skip to Main Content

سراپائے رسول ﷺ

اعجاز الحق قدوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم نونہالوں کے لیے ایک نفیس تحفہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول پاکﷺ کا حلیہ مبارک

الحمد للہ رب العالمینoوالصلوۃ والسلام علیٰ نبیہ ورسولہ سیدنا و مولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین

حسن صورت بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے جس کی طرف ہر انسان کا دل خود بخود کھینچتا ہے،حسن باطنی کے ساتھ ساتھ حسن ظاہری کی دولت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے سب پیغمبروں کو مالامال فرمایا۔ اس میں مصلحت یہی تھی کہ خدا کے بندے خدا کے پیغمبروں کی طرف ظاہری خوبصورتی کو دیکھ کر بھی متوجہ ہوں، چنانچہ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم حسن باطنی کے ساتھ ساتھ حسن و جمال اور خوبصورتی کے لحاظ سے بھی سب سے بڑھ کر تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک سے ظاہر ہوتا ہے۔
حسن ِیوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا قد درمیانہ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بڑا اور بال ہلکے سے گھنگریالے اور داڑھی مبارک گھنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک نہ بالکل گول تھا نہ لمبا بلکہ تھوڑی سی گولائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سرخ و سفید تھا،آنکھیں سیاہ و سر مگیں لانبی تھیں، پیشانی مبارک چوڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھنویں باریک خم دار اور علیحدہ علیحدہ تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک بلندی مائل اور دندان مبارک آبدار اور باریک تھے، سامنے کے دانتوں میں ہلکی ہلکی ریخیں تھیں، بالکل ملے ہوئے نہ تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات چیت کرتے تو ان کی ریخوں میں سے نور سا نکلتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔شانے مبارک پُر گوشت اور دونوں مونڈھوں کے درمیان ذرا فصل تھا، مونڈھوں،کلائیوں اور سینے مبارک پر بال تھے۔ سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک ہلکی سی دھاری تھی۔گردن مبارک اونچی اور خوبصورت تھی، کلائیاں لمبی اور پاؤں کی ایڑیاں نازک، تلوے ذرا گہرے،ہاتھ اور پیر کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لانبی تھیں،سینہ مبارک کشادہ اور فراخ تھا، دونوں مونڈھوں کے درمیاں مہر نبوت تھی جو ایک کبوتر کے انڈے کے برابر بظاہر سرخ اور ابھرا ہوا سا گوشت تھا(جس پر تل اور بال اگے ہوئے تھے) (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)پسینہ مبارک سے خوشبو آتی تھی()۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہایت کھلتا ہوا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ موتی معلوم ہوتا تھا۔میں نے ریشم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے زیادہ نرمی نہیں دیکھی اور مشک و عنبر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک سے زیادہ خوشبو نہ تھی۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جیسا خوبصورت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک چاندنی رات میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا،کبھی میں چاند کو دیکھتا اور کبھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو،لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورتی اور حسن چاند سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا تھا۔(شمائل ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے (جب وہ اسلام نہیں لائے تھے) پہلے پہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھے خدا کی قسم یہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
بال: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سر کے بال رکھنا پسند فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پٹے رکھا کرتے تھے، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آدھے کانوں تک رہتے،کبھی کانوں کی لو تک اور کبھی کاندھوں کے قریب تک رہتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آدھے کانوں تک تھے۔(شمائل ترمذی) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانہ قد تھے۔سینہ مبارک چوڑا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کانوں کی لو تک ہوتے تھے۔(شمائل ترمذی)

مکے کی فتح کے دن لوگوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کاندھوں پر چار گیسو پڑے تھے۔(شمائل ترمذی)
کنگھا: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر اور داڑھی میں ایک روز درمیان دے کر کنگھا کرتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر میں اکثر تیل لگاتے اور اپنی داڑھی میں کنگھا کرتے اور اپنے سر پر ایک کپڑا ڈال لیا کرتے تھے۔(شمائل ترمذی)(جس سے عمامہ مبارک میلا ہونے سے بچا رہتا)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دوسرے دن کنگھا کیا کرتے تھے۔(شمائل ترمذی)
مانگ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم شروع زمانے میں مانگ نہیں نکالتے تھے۔لیکن آخر میں مانگ نکالنے لگے تھے۔
خضاب: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بال چونکہ بہت کم سفید ہوئے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خضاب لگانے کی نوبت ہی نہیں آئی، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف مہندی کا خضاب یا مہندی اور کُسم(کسم ایک گھاس ہے جس سے خضاب کیا جاتا ہے) ملا کر خضاب پسند تھا۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خضاب فرماتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں میں اتنی سپیدی ہی نہیں آئی تھی کہ آپ کو خضاب کی نوبت پہنچتی۔ (شمائل ترمذی)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خضاب کے لئے بہترین چیز مہندی اور کُسم (جمع الفوائد)ہے۔“
سرمہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت سرمہ لگاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمہ لگانے کا حکم بھی دیاہے۔ ایک جگہ ارشاد فرمایاکہ اثمد(اثمد ایک خاص سرمہ کا نام ہے جو سیاہ سرخی مائل ہوتا ہے اور مشرقی ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اثمد سے سرمہ اصفہانی مراد ہے) کا سرمہ آنکھوں میں لگایا کرو اس لئے کہ وہ آنکھوں کی روشنی بھی بڑھاتا ہے اور پلکیں بھی اگاتا ہے۔(شمائل ترمذی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس میں سے تین تین سلائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات آنکھوں میں لگاتے تھے۔(شمائل ترمذی)
عطر: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی۔ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن خوشبو میں بسا رہتا،جس گلی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرتے وہ گلی خوشبو سے مہک اٹھتی، اس گلی کے گزرنے والے اس گلی کو خوشبو سے مہکتا ہوا پا کر سمجھ جاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عطر کا تحفہ بڑی خوشی سے قبول فرماتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عطر دان تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے عطر لے کر استعمال فرماتے تھے۔(شمائل ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مردانہ خوشبو وہ ہے جس کی خوشبو پھیلتی ہوئی ہو اور اس کا رنگ نہ معلوم ہوتا ہو(جیسے گلاب و کیوڑہ وغیرہ) اور زنانہ خوشبو وہ ہے کہ جس میں رنگ زیادہ اور خوشبو کم ہو۔(شمائل ترمذی)(جیسے حنا و زعفران)
حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر کوئی شخص خوشبو کا تحفہ دے تو اس کو لوٹانا نہ چاہئے اس لئے کہ اس کی اصل جنت سے نکلی ہے۔“
مسواک: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم دانتوں کی صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں مسواک کرنا فرض قرار دیتا۔“(جمع الفوائد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”دس چیزیں پیغمبروں کی سنت ہیں۔مونچھوں کا کٹانا، داڑھی کا بڑھانا، مسواک کرنا، ناک کو پانی سے صاف کرنا، ناخنوں کا کٹانا،انگلیوں کے جوڑوں کا وضو میں دھونا، بغلوں کے بال منڈوانا، زیر ناف کے بال صاف کرنا، ختنہ کرانا۔“

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کالباس
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص قسم کے لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔اکثر چادر،تہبند اور کرتہ پہنتے تھے۔ جب کسی کپڑے کو پہنتے تو اس کپڑے کا نام لے کر فرماتے۔اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں یہ کپڑا پہننے کے لئے دیا۔پھر یہ دعا پڑھتے:
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُکَمَا کَسَوْ تَنِیْہِ اَسْئاَ لُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ۔(شمائل ترمذی)
”یا اللہ! آپ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور اس کپڑے کے پہنانے پر آپ ہی کا شکر ہے۔
اے اللہ! آپ ہی سے اس کپڑے کی بھلائی چاہتا ہوں جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا اور ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا۔“
سفید لباس:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید لباس بہت پسند تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سفید کپڑے پہنا کرو کہ یہ سب سے اچھا لباس ہے۔اس کو زندگی میں پہننا چاہئے اور سفید کپڑوں ہی میں مُردوں کو دفن کرنا چاہئے۔“(شمائل ترمذی)
کُرتہ: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کپڑوں میں کُرتہ زیادہ پسند تھا۔(شمائل ترمذی)
تہبند: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تہبند باندھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاجامے کو بھی پسند فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک موٹاتہبند دکھایا اور فرمایا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو کپڑوں میں وفات پائی۔(شمائل ترمذی)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی کے گوشت کو پکڑ کر فرمایا کہ تہبند یہاں تک رہنا چاہئے،اگر تمہارا جی نہ چاہتا ہو تو خیر اس سے کچھ نیچے تک رکھ سکتے ہو۔ اگر اس سے بھی زیادہ بڑھانا چاہو تو بڑھا سکتے ہو لیکن کسی صورت میں بھی تہبند ٹخنوں تک نہ پہنچنا چاہئے۔(شمائل ترمذی)
حضرت عبید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مدینہ منورہ کے راستے سے چلا جا رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے سے آواز آئی کہ اپنے تہبند کو اوپر اٹھاؤ۔ اس سے آدمی کا کپڑا ناپاک اور میلا ہونے سے بچا رہتا ہے اور آدمی میں غرور بھی پیدا نہیں ہوتا، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ تو بہت کم قیمت تہبند ہے اگر میلا یا خراب ہو جائے تو کچھ حرج نہیں اور اس معمولی تہبند سے کیا غرور پیدا ہو سکتا ہے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر تم ان دو چیزوں کا خیال نہیں کرتے تو میری پیروی تو کرو۔“رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سننے کے بعد میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہبند کو دیکھا تو وہ آدھی پنڈلیوں تک تھا۔(شمائل ترمذی)
چادر: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن کی بنی ہوئی نقشی چادر بہت پسند تھی۔(شمائل ترمذی)
جُبّہ: حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو روم کا بنا ہوا جُبّہ پہنے دیکھا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔(شمائل ترمذی)
عمامہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ٹوپی پر عمامہ باندھتے تھے۔عمامہ عموماً سیا رنگ کا ہوتا تھا۔ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم شملہ(شملہ صافہ کے اس حصہ کو کہتے ہیں جو صافہ کا چھٹا ہوا حصہ دونوں مونڈھوں کے بیچ میں پشت کی جانب لٹکا رہتا ہے) کو دونوں مونڈھوں کے بیچ میں پچھلی طرف ڈال لیتے تھے۔کبھی کبھی آگے سیدھی طرف چھوڑتے تھے۔کبھی بغیر شملہ کے بھی عمامہ باندھ لیتے تھے۔
حضرت جعفر بن عمروبن حریث رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سیاہ رنگ کا عمامہ دیکھا۔(شمائل ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اس کے شملہ کو دونوں مونڈھوں کے بیچ میں پچھلی طرف ڈال لیتے تھے۔(شمائل ترمذی)
قیمتی لباس: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ سادگی پسند تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی قیمتی لباس بھی پہنا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑھیا سے بڑھیا لباس میں دیکھا ہے۔(سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
پسندیدہ رنگ: رنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سبز رنگ اور سفید رنگ بہت پسند تھا۔(جمع الفوائد)
نا پسندیدہ رنگ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ رنگ نا پسند تھا۔ایک دفعہ ایک آدمی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سرخ کپڑے پہن کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔(جمع الفوائد)
ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سواری کے اونٹوں پر سرخ چادریں ڈالیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھے یہ پسند نہیں کہ یہ رنگ تم پر چھا جائے۔“(جمع الفوائد)
ریشمی کپڑے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے مردوں کو ریشمی کپڑے پہننے سے منع فرمایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدھے ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا ہے اور فرما رہے ہیں کہ میری امت کے مردوں پر اللہ نے ان دونوں چیزوں کے پہننے کو حرام فرمایا ہے۔(جمع الفوائد)
باریک کپڑے: مردوں اور عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے باریک کپڑے پہننے کی ممانعت فرمائی ہے جس سے بدن کے وہ حصے اور اعضاء دکھائی دیں جن کا چھپانا شریعت نے فرض قرار دیا ہے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”بہت سی کپڑے پہننے والیاں حقیقت میں ننگی رہتی ہیں۔“(یہ ان عورتوں کی طرف اشارہ ہے جو ایسا باریک لباس پہنتی ہیں جس سے بدن دکھائی دیتا ہے)(جمع الفوائد)
اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لباس سے بھی منع فرمایا کہ جس سے بدن کے وہ حصے نہ چھپ سکیں جن کا چھپانا ضروری ہے۔
ایک دفعہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا باریک کپڑے پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا۔(جمع الفوائد)

ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ایسے لباس پہننے کا حکم دیا جس سے کسی قسم کی بے پردگی نہ ہو۔
صفائی ستھرائی: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو صفائی اور پاکیزگی بے حد پسند تھی۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا:”اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ اپنے کپڑے دھو لیا کرے۔“ابو داؤد)
اسلام کے شروع زمانے میں ایک دفعہ جمعہ کے دن لوگ میلے ہی کپڑوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آئے۔ اس وقت مسجد چھوٹی تھی۔ پسینہ آیا تو ساری مسجد میں پسینے کی بو پھیل گئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر تم لوگ نہا کر مسجد میں آتے تو اچھا ہوتا۔“(سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
اسلام کے شروع زمانے میں لوگ مسجد کے آداب نہیں جانتے تھے۔ مسجد کی دیواروں پر،مسجد کے فرش پر تھوک دیا کرتے تھے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ہی ناپسند تھی۔اگر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی دیواروں یا مسجد کے فرش پر تھوک کے دھبے دیکھتے تو اپنے ہاتھ سے لکڑی لے کر اس کو کھرچ کر صاف کر ڈالتے، ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر تھوک کا دھبہ دیکھا، غصے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ایک انصاری عورت نے اس دھبے کو لکڑی سے کھرچ کر اس جگہ خوشبو ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔(جمع الفوائد)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ مسجد میں دیوانے اور چھوٹے بچے نہ آئیں اور نہ وہاں کسی قسم کی خرید و فروخت کی جائے اور مسجدوں میں جمعہ کے دن خوشبو کی انگیٹھیاں جلائی جائیں۔()
بچھونا:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچھونا کبھی چمڑے کا ہوتا تھا جس میں کھجور کے چھلکے بھرے ہوئے تھے۔کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹاٹ بچھا لیتے، کبھی بوریئے پر آرام فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچھونا چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔(شمائل الترمذی)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بچھونا کیسا تھا؟حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچھونا ٹاٹ کا تھا جسے ہم دُہرا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھا دیتے تھے۔ایک دفعہ مجھے خیال ہوا کہ اس ٹاٹ کو چار تہہ کر کے بچھا یا جائے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام ملے گا، میں نے ایک رات اس ٹاٹ کو چار تہہ کر کے بچھا دیا۔ صبح کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تم نے آج میرے نیچے کیا چیز بچھائی تھی؟ میں نے جواب دیا وہی روز مرہ کا بچھونا تھا،رات میں نے اس خیال سے کہ بچھونا ذرا نرم ہوجائے اس کو چار تہہ کر کے بچھا دیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بچھونے کو ویسا ہی رہنے دو۔اس کو چار تہہ کرنے کی ضرورت نہیں۔اس کی نرمی مجھے تہجد کی نماز سے روکتی ہے۔“()
انگوٹھی: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کافر بادشاہوں کو مسلمان ہونے کے لئے خط لکھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ بادشاہ بغیر مہر کے خط نہیں لیتے، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے نام کی مہر کھدوالیں اور ان خطوط پر مہر لگا کر بھیجیں تو اچھا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے کو قبول فرمایا اور چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر اوپر تلے تین سطروں میں ”محمد رسول اللہ“کھدوایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی سیدھے ہاتھ میں پہنتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نقش محمد رسول اللہ تھا۔ اس طرح پر کہ محمد ایک سطر میں تھا رسول دوسری سطر میں اور لفظ اللہ تیسری سطر میں تھا۔(جمع الفوائد)
جوتے: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے میں ایک تلا تھا جس میں دو تسمے لگے ہوئے تھے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کیسے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہر ایک جوتے میں دو تسمے تھے۔( )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”جب تم میں کوئی جوتا پہنے تو پہلے سیدھے پیر میں پہنے پھر بائیں پیر میں، جب کوئی جوتا اتارے تو پہلے بایاں جوتا اتارے۔“(شمائل ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سے کوئی ایک جوتا پہن کر نہ چلے، یا دونوں پہنے یا دونوں اتار دے۔“(شمائل ترمذی)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہتھیار
تلوار: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھ تلواریں تھیں اور ان کے خاص خاص نام تھے۔ان میں سے بعض کے نام ہم یہاں لکھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ماثور، ایک کا نام تَبَار، ایک کا نام ذوالفقار تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کی قبضہ کی ٹوپی چاندی کی تھی۔(شمائل ترمذی)
زرہ: زرہ لوہے کا ایک کرتا ہوتا ہے،جسے لڑائیوں میں بدن کی حفاظت کے لئے پہنا جاتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سات زرہیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر انہیں لڑائی کے موقع پر پہنتے تھے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر احد کی لڑائی کے دن دو زرہیں تھیں۔(شمائل ترمذی)
خُود: خُود لوہے کی ٹوپی ہوتی ہے جو سر کے بچانے کی غرض سے لڑائیوں میں اوڑھی جاتی ہے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائیوں کے موقع پر خُود بھی پہنا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا۔(شمائل ترمذی)

رسول پاک ﷺ کے معمولات و عادات
چلنا: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب چلتے تھے تو پاؤں کو گھسیٹ گھسیٹ کر عورتوں کی طرح نہیں چلتے تھے بلکہ قوت کے ساتھ ذرا جھک کر قدم اٹھا کر تیز چلتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی اونچائی پر سے نیچائی کی طرف اتر رہا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ میں چمک رہا ہے۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیز چلنے والا کسی کو نہیں پایا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو لپٹی جاتی ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ چلتے تب بھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑی مشکل سے چل سکتے تھے۔(شمائل ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لے چلتے تو کچھ جھک کر چلتے گویا اونچائی سے اتر رہے ہیں۔(شمائل ترمذی)
بیٹھنا: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دونوں گھٹنے کھڑے کر کے اور دونوں ہاتھوں سے ان کو گھیر کر بیٹھتے تھے۔اس کو گوٹ مار کر بیٹھنا بھی کہتے ہیں اور اس بیٹھنے میں انکساری زیادہ ہے۔کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار زانو (آلتی پالتی مار کر)بھی بیٹھتے تھے۔
حضرت قَیْلَہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں گوٹ مارے ہوئے بیٹھے دیکھا۔(یعنی دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں سے لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے)(شمائل ترمذی)
لیٹنا: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کے لئے لیٹتے تو اکثر اپنا سیدھا ہاتھ سیدھے گال کے نیچے رکھتے اور کبھی صرف سیدھی کروٹ پر لیٹتے اور کبھی سفر میں ایسا ہوتا کہ آخر رات ٹھہرتے اوررات تھوڑی ہوتی تو ہاتھ پر ٹیک لگا کر سو رہتے۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کے لئے لیٹتے تو اپنا سیدھا ہاتھ سیدھے گال کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے:
رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تُبْعَثُ عِبَادَکَ
اے اللہ! مجھے قیامت کے دن اپنے عذاب سے بچانا۔(شمائل ترمذی)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھتے:
اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰ
اے اللہ!میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں (سوتا ہوں) اور تیرے ہی نام سے زندہ ہونگا(سو کر اٹھونگا)
اور جب جاگتے تو یہ دعا پڑھتے:
اَلْحَمْدُللّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْر
سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مرنے کے بعد زندگی دی اور اسی کی طرف قیامت میں لوٹنا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سوتے وقت جب بچھونے پر لیٹتے تو دونوں ہاتھوں کودعا مانگنے کی طرح ملا کر ان پر سورہ قُلْ ھُوَاللّٰہُ، سورہ قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ النَّاس اور سورہ قُلْ اَعُوْذُبِرَبِّ الْفَلَقِ پڑھ کر دم کرتے اور سارے بدن پر جہاں جہاں ہاتھ جاتا پھیر لیتے، تین دفعہ ایسا کرتے۔سر سے ہاتھ پھیرنا شروع فرماتے پھر منہ اور بدن کا اگلا حصہ پھر سارے بدن پر ہاتھ پھیرتے۔(شمائل ترمذی)
ہنسنا: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی قہقہہ لگا کر نہیں ہنسے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی تبسم سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا صرف مسکرانا تھا۔(شمائل ترمذی)
گفتگو: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بے ضرورت بات چیت نہیں کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی بات کرتے تو آہستہ آہستہ بولتے،ایک بات کو دوسری بات سے ملنے نہ دیتے تاکہ سننے والا اچھی طرح سمجھ سکے۔اگر کوئی مشکل بات ہوتی یا لوگ زیادہ ہوتے تو آپ تینوں طرف متوجہ ہوکر اس بات کو تین دفعہ دہرا دیتے تا کہ سب کی سمجھ میں آجائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں میں فضول باتیں بالکل نہ ہوتی تھیں۔نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی گول مول اور کم بات چیت کرتے کہ سننے والے کو دوبارہ پوچھنے اور سمجھنے کی نوبت آئے بلکہ پہلی ہی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرما دینے کے بعد سب سمجھ جاتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی بلکہ ایک بات دوسری سے بالکل جُدا جُدا ہوتی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو اچھی طرح سمجھ جاتے تھے اور یاد کر لیتے تھے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات کو تین دفعہ دہراتے تا کہ سمجھنے والے اچھی طرح سمجھ لیں۔(شمائل ترمذی)
خوش طبعی: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی صحابہ سے خوش طبعی کی باتیں بھی کیا کرتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش طبعی میں بھی کوئی ایسی بات نہیں فرماتے تھے کہ جس سے کسی کی ذلت ہو اور اس کو تکلیف پہنچے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش طبعی میں بھی ایسی باتوں کو پسند فرماتے تھے کہ اس میں جھوٹ بھی نہ ہو اور وہ دوسروں کی خوشی اور فرحت کا سبب بن سکے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:”آپ ہم سے مزاح(خوش طبعی) بھی کر لیتے ہیں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہاں! مگر میں مزاح (خوش طبعی) میں بھی غلط بات نہیں کہتا۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہم اسے اونٹ کا بچہ دینگے۔“اس آدمی نے کہا:”میں اونٹنی کا بچہ کیا کرونگا،مجھے سواری کی ضرورت ہے تا کہ میں اس پر سوار ہو سکوں۔“ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔“(شمائل ترمذی)

حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت آئی۔اس نے عرض کیا کہ میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے جنت میں داخل کرے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”جنت میں بوڑھیاں نہ جائیں گی۔“وہ عورت روتی ہوئی واپس جانے لگی۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”اس سے کہہ دو کہ عورتیں جنت میں بڑھاپے کی حالت میں نہ جائیں گی۔بلکہ اللہ جنت والی عورتوں کو قیامت کے دن کنواری پیدا کرے گا۔ “(شمائل ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مجھے خوش طبعی میں ”اے دوکان والے“ کہا۔(شمائل ترمذی)
ملاقات کا طریقہ:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ جب کسی سے ملتے تو ہمیشہ پہلے خود سلام اور مصافحہ کرتے۔کوئی آدمی جھک کر اگر آپ کے کان میں کچھ کہتا توآپ اس وقت تک اس کی طرف سے کان نہ ہٹاتے جب تک کہ وہ خود اپنا منہ نہ ہٹا لے۔مصافحہ میں بھی یہی عادت تھی کہ جب تک دوسرا ہاتھ نہ چھوڑتا،آپ اس کا ہاتھ نہ چھوڑتے۔آپ جس کسی مجلس میں بیٹھتے تو اس طرح بیٹھتے کہ ساتھ بیٹھنے والوں سے گھٹنے آگے نہ نکلیں۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
اگر کوئی آپ کے گھر پر آپ سے ملنا چاہتا تو پہلے سلام کرتا پھر پوچھتا کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں۔خود بھی آپ اگر کسی سے ملنے کے لئے تشریف لے جاتے تو اسی طرح کرتے۔
ایک دفعہ ایک آدمی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے آیا اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب سے فرمایا کہ جاؤ اسے اجازت لینے کا طریقہ سکھا دو، یعنی پہلے سلام کرے اور پھر اجازت چاہے۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
ایک دفعہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے آئے اور دروازے پر دستک دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا:”میں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں۔میں۔“یعنی یہ کیا طریقہ ہے،اپنا نام بتانا چاہئے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو دروازے کے سیدھی طرف یا بائیں طرف کھڑے ہو کر سلام کرتے اور پھر اجازت چاہتے،اگر گھر والا اجازت دیتا تو اندر تشریف لے جاتے ورنہ واپس ہو جاتے۔ کسی کے گھر میں تشریف لے جاتے تو صدر جگہ پر بیٹھنے سے پر ہیز کرتے۔
ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے لئے ایک چمڑے کا گدّا بچھایا،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر اس طرح بیٹھ گئے کہ وہ گدّا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں آگیا۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
سلام کا طریقہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے اور تھوڑے بہت کو سلام کریں اور چھوٹے بڑوں کو سلام کریں۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکوں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی جماعت پر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا۔()
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے میرے بیٹے! جب تم گھر میں آؤ تو گھر والوں کو سلام کرو، کیونکہ سلام تمہارے اور گھر والوں کے لئے برکت کا سبب ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
مزاج پرسی کا طریقہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بیماروں اور مریضوں کو پوچھنے کے لئے ان کے گھر پر تشریف لے جاتے اور ان کے ساتھ بہت ہمدردی کرتے تھے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا تھا کہ بیمار کا پوچھنا بھی مسلمان کا فرض ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کسی بیمار کے پاس تشریف لے جاتے تو اس کو تسلی و تشفی دیتے، اس کی پیشانی اور نبض پر ہاتھ رکھتے۔(صحیح بخاری)
بیمار کی صحت کے لئے دعا کرتے اور فرماتے ان شاء اللہ اچھے ہو جاؤ گے۔(صحیح بخاری)
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار سے پوچھتے کہ تمہارا دل کس چیز کو چاہتا ہے؟ اگر وہ چیز اس کو نقصان دینے والی نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار کے لئے اس کا انتظام کر دیا کرتے۔(زاد لمعاد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماروں کی مزاج پرسی کے لئے مسلمانوں کو نہایت ہی تاکید فرمائی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سات باتوں کا حکم دیا تھا، جن میں سے ایک بیمار کی مزاج پرسی بھی ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
ایک روز رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا:”جب کوئی صبح کو کسی بیمار کے پوچھنے کے لئے جاتا ہے تو فرشتے شام تک اس کی بخشش کے لئے دعا مانگتے ہیں اور جب کوئی شام کو کسی بیمار کے پوچھنے کے لئے جاتا ہے تو صبح تک فرشتے اس کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔“(جمع الفوائد)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب کوئی کسی بیمار کی مزاج پرسی کے لئے جائے تو اس کے ہاتھ اور پیشانی پر ہاتھ رکھے اور بیمار کو تسلی و تشفی دے اور اس کی تندرستی اور صحت کے لئے خدا سے دعا کرے۔“(جمع الفوائد)
بیمار اور بیماریوں کے لئے ہدایتیں:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ماہر حکیم سے علاج کرانے کا حکم فرماتے اور پرہیز کرنے کا حکم دیتے۔(زادالمعاد)حرام چیزوں کو دوا کے طور پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے اور پینے سے منع کیا ہے۔فرمایا کرتے تھے کہ حرام چیزوں میں اللہ نے تمہارے لئے صحت و تندرستی نہیں رکھی۔(زادالمعاد) خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوا کا استعمال فرمایا اور لوگوں کو علاج کرنے کا حکم دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خدا کے بندو! دوا کیا کرو۔خدا نے ہر بیماری کے لئے صحت رکھی ہے سوائے ایک بیماری کے۔“لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کھوسٹ بڑھاپا۔“(زادالمعاد)
نادان طبیبوں کو علاج کی ممانعت: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم عطائی اور ان پڑھ طبیبوں کو علاج کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے اور انہیں بیمار کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔(زادالمعاد)
بیمار اور بیماری: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم لگنے والی بیماریوں سے خود بھی بچاؤ رکھتے اور تندرستوں کو بھی ایسی بیماریوں سے جو لگنے والی ہوں بچنے کا حکم دیتے تھے۔(رحمۃاللعالمین)

تعزیت کا طریقہ: شروع زمانے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی آدمی کے مرنے کا وقت قریب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کی خبر کرتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے جاتے اور اس کی بخشش کے لئے دعا فرماتے اور اس کے مرنے تک وہیں تشریف رکھتے،یہاں تک کہ اس میں بہت دیر ہوجاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہونے لگتی،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ دیکھ کر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت وقت صرف ہوتا ہے،اس لئے جب کوئی آدمی مر جاتا،اس کے مرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرنے والے کے گھر تشریف لے جاتے اور اس کے لئے بخشش کی دعا فرماتے۔جنازے کی نماز پڑھتے اور اگر مٹی دینا چاہتے تو ٹھہر جاتے ورنہ واپس تشریف لے آتے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی تکلیف بھی دینا پسند نہ کیا اس لئے خود جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر لانے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھتے۔اس کی بخشش کے لئے دعا فرماتے،آخری وقت تک یہی طریقہ رہا۔(مسند امام احمد)
سفر کا طریقہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو سفر میں عادت مبارکہ تھی کہ پہلے اپنی بیویوں کے نام پر قرعہ ڈالتے،جس بیوی کا نام نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے۔(صحیح بخاری)
جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر پسند تھا۔سفر کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی تڑکے روانہ ہوتے تھے۔(ابو داود)
جب سواری پر سوار ہونے لگتے اور پاؤں رکاب میں رکھتے تو بِسْمِ اللّٰہ کہتے،جب زین پر سوار ہوتے تو تین دفعہ اللّٰہُ اَکْبَرکہتے اور یہ دعا پڑھتے:
سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّا اِلیٰ رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۔
سب تعریف اس اللہ کے لئے کہ جس نے اس جانور کو ہمارا تابعدار بنایا حالانکہ ہم اس کو مطیع نہیں بنا سکتے تھے اور ہم اپنے خدا کی طرف پلٹنے والے ہیں۔(ابو داود)
اور پھر یہ دعا پڑھتے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّانَسْئَلُکَ فِیْ سَفَرِنَاھٰذَالبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَیٰ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرِنَا وَاَطْوِعَنَّا بُعْدَ الَْارْضِ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِیْ السَّفَرِوَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِی اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْقَلِبِ وَسُوْءِ الْمَنْظَرِ فِی الْاَھْلِ وَالْمَالِ۔
اے اللہ اس سفر میں ہم تجھ سے نیکی پرہیز گاری اور عمل پسندیدہ چاہتے ہیں۔اے اللہ! ہمارے اس سفر کو آسان اور اس فاصلے کو طے کرا دے۔اے اللہ! سفر میں تو ساتھی ہے اور بال بچوں کے لئے تو ہمارا قائم مقام ہے۔اے اللہ!میں سفر اور واپسی کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ واپس ہو کر اپنے اہل و مال کو کسی برے اعمال میں نہ دیکھوں۔(ابو داود)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس ہوتے تو پھر اسی دعا کو پڑھتے اور اس دعا کے آکر میں یہ الفاظ بڑھاتے: آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ۔(مشکوٰۃ المصابیح)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ اترتے تو یہ دعا پڑھتے:
یَا اَرْضُ رَبِّی وَرَبُّکِ للّٰہُ۔اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ شَرِّکَ وَشَرِّ مَا فِیْکِ وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِیْکِ وَشَرِّ مَا یَدُّبُ عَلَیْکِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَسَدٍ وَاَسْودَوَمِنَ الْحَیَّۃِ وَالْعَقْرَبِ وَمِنْ سَاکِنِی الْبَلَدِ وَوَالِدٍوَّمَاوَلَدُ(جمع الفوائد)
اے زمین میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔میں تیری برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو تیرے اندر ہے اور ان چیزوں کی برائی سے جو تیرے اندر پیدا کی گئی ہیں اور اس چیز کی برائی سے جو تجھ پر چلتی ہیں پناہ مانگتا ہوں۔اے اللہ! میں شیر،سانپ، بچھو اور اس گاؤں کے رہنے والوں اور آدمیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے گھر واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھتے پھر گھر تشریف لے جاتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب آدمیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک دم آتے ہی گھر میں نہ چلے جایا کریں بلکہ کچھ ٹھہر کر گھر میں جائیں تاکہ عورتیں اطمینان کے ساتھ سامان درست کر لیں۔(ابوداود)
صبح و شام کی دعا: حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو بندہ ہر صبح اور ہر شام میں تین تین دفعہ یہ دعا پڑھے کہ:
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّمَعَ اِسْمِہٖ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ السَّمَاءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
اللہ کے نام سے جس کے نام کے ساتھ نہ زمین کی کوئی چیز نقصان پہنچا سکتی ہے،نہ آسمان کی،وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس کو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔“(ترمذی)
گھر سے نکلنے کے وقت کی دعا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو آدمی گھر سے نکلتے وقت یہ کہے:
بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔
اللہ کے نام سے میں نے اللہ پر توکل اور بھروسہ کیا،نہ پھرنا ہے نہ طاقت،مگر اللہ کے حکم سے۔
اس آدمی کو (اللہ کی طرف سے)کہا جاتا ہے کہ میں نے تیری کفایت کی اور تجھے (تیرے دشمنوں سے) بچایا اور اس سے شیطان علیحدہ ہو جاتا ہے۔“(ترمذی)
رخصت کرنے کے وقت کی دعا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو رخصت کرتے تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ خود اپنا ہاتھ نہ چھڑاتا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَاٰخِرَعَمَلَکَ۔(ترمذی)
میں تمہارے دین تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔
آندھی اور بجلی کے کڑکنے کے وقت کی دعا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب آندھی کے آثار دیکھتے تو فرماتے(ترمذی):
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئِلُکَ مِنْ خَیْرِھَا وَخَیْرِ مَا فِیْھَا وَخَیْرِ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ ھَا وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ۔
اے اللہ! میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی اور یہ جس کے ساتھ بھیجی گئی ہے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کی برائی سے اور اس میں جو کچھ ہے اس کی برائی سے اور جس کے ساتھ ہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل کی کڑک اور بجلی کی آواز سنتے تو فرماتے(ترمذی):
اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَالِکَ۔
اے اللہ! تو ہمیں اپنے عذاب سے قتل نہ کر اور ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک نہ کر اور اس سے پہلے ہی ہمیں عافیت دے۔

چاند کے دیکھنے کے وقت کی دعا:حضرت طلحہ بن عبید اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب نیاچاند دیکھتے تو فرماتے:
اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسَّلَامِ رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ۔(ترمذی)
اے اللہ! اس(چاند) کو ہم پر برکت ایمان،سلامتی اور اسلام کے ساتھ شروع کر، میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔
بیت الخلاء جانے کا طریقہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو کسی ایسی دور جگہ پر جاتے جہاں آدمیوں کا گزر نہ ہواور کوئی نہ دیکھ سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے وقت قبلے کا سامنا کرنے اور قبلے کی طرف پیٹھ کرنے سے منع فرمایا اور پیشاب پاخانہ کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات چیت کرنے سے اور سایہ دار درختوں، راستوں اور سوراخ میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے بھی منع فرمایا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
بیت الخلاء جانے اور آنے کی دعائیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جانے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا پڑھتے():
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَاءِثِ۔
خدایا! میں برائی اور بری چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذیٰ وَعَافَانِیْ۔()
شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھ سے اذیت کو دور کیا اور مجھے اس سے پاک کر دیا۔
استنجا:چونکہ فُضلہ انسان کے جسم سے نکلتا ہے اور نجاست جسم میں لگ جانے سے فطرتاً طبیعت کراہت کرتی ہے۔اس کو دور کرنے کے لئے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے استنجے کا حکم دیا ہے تا کہ طبیعت کو سکون اور ظاہری اور باطنی پاکی حاصل ہوجائے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے طہارت اور پاکی کی بے حد تعریف فرمائی ہے اور پاکی کا خیال نہ رکھنے والوں کو وعید فرمائی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ارشاد فرمایا:”پاکی ایمان کا نصف حصہ ہے۔“
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:”پاکی ایمان کا بڑا حصہ ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے اور فرمایا کہ:”یہ دونوں قبر والے عذاب میں مبتلا ہیں اور کسی ایسی چیز پر عذاب نہیں دیا جا رہا کہ جس سے ان کے لئے بچنا مشکل تھا۔ایک کو ان میں سے اس لئے عذاب دیا جارہا ہے کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرے کو اس لئے عذاب دیا جا رہا ہے کہ وہ لوگوں کے پاس چغلیاں لگاتا تھا۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
اسی لئے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے استنجے میں ان تدبیروں کے اختیار کرنے کا حکم فرمایا جن سے نجاست کا بالکل شائبہ بھی نہ رہے اور پورے طور پر پاکی و صفائی حاصل ہو جائے اور نجاست کو ہاتھ سے دور کرنے میں کسی قسم کی کراہت بھی نہ ہو اور جسم پر نجاست دور کرتے ہوئے پھیلنے بھی نہ پائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے جائے تو تین ڈھیلے لے جائے اور ان سے پاکی حاصل کرے (یاجتنوں سے پاکی حاصل ہو سکے)۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے،میں آپ کے لئے پانی کسی بر تن میں لاتا،آپ آبدست فرماتے،پھر آپ اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑتے،پھر میں دوسرا پانی کا برتن لاتا،اس سے آپ وضو فرماتے۔(جمع ا لفوائد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے کھاتے پیتے اور سب اچھے کام کرتے اور بائیں ہاتھ سے استنجا وغیرہ کرتے تھے۔(جمع الفوائد)
چھینکنے کا طریقہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھینکتے وقت اپنے ہاتھ یا اپنے کپڑے کو منہ پر رکھ لیتے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے وہ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہتے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی چھینکنے کے بعد اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہے تو سننے والے کو چاہئے کہ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کو بند کرے،اس لئے کہ شیطان منہ میں داخل ہوتا ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
سیدھے ہاتھ سے کام: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اچھے کاموں کو سیدھے ہاتھ سے کرتے تھے،مثلاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تو سیدھے ہاتھ سے کھاتے تھے،پانی پیتے تو سیدھے ہاتھ سے پیتے تھے،کسی کو کچھ دیتے تو سیدھے ہاتھ سے دیتے،اس قسم کے جتنے اچھے کام ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے کرتے تھے۔یہاں تک کہ قدموں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے اور بائیں کا خیال رکھتے۔جوتا پہنتے تو سیدھے پیر میں پہنتے،مسجد میں داخل ہوتے تو پہلے سیدھا پیر رکھتے۔اپنے ہر کام کو سیدھی ہی جانب سے شروع کرتے۔مجلس میں اگر کچھ بانٹتے تو سیدھی جانب سے شروع کرتے، کنگھا کرتے تو پہلے سیدھی طرف کرتے،وضو کرتے تو پہلے سیدھی طرف کے اعضاء دھوتے پھر بائیں طرف کے۔
گھر کے متعلق بعض ہدایتیں: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب شام ہو جائے تو اپنے لڑکوں کو باہر نکلنے سے روک دوکیونکہ شیاطین زمین پر پھیل جاتے ہیں۔جب کچھ رات گزر جائے تو ان کو چھوڑ دو اور بسم اللہ پڑھ کر دروازوں کو بند کر دو،کیونکہ شیطان بند دروازوں کو نہیں کھولتا اور مشکیزوں کو بسم اللہ پڑھ کرباندھ دو اور اپنے (پانی اور کھانے وغیرہ کے) برتنوں کو بسم اللہ کہہ کر ڈھک دو اگر چہ آڑا ہی ڈھکو اور سوتے وقت چراغ کو بجھا دو۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم سوؤ تو آگ بجھا دیا کرو،اس لئے کہ آگ تمہاری دشمن ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم کتے اور گدھے کی آواز سنو تو اَعُوْذُ بِااللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ پڑھو، اس لئے کہ وہ ان بلاؤں کو دیکھتے ہیں جن کو تم نہیں دیکھتے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ کا فضل طلب کرو کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھتا ہے اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو اَعُوْذُ بِااللّٰہِ پڑھو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھا ہے۔(ترمذی)
خوشی منانے کا طریقہ: خوشی اور مسرت کے موقع پر انسان کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے اور خوشی کے منانے میں ان طریقوں سے بچنا چاہئے جو شریعت اور اسلام کے خلاف ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب آپ کو کوئی خوشی کی بات پیش آتی تو آپ فوراً شکر کا سجدہ کرتے۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
شادی بیاہ کے موقع پر اپنے دوستوں،رشتہ داروں کی دعوت کرنے کو ولیمہ کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی ولیمہ کیا ہے اور دوسروں کو بھی ایسے موقع پر اس کا حکم دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر انسان سے ایسے موقع پر زیادہ نہ ہو سکے تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو ایک بکرا ہی ذبح کر کے کھلا دے۔“(صحیح بخاری)
دولہا دلہن کے دیکھنے کے وقت کی دعا: عربوں میں رواج تھا کہ جب وہ پہلی مرتبہ دولہا دلہن کو دیکھتے تو اپنے طریقے پر ان کے لئے آرام اور راحت اور لڑکا پیدا ہونے کے لئے دعا کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جگہ ایسے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ دعا سکھائی:
بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ وَجَمَعَ بَیْنَکُمَا فِی خَیْرٍ۔(ابو داؤد)
اللہ تمہارے لئے اس شادی کو مبارک کرے اور تم پر اپنی برکت اتارے اور تم دونوں میں بھلائی میں میل ملاپ رکھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے موقع پر دوستوں اور رشتہ داروں کو دولہا اور دلہن کے لئے تحفہ بھیجنے کا بھی حکم دیا ہے(بشرطیکہ عزیزوں اور رشتہ داروں میں اسکی مقدرت ہو)۔(نسائی)
غمی منانے کا طریقہ: رنج و غم کے موقع پر بھی انسان کو صبر و شکر سے کام لینا چاہئے اور کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نا پسند ہو۔کسی عزیز یا رشتے دار یا دوست کے مرنے پر بال نوچنے،چھاتی کوٹنے،گالوں پر طمانچے مارنے اور برے برے الفاظ منہ سے نکالنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو آدمی گریبان پھاڑتا ہے، گالوں پر طمانچے مارتا ہے،چیختا اور چلاتا ہے،نوحہ اور بین کرتا ہے وہ میری امت میں سے نہیں۔(ترمذی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی،جب ان کے شہید ہونے کی خبر آئی تو ان کے گھر کی عورتوں نے نوحہ و بین کرنا شروع کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہلا کر بھیجا کہ وہ ایسا نہ کریں،مگر وہ نہ رکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ ان کو کہلا کر بھیجا،مگر وہ پھر بھی نہ رکیں،تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے منہ میں مٹی بھر دو۔(صحیح بخاری)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ابراہیم ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں لیکن ہماری زبان سے وہی نکلے گا جو خدا کی مرضی ہے۔“ (صحیح مسلم)
کسی مسلمان کے گھر میں اگر موت ہو جائے تو اس کے رشتے داروں،دوستوں،پڑوسیوں یا محلے والوں کو ہمدردی کے طور پر چاہئے کہ اس کے گھر کھانا بجھوائیں کیوں کہ مرنے والے کے گھر میں رنج و غم کی وجہ سے کھانا پکانا مشکل ہوتا ہے۔
حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے جب شہادت پائی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر والوں کو کھانا بجھوایا اور فرمایاکہ یہ کھانا ان کے یہاں دے آؤ،اس لئے کہ آج ان کے گھر کے لوگوں کو کھانا پکانا مشکل ہوگا۔(ابو داؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی عزیز یا رشتے دار کا غم تین دن سے زیادہ کرے،لیکن بیوی کو اپنے شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرنا چاہئے جس میں اسے نہ رنگین کپڑے پہننے چاہئیں،نہ خوشبو لگانا چاہئے،نہ بناؤ سنگھار کرنا چاہئے۔“(ترمذی)
رسول پاک ﷺ کے کھانے پینے کے آداب
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اکثر فاقہ رہتا،کئی کئی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں پر بغیر کھائے گزر جاتے،کبھی کبھی بھوک کی زیادتی کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت آتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں ایک ایک مہینے تک آگ نہیں جلتی تھی۔ صرف کھجور اور پانی پر سارے گھر کا گزارا ہوتا تھا۔(صحیح بخاری)
حضرت مسروق رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے میرے لئے کھانا منگوایااور فرمانے لگیں کہ میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتی کہ مجھے رونا نہ آتا ہو۔میں نے پوچھا کہ آپ کو کیوں رونا آتا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یاد آجاتی ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی،کبھی ایسا نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن میں دو مرتبہ گوشت روٹی کھانے کی نوبت آئی ہو۔(ترمذی)
کھانے کا طریقہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کھانا شروع کرنے سے پہلے اپنے ہاتھ دھوتے،کھاتے وقت تکیہ لگا کر نہ بیٹھتے تھے،جو کھانا آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا جاتا اس میں نقص و خرابی نہ نکالتے،کھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ پڑھ کر شروع کرتے اور ہمیشہ اپنے سامنے سے کھاتے تھے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا برکت کا سبب ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت عمر بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا رکھا ہوا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بیٹا! قریب ہو جاؤ،بسم اللہ کہہ کر اپنے سیدھے ہاتھ اور اپنے قریب سے کھانا شروع کرو۔“(ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم چھ آدمیوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک گاؤں والا آیا اور کھانے میں شامل ہوگیا، اس نے دو ہی لقموں میں سارا کھانا ختم کر دیا،جس کی وجہ سے سب لوگ بھوکے رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر یہ آدمی بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرتا تو یہ کھانا سب کو کافی ہو جاتا۔“(جمع الفوائد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر کو ئی آدمی کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو کھاتے ہوئے جب اسے یاد آئے تو بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ اَوَّلِہٖ وَآخِرِہٖ کہہ لے۔“(جمع الفوائد)
حضر ت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں (یعنی انگوٹھا،شہادت کی انگلی اور اس کے بعد کی انگلی) سے کھاتے تھے اور کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ لیتے تھے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکیہ لگا کر کھاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ٹیک لگا کر کھانا نہ کھاؤ۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
کھانا کھانے کے بعد کی دعا: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانا ختم کر چکتے تو یہ دعا پڑھتے:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔(جمع الفوائد)
سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پلایا اور مسلمان بنایا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے جب دسترخوان بڑھایا جاتا تو یہ دعا پڑھتے:(مشکوٰۃ المصابیح)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْداً کَثیْراً طَیِّباً مَبَارَکاً فِیْہِ غَیْرَ مَکْفِیِّ وَلَا مُوَدَّعِِ وَلَا مُسْتَغْنِیٍ عَنْہُ رَبَّنَا۔
سب تعریف اللہ کے لئے ہے،ایسی تعریف جس کی کوئی انتہا نہیں اور ریا وغیرہ اوصاف رذیلہ سے پاک اور مبارک ہے، ایسی حمد نہ چھوڑی جا سکتی ہے نہ اس سے استغنا کیا جا سکتا ہے۔
(اے اللہ ہمارے شکر کو قبول فرما)
پینے کا طریقہ: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھنڈا پانی بہت پسند تھا۔جب آپ پانی پیتے تو سیدھے ہاتھ سے پیتے اور تین سانس میں پیتے تھے۔ پانی ہمیشہ بیٹھ کر پیتے تھے۔مگر وضو کے بچے ہوئے پانی اور زمزم کے پانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پینے کی چیزوں میں میٹھی اور ٹھنڈی چیز پسند تھی۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کے پانی کو کھڑے ہو کر پیا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب کو ئی تم میں سے کھائے تو سیدھے ہاتھ سے کھائے اور جب پیئے تو سیدھے ہاتھ سے پیئے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پانی پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے اس طریقے سے پانی پینے میں جی بھر جاتا ہے اور مزا بھی آتا ہے۔ (جمع الفوائد)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب کوئی تم میں سے پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے(بلکہ برتن کے باہر لے)۔“(جمع الفوائد)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایک ہی سانس میں پانی نہ پیا کروجس طرح اونٹ پیتے ہیں،بلکہ دو تین بار کر کے پیو اور جب پیو تو خدا کا نام لو (یعنی بسم اللہ کہو) اور جب برتن منہ کے پاس سے ہٹاؤ تو اللہ کی حمد کرو۔(مشکوٰۃ المصابیح)
پسندیدہ کھانے: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض کھانے بہت پسند تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سرکہ کیسا اچھا کھانا ہے۔“(شمائل ترمذی)
حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”زیتون کا تیل کھانے میں بھی استعمال کرو اور مالش میں بھی کیونکہ وہ ایک بابرکت درخت کا تیل ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد اور مٹھائی بہت پسند تھی۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بے حد پسند تھا۔(شمائل ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پٹھ کا گوشت بہترین گوشت ہے۔“(شمائل ترمذی)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی بڑائی سب عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید(ثرید شوربے میں بھیگے ہوئے ٹکڑوں کو کہتے ہیں)سب کھانوں سے بڑھا ہوا ہے۔“(شمائل ترمذی)
حضرت یوسف بن عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روٹی کا ٹکڑا لے کر کھجور رکھی اور فرمایا:”یہ اس کا سالن ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
ایک دفعہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدا للہ بن جعفر رضی اللہ عنہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں وہ کھانا کھلایئے جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب وہ کھانا تم کو مزے کا نہیں لگے گا وہ تو کچھ تنگدستی میں ہی مزہ دیتا ہے۔ان سب نے کہا نہیں ضرور ہمیں آپ وہ کھانا کھلایئے۔حضرت ام سلمہ اٹھیں اور انہوں نے تھوڑے سے جَو دَل کر ہانڈی میں ڈالے اور اس پر کچھ مرچیں،زیتون کا تیل،مسالہ وغیرہ پیس کر ڈالا اور پکا کر ان کے سامنے لا کر رکھا اور ان سے کہا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کھانا پسند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو رغبت سے کھا لیتے تھے۔(شمائل ترمذی)
ناپسندیدہ کھانے: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کچی پیاز اور لہسن نہیں کھاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاز اور لہسن کی بو نا پسند تھی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو آدمی کچی پیاز اور لہسن کھائے وہ ہماری مسجدوں سے دور رہے۔(جب تک منہ کو صاف نہ کر لے)(مشکوٰۃ المصابیح)
دسترخوان: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم دسترخوان پر نیچے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے کیونکہ اس طریقے پر کھانے میں انکسار و خاکساری زیادہ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا نہ کبھی چھوٹی پیالیوں اور طشتریوں میں کھایا اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میدے کی چپاتی پکائی گئی۔کسی نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا پھر کس چیز پر کھانا کھاتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ دسترخوان پر۔(جمع الفوائد)
پھل: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی قسم کے پھل کھائے ہیں۔بعض پھل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی نیا پھل آتا تو یہ دعا پڑھتے:
اَلَلّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ اَثْمَارِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَدِیْنَتِنَا وَبَارِکْ فِیْ صَاعِنَا وَفِیْ مُدِّنَا اَلَلّٰھُمَّ اِنَّ اِبْراَھِیْمَ عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ وَاِنِّیْ عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ وَاِنَّہُ اَدْعَاکَ لِمَکَّۃَ وَاِنِّیْ اَدْعُوَکَ لِلْمَدِیْنَۃِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِہٖ لِمَکَّۃُ وَمِثْلَہُ مَعَہُ۔
اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرمااور ہمارے شہر میں برکت عطا فرما اور ہماری اس چیز میں برکت عطا فرما جو صاع اور مُدسے ناپی جاتی ہے۔اے اللہ!بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور بے شک میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں،انہوں نے مکہ مکرمہ کے لئے جن چیزوں کی دعا کی ہے وہی دعا اور اس سے دوگنی میں مدینہ منورہ کے لئے کرتا ہوں۔
پھر جو کوئی چھوٹا بچہ دکھائی دیتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پھل اس کو دیتے۔(شمائل ترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تربوز کو تر کھجوروں کے ساتھ کھاتے تھے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ربیع رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک طبق کھجوروں اور چھوٹی چھوٹی روئیں دار ککڑیوں کا لے کر گئی،رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ککڑی بہت پسند تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مٹھی بھر سونا دیا۔(شمائل ترمذی)
کھانے کے متعلق بعض ہدایتیں:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بھوکا سونے سے منع کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رات کو بھوکا سونا بڑھاپے کی علامت ہے۔(رحمت اللعالمین)
اسی طرح کھانا کھاتے ہی سو جانے سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔(رحمت اللعالمین)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کم کھانے کی ہدایت کرتے،فرمایا کرتے کہ معدے کا ایک حصہ کھانے کے لئے،ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ خود معدے کے لئے چھوڑنا چاہئے۔(رحمت اللعالمین)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھلوں اور ترکاریوں کا استعمال ان کی مصلح چیزوں کے ساتھ کرتے تھے۔(رحمت اللعالمین)

اخلاق
اخلاق نام ہے اچھی عادتوں،عمدہ خصلتوں کا،اخلاق کی تعلیم کے دو طریقے ہیں،ایک تو یہ کہ کسی کو نصیحت کی جائے اور کہا جائے کہ ایسا کرو اور اس طرح نہ کرو،یہ چیز تمہارے لئے مفید ہے اور فلاں بات تم کو نقصان پہنچانے والی ہے،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نمونہ اور مثال بن کر لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا جائے، یہ طریقہ پہلے سے زیادہ مفید اور اثر ڈالنے والا ہے،چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں طریقوں سے کام لیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمان اور عمل کے وہ نمونے پیش فرمائے ہیں کہ جن سے ہم اپنی آخرت اور دنیا دونوں سنوار سکتے ہیں۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان قرآن شریف میں اس طرح بیان کی گئی:
لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔
بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے اچھے نمونے ہیں۔
ایک صحابی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے اس میں سے سب سے اچھی چیز کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اچھی عادتیں۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حیاء: حیاء و شرم بھی مسلمان کا ایک بڑا وصف اور ایمان کی نشانی ہے،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حیاء اور ایمان دونوں چیزیں ملی ہوئی ہیں جب ان میں سے ایک کو اٹھایا جاتا ہے تو دوسری خود بخود اٹھ جاتی ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شرم و حیاء میں ان کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھے ہوئے تھے جو پردے میں رہتی ہیں،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات بری معلوم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبان سے کچھ نہیں فرماتے بلکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے یہ اندازہ کر لیتے کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلی نہیں معلوم ہوئی۔(شمائل ترمذی)
پاک دامنی:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے صرف زبانی اقرار لے کر بیعت کرتے تھے، ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں نہ لیتے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی ایسی عورت کو چھواجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں نہ ہو۔(صحیح بخاری)
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں دوسری کئی عورتوں کے ساتھ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اقرار لیا کہ شرک،چوری،زنا،بہتان تراشی،افتراپردازی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچیں گے،جب ہم یہ اقرار کر چکے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تشریف لائیے تا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر یں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا،صرف زبانی اقرار کافی ہے۔“(نسائی)
بہادری: بہادری اور دلیری بھی آدمی کا بڑا جوہر ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ بہادر اور دلیر تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ بدر کے میدان میں جب گھمسان کی لڑائی ہوئی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی آڑ میں آکر پناہ لیتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ بہادر تھے، دشمنوں کی جماعت سے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی قریب نہ تھا۔(مسند ابن حنبل)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم میں سے سب سے بڑا بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو لڑائی میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔(صحیح مسلم)
مردانہ ورزشوں اور نشانہ بازی کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو شوق دلاتے تھے،نشانہ بازی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا کرتے۔
رُکَانَہ عرب کا ایک مشہور اور بہادر پہلوان تھا، وہ کہتا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پچھاڑ دیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا،رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین دفعہ پچھاڑا۔(رحمت اللعالمین)
ایک دفعہ لوگ دو جماعتیں بنا کر نشانہ بازی کی مشق کر رہے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیر چلاؤ میں اس جماعت کے ساتھ ہونگا“،یہ سن کر دوسری جماعت کے لوگوں نے کہا جب اس جماعت میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہیں تو ہم اس جماعت کے مقابلے میں کیسے تیر چلا سکتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تیر چلاؤ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔“(صحیح بخاری)
اکثر گھوڑ دوڑ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کرائی جاتی تھی، لمبی دوڑ پانچ یا چھ میل کی اور ہلکی دوڑ ایک میل کی ہوتی تھی۔(صحیح بخاری)
تواضع:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غرور اور تکبر سے نفرت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماروں کی مزاج پرسی کرتے،جنازوں میں شرکت فرماتے،غلاموں کی دعوت فرماتے اور اپنے سارے کام خود ہی کر لیتے تھے،مسکینوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کے ساتھ کھانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپرہیز نہ تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا،وہ جنت میں (اولین دہلے) میں نہ جا سکے گا۔“(جمع الفوائد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے۔ (صحیح بخاری)
شفقت: حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مخلوق پر بے حد شفقت اور مہربانی فرماتے تھے۔ یتیموں،غلاموں،بیواؤں،بچوں،بوڑھوں یہاں تک کہ حیوانات کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمدردی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں،قرآن شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَوٗ فُ وَرَحِیْم کہا گیا ہے جس کے معنی بہت ہی مہربان اور بہت ہی رحیم کے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس تک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی کبھی کسی بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ یہ کام تم نے کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا۔ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی:”الٰہی!انس کو مال بھی دے اور اولاد بھی بہت دے اور جو کچھ بھی انہیں دیا جائے اس میں ان کو برکت بھی دے۔“(صحیح بخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی معاملے میں کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا،مگر جب کوئی خدا کے احکام کے خلاف کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سزا دیتے تھے۔(صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ:”میں نماز شروع کرتا ہوں اور ارادہ ہوتا ہے کہ دیر میں ختم کروں گا مگر صف میں کسی بچے کی رونے کی آواز آتی ہے،مختصر کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کو تکلیف ہوتی ہوگی۔“(صحیح بخاری)
فتح مکہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ضعیف،نابینا والد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام پر بیعت کرانے کے لئے لائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:”تم نے ان کو اس بڑھاپے میں کیوں تکلیف دی،میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔“(رحمت اللعالمین)
ایک دفعہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ پیچھے سے آواز آئی:”جس قدر تم کو اس غلام پر اختیار ہے،خدا کو اس سے بہت زیادہ تم پر اختیار ہے۔“انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ پر اس نصیحت کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے پھر کبھی کسی غلام کو نہیں مارا۔(جامع ترمذی)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے اور تیر کا نشانہ بنانے سے بالکل منع فرما دیا تھا۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ راستے میں ایک اونٹ دیکھا کہ جس کی پیٹھ اور پیٹ بھوک کی زیادتی کی وجہ سے ایک ہو گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ان بے زبانوں کے حق میں خدا سے ڈرو۔“(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
مساوات:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا برتاؤ امیر،غریب،چھوٹے بڑے،غلام اورآقا سب کے ساتھ برابر تھا، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ،حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ جو ایک زمانے میں غلام رہ چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ کسی طرح قریش کے بڑے سرداروں سے کم رتبہ نہ تھے۔

مدینہ منورہ میں جب مسجد بنائی جا رہی تھی تو اس مسجد کی تعمیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح شریک تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ہاتھ سے اینٹ پتھر اٹھا کر لاتے تھے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا ہمارے ماں باپ اور ہماری جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف نہ فرمائیں،ہم سب یہ کام کر لیں گے،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ مانے اور سب کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کام کرنے والوں میں تھے۔(صحیح بخاری)
ایک سفر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کھانا پکانے کاانتظام کیا اور ہر ایک نے ایک ایک کام بانٹ لیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذمہ جنگل سے لکڑی لانے کا کام لیا،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا،ہم سب کام کر لیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف نہ فرمایئے،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا اور فرمایا:”مجھے یہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ میں تم میں اور اپنے میں کوئی فرق کروں۔“(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے بارے میں فرمایا:”یہ تمہارے بھائی ہیں،جو تم خود کھاتے ہو ان کو بھی کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو ان کو بھی پہناؤ اور ان کو اتنا کام نہ دے دو،جو ان پر بھاری ہو جائے اور اگر کوئی ان کو بھاری کام دے تو اس کو چاہئے کہ اس کام میں خود بھی شریک ہو کر اس کی مدد کرے۔“(صحیح بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتاؤ میں امیر و غریب کا امتیاز کبھی نہ کرتے تھے بلکہ غریبوں اور مسکینوں کے حال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ زیادہ تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ ہمدردی فرماتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اَلَلّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً وَاُمِتْنِیْ مِسْکِیْناً وَاحْشَرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃٍ الْمَسَاکِیْنَ۔
اے اللہ! مجھے مسکین زندہ رکھ،مسکین دنیا سے اٹھا اور مسکینوں کی جماعت میں حشر فرما۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیوں؟تو فرمایا:”اس لئے کہ مسکین مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔“پھر فرمایا:”اے عائشہ(رضی اللہ عنہا)کسی مسکین کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ چاہے تم ان کو چھوارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دو۔اے عائشہ(رضی اللہ عنہا)غریبوں سے محبت رکھو اور ان کو اپنے نزدیک کرو، خدا بھی تم کو اپنے نزدیک کرے گا۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں نے جنت کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا،اس میں غریب و مسکین ہی لوگ زیادہ ہیں۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
عورتیں دنیا میں ہمیشہ ذلیل سمجھی جاتی تھیں مگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حقوق دیئے اور عزت و منزلت میں ان کو مردوں کے برابر جگہ دی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے ہم عورتوں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے،اسلام آیا تو اس نے ان کے متعلق احکام دیئے اور ان کے حق مقرر فرمائے۔(صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چونکہ مردوں کا ہجوم رہتا تھا،عورتوں کو وعظ و نصیحت اور مسئلے مسائل پوچھنے کا موقع نہ ملتا تھا،عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ایک دن ہمارے لئے وعظ و نصیحت اور مسئلے مسائل کے پوچھنے کا مقرر کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو قبول فرما لیا اور ان کے لئے وعظ ونصیحت کا ایک دن مقرر فرما دیا۔(صحیح بخاری)
خدا کا خوف:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے خوف سے اتنا روتے کہ روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں،جب کبھی زور سے ہوا چلتی یا آندھی آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہم جاتے اور سب کام چھوڑ کر قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھ جاتے اور فرماتے:”اے خدا!تیری بھیجی ہوئی مصیبت سے پناہ مانگتا ہوں۔“جب آسمان صاف ہو جاتا اور پانی برس جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔(سنن ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن شنحیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں۔(ترمذی)
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے،قبر کھودی جارہی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، قبر کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی، پھر لوگوں سے فرمایا:”اس دن کے لئے سامان کر رکھو۔“ (سنن ابن ماجہ)
معاشرت
ماں باپ،بہن بھائی،میاں بیوی،آل اولاد،دوست احباب،آس پڑوس اور محلہ و شہر کے لوگوں کے ساتھ آپس میں ملنے جلنے اٹھنے بیٹھنے اور تعلقات قائم رکھنے اور مناسب برتاؤ کرنے کا نام معاشرت ہے۔
وہ تعلیم جو اس سلسلے میں ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی،مختصر طور پر یہاں درج کی جاتی ہے۔
ماں باپ کی خدمت: ماں باپ کی عزت،ان کی خدمت اور ان کے احکام کی پیروی کرنا اولاد کا سب سے بڑا فرض ہے۔
ہمارے مولیٰ، ہمارے آقا، سارے عالم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے وفات پائی۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف چھ برس کی تھی اس دنیا سے سدھاریں۔(سیرت ابن ہشام)
اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد اور والدہ کی خدمت کا موقع نہیں ملا،لیکن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ماں باپ کی محبت، ان کی خدمت اور ان کی اطاعت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔
حضرت ابن طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام جعرانہ میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوشت تقسیم فرما رہے ہیں،اتنے میں ایک بی بی آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ان کے لئے اپنی چادر بچھا دی، میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں (حضرت حلیمہ سعدیہ) ہیں،جنہوں نے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف رکھتے تھے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ ذلیل ہوا،وہ ذلیل ہوا،وہ ذلیل ہوا۔“صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ ارشاد فرمایا:”جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر(ان کی خدمت کرکے) جنت نہ حاصل کر لی۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک مجلس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ تمام کاموں میں خدا کو ہمارا کون سا کام پسند آتا ہے؟ فرمایا:”وقت پر نماز پڑھنا۔“عرض کیا پھر کونسا؟ فرمایا:”ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا۔“صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا پھر کونسا؟ ارشاد فرمایا:”خدا کی راہ میں محنت اٹھانا۔“(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
ایک موقع پر ارشاد فرمایا:”رب کی خوشنودی ماں باپ کی خوشنودی میں ہے اور رب کا غصہ ماں باپ کی ناراضی میں ہے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے اچھے برتاؤ کا مستحق کون ہے؟ فرمایا:”تمہاری ماں۔“ پوچھا پھر کون؟ فرمایا:”تمہاری ماں۔“ فرمایا پھر کون؟فرمایا:”تمہاری ماں۔“ پوچھا پھر کون؟فرمایا:”تمہاری باپ۔اس کے بعد جو ان سے قریب ہے،پھر جو ان سے قریب۔“ (یعنی قریبی رشتہ دار)(مشکوٰۃ المصابیح)
اولاد کے حقوق:اولاد کا سب سے بڑا حق ماں باپ پر یہ ہے کہ وہ اس سے محبت رکھیں، اپنی اولاد کو بہترین تعلیم دیں اور اپنے بچوں کو نیک اور سعادت مند بنانے کی کوشش کریں۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی سیدہ عالم حضرت فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہاسے بے حد محبت رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہترین تعلیم و تربیت فرمائی۔
اقرع بن حابس ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو پیار کر رہے ہیں،انہیں یہ بات نئی اور عجیب معلوم ہوئی،انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا آپ بچوں کو پیار کرتے ہیں؟میرے بھی دس بچے ہیں مگر میں نے ان کو کبھی پیار نہیں کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا:”اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم و شفقت کو نکال لیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔“ (صحیح بخاری)
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)

ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”باپ کا اپنے بچے کو کوئی ادب سکھانا،ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
بچپن کے زمانے میں ایک دفعہ سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے صدقے کی کھجوروں میں سے ایک کھجورمنہ میں ڈال لی۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بیٹا!تھوک دو،کیا تمہیں خبر نہیں کہ ہمارا خاندان صدقہ نہیں کھاتا،پھر اس کھجور کو منہ سے اگلوا دیا۔“ (صحیح بخاری)
میاں بیوی کے حقوق:میاں بیوی کی صلح صفائی اور ایک دوسرے کا پاس و لحاظ کرنے پر سارے گھر کی راحت و آرام کا دارومدار ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو بہترین سلوک اپنی بیویوں کے ساتھ تھا اس کے متعلق حالات اس کتاب میں ”رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات“کے سلسلے میں آگے آرہے ہیں، یہاں مختصر طور پر اس تعلیم کا ذکر کرنا مقصود ہے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے حقوق کے بارے میں ہم کو دی۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لئے سب سے بہتر ہے اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنی بیویوں کے ساتھ بہتر ہوں۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا تھا،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے حقوق کو بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا:
”لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو، خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا ہے اور خدا کے کلام سے ان کا جسم تمہارے لئے حلال ہوا،تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں، اس حق میں اگر وہ کوتاہی کریں تو تم ان کو اس حد تک مارو کہ جسم پر اس کا اثر ظاہر نہ ہو۔
عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ اور اچھی طرح پہناؤ۔“
ایک دفعہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیوی کا حق اس کے شوہر کے ذمے کیا ہے؟ فرمایا:”جب خود کھائے تو اس کو کھلائے، جب خود پہنے تو اس کو پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اس کی سزا کے لئے اس کو گھر سے علیحدہ کرے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی آدمی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی بیوی میں کسی ایک برائی کو دیکھ کر نفرت کرنے لگے۔ممکن ہے کہ اس میں دوسری ایسی خوبیاں ہوں کہ جن سے وہ راضی ہو جائے۔“(مشکوٰۃ المصابیح)
ایک صحابی رضی اللہ عنہ بہت عبادت گزار تھے، وہ اپنی عبادتوں اور ریاضتوں میں اس قدر مشغول رہتے کہ اپنی بیوی کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا:
لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقٌ۔(صحیح بخاری)
اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے۔
اسی طرح عورتوں کو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تقویٰ و پرہیزگاری کے بعد ایک مسلمان کے لئے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، بہترین عورت وہ ہے کہ جب شوہر اس کو کوئی حکم دے تو وہ فوراً مان لے اور جب شوہر اس کو دیکھے تو خوش ہو جائے اور اگر شوہر اس کو قسم دے کر کچھ کہے تو وہ اس کی قسم پوری کر دے اور جب شوہر گھر پر موجود نہ ہو تو وہ اپنی(یعنی عصمت و آبرو کی) اور اپنے شوہر کے مال کی پوری حفاظت کرے۔“ (جمع الفوائد)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر میں خدا کے سوا کسی اور کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ُُ (لیکن اسلام میں خدا کے سوا کسی اور کو سجدہ جائز نہیں) (مشکوٰۃ المصابیح)
رشتے داروں کے حقوق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنے رشتہ داروں کے حقوق کا لحاظ فرماتے اور دوسروں کو بھی اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے حقوق کے لحاظ رکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کو اپنے خاندان سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خاندان سے تھی۔(مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غصے میں بھرے ہوئے آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:”چچا جان یہ غصہ کس وجہ سے ہے؟“انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو دیکھئے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش خوش ملتے ہیں اور جب ہم ملتے ہیں تو ان کی وہ خوش دلی باقی نہیں رہتی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو چہرہ مبارک غصے سے سرخ ہو گیا اور فرمایا:”خدا کی قسم کسی آدمی کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو تا جب تک کہ وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے محبت نہ کرے۔“پھر فرمایا:”لوگو!جس نے میرے چچا کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس لئے کہ چچا بھی باپ ہی جیسا ہوتا ہے۔“ (ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو آدمی چاہتا ہے کہ اسکی روزی اور عمر میں برکت ہو تو اسے اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔“(صحیح بخاری)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:”رشتے داروں سے اچھاسلوک کرنے سے عزیزوں میں محبت، مال میں زیادتی اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔“ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
پڑوسیوں کے حقوق: ماں باپ اور رشتے داروں کے حقوق کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں اور ہمسایوں کے ساتھ اچھی طرح رہنے اور عمدہ سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:”جبریل(علیہ السلام) نے مجھے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں اتنی تاکید کی کہ میں سمجھا کہ کہیں ان کو ترکے کا حق نہ دلا دیں۔“ (جمع الفوائد)
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا:“خدا کی قسم وہ مومن نہ ہوگا، خدا کی قسم وہ مومن نہ ہوگا۔“صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فرمایا:”وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ رہے۔“ (جمع الفوائد)
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرمائی:”اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ کر لیا کرو اور اس سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلوک کرتے رہو۔“ (جمع الفوائد)
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مومن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
یتیموں کے حقوق: وہ بچہ جس کے سر سے بچپن ہی میں باپ کا سایہ اٹھ جائے اس کو یتیم کہتے ہیں۔ یتیموں کی پرورش کرنا، ان کو پیار کرنا، ان کو تعلیم دلانا اور اور ان کی خدمت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا فرض ٹھہرایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم(محبت سے) یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلاؤ۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یتیم نے ایک آدمی کے مقابلے میں کھجور کے ایک باغ کا دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ یہ باغ میرا ہے لیکن وہ اپنے دعویٰ کو ثابت نہ کر سکا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ باغ اس آدمی کو دلا دیا، یتیم اس پر رونے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر رحم آیا اور اس آدمی سے فرمایا:”تم یہ کھجوروں کا باغ اس بچے کو دے دو خدا تم کو اس کے بدلے میں جنت دے گا۔“ وہ آدمی اس پر راضی نہ ہوا۔ابو الدحداح رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی وہاں موجود تھے، انہوں نے اس آدمی سے کہا کیا تم اپنا کھجوروں کا باغ میرے فلاں باغ سے بدلتے ہو؟ وہ آدمی اس پر تیار ہوگیا،انہوں نے اس کو اپنے باغ سے بدل کر وہ کھجوروں کا باغ اس یتیم کو دے دیا۔“ (استیعاب)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بھلائی کی جارہی ہو اور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
بیوہ کے حقوق: وہ عورتیں جن کے شوہر مر جائیں ان سے ہمدردی،ان کی خدمت اور ان کی امداد کرنا بھی بڑا ثواب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بیبیوں سے شادی کی ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا،حضرت سودہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا،حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا،حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا،حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا،حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیوہ تھیں، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس بیکس طبقے کی ہمدردی فرما کر اس جماعت کے ساتھ نیکی کرنے کو اپنی سنت قرار دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بیوہ اور مسکین کے لئے کوشش کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ خدا کی راہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا (اس روایت کے راوی کہتے ہیں کہ)میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:”(بیوہ اور مسکین کی خدمت کے لئے کوشش کرنے والا ایسا ہے جیسا وہ نمازی جو نماز سے نہیں تھکتا اور وہ روزہ دار جو کبھی روزہ نہیں توڑتا)۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
ضرورت مندوں کی مدد: خدا کے بندوں کی ضرورت پوری کرنا،لوگوں کے وقت پر کام آنا بہت بڑی نیکی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت کا بڑا حصہ خدا کی مخلوق کی خدمت میں صرف کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بیوہ اور مسکین کے ساتھ جا کر ان کا کام کر دینے میں ذرا بھی عار نہ تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینے کی لونڈیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتیں اور کہتیں یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)! میرا یہ کام ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ان کے ساتھ جاتے اور ان کاکام کر یتے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا، خدا اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو اس سے دور کر دے گا۔“ (جمع الفوائد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:”کسی بھولے بھٹکے اور کسی اندھے کو راستہ بتا دینے اور راستے سے پتھر اور کانٹے ہٹا دینے میں بھی تمہارے لئے ثواب ہے۔“ (ترمذی)
مہمانوں کی مدارات: مہمانوں کی خاطر تواضع اور ان کی مدارات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کا ایک جز قرار دیا ہے۔
حضرت ابو شریح العدوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو آدمی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کا جائزہ عزت کے ساتھ دے۔“صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیا ہے؟فرمایا:”(مہمانوں کے ساتھ بہترین سلوک) ایک دن اور ایک رات، اور مہمانی تین دن کی ہے، اس کے بعد مہمان پر صدقہ ہوگا۔“ (جمع الفوائد)
مشکوٰۃ کی اسی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:”کسی مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہرے کہ اسے تکلیف ہونے لگے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو آدمی خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے اور جو شخص خدااور اس قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ یا تو بھلائی کی بات کہے یا چپ رہے اور جو آدمی خدا اور آخرت پر ایمان لایا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے رشتہ داری کے تعلقات جوڑے رکھے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوقات کا ایک لمحہ بھی فضول ضائع نہ کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیتیں مختلف قسم کی تھیں، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا صحیح اعتدال قائم کیا تھا کہ زندگی کے ہر پہلو کو اس کا حق ادا کرتے تھے۔ایک طرف بڑے بڑے کاموں کی طرف توجہ ہے،دوسری طرف چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی پوری دلچسپی سے انجام دیا جا رہا ہے،تیسری طرف ہمسایوں کے، عزیزوں کے،دوستوں کے،بیویوں کے حقوق نہایت خوبی سے ادا کئے جا رہے ہیں،چوتھی طرف اپنے ذاتی حقوق کا بھی لحاظ ہے اور ان سب کے ساتھ خدا کے حقوق ادا کرنے اور رسالت کے فرائض سر انجام دینے میں ذرہ برابر کمی نہیں۔
رات دن کے اوقات:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ فجر کی نماز پڑھ کر جا نماز پر بیٹھ جاتے اور خدا کی عبادت میں مشغول رہتے،جب سورج خوب نکل آتا،اس وقت لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو وعظ و نصیحت فرماتے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھتے اگر تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتاتو بیان کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر دیتے،کبھی کبھی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کوئی خواب دیکھتے تو بیان فرماتے۔اس کے بعد لوگ آپس میں مختلف بات چیت کرتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے،اکثر اسی وقت غنیمت کا مال یا وظیفہ وغیرہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بانٹنا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بانٹتے،جب دن کچھ اور چڑھ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی کبھی چار اور کبھی آٹھ رکعتیں پڑھتے،پھر گھر میں جا کر گھر کے کام کاج میں لگ جاتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سب کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے،بکریوں کا دودھ دوہ لیتے،کپڑے سی لیتے،جوتا ٹانک لیتے،مہمانوں کی خدمت کرتے، اپنے خادم اور اپنے گھر والوں کو کام کاج میں مدد دیتے،بازار سے اپنا اور دوسروں کا سامان خریدتے اور خرید کر اس سامان کو اس کے منگوانے والوں تک پہنچاتے، غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو وقت خدا کی یاد اور تبلیغ دین سے بچتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سارا وقت خدا کی مخلوق کی خدمت میں گزارتے تھے۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
ایک آدمی مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا،اس کا انتقال ہوگیا۔لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر نہ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق لوگوں سے پوچھا،لوگوں نے کہا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم نے مجھے اس کے متعلق کیوں اطلاع نہیں دی؟“ لوگوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی جائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھے اس کی قبر بتاؤ۔“ لوگوں نے اس کی قبر کا پتہ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا س کی قبر پر تشریف لے گئے اور جنازے کی نماز پڑھی،پھر فرمایا:”یہ قبریں اندھیرے سے بھری رہتی ہیں اور خدا ان قبروں کو میری نماز سے روشن کر دیتا ہے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلوں ذمہ داریاں بھی بہت تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سب بیویوں کی زندگی کی ضرورتوں کا پورا انتظام کرنا پڑتا تھا،پھر ہر ایک بیوی کے حقوق، ان کی خدمت،ان کے آرام اور ان کی تربیت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا پورا خیال فرماتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جب اونٹ پر سوار ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ وہ آسانی سے سوار ہوسکیں،اپنا گھٹنا آگے بڑھا دیتے تا کہ وہ اس پر پاؤں رکھ کر آسانی سے سوار ہو جائیں۔
ایک دفعہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا دونوں گر پڑے، یہ دیکھ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نہیں پہلے عورت کی خبر لو۔“ (یہ دونوں روایتیں رحمت اللعالمین بحوالہ صحیح بخاری درج ہیں)
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:”اے عائشہ(رضی اللہ عنہا)! چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچا کرو کیونکہ خدا کے یہاں ان کے متعلق بھی پوچھا جائے گا۔“ (مسند امام احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر بیوی کے یہاں باری باری رہتے تھے یہاں تک کہ سفر و حضر، تندرستی و بیماری میں کبھی اس میں فرق نہ آیا۔
جس بیماری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی،اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عدل و انصاف میں فرق نہ آنے دیا، بیماری کے زمانے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیوی کے یہاں تشریف لے جاتے جس کے یہاں رہنے کا دن ہوتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر روزپوچھتے تھے کہ میں کل کہاں رہونگا،بیبیاں سمجھ گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں رہیں۔ سب بیویوں نے کہا ہماری طرف سے خوشی سے اجازت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس بیوی کے یہاں چاہیں رہیں،اس وقت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

عصر کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر ایک بیوی کے گھر تشریف لے جاتے اور تھوڑی تھوڑی دیر سب کے یہاں ٹھہرتے، مغرب کی نماز کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیوی کے یہاں تشریف لے جاتے جن کے یہاں رہنا ہوتا،وہیں سب بیویاں جمع ہو جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب سے بات چیت کرتے،عشاء کی نماز کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے گھر تشریف لاتے تو پھر کسی سے بات چیت کرنا پسند نہیں فرماتے تھے،سونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پابندی کے ساتھ قرآن شریف کی کوئی سورۃ(سورۃ الزمر،سورۃ حشر،سورۃ تغابن،سورۃ جمعہ،سورۃ بنی اسرائیل) پڑھتے،پھر سو رہتے،آدھی رات گزرنے کے بعد یا رات کا کچھ حصہ گزرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے،اٹھتے ہی مسواک کرتے پھر وضو کرتے اور خدا کی عبادت میں مشغول ہو جاتے۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں تشریف لے جاتے تو کیا کرتے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے جاتے تو اپنے وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے تھے،ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کی عبادت میں صرف فرماتے،دوسرا حصہ اپنے گھر والوں کے حقوق ادا کرنے میں گزارتے تھے،تیسرا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آرام کے لئے رکھتے تھے،پھر تیسرے حصے کو بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آرام کے لئے رکھتے تھے،اپنے میں اور لوگوں میں بانٹ دیتے تھے،اس طرح پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے۔ ان آنے والوں میں اہل علم وعمل کو ترجیح دی جاتی تھی۔ ان میں سے بعض آنے والے ایک حاجت لے کر آتے،بعض دو حاجتیں لے کر آتے اور بعض کئی کئی حاجتیں لے کر آتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کی حاجتیں پوری فرماتے اور ان کو ایسے دینی اور دنیوی امور کی تعلیم دیتے جو ان کے لئے اور ساری امت کے لئے مفید اور کارآمد ہوں،پھر ان سے فرماتے:”جو لوگ یہاں موجود ہیں یہ ضروری اور مفید باتیں ان لوگوں کو پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں۔“ اور اس کے ساتھ یہ بھی فرماتے:”جو لوگ کسی عذر(پردہ یا دوری،شرم یا رعب) کی وجہ سے اپنی ضرورتیں مجھ سے بیان نہیں کر سکتے،تم لوگ ان کی ضرورتیں مجھ سے بیان کر دیا کرو،اس لئے کہ جو بادشاہ تک اس آدمی کی ضرورتیں پہنچا ئے جو خود نہیں پہنچا سکتا،خدائے تعالیٰ اس شخص کو قیامت کے دن ثابت قدم رکھے گا،اس لئے تم لوگ اس میں ضرور کوشش کیا کرو۔“ اس کے علاوہ فضول اور بے ضرورت باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہ ہوتیں تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین دینی امور کے سوالی بن کر آتے تھے اور وہاں سے دینی(اور دنیوی)نعمتیں حاصل کر کے دنیا کے لئے رہنما اور رہبر بن کر لوٹتے تھے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لاتے تو کیا کرتے تھے؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضروری باتوں کے علاوہ خاموش رہتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت کو فضول باتوں میں ضائع نہ فرماتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو لوگ آتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نہایت محبت سے پیش آتے،ان کی دل جوئی کرتے،ہر قوم کے سرداروں اور شریفوں کی عزت فر ماتے اور ان کو خود بھی اپنی طرف سے اس قوم پر سردار اور والی مقرر فرماتے،لوگوں کو خدا کے عذاب سے ڈراتے(اور برے کاموں سے بچنے کی تاکید فرماتے)خود بھی اپنی خلقت کی تکلیف رسانی سے حفاظت فرماتے،ہر ایک سے خندہ پیشانی اور خوش خلقی سے پیش آتے اور اپنے دوستوں کی خبر گیری فرماتے،لوگوں کے آپس کے معاملات کی تحقیق کر کے ان کی اصلاح کرتے، اچھی بات کی تعریف فرما کر اس میں مدد دیتے، بری بات کی برائی بتلا کر اس کو دور فرماتے،ہر کام میں درمیانی صورت اختیار کرتے،لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے،ہر کام کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ایک خاص انتظام تھا، امر حق میں نہ کوئی کمی فرماتے تھے نہ حد سے تجاوز فرماتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے والوں میں مخلوق کے بہترین لوگ ہوتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بہتر وہی ہوتا تھا جس کی خیر خواہی عام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بڑے رتبے والا وہی ہوتا تھا جو خدا کی مخلوق کی ہمدردی اور غم گساری میں زیادہ حصہ لے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے حالات بیان فرمائیے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے،بیٹھتے اللہ کا ذکر کرتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتے اور اسی کا لوگوں کو حکم فرماتے،مجلس میں ہر بیٹھنے والے کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر توجہ فرماتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاہر بیٹھنے والا یہ سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ (اور مہربانی)مجھ پر زیادہ ہے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتایا کوئی کام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس بیٹھے رہتے یہاں تک کہ وہ خودنہ اٹھ جاتا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیتے اگر نہ ہوتی تو نرمی سے جواب دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سب لوگوں میں مشہور تھی۔
ساری دنیا حقوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک برابر تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں علم و حیاء،صبرو امانت ان چار چیزوں کا پورا پورا خیال رکھا جاتا تھا اور یہ چاروں باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں موجود ہوتی تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہ شور وغل ہوتا تھا اور نہ کسی کی عزت و آبرو اتاری جاتی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجاتی تو اس کو شہرت نہیں دی جاتی تھی،آپس میں سب برابر شمار کئے جاتے تھے،بڑا وہی سمجھا جاتا تھا جو متقی اور پرہیز گار ہوتا۔ ہر ایک دوسرے کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آتا۔بڑوں کی تعظیم کرتے تھے اور چھوٹوں پر شفقت کرتے تھے۔ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے تھے اور مسافر کی خبر گیری کرتے تھے۔ (یہ روایت سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے شمائل ترمذی میں مذکور ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادتیں
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رات دن کا ایک بڑا حصہ خدا کی عبادت میں صرف فرماتے تھے،اکثر ساری ساری رات جاگتے اور پوری پوری رات نماز میں کھڑے رہتے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک پر ورم آجاتا۔(شمائل ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی عبادت اور نماز سب سے زیادہ محبوب تھی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ خدا کو ہمارا کون سا کام سب سے زیادہ پسند آتا ہے،فرمایا:”نماز کاوقت پر ادا کرنا۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
وضو: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شروع میں عادت مبارک یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لئے تازہ وضو فرماتے مگر بعد میں کبھی کبھی ایک وضو سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نمازیں پڑھی ہیں۔سب سے پہلے فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کیں۔ (ترمذی)
وضو میں عام عادت یہ تھی کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین بار ہاتھ دھوتے پھر تین بار کلی کرتے،پھر تین بار ناک میں پانی ڈالتے،اس کے بعد تین مرتبہ منہ دھوتے،پھر تین بار ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوتے پھر سر کا مسح فرماتے پھر دونوں پاؤں کو تین تین بار ٹخنوں تک دھوتے۔ (جمع الفوائد)
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ اسلام کے شروع زمانے میں وضواور نماز کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام نے سکھایا تھا۔ (سیرت ابن ہشام)
نماز: یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رسول ہونے کے بعد ہی نماز فرض ہو گئی تھی مگر پانچ وقت کی نماز نبوت کے دسویں سال معراج میں فرض ہوئی۔ (رحمۃ اللعالمین)
فرض:رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرضوں کو مسجد میں پڑھتے اور سنتوں اور نفلوں کو اکثر گھر میں ادا فرماتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے کون سی نماز گھر میں اور کون سی مسجد میں پڑھنی چاہئے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا تم نہیں دیکھتے کہ میرا گھر مسجد سے کتنا قریب ہے،مگر مجھے فرضوں کے سوا باقی نمازیں گھر میں پڑھنا زیادہ پسند ہے۔“(شمائل ترمذی)
فجر کی نماز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنتیں مختصر پڑھتے تھے،مگر فجر کے دو فرضوں میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتے۔
حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں سورۃ المومنون پڑھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
اسی طرح فجر کی نماز میں کبھی سورۃ قٓ، وَالْقُرْآنِ الْمِجِیْدْ اور وَالْلَیْلِ اِذَا عَسْعَسَ اور اسی قسم کی لمبی سورتیں پڑھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اندازہ ہے کہ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔ (جمع الفوائد)
فجر کے فرض سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا سنت مؤکدہ ہیں اور فجر کی نماز کی سنتوں کی سب سنتوں سے زیادہ تاکید آئی ہے۔
ظہر کی نماز:ظہر اور عصر کے فرضوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چہ فجر کے فرضوں کی طرح لمبی لمبی سورتیں نہیں پڑھتے تھے،مگر تب بھی ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ اتنی بڑی سورۃ پڑھتے کہ اگر آدمی جنت البقیع (جنت البقیع مدینہ منورۃ کے ایک قبرستان کا نام ہے،جس کا فاصلہ مسجد نبوی سے تقریباً دو فرلانگ بتایا جاتا ہے)تک جانا چاہے تو جا سکتا ہے اور وہاں سے واپس آکر وضو کرتا اور پہلی رکعت میں شامل ہو سکتا تھا۔ (جمع الفوائد)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں اتنی دیر کھڑے رہتے تھے جس میں المّٓ تِنْزِیْلُ السَّجْدۃ کے برابر سورۃ پڑھی جا سکتی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں تیس آیتوں کے برابر اور دوسری رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر پڑھتے تھے۔ (یہ دونوں روایتیں مشکوٰۃ المصابیح میں درج ہیں)
ظہر کے فرضوں سے پہلے چار رکعت پڑھنا اور ظہر کے فرض کے بعد دو رکعت پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
عصر کی نماز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ کے برابر سورتیں پڑھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
عصر کے فرضوں سے پہلے چار رکعت پڑھنا سنت غیر مؤکدہ ہے،یعنی ان کے پڑھنے سے بہت ثواب ملتا ہے۔
مغرب کی نماز: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی فرض نماز میں (پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ) سورۃ وَالْمُرْسَلَاتِ اور سورۃ طور پڑھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
مغرب کے فرضوں کے بعد دورکعتیں سنت مؤکدہ ہیں۔
عشاء کی نماز: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ اور اسی کے برابر کی سورتیں پڑھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
عشاء کے فرض سے پہلے چار رکعت سنتیں غیر مؤکدہ ہیں اور عشاء کے فرض کے بعد دو رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں،پھر تین رکعتیں وتر کی واجب ہیں۔ (ان تمام احادیث سے فقہانے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ فجر اور ظہر کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد طوال مفصل اور عصر وعشاء کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد اوساطِ مفصل اور مغرب کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے بعد قصار مفصل پڑھنا مسنون ہے۔
قرآن مجید کے چھبیسویں پارہ کی سورۃ حجرات سے لے کر سورۃ بروج تک کی سورتوں کو طوال مفصل کہتے ہیں اور سورۃ بروج کے بعد سے لم یکن تک کی سورتیں اوساطِ مفصل کہلاتی ہیں اور لم یکن کے بعد سے آخر قرآن تک کی سورتیں قصار مفصل کہلاتی ہیں۔اس تصریح کے مطابق ہر نماز میں ان سورتوں میں سے ہر رکعت میں کوئی ایک سورۃ پڑھنا مسنون ہے۔)
جمعہ کی نماز:یوں تو مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورۃ تشریف لانے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی تحریک پر بنی بیاضہ کے محلے میں سب سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کی۔اس وقت مدینہ منورۃ میں مسلمانوں کی تعداد چالیس تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورۃ تشریف لائے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قباء میں ٹھہرے۔ یہ پیر کا دن اور نبوت کا تیرواں سال تھا، یہاں چار روز قیام رہا،پانچویں روز جمعہ کے دن ۲۱ ربیع الاول کو ہجرت کے پہلے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم قباء سے سوار ہو کر مدینہ منورۃ تشریف لائے۔ابھی بنی سالم کے محلے تک ہی پہنچے تھے کہ جمعہ کی نماز کا وقت ہوگیا،یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو آدمیوں کے ساتھ اس مسجد میں نماز ادا کی جو اس وقت بھی وادی میں موجود ہے، یہ اسلام میں پہلا جمعہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورۃ میں ادا فرمایا۔ (زادالمعاد۔رحمۃ اللعالمین)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی فرض رکعتوں میں پہلی رکعت میں سورۃ جمعہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَوَاتِ اور دوسری رکعت میں اِذَا جَآ ءَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ اور کبھی سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور کبھی ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الغَاشِیَۃِ پڑھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
جمعہ کے روز فرضوں سے پہلے چار رکعتیں اور جمعہ کے فرضوں کے بعد چار رکعتیں پڑھنا سنت مؤکدہ ہیں اور بعد کی چار رکعت سنت کے بعد دو رکعتیں پڑھنا سنت غیر مؤکدہ ہیں۔
جمعہ کے دن فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں الٓم تَنْزِ یْلُ السَّجْدَۃ اور دوسری رکعت میں ھَلْ اَتٰی عَلٰ الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِنَ الدَّھْرِ پڑھنے کی عادت مبارکہ تھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
عیدین کی نماز: عید کی نماز بھی سن ۲ ہجری میں قائم ہوئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں (سورۃ الفاتحہ کے بعد) سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الغَاشِیَۃِ پڑھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
اگر کبھی عید اور جمعہ ایک ساتھ آجاتے تو دونوں نمازوں میں (سورۃ الفاتحہ کے بعد)یہ ہی دونوں سورتیں پڑھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
رات دن کی رکعتیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دن رات میں فرض اور سنتیں ملا کر چالیس رکعتیں پڑھتے تھے،جن میں پانچ وقت کے فرض کی سترہ (۷۱) رکعتیں تھیں،دس یا بارہ سنتیں تھیں اور رات کو گیارہ رکعتیں تہجد و وتر کی تھیں (یعنی آٹھ رکعتیں تہجد کی اور تین رکعتیں وتر کی)۔ ان چالیس رکعتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ پابندی سے ادا فرماتے تھے۔ اس کے سواصلوٰۃ الاوابین،تحیۃ المسجد اور چاشت کی نفلیں الگ تھیں۔ (زاد لمعاد)
تہجد کی نماز:تہجد کی نماز جو پچھلی رات میں عموماً آٹھ رکعتیں پرھی جاتی ہیں۔ (تہجد کی نماز کم سے کم چار رکعتیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز سے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف روایات ہیں، کسی میں گیارہ رکعتیں، کسی میں تیرہ رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔کسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساری رات نماز پڑھنا آتا ہے، کسی میں نصف شب کو اٹھ کر نماز پڑھنا مذکور ہے۔ ان حدیثوں کے متعلق محدثین نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان طریقوں میں سے ہر طریقے پر نماز ادا کرتے تھے اور جو جس صحابی نے دیکھا اس کوبیان کر دیا ہے لیکن آخر میں رکعتوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہی عمل تھا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہااور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکور ہے۔)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو کبھی نہیں چھوڑا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے تھے جیسے سورۃ بقرہ، سورۃ آل عمران اور سورۃ النساء۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ اس میں وتر اور فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) بھی شامل ہیں (جو فجر کے اول وقت پڑھتے تھے)۔(مشکوٰۃ المصابیح)
شعبی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا،انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے جن میں آٹھ رکعتیں (تہجد کی) تین وتر اور دو سنتیں نماز فجر سے پہلے کی ہوتی تھیں (جو فجر کے اول وقت میں پڑھتے تھے)۔(زادلمعاد)
اشراق کی نماز:جب سورج نکل آئے اور ذرا اونچا ہوجائے تو دو رکعت یا چار رکعت پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھی پھر وہ جائے نماز پر بیٹھا ہوا یاد الٰہی میں مشغول رہا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لئے حج اور عمرے کے برابر ثواب ہے۔“
چاشت کی نماز: سورج کے خوب بلند ہو جانے کے بعد جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کو چاشت کی نماز کہتے ہیں،یہ نماز نفل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو اکثر پڑھتے تھے۔چاشت کی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو،کبھی چار،کبھی آٹھ اور کبھی بارہ رکعتیں پڑھتے۔ (زادلمعاد)
تحیۃ المسجد:ان نمازوں کے سواء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحیۃ المسجد بھی پڑھتے تھے،یہ نماز مستحب ہے اور اس کے پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔
تحیۃ المسجد ان دو رکعتوں کو کہتے ہیں جو مسجد میں داخل ہونے پر پڑھی جاتی ہیں۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز(تحیۃ المسجد)پڑھ لے۔“(جمع الفوائد)
صلوٰۃ الاوابین: مغرب کے فرض اور سنتوں کے بعد جو کم سے کم چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعتیں پرھی جاتی ہیں اس کو اوابین کہتے ہیں۔یہ نماز بھی مستحب ہے اور اس کے پڑھنے کا بڑا ثواب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان میں کوئی بری بات زبان سے نہ نکالی تو اس کو ان کے بدلے میں بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے مغرب کی نماز کے بعد بیس رکعتیں پڑھیں،اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔“ (ترمذی)
روزہ: رمضان کے مہینے کے روزے مسلمانوں پر سن ۲ ہجری میں فرض ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ بھی اور دنوں میں بہت زیادہ روزے رکھتے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ کسی مہینے میں اتنے لگاتار روزے رکھتے کہ ہمارا خیال ہوتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں چھوڑیں گے اور کسی مہینے میں روزے چھوڑ دیتے،مگر سوائے رمضان المبارک کے کسی مہینے میں پورے مہینے کے روزے نہیں رکھتے تھے۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے سوا شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا، شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دن روزے رکھتے بلکہ (قریب قریب)سارے مہینے روزے رکھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
مہینے کی تیرہ،چودہ اور پندرہ تاریخ کو جن کو ایام بیض کہتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر روزہ رکھتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام بیض کے روزے سفرو حضر میں کبھی نہیں چھوڑے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کے دن اکثر روزہ رکھتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
بعض روایتوں میں ہے کہ جمعہ کے دن روزہ رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی،لیکن جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھے، اسے چاہئے کہ وہ ایک دن پہلے یا بعد کا بھی روزہ رکھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سے جو آدمی جمعہ کا روزہ رکھے،اسے چاہئے کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
اتفاقی روزے اس کے علاوہ تھے یعنی کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاتے اور پوچھتے:”کچھ کھانے کو ہے؟“ جواب ملتا نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی نیت فرما لیتے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
عاشورے کا روزہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ یعنی محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھتے تھے۔
شروع میں عاشورے کا روزہ فرض تھا مگر جب رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہوئے تو یہ روزہ نفل ہوگیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورۃ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:”تم اس دن کا کیوں روزہ رکھتے ہو؟“انہوں نے کہا یہ بڑا مبارک دن ہے۔ اس میں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات دلائی اور اسی دن فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا اور ہم بھی یہ روزہ رکھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔“اس کے بعد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کا حکم دیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو عاشورے کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے اور لوگوں کو اس روزے کی طرف رغبت دلاتے اور اس روزے کے رکھنے کا لوگوں سے عہد لیتے تھے مگر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس روزے کے رکھنے سے روکا اور نہ اس کے متعلق کوئی عہد لیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
عید کے بعد کے چھ روزے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شوال کی دوسری تاریخ سے سات شوال تک چھ روزے رکھتے،یہی روزے سِتَّہ شوال کہلاتے ہیں۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے مہینے میں چھ روزے رکھے تو گویا اس نے تمام عمر کے روزے رکھے۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
صوم وصال:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی لگاتار کئی کئی دن تک ایک روزہ رکھتے،کبھی تو بیچ میں بالکل افطار نہیں فرماتے تھے،کبھی ایسا ہوتا کہ بیچ میں یوں ہی برائے نام سا کچھ کھا لیتے، جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس قسم کا روزہ رکھنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ان کو منع فرمایا اور کہا:”تم میں مجھ سا کون ہے،جب میں رات گزارتا ہوں تو مجھ کو میرا خدا کھلا اور پلا دیتا ہے۔“ (ترمذی)
اعتکاف: رمضان شریف کی بیسویں تاریخ کے دن سورج چھپنے سے ذرا پہلے سے رمضان کی انتیس یا تیس تاریخ تک یعنی جس دن عید کا چاند نظر آئے،اس تاریخ کے دن سورج چھپنے تک کسی ایسی مسجد میں پابندی سے عبادت کی نیت سے جم کر بیٹھنا جس میں پانچ وقت کی جماعت ہوتی ہو،اس کو اعتکاف کہتے ہیں۔ یہ اعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ(سنت مؤکدہ کفایہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر محلے میں ایک شخص بھی کر لے تو سب کے ذمے سے ادا ہوجاتا ہے) ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے،مگر جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس سال بیس دن اعتکاف کیا، ایک سال رمضان میں اعتکاف کا موقع نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں اعتکاف کیا۔
اعتکاف کے لئے مسجد میں ایک چھوٹا سا خیمہ لگا دیا جاتا تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر یاد الٰہی میں مصروف رہتے اور اعتکاف کے زمانے میں بغیر کسی انسانی ضرورت کے (جیسے قضائے حاجت وغیرہ) گھر میں تشریف نہ لے جاتے تھے۔ (زادلمعاد)
زکوٰۃ: مسلمانوں پر زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی۔(رحمت اللعالمین)مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کبھی سال بھر تک اتنا مال نہیں رہا کہ جس پر زکوٰۃ آتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جو کچھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا اور کوئی مستحق دکھائی دیتا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دے دیتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہ تھا کہ رات گزر جائے اور مال و دولت کا ذرا سا نشان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رہنے پائے۔
ایک مرتبہ بہت سا مال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مال سب میں تقسیم کر دیا،مگر پھر بھی وہ سب مال تقسیم نہ ہو سکا اور رات ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات کو گھر میں نہیں سوئے اور مسجد میں آرام فر مایا، جب تک کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آکر یہ خبر نہ دی کہ وہ مال ختم ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف نہیں لے گئے۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
حج: ہجرت کے نویں (۹) سال حج فرض ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے رہنے کے زمانے میں سن ۰۱ ہجری میں ایک حج کیا، یہ حج حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے، جس کے معنی ہیں رخصتی حج۔
ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج کئے۔دو حج ہجرت سے پہلے(یعنی مکہ معظمہ کے رہنے کے زمانے میں) اور ایک حج ہجرت کے بعد(یعنی حجۃ الوداع)۔ (جامع ترمذی)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری پیغام: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ذی الحجہ کی نو تاریخ کو عرفات کے میدان میں ایک پہاڑی پر چڑھ کر اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار آدمیوں کے سامنے اپنی امت کو آخری پیغام دیا، اس پیغام کو ”خطبہ حجۃ الوداع“ کہتے ہیں۔
اس پیغام کا ہر فقرہ اپنے اندر ہزاروں ہدایتیں رکھتا ہے، اس لئے ہم اس کو یہاں نقل کرتے ہیں۔ خدا ہم سب مسلمانوں کو اس پر عمل کی توفیق دے۔(آمین)

خطبہ حجۃ الوداع
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوگو! میرا خیال ہے کہ میں اور تم پھر کبھی اس مجلس میں اکٹھے نہ ہوں گے۔
لوگو! تمہارے خون،تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن (حج کے دن) اس شہر(مکے) اس مہینے(ذی الحجہ) کی حرمت کرتے ہو۔
لوگو! تمہیں عنقریب خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت پوچھے گا۔ خبردار! میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔
لوگو! جاہلیت(کے زمانے) کی ہر ایک بات آج میرے اس قدموں کے نیچے پامال ہے۔جاہلیت کے قتلوں کے سب جھگڑے(آج)ختم کرتا ہوں۔ پہلا خون جو میرے خاندان کا ہے یعنی ابن ربیعہ بن الحارث کا خون جو بنی سعد کے کنبے میں دودھ پیتا تھا اور جس کو ہذیل نام کے ایک آدمی نے قتل کیا تھا، میں اس خون کو معاف کرتا ہوں۔
جاہلیت کے زمانے کا سود(ہمیشہ کے لئے) ملیا میٹ کر دیا گیا۔ پہلا سود اپنے خاندان کا جو میں مٹاتا ہوں وہ عباس ابن عبدالمطلب کا سود ہے،وہ سب کا سب چھوڑ دیا گیا۔
لوگو! اپنی بیویوں کے حق میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو اپنی بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے ان کا جسم تمہارے لئے حلال ہوا، تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی اور کو نہ آنے دیں، اس حق میں اگر وہ کوتاہی کریں تو تم ان کو مارو اس حد تک کہ جسم پر اس کا اثر ظاہر نہ ہو، عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ اور اچھی طرح پہناؤ۔
لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں،اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ قرآن ہے۔ اللہ کی کتاب۔
لوگو! نہ میرے بعد کوئی پیغمبر آنے والا ہے اور نہ کوئی نئی امت پیدا ہونے والی ہے۔خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پانچ وقت کی نماز (وقت پر)ادا کرو،سال بھر میں ایک مہینے رمضان کے روزے رکھو اور اپنے مال کی زکوٰۃ نہایت خوش دلی کے ساتھ ادا کرو اور خانہ کعبہ کا حج کرو اور اپنے سرداروں اور حاکموں کی اطاعت کرو جس کا بدلہ یہ ہے کہ تم خدا کی جنت میں داخل ہوگے۔
لوگو! قیامت کے دن تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا۔مجھے ذرا بتاؤ کہ تم کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے احکام ہم کو پہنچادیئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اور نبی ہونے کا حق ادا کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو کھرے اور کھوٹے کے متعلق اچھی طرح بتا دیا۔(اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے۔ اے خدا! گوا رہنا(یہ سب کیسا صاف اقرار کر رہے ہیں) اے خدا! گواہ رہناکہ(تیرے بندے کیا کہہ رہے ہیں)
پھر فرمایا،جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں تک جو یہاں موجود نہیں اس(پیغام) کو پہنچائیں ممکن ہے وہ لوگ زیادہ(اس پیغام کو) یاد رکھنے والے اور حفاظت کرنے والے ہوں جن کو تم پہنچاؤ گے۔ (رحمت اللعالمین)
قرآن شریف پڑھنا:قرآن شریف کے پڑھنے اور تلاوت کرنے میں بھی بڑا ثواب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”قرآن پڑھا کرو کیونکہ قیامت کے دن قرآن اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا۔“ (مشکوٰۃ المصابیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز قرآن شریف پڑھتے تھے۔کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ آواز سے قرآن مجید پڑھتے اور کبھی بلند آواز سے قرآن مجید پڑھتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف آہستہ پڑھتے تھے یا بلند آواز سے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طرح پڑھتے تھے۔(شمائل ترمذی)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے پڑھنے میں اپنی قرأت کو علیحدہ علیحدہ کرتے تھے، یعنی اس طرح پڑھتے تھے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن پر ٹھہرتے پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پر ٹھہرتے، پھر مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ پر وقف کرتے۔(غرض ہر آیت کو جدا جدا نہایت اطمینان سے قرأت کے ساتھ پڑھتے تھے۔) (شمائل ترمذی)
یاد الٰہی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے،بیٹھتے،چلتے،پھرتے،سوتے،جاگتے،کھاتے،پیتے،نئے کپڑے پہنتے،سفر میں جاتے،واپس آتے،سوار ہوتے، غرض ہر وقت خدا کی یاد میں مصروف رہتے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر لمحہ اور ہر آن خدا کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیبیاں بیان فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت سُبْحَانَ اللّٰہِ وَلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھتے تھے۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
عمر شریف: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہونے کے بعد تیرہ سال مکہ مکرمہ میں رہے اور اس کے بعد دس سال مدینہ منورہ میں رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال کی ہوئی۔ (شمائل ترمذی)
وفات: ۲۱ ربیع الاول کو ہجرت کے گیارہویں سال پیر کے دن چاشت کے وقت ہمارے آقا۔ سارے عالم کے سردار، اللہ کے سب سے بڑے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورۃ میں امت کی نگاہوں سے پردہ فرمایا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِناَّ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
وفات سے ایک دن پہلے گھر میں سات دینار موجود تھے وہ غریبوں کو دیدیئے، اسی دن رات کو گھر میں چراغ جلانے کے لئے تیل نہ تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک پڑوسن کے یہاں سے چراغ جلانے کے لئے تیل ادھار منگایا۔اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب ہتھیار مسلمانوں کو دے دیئے۔
وفات کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو سارے عالم کی عورتوں کے سردار ہونے کی خوش خبری دی۔
اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عالم حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے دونوں صاحبزادوں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا، دونوں کو چوما اور ان کے احترام و عزت کی وصیت فرمائی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو بلایا اور ان کو نصیحت فرمائی اس کے بعد سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، انہوں نے سر مبارک کو گود میں رکھ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی نصیحت فرمائی۔ (رحمت اللعالمین)
وفات کے دن صبح کی نماز کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پردہ اٹھایا جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے اور مسجد نبوی کے درمیان پڑا تھا،حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آخری موقع تھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے قرآن مجید کا ورق ہوتا ہے۔ (شمائل ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا میرے پیارے والد نے خدا کے بلاوے کو قبول کر لیا اور جنت الفردوس میں جا پہنچے، آہ جبریل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر کون پہنچا سکتا ہے (پھر فرمایا) الٰہی میری روح کو میرے والد کی روح کے پاس پہنچا دے۔ الٰہی! مجھے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مسرور بنا۔ الٰہی! مجھے اس مصیبت کے ثواب سے محروم نہ رکھ اور قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما۔ (رحمت اللعالمین)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہائے وہ نبی جس نے فقیری اور مسکینی کو مال داری اور دولت مندی پر پسند فرمایا۔ ہائے!وہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)جو امت عاصی کی فکر میں کبھی پوری رات آرام سے نہ سوئے۔جنہوں نے ہمیشہ استقلال و استقامت سے نفس کے ساتھ جنگ کی، جنہوں نے آبرو اور احسان کے دروازے فقیروں اور محتاجوں پر کبھی بند نہ کئے، جن کے روشن دل پر دشمنوں کے ایذا اور تکلیف پہنچانے پر بھی دشمنوں کی جانب سے ذرہ برابر غبار نہ بیٹھا(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو معاف کر دیا)، ہائے! وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے موتی سے دانت پتھر سے توڑے گئے جن کی پیشانی مبارک کو زخمی کیا گیا، آج دنیا سے رخصت ہوئے۔ (رحمت اللعالمین)
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد گھر میں آئے، جسم اطہر کی زیارت کی، پیشانی مبارک کو چوما،آنسو بہائے، پھر کہا: ”میرے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو موتیں وارد نہ کرے گا یہ ہی ایک موت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی ہوئی تھی۔“ (صحیح بخاری)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیتے ہوئے فرمایا:”میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے وہ چیز جاتی رہی جو کسی دوسرے کی وفات سے نہ گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ایسا حادثہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور آہ و زاری سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم آنسوؤں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہا دیتے، پھر بھی یہ درد وہ ہے کہ جس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ میرے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار، پروردگارکے یہاں ہمارا ذکر فرمانا اور ہم کو اپنے دل سے نہ بھول جانا۔ (رحمت اللعالمین)
تجہیز و تکفین: تجہیز و تکفین کی خدمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتے داروں نے انجام دیں، حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پردہ کیا۔ حضرت اوس بن خولی رضی اللہ عنہ پانی کا گھڑا بھر بھر کر لاتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں صاحبزادے حضرت قثم رضی اللہ عنہ اور حضرت فضل رضی اللہ عنہ نہلاتے وقت جسم مبارک کی کروٹیں بدلتے تھے اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پانی ڈالتے تھے۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
اس کے بعد حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سوتی سفید کپڑوں میں جو سحول کے بنے ہوئے تھے، کفن دیا گیا۔ (رحمت اللعالمین)
نماز جنازہ: جب جنازہ تیار ہو گیا تو نماز جنازہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنبے والوں نے، پھر مہاجرین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے، پھر انصاررضوان اللہ علیہم اجمعین نے پڑھی۔ یہ نماز پہلے مردوں نے پڑھی، پھر عورتوں نے پڑھی اور پھر بچوں نے پڑھی، چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرۂ مبارک تنگ تھا اس لئے دس دس آدمی اندر جاتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، یہ سلسلہ لگاتار ایک دن اور رات جاری رہا۔ ( رحمۃ للعالمین بحوالہ ترمذی)
قبر شریف: قبر شریف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں کھودی گئی۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بغلی قبر کھودی۔(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
جسم مبارک کو قبر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اتارا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت ایک مسلمان کی سب سے بڑی خوش نصیبی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔“ اور یہ بھی فرمایا:”جس نے خالی حج کیا ور اور میری زیارت کو نہ آیا اس نے مجھ پر ظلم کیا۔“
امت کی مائیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کہلاتی ہیں، جس کے معنی ہیں مسلمانوں کی مائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کے نام مبارک یہ ہیں:
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا
ان مقدس اور بزرگ بیبیوں کا احترام، ان کی عزت، ان کا ادب ہر مسلمان پر ماں کی طرح فرض ہے بلکہ ماں سے بھی بڑھ کر۔
اولاد: ہمارے مولیٰ، ہمارے آقا، خدا کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صاحبزادے (۱) حضرت قاسم رضی اللہ عنہ (۲) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا لقب طاھر بھی ہے)اور (۳) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ تینوں صاحبزادے شیر خواری ہی کے زمانے میں وفات پا گئے اور چار صاحبزادیاں (۱) حضرت زینب رضی اللہ عنہا (۲) حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا (۳) حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور (۴) حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا تھیں۔ (زرقاوی جلدثالث )
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ اَجْمَعِیْن

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top