skip to Main Content

۱۱ ۔ سراپا منتظر یثرب

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔۔۔

وَ اللّٰہُ اکرمَنا بہ و ہَدلی بہ
انصارہ فی کلّ ساعِۃ مَشْہَد

اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کے ذریعے شرف عطا فرمایا۔ اور آپ کے ذریعے سے ہر موقع پر انصارِ مدینہ کی ہدایت فرمائی۔
(حسان بن ثابت)

انتظار
یثرب سراپا انتظار ہے۔
مگر وہ نہیں پہنچ پا رہے کہ جن کا انتظار ہے۔ آج بھی شدّت کی دھوپ ناقابلِ برداشت حد تک شدید ہوگئی ہے۔ یثرب کے باسی سرِ راہ ہمہ چشم بیٹھے ہیں اور چشم ظاہربین کو دیدہ انوار سے منور کرنے کے منتظر
جس دن سے ہوا کے دوش پر سفر کرتی یہ خبر اہل یثرب کے کانوں میں پہنچی کہ محمد(ﷺ) مکہ کو خیرباد کہہ کر جادۂ منزل کی منازل طے کر رہے ہیں۔ اُس روز سے یثرب کی گلیوں میں عجب ہلچل مچی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یثرب کے پیکر میں کوئی نئی رُوح داخل ہو رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس چمن کے پھولوں پر نیا نکھار آ رہا ہے۔ پُرمسرت چمکتے دمکتے چہرے چہارسو پھیلے ہوئے ہیں۔ گلیوں محلوں اور بازاروں میں اس بات کا چرچا کر رہے ہیں کہ
’’وہ آ رہے ہیں۔۔۔ جن کا مدّتوں سے انتظار ہے۔ وہ آرہے ہیں۔۔۔ جو یثرب اور اہل یثرب کی قسمت بدلنے والے ہیں۔ وہ آ رہے ہیں۔۔۔ جو ہمارے اور تمھارے نئے رہبر بننے والے ہیں۔ وہ آ رہے ہیں۔۔۔ جو ہمارے معاشرے کو تحت الثریٰ سے نکال کر اوج ثریا پر لاکھڑا کریں گے، ہاں! محمدؐ آ رہے ہیں۔‘‘
مگر جوں جوں انتظار کی گھڑیاں طویل تر ہوتی جاتی ہیں۔ آتشِ شوق بھی فزوں تر ہوتی جاتی ہے۔ آج بھی انتظار کا یہی عالم ہے۔ تڑکے تڑکے ہی یثرب کے باسی حسب سابق اپنے محبوب قائد محمد(ﷺ) کے استقبال کے لیے شہر سے باہر کھڑے ہوئے ہیں۔ آفتاب نصف النہار پر ہے اور تمازت آفتاب سے رُخ زمین جل رہا ہے۔ انتظار کرنے والوں کے لیے یہ شدّت کی دھوپ اَب ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ حسرت زدہ ہوکر واپس پلٹ پڑتے ہیں۔ لیکن ابھی گھروں میں پہنچ ہی پاتے ہیں کہ قلعے سے ایک یہودی کا یہ آوازہ بلند ہوتا سنائی دیتا ہے:
’’یثرب والو! سن لو، تمھیں جس کا انتظار ہے وہ آ گیا۔‘‘
لمحہ بھر میں یہ مژدہ جا نفزا یثرب میں چہار جانب پھیل جاتا ہے۔ شہر کے دیوارو در تکبیر کے نعروں سے لرز جاتے ہیں۔ انصار ہتھیار سجا سجا کر بے تابانہ شہر سے باہر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
محمد(ﷺ) اوّلین قیام یثرب سے باہر قبا کے مقام پر کرتے ہیں۔ یہاں میزبانی کا شرف کلثوم بن ھدام کو نصیب ہوتا ہے۔ پروانے جوق در جوق شمع حق کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ وہ نظریں جو مدّتوں سے دیدار کو ترس رہی تھیں۔ لذتِ دیدار سے محظوظ ہو کر قدموں میں بچھی بچھی جا رہی ہیں۔ دل ہیں کہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ محمد(ﷺ) کا دل بھی خوشی سے معمور ہے۔ آخر خوشی کیوں نہ ہو! کہ آج اپنے ہاتھوں سے لگی کھیتی لہلہاتی نظر آ رہی ہے۔ مگر مسرت کے یہ لمحات بھی محمد(ﷺ) کو اپنے مشن سے غافل نہیں کر سکتے۔ عقیدت بھرے سینوں کو ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال کر رہے ہیں۔ ستم پر ستم سہہ کر مکہ چھوڑنے والے صحابہ میں سے ابو۱؂عبیدہؓ، مقد۲؂ادؓ، خبابؓ، ۳؂سہیلؓ، صفوا۴؂نؓ،عیّا۵؂ضؓ، عبدا۶؂للہؓ بن مخرمۃ، وہبؓ بن سعد، عمروؓ بن۷؂ ابی سرح اور عمیرؓبن۸؂ عوف بھی یہاں موجود ہیں۔ جبکہ علیؓ بھی اپنے فرض کی بجا آوری کے بعد یہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اب محمد(ﷺ) یہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔کہ اہل قبا جب درِ خدا پرجھکنا چاہیں تو خانہ خدا جمع ہوسکیں۔ کلثوم بن ھدام مسجد کے لیے زمین پیش کرتے ہیں۔ یہیں محمد(ﷺ) اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ تعمیر مسجد میں خود بھی مزدوروں کی طرح مشقت کر رہے ہیں۔ بھاری بھاری پتھر اُٹھاتے ہیں تو جسم مبارک خم ہوجاتا ہے۔ عقیدت مند اپنے قائد کو یوں دیکھتے ہیں تو دیوانہ وار آگے لپکتے ہیں اور کہتے ہیں:
’’ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! آپؐ چھوڑ دیں ہم اُٹھا لیں گے۔‘‘
محمد(ﷺ) ان کا دل نہیں توڑنا چاہتے۔ ان کی درخواست قبول کرتے ہیں۔
لیکن اپنے فرض سے کوتاہی نہیں برتنا چاہتے۔ چنانچہ اُسی وزن کا کوئی اور پتھر اُٹھا کر تعمیر مسجد میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
عبد۹؂اللہؓ بن رواحہ تعمیر مسجد میں مصروف جانثاروں کی تھکن دور کرنے کے لیے اشعار پڑھتے جا رہے ہیں اور محمد(ﷺ) ہر قافیہ کے ساتھ آواز ملا رہے ہیں:
افلح مَنْ یعالجُ المساجدا
و یقرء القرآن قائماً وَّ قَاعدا
ولا نیبِیتُ اللیل عنہ راقداً
’’وہ کامیاب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے اور اُٹھتے اُٹھتے قرآن پڑھتا ہے۔ اور رات کو جاگتا ہے۔ (عبادت کے لیے)‘‘
چودہ (۱۴) روز قیام کے بعد جمعہ کے روز مقدس قافلہ جانب یثرب بڑھنا پھر شروع کر دیتا ہے۔ ابھی بنی سالم کے گھروں تک پہنچتے ہیں کہ نماز کا وقت ہوجاتا ہے۔ نماز جمعہ یہیں ادا کی جاتی ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر پھر محمد(ﷺ)اپنے جانثاروں کے ہمراہ روانہ ہو جاتے ہیں۔ دو رویہ عقیدت مندوں کی صفیں بندھی ہیں اور تحمید و تقدیس کے کلمات بلند کر رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا شہر اُمڈ آیا ہے۔ پھر یثرب کی دھرتی کے ذرے آگے بڑھتے محمد(ﷺ) کے قدموں کو چوم لیتے ہیں۔ اور یثرب ’’مدینہ النبی‘‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ تو تکبیر کے نعروں سے پورا شہر لرز جاتا ہے۔ عفت مآب پردہ نشیں مستورات مکانات کی چھتوں پر کھڑی ہیں اور محمد(ﷺ) کے استقبال میں ترانہ سنجی کر رہی ہیں:
طَلَعَ الْبَدرُ علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعیٰ لِلّٰہِ داعِ
اَیُّہَا المبعوثُ فِیْنَا
جنتَ بالاَمرِ المطَاعِ
’’چودھویں کا چاند طلوع ہوا، کوہ و داع کی گھاٹیوں سے، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے، جب تک دعا مانگنے والے مانگیں، اے ہمارے مبعوث ہونے والے۔ تو وہ مرتبہ لے کر آیا ہے جو ہمارے لیے واجبِ احترام ہے۔‘‘
محمد(ﷺ) بڑھتے بڑھتے جب بنی نجار کے محلے میں پہنچتے ہیں تو ننھی منی بچیاں تتلیوں کی طرح اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے یہ گنگنانے لگتی ہیں۔
نحن جوار من بن النجار
یا جندا محمداً من جار
’’ہم خاندانِ نجار کی لڑکیاں ہیں، کیا ہی اچھے ہمسائے ہیں محمدؐ۔‘‘
سردارانِ قبائل کی نگاہیں محمد(ﷺ) کے قدموں میں بچھی بچھی جا رہی ہیں۔ کبھی ایک حاضر ہوتا ہے اور اونٹنی کی مہار پکڑ کر عرض کرتا ہے:
’’اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس تشریف فرما ہوں۔‘‘
تو کبھی دوسرا، ہر ایک کی خواہش یہی ہے کہ محمد(ﷺ) کا قیام اُس کے ہاں ہو مگر محمد(ﷺ) تو اونٹنی پر سوار حکمِ خدا سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں:
خَلوا سَبِیْلَہَا فَاَنَّہَا مَامُوْرَۃٌ
’’اس کا رستہ چھوڑ دو کیونکہ یہ مامور ہے۔‘‘
راہ چھوڑ دی جاتی ہے اور اونٹنی کی مہار بھی۔ وہ خودبخود اہل یثرب کے دلوں کے شہنشاہ محمد(ﷺ) کو اُٹھائے قدم بڑھائے چلی جا رہی ہے۔ بنی سالم بن عوف کا قبیلہ آتا ہے، نہیں رُکتی۔ بنی بیاضہ کا قبیلہ آتا ہے۔ آگے بڑھی چلی جاتی ہے۔ بنی ساعدہ والوں کا احاطہ آیا تو بھی اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ بالآخر بنی عدی بن نجار والوں کے احاطے میں داخل ہوجاتی ہے۔ چلتی چلتی ابو ا۱۰؂یوبؓ انصاری کے مکان کے سامنے بیٹھ جاتی ہے۔ محمد(ﷺ) اُترتے نہیں کہ شاید اُونٹنی پھر اُٹھنا چاہے اور ایسا ہی ہوتا ہے اونٹنی اُٹھتی ہے تو بنی نجار والوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں۔
اب نہ جانے کہاں رُکے۔ لیکن اونٹنی چند قدم آگے بڑھ کر پھر پیچھے ہٹتی ہے اور سابقہ جگہ پر جا بیٹھتی ہے پھر گردن نیچے رکھ دیتی ہے۔ محمد(ﷺ) اونٹنی سے اترتے ہیں اور فرماتے ہیں:
ہٰذا المنزل ان شاء اللّٰہ
’’ان شاء اللہ یہی منزل قیام ہے۔‘‘
ابوایوبؓ انصاری عرض کرتے ہیں:
’’میرامکان قریب ترین ہے۔ اگر اجازت ہو تو آپؐ کا سامان اپنے ہاں رکھوں۔‘‘
محمد(ﷺ) اجازت دے دیتے ہیں اور ابوایوبؓ خوشی خوشی سامان اُٹھا کر اپنے مکان میں لے جاتے ہیں۔
ابوایوبؓ اپنے محبوب قائد کو گھر کی نچلی منزل رہائش کے لیے پیش کرتے ہیں تو محمد(ﷺ) وہاں مقیم ہوجاتے ہیں۔
ایثار
محمد(ﷺ) کو جو یوں محنت و مشقت کرتے دیکھتے ہیں تو جانثار جوش سے پکار اُٹھتے ہیں:
لَءِنْ قَعَدْنَا وَالنَّبِیُّ یَعْمَلُ لَذَاکَ مِنَّا الْعَمَلُ الْمُضَلَّلُ
’’ایسی حالت میں کہ نبیؐ کام میں لگے ہوں ہم بیٹھے رہیں تو ہمارا یہ کام گمراہ کن ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ خود بھی کام میں بڑے جوش و جذبے سے ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ قباء کے بعد محمد(ﷺ) مدینہ والوں کے لیے مسجد بنا رہے ہیں۔ مسجد کے لیے یہ زمین سہل۱۱؂ اور سہیل۱۲؂ نامی دو یتیم بچوں سے قیمتاً حاصل کی گئی ہے۔ اس قطعہ اراضی کا کچھ علاقہ زیر کاشت تھا، کچھ پر مشرکین کی پرانی قبریں تھیں اور کچھ خرابے کی زمین تھی۔ خرابے کی زمین کو ہموار کر دیا گیا۔ کھجور کے درخت کاٹ کر علیحدہ رکھ دیے گئے اور جب زمین صاف اور ہموار ہوگئی تو محمد(ﷺ) نے آگے بڑھ کر مسجد کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ اور اب گیلی مٹی سے کچی اینٹیں بنائی جا رہی ہیں۔ اینٹوں کو گارے سے جوڑا جا رہا ہے۔ دیواریں بلند ہوتی ہیں تو کھجور کے کٹے ہوئے درختوں کو بطور ستون استعمال کیا جاتا ہے۔ کھجور ہی کے پتوں سے چھت بنا دی جاتی ہے۔ ہر فردجان توڑ محنت کر رہا ہے۔ علیؓ ساتھ ساتھ یہ رجز پڑھے جا رہے ہیں:
لاَیَسْتَوِیْ مَنْ یَعْمُرُ الْمَسَاجِدًا
یَدْ اَبُ فِیْہَا قَاءِمًا وَ قَاعِدًا
وَ مَنْ یُرَی عَنِ الْعَبَادِ حَاءِدًا
’’جو شخص مسجد کی تعمیر کرتا ہے۔ اس میں قیام و قعود کرتا ہے اور جو گردو غبار سے کتراتا ہے دونوں برابر نہیں۔‘‘
ان کے علاوہ جب دیگر صحابہ یہ رجز پڑھتے ہیں تو محمد(ﷺ) بھی ساتھ شامل ہوجاتے ہیں:
لاَعَیْشَ اِلاَّ عَیْشُ الْآخِرَہ
اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہ
’’زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے۔ یا اللہ! انصار و مہاجرین پر رحم فرمائیو۔‘‘
اور یوں مدینہ کی اولین مسجد تکمیل کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ مسجد ہر قسم کے تکلفات سے مبرّیٰ اور اسلام کی سادگی کی تصویر ہے۔ یہی وہ مسجد ہے کہ جس کے بارے میں محمد(ﷺ) فرماتے ہیں:
اَنَا خَاتم الانبیاءِ وَ مَسْجَدی خاتم مَسَاجِدِ الانبیاء وَ ہُوَ احَقِّ الْمَسَاجِد اَنْ یُزار وَ ان یُرْکَبَ اِلَیْہِ الرٰواحلِ بَعْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام
’’میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد تمام انبیاء کی مساجد کی خاتم ہے۔ یہ مسجد حرام کے بعد تمام مساجد میں اس بات کی سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کی زیارت کی جائے اور اس کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کیا جائے۔‘‘
اِسی مسجد کے بارے میں محمد(ﷺ) یہ بھی فرماتے ہیں:
صَلٰوۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ہٰذَاخَےْرٌ مِّنْ اَلْفِ صَلٰوۃٍ فِیْمَا سواہ اِلاَّ الْمَسْجِدِ الْحَرَام
’’میری مسجد میں نماز ہزاروں نمازوں سے بہتر ہے۔ دوسری مساجد کے اعتبار سے بجز مسجد حرام کے۔‘‘
اور یہی وہ مسجد ہے کہ جہاں محمد(ﷺ) کو اب امامت کے فرائض منصبی ادا کرنے ہیں۔ اور قوم کی رہنمائی کے بھی اور یہیں پر مسلمانوں کو معاشرتی اور ثقافتی مسائل سے آگاہ کیا جانا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ مسجد معاشرتی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔
مسجد میں طالبانِ حق کے لیے بھی انتظام کیا گیا ہے۔ شمالی جانب چبوترہ بناکر صفّہ کا مدرسہ بنا دیا گیا ہے۔ یہاں وہ بے گھر آباد ہیں جن کا کوئی معاشی سہارا نہیں اور وہ تعلیماتِ نبویؐ سے فیض یاب ہونا چاہتے ہیں۔ یا وہ کہ جو باہر سے تعلیم دین کی غرض سے تشریف لائے ہیں۔
مسجد کی تعمیر کے بعد دو جہانوں کے سردار محمد(ﷺ) کی رہائش گاہ کی تعمیر کا مرحلہ آتا ہے۔ مسجد کے احاطے میں ہی جانب مشرق کچی اینٹوں اور گارے کی مدد سے دیواریں بنائی جاتی ہیں اور اوپر کھجور کے پتے ڈال کر چھت بنا دی جاتی ہے۔ دروازوں پر کمبل ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ پردہ رہے۔ یہ ہے کاشانۂ نبوت کہ جس میں محمد(ﷺ) ابوایوبؓ کے گھر سے منتقل ہوکر آ جاتے ہیں۔ کچی اینٹوں، گارے اور کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی مسجد اور اپنی اقامت گاہ کے بارے میں محمد(ﷺ) فرماتے ہیں:
مَا بَیْنَ بَیْتِی وَ مِنْبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃ
’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغ کا ٹکڑا ہے۔‘‘
تعمیرِ مسجد سے فارغ ہوکر محمد(ﷺ) انس۱۳؂ بن مالک کے مکان پر مہاجرین و انصار کو طلب فرماتے ہیں۔ سبھی جمع ہوچکتے ہیں تو انصار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ مہاجرین اب تمھارے ہی بھائی ہیں۔‘‘
پھر دو دو اشخاص کو بلاتے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں:
تَاَخَّرْفِی اللّٰہ أَخَرَیْنِ أَخْوَیْنِ
’’اللہ کی راہ میں دو دو شخص بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘
پھر وہ کہ جن کے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں۔ محض دینی رشتہ کی بنا پر بھائی بھائی بن جاتے ہیں۔ مکہ والے اپنے خون کے رشتوں، گھربار، مال و اسباب الغرض سب کچھ تج کر مدینہ آئے۔ اگرچہ اہل مدینہ عدیم النظیرمہما۱۴؂ن نوازی کا ثبوت دے رہے ہیں، لیکن محمد(ﷺ) کے سامنے اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہے۔ چنانچہ یوں مواخات کرا دی جاتی ہے۔ تو ایمان افروز مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ انصار کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مال، مساکن، باغات اور کھیت نصف نصف تقسیم کرکے اپنے مہاجر بھائیوں کو دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض تو اس بات پر بھی تیار ہوگئے ہیں کہ دو بیویوں میں سے ایک کو طلا۱۵؂ق دے کر اپنے مکی بھائی کے نکاح میں دے دیں۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیدنی ہے:
مہاجرین کہتے ہیں:
’’ہمیں یہ اشیا دینے کے بجائے بازار کا راستہ دکھلا دیجیے، ہم محنت و مزدوری کے ذریعے پیٹ پالنا چاہتے ہیں۱۶؂۔‘‘
کتنی عظیم مثالیں ہیں یہ ایثار، محبت اور قربانی کی۔ اللہ اللہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ اسم گرامی عامر، والد کا نام عبداللہ بن الجراح تھا۔ لیکن آپ اپنی کنیت اور اپنے دادا کے لقب سے ابوعبیدہ بن الجراح مشہور تھے۔ صحابہ میں بڑے علم و فضل والے تھے۔ حضورؐ نے آپ کے بارے میں فرمایا: ’’ہر اُمت کا امین گزرا ہے اور ابوعبیدہ بن الجراح اس امت کے امین ہیں۔‘‘ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ قدیم الاسلام ہیں۔ ملک حبش ہجرت کی، بدر کے بعد اُحداور تمام دوسرے مشاہد میں حضورؐ کے ساتھ شرکت کی۔ اُحد میں خود کے لوہے کی کڑیاں حضورؐ کے رخسار مبارک میں چبھ گئی تھیں۔ تو آپ نے اپنے دانتوں کے زور سے نکالیں اور اس کامیاب کوشش میں ابوعبیدہ کے سامنے کے دانت بھی شہید ہوگئے۔ غزوہ اُحد میں اپنے باپ عبداللہ کو اس لیے قتل کیا کہ وہ مشرک تھا اور کفارِ مکہ کی فوج میں شامل ہو کر آیا تھا۔ ملک فلسطین میں قریہ عمواس میں جوما بین بیت المقدس و رملہ ہے۔ مرض طاعون سے ۱۸ہجری کو وفات پائی۔

۲۔ ان کے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ ہے۔ قدر الاسلام اور جلیل القدر صحابی تھے اور اُن اوّلین اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے حبش کی جانب ہجرت کی۔۲۳ ہجری میں جب عمر ستر سال تھی۔ ایک سیلاب کی وجہ سے واصل بحق ہوئے۔ حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔

۳۔ یہ وہب کے بیٹے اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ حبش ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں۔ جب مکہ میں اسلام نے کچھ تقویت پائی تو مکہ تشریف لائے۔ انھوں نے مدینہ بھی ہجرت کی۔ معرکہ بدر میں شریک رہے۔ ۶ہجری کو مدینہ میں انتقال فرمایا۔ نماز جنازہ حضوراکرمؐ نے پڑھائی۔

۴۔ یہ حضرت سہیلؓ بن وہب کے بھائی ہیں۔ معرکہ بدر میں شرکت فرمائی اور وہاں طعیمہ بن عدی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اختتام معرکہ سے قبل ہی آپ کا قاتل حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔

۵۔ عیاض بن زہیر بھی قدیم الاسلام صحابی تھے۔ انھوں نے بھی ملک حبش ہجرت کی تھی بدر میں شریک رہے۔ ۳۰ ہجری کو ملک شام میں انتقال ہوا۔

۶۔ سابقین اسلام میں سے ہیں۔ حبش ہجرت کرنے والوں میں ان کا بھی شمار ہے۔ بدر اور بعد کے تمام دوسرے معرکوں میں شریک رہے۔ ۱۲ ہجری کو یمامہ کی جنگ میں شہادت پائی۔ اُس وقت عمر۴۱ سال تھی۔

۷۔ قدیم الاسلام ہیں۔ ہجرت حبش میں شریک تھے۔ ابوسعد کنیت ہے۔ بدر، اُحد، خندق اور بعد کے تمام معرکوں میں شریک رہے۔ خلافت عثمانؓ میں ۳۰ ہجری کو انتقال ہوا۔

۸۔ یہ سہیل بن عمر العامری کے آزاد کردہ غلام تھے۔ معرکہ بدر میں شریک رہے۔ ایام خلافتِ عمر فاروقؓ میںمدینہ میں انتقال فرمایا۔ ان کی نماز جنازہ امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروقؓ نے پڑھائی۔

۹۔ حضوراکرمؐ کے یثرب تشریف لانے کے بعد یثرب کا نام مدینہ النبیؐ یعنی نبی کا شہر پڑ گیا جو بعد میں مختصر ہوکر صرف ’’مدینہ‘‘ رہ گیا۔

۱۰۔ ابو ایوبؓ انصاری کا نام خالد بن زید ہے۔ اور یہ حضرت علیؓ کے ساتھ تمام محاربات میں شریک رہتے۔ افواج کی حفاظت کرتے ہوئے قسطنطنیہ میں۵۱ ہجری کو وفات پائی۔ آپ کی قبر قسطنطنیہ کی چار دیواری کے قریب ہے۔

۱۱۔ حضرت سہلؓ بن رافع خزرجی انصاری تھے۔

۱۲۔ سہیل بن رافع خزرجی انصاری بدر، اُحد، خندق اور بعد کے تمام معرکوں میں شریک رہے۔ یہ سہل کے بھائی ہیں۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں رحلت فرمائی۔

۱۳۔ ان کی کنیت ابوحمزہ تھی۔ قبیلہ خزرج سے متعلق تھے۔ حضورؐ کے خادم خاص تھے۔ حضورؐ مدینہ تشریف لائے تو ان کی عمر ۱۰ سال تھی۔ عمرؓ کے زمانے میں بصرہ میں قیام کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کو دین سکھائیں۔ ۹۱ ہجری میں بصرہ میں انتقال فرمایا۔ ان کی اولاد کا شمار ایک سو سے زائد ہے۔ جبکہ ان کی عمر ۱۰۳ سال بیان کی جاتی ہے۔

۱۴۔ انصار نے اپنے گھروں کو مہاجرین کے لیے مہمان خانہ عام بنا دیا تھا۔

۱۵۔ سعدؓ بن الربیع انصاری کی دو بیویاں تھیں۔ انھوں نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ میں ایک کو طلاق دیتا ہوں۔ آپ اس سے نکاح کر لیں، مگر عبدالرحمنؓ بن عوف نے کمال احسان مندی کے ساتھ انکار کر دیا۔

۱۶۔ حضرت سعدؓ بن الربیع نے جب عبدالرحمنؓ بن عوف کو ایک ایک چیز کا جائزہ دے کر نصف لے لینے کی درخواست کی تو اُنھوں نے کہا: خدا یہ سب آپ کو مبارک کرے، مجھ کو صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top