skip to Main Content
سن بوشی

سن بوشی

جاپانی لوک کہانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طلوع آفتاب کی سرزمینِ مشرق جاپان کو آج سائنسی علوم کے علاوہ شاعری اور ادب میں بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔ افسانوی ادب میں جاپان کی لوگ کہانیاں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ’’سن بوشی‘‘ ایک ناقابل فراموش، زندہ لوک کہانی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاپان میں کسی جگہ ایک میاں بیوی بڑی خوش حال زندگی بسر کررہے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ایک روز وہ عبادت گاہ میں گئے اور گڑگڑا کر دعا کی۔ ’’اے اللہ، اپنی رحمتوں سے ہمیں ایک بچہ عطا فرما، چاہیے انگلی کے ایک پور کے برابر ہو۔‘‘ کچھ عرصے بعد ان کے ہاں ایک خوب صورت لڑکا پیدا ہوا۔ لیکن اس کا قد بالغ انسان کی اُنگلی سے بھی کم تھا، اس کے باوجود اس کے والدین نے اسے ناز و نعم سے پالا جیسے وہ ان کی آنکھ کا تارا ہو۔ لڑکا انتہائی ذہین اور اچھے اخلاق کا تھا… مگر اس کے قد میں اضافہ نہ ہوا۔ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اس سے محبت پیار سے پیش آتے اور اُسے سن بوشی کے نام سے پکارتے ’’سن‘‘ ایک پیمانہ ہے تقریباً تین سینٹی میٹر کے برابر اور ’’بوشی‘‘ کے معنی پروہت کے ہیں۔ پُرانے زمانے میں بچوں کے سر پرہیتوں کے مانند منڈے ہوئے ہوتے تھے جنہیں ’’پروہت‘‘ کہا جاتا۔ آہستہ آہستہ یہ بچوں کا معروف نام بن گیا۔ ایک روز سن بوشی نے شاہی دارالحکومت کیا ٹو جانے کا ارادہ کیا تاکہ وہ زندگی میں کوئی اُونچا مقام حاصل کرسکے۔ اس نے والدین سے کہا ’’پیارے امی ابا، میں دارالحکومت جانا چاہتا ہوں۔ وہاں پڑھوں لکھوں گا اور بڑا آدمی بن جائوں گا۔ مجھے جانے کی اجازت دیجیے۔‘‘ پہلے تو والدین کسی قدر ہچکچائے لیکن انہیں اپنے بیٹے کی ذہانت پر اعتماد تھا، اس لیے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ انہوںنے ایک سوئی کی تلوار بنائی اور تنکے کی نیام میں ڈال کر سن بوشی کے پہلو میں لٹکادی۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ اور ہاتھی دانت سے تیار کردی تیلی بھی دی۔ سن بوشی نے ماں باپ کو خیر باد کہا اور سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ دارالحکومت کو ایک دریا جاتا تھا۔ اُس نے پیالے سے کشتی کا کام لیا اور ہاتھی دانت کی تیلی سے چپو کا، اور کئی دن تک دریا کے بہائو کے ساتھ ساتھ کشتی کھیلتا رہا، آخر کار دارالحکومت پہنچ گیا۔ شہر میں داخل ہوا، تو اسے ایک وسیع وعریض شان دار محل دکھائی دیا یہ ایک بااثر وزیر کی رہائش تھی۔ دروازے پر سن بوشی چلانے لگا: ہیلو، ہیلو…‘‘ اندر سے ایک نوکر بھاگتا ہوا آیا، لیکن اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ آواز دوبارہ سنائی دی۔ اس نے غور سے دیکھا، تو دروازے کی اوٹ میں بونے سن بوشی پر نظر ڈالی۔ ’’میرانام سن بوشی ہے، میں یہاں پڑھنے کے لیے آیا ہو‘ مہربانی کرکے مجھے وزیر کے خادموں میں رکھ لو۔‘‘ نوکر نے اسے پکڑ کر ہتھیلی پر بٹھالیا اور وزیر کے سامنے لے گیا۔ سن بوشی نے احترام سے سرجھکا یا اور کورنش بجالایا۔ وزیر اور اس کے مصاحب بہت متاثر ہوئے، اسے محل میں ملازمت اور رہائش کی اجازت مل گئی۔ اگرچہ کوتاہ قد تھا۔ لیکن انتہائی ذہین ہونے کی بناء پر ہر کام بڑے سلیقے سے انجام دیتا۔ اُس کی سب سے اعلیٰ صفت یہ تھی کہ وہ ہر ایک کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتا ۔ اسی بناء پر لوگ اُسے بہت چاہتے۔ خصوصاً وزیر زادی کا دل اُس نے موہ لیا اور وہ ہر وقت اُسے ساتھ رکھتی۔ ایک روز وزیرزادی کینن (رحم کی دیوی) کی عبادت گاہ میں گئی۔ سن بوشی بھی ہم راہ تھا۔ واپسی پر دو چڑیلوں نے اچانک ان پر حملہ کردیا… اور وزیرزادی کو اُچک لے جانے کی کوشش کی۔ سن بوشی جو اُس کی آستین میں چھپا ہوا تھا، جست لگا کر باہر نکلا اور تلوار سونت کر کہنے لگا: ’’جانتی ہو میں کون ہوں؟ میں وزیر زادی کا محافظ ہوں۔‘‘ ایک چڑیل نے بڑے مزے سے اُسے نگل لیا۔ سن بوشی اس قدر چھوٹا تھا کہ آسانی سے چڑیل کے معدے میں چل پھر سکتا تھا۔ اُس نے اپنی تلوار سے معدے میں کچھوکے لگانے شروع کردیے۔ تنگ آکر چڑیل نے اُبکائی کے ذریعے اُسے باہر اُگل دیا۔ اس پر دوسری چڑیل سن بوشی کی طرف بڑھی، لیکن بونے نے اچھل کر تلوار کی نوک اُس کے آنکھ میں گھونپ دی۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ دوسری آنکھ بھی پھوڑ دی۔ درد سے کراہتی ہوئی دونوں چڑیلیں سر پٹ بھاگ کھڑی ہوئیں۔ جب وہ وزیر زادی کے ساتھ گھر کی طرف چلنے لگا، تو اس کی نگاہ ایک چھڑی پر پڑی جو چڑیلیں چھوڑ گئی تھیں۔ یہ چڑیلوں کا خزانہ یعنی جادو کی چھڑی تھی۔ اسے ہوا میں لہرانے سے ہر شے حاصل کی جاسکتی تھی۔ وزیر زادی چھڑی دیکھ کر بولی: ’’پیارے سن بوشی، یہ جادو کی چھڑی ہے، تم جو جی چاہے حاصل کرسکتے ہو۔‘‘ ’’نہ مجھے دولت کی ضرورت ہے نہ گندم اور چاول کی‘‘ سن بوشی نے کہا۔ ’’میری خواہش یہ ہے کہ میرا قد لمبا ہوجائے۔‘‘ وزیر زادی نے چھڑی ہوا میں لہراتے ہوئے کہا: ’’سن بوشی کا قد بڑھادے، بڑھادے۔‘‘ ساتھ ہی سن بوشی کا قد بڑھنے لگا یہاں تک کہ وہ ایک خوب صورت جوان بن گیا۔ اس کے بعد سن بوشی کی شادی وزیر زادی سے ہوگئی اور وہ اپنے والدین کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top