداﷲرضی اللہ عنہ اور حضرت جابررضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کو بلا کر فرمایا کہ ان لوگوں کو واپس بلالو۔ یہ دونوں لوگوں کو واپس بلاتے بلاتے ان کے گھروں تک پہنچ گئے۔ مگر ان لوگوں نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ جب یہ دونوں حضرات واپس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بتایا کہ کس طرح لوگوں کو واپس لانے میں ناکام رہے ہیں تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر باقی اصحاب رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لیا اور خود بھی شہر کی طرف روانہ ہوئے۔
یہ تمام واقعات غزوہ خندق کے ہیں۔ جسے غزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے۔ شوال ۵ ہجری میں عرب کے تمام اسلام دشمنوں نے مل کر مدینہ منورہ کا محاصرہ (گھیراؤ) کر لیا۔ اس موقع پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ مشورہ کیا کہ دشمنوں کا مقابلہ مدینے سے باہر نکل کر کیا جائے یا شہر کے اندر رہ کر دفاع کیا جائے۔ آخر یہ طے پایا کہ شہر کے اندر رہ کر ہی دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے۔ اس کے لیے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے آپ کو خندق کھودنے کی تدبیر سے آگاہ کیا۔ جسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پسند کیاا ور چھ دن کے اندر اندر خندق کھودنے کا حکم دیا اور سب لوگوں کے ساتھ خود بھی اس میں حصہ لیا۔ چونکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایران کے رہنے والے تھے اور خندق کا طریقہ بھی ایران ہی میں رائج تھا۔ عرب کے لوگ خندق سے ناواقف تھے اس لیے خندق دیکھ کر ان کے گھوڑے بدکنے لگے اور مجبوراً کفار خندق عبور کرنے سے مجبور و محروم رہے۔ دو ایک نے اس کی کوششیں بھی کیں تو وہ اس میں گر پڑے اور مسلمانوں نے انہیں ختم کر ڈالا۔ نیز کفار کو اس سردی اور آندھی کا بھی اندازہ نہیں تھا۔ اس لیے وہ اس سردی کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ مجبوراً اس شدید سردی میں وہ ایک ماہ کے طویل محاصرے کے بعد جان بچانے پر مجبور ہو گئے اور اپنا ساز و سامان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
*۔۔۔*
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان کا شمار ان بلند مرتبہ اصحاب کرام میں ہوتا ہے۔ جنہیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جنت میں اپنا ساتھی ہونے کی خوشخبری سنائی۔ ان کی کنیت ابوعبداﷲ اور لقب صاحب السّر رسول اﷲ (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں) جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ رسول اﷲ نے انہیں منافقین کے نام بتا دیئے تھے۔ جن کو وہ ایک راز کی طرح محفوظ رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد بھی ایک نیک فطرت شخص تھے۔ جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور دینِ اسلام کے بارے میں سنا تو دونوں باپ بیٹے کسی خطرے کی پرواہ کیے بغیر مکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سچے دل سے اسلام قبول کرلیا۔ ساتھ ہی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی والدہ زیاب رضی اللہ عنہا اور بھائی صفوان بھی اسلام کی روشنی پاگئے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے علاوہ غزوہ احد، خیبر، بیعت رضوان اور فتح مکہ جیسے اہم موقعوں پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر رشک آتا تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان کا مدینہ میں رہنا مشکل ہو گیا اور وہ عراق چلے گئے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ سے بہت محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نہایت سادگی پسند تھے۔ نہایت معمولی کپڑے پہنتے اور بہت سادگی کے ساتھ اپنے خچر کی پیٹھ پر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے سے گزرتے مگر لوگ اتنی سادگی کی وجہ سے انہیں پہچان نہیں پاتے ۔
گورنر بننے کے بعد لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمیں اپنی ضرورتیں بتائیں۔ ہم پورا کریں گے مگر حضرت حذیفہ نے فرمایا۔ مجھے اپنے لیے صرف پیٹ بھر کر کھانا اور اپنے گدھے کے لیے چارہ درکار ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ آپ کو سلطنت کے کاموں سے بہت کم وقت ملتا لیکن جب بھی ملتا آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو حدیث کی تعلیم بھی دیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چالیس دن بعد ہوئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*