حضرت صالح علیہ السلام
قوم عاد کی تباہی اور بربادی کے بعد جو لوگ بچ رہے، وہ حجاز اور شام کے درمیان وادی قریٰ کے میدان میں آباد ہوگئے، شروع میں یہ قوم عادثانیہ کہلائی لیکن بعد میں اپنے کسی بزرگ کے نام پر اس قوم نے اپنا نام ثمود اختیار کیا۔
یہ قوم بھی پہلی بھٹکی ہوئی قوموں کی بت پرست تھی اور جب ان کے فسق و فجور حد سے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق قوم ثمود میں ہی سے حضرت صالح علیہ السلام کو نبوت کا شرف دے کر مبعوث کیا تاکہ وہ ان بدکردار لوگوں کو اگلی قوموں کے انجام کی داستانیں سنا کر ان کو بتائیں کہ ان کے خوفناک انجام کو دیکھو اور اپنی سرکشی سے باز آئو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی خدا کے عذاب میں گرفتار ہو کر ان قوموں کی طرح دنیا سے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوجائو۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم کو جمع کرکے برے کاموں سے بچنے اور خدا کی راہ اختیار کرنے کی ہدایت کی آپ نے اپنی قوم کو بار بار سمجھایا، خدا کے عذاب سے ڈرایا اور ان پر خدا کے فضل و کرم جتائے، لیکن ان پر مطلق کوئی اثر نہ ہوا، بلکہ اس کے جواب میں انہوں نے کہا۔
اے صالح، ہماری قوت، شوکت، دولت کی فراوانی، کھیتوں کی سرسبزی، عالی شان مکانات، غرض یہ کہ دنیا جہان کے عیش و آرام جو ہمیں حاصل ہیں تیرے ہی خدا کی طرف سے ہیں تو پھر وہ لوگ کیوں غریب اور نادار ہیں جو تیرے خدا کو ایک مانتے ہیں۔ اس کا تو مطلب یہ ہے کہ وہ راست پر نہیں اور یہ ہمارے ہی خدائوں کی تو کرم فرمائیاں ہیں۔
حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اس عقل و دولت اور شان و شوکت پر ہرگز گھمنڈ اور غرور نہ کرو۔ ایسی چیزیں پل بھر میں فنا ہوجایا کرتی ہیں۔
قوم ثمود کو سب سے بڑا تعجب یہ تھا کہ ہم میں سے ہی ایک شخص کیسے نبی بن گیا اور اس پر خدا کا پیغام نازل ہونے لگا، اگر ایسا ہی ہونا تھا تو کیا ہم اس کے اہل نہ تھے، ہم ایسے رئیسوں اور بڑے آدمیوں کو چھوڑ کر اللہ نے غریب اور کمزور لوگوں کو اپنے پیغام کے لیے کیوں چنا۔
حضرت صالح علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں دعا کی اور اللہ کا یہ نشان ایک اونٹنی کی صورت میں نمودار ہوا، قرآن میں تو اس کا کوئی تذکرہ نہیں، صرف خدا کی اونٹی کہا گیا۔
خداوند کریم کا اپنے رسول کے ذریعے یہ معجزہ بھی ان سرکشوں کو خدا کی طرف راغب نہ کرسکا۔ تاہم آپ نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ یہ اونٹنی خدا کی طرف سے تم پر حجت ہے، اللہ تعالیٰ کا نشان تم پر ظاہر ہوچکا ہے، اگر تم اپنی بھلائی چاہتے ہو تو اس اونٹنی کو ہرگز ہرگز نقصان نہ پہنچانا، یہ آزادی سے جہاں چاہے چرے، ہاں ایک روز یہ اونٹنی چشمے پر سے پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن تم اور تمہارے جانور دیکھو اس میں فرق نہ آئے۔
کچھ دن تک اونٹنی کے حیرت انگیز واقعہ نے اس قوم کو حیران و پریشان رکھا اور وقتی طور پر اونٹنی سے کوئی معترض نہ ہوا، لیکن آہستہ آہستہ جن برائیوں کے ماحول میں انہوں نے پرورش پائی تھی وہ ابھرنے لگا اور انہوں نے سازش کرکے اونٹنی کو ہلاک کردیا جب حضرت صالح علیہ السلام کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ کو بہت رنج ہوا اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔
تین دن کے بعد کڑک اور گرج کی ایک ہیبت ناک آواز پیدا ہوئی، جس نے ہر انسان کو جو جس حالت میں تھا ہلاک کردیا، لیکن ہو لوگ جو حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے اس عذاب الہٰی سے بچ گئے، جب قوم ثمود پر عذاب نازل ہورہا تھا تو حضرت صالح علیہ السلام نے قرآن حکیم کے الفاظ میں اپنی قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا۔
اے قوم، بلاشبہ میں نے اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچادیا اور تم کو نصیحت کی، لیکن تم تو نصیحت کرنے والوں کو دوست ہی نہ رکھتے تھے۔
قوم ثمود کی تباہی کے بعد جو لوگ بچ رہے وہ فلسطین میں آکر آباد ہوگئے۔