skip to Main Content

سگے

راکعہ رضا

……

صوفی عبدالقادر کا شوق مرنے کے بعد بھی پورا ہوگیا تھا….!
وہ بھلا کیسے؟ ….ساری زندگی انھوں نے دو ہی تو کام کثرت سے کیے تھے۔ایک دوستوں اور احباب کے ساتھ مل بیٹھنا ، ان کی دعوت کرنا، انھیں عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا اور دوسرا….باغبانی!
گرمیوں کی شام وہ اپنے سب دوستوں کو، جن میں اکثریت لاٹھی ٹیکتے ،کھانستے ہانپتے ان کے گھر کے صحن میں براجمان ہوتے ،اپنے آنگن کے رسیلے خوش رنگ آم پیش کرتے، ان کا دکھ درد سنتے ۔ شاعری کی محفل بھی چلتی اور پھر سب اپنے اپنے گھروں کو ہو لیتے۔
پھر صوفی عبدالقادر اٹھتے اور جاکر آنگن میں لگے آم کے درخت سے سے بغلگیر ہو جاتے :” تم میرے سب سے سچے دوست ہو ….!“
اس کے بعد وہ کچھ راز و نیاز کی باتیں کرتے اور واپس آکر اپنی چارپائی پر نیم دراز ہو کر حقہ گڑگڑانے لگتے۔ دروازے کی اوٹ سے اُن کے پوتے پوتیاں انھیں درخت سے باتیں کرتا دیکھ کر خوب ’کھی کھی‘ کرتے۔ صوفی صاحب انھیں دیکھتے تو مسکرا کر اشارے سے انھیں بلاتے۔ بچوں کی تو گویا چاندی ہوجاتی۔
اِس اشارے کا مطلب تھا کہ دادا جی کی پٹاری میں پڑی خشک خوبانیاں اور آلو بخارے انھیں ملنے والے ہیں، جو آنگن میں لہلہاتے درختوں ہی کی پیداوار تھے ۔ سب دادا کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو جاتے…. پھرجب مزے سے پھل کھا چکتے تو عبدالقادر سب کو اپنے ’دوستوں ‘کے پاس بھیجتے:
” اب تم سب نے جو جو پھل کھایا ہے ،جا کر اِس درخت کا شکریہ ادا کرو !“
سب بچے دادا کی دیکھا دیکھی درختوں کو جا کر گلے لگا لیتے اور اونچی آواز میں کہتے جاتے :” تم بہت اچھے ہو…. تمھارا بہت شکریہ پیارے!“
عبدالقادر مسکرا کر دور سے ہی آنگن کے لہلہاتے درختوں کو دیکھتے ، جیسے کوئی اپنے سگوں کو دیکھتا ہے۔
صوفی عبدالقادر نے یہ درخت آٹھ سال کی عمر میں لگائے تھے۔ درختوں سے محبت انھیں وراثت میں ملی تھی۔ اپنے والد کی سرپرستی میں انھوں نے ننھے ہاتھوں سے کھدائی کی، بیج بوئے اور پھر اِن درختوں کو پروان چڑھایا…. اس کے بعد سے یہ سلسلہ نہیں رکا۔ مکان،اسکول، کھیت….غرض کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں صوفی عبدالقادر کے ہاتھ سے لگائے درخت نہ ہوں۔ یہ عادت اُن سے ان کے بچوں تک گئی تھی…. اسی لیے جب نئے گھر کی تعمیر ہو رہی تھی تو آنگن میں لگے درختوں کو کسی نے نہیں چھیڑا ،بلکہ گھر کا ایک بڑا حصہ باغبانی اور درختوں کے لیے مختص کر دیا گیا ۔عبدالقادر کی درختوں سے محبت کی بنا پرہی یار دوست انھیں ’صوفی ‘کہہ کر بلانے لگے تھے۔ اس لیے نہیں کہ وہ درختوں سے بات چیت کرتے تھے ، بلکہ اس لیے کہ وہ زمین سے ”کچھ لینے “کے فلسفے پر نہیں،بلکہ ” کچھ دینے“ کے فلسفے پر جی رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا تھا کہ” دینے“ میں جو خوشی چھپی ہے، اسے ہم ”حاصل کرنے“ یا ”لینے “میں تلاش کرتے ہیں…. اور درخت لگانا اس ”دینے“ کی سب سے بڑی علامت ہے۔
اسی لیے اُن کے آنگن کے ہر درخت پر آس پڑوس اور محلے داروں کا پورا حق تھا۔ جس کا جی چاہتا ٹوکری پکڑے آتا، انھیں سلام کرتا اور اپنی مرضی کی سبزیاں، پھل توڑ لے جاتا۔
پانچ پانچ، چھے چھے سال کی بچیاں ٹولی میں آتیں اور صوفی عبدالقادر کو باری باری سلام کرکے پاس لگی پھولوں کی کیاری کی طرف بڑھ جاتیں۔ اپنی پسند کے پھول اکٹھے کرکے گلدستہ بناتیں اور خوشی خوشی چل دیتیں۔
صوفی عبدالقادر اس دوران میں آنے والوں کو درخت لگانے کی اہمیت اور ضرورت پر اچھا خاصا قائل کر لیتے، پھر جاتے وقت سب کو کچھ بیج اور گھٹلیاں بھی تھما دیتے تاکہ وہ سب بھی اپنے اپنے گھر کے آنگن میں پھول اور پھل اُگائیں ۔ ان میں سے کچھ لگاتے اور کچھ بھول جاتے…. مگر اس بہانے چند اور درخت اور پھو ل ضرور اس دنیا میں پیدا ہو جاتے تھے۔
جب صوفی عبدالقادر کے اس دنیا سے جانے کا وقت قریب آیا توانھوں نے سب گھر والوں کو بلایا ۔انھوں نے اول نماز کی تلقین کی اور پھر ایک ہی نصیحت کی کہ میرے بعد میرے اِن سگوں کی حفاظت کرنا اور کبھی کسی کو بھی اِن کے پھولوں اور پھلوں سے مت روکنا۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تلقین کرنے کے بعد ان کی آنکھوں نے جو آخری منظر دیکھا ،وہ یہ تھا کہ سب گھر والے ان کے پاس کھڑے ہیں اور کھڑکی سے آنگن میں لگے درخت جھوم جھوم کر جیسے انھیں الوداع کہہ رہے ہیں۔انھیں بھلا اور کیا چاہیے تھا۔ وہ مسکرا دیے اور کلمہ پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
صوفی عبدالقادر کا شوق مرنے کے بعد بھی پورا ہوگیا تھا ….!
یہاں بھی تو ویسی ہی کیاریاں بنی تھی جیسی اُن کے گھر کے آنگن میں تھیں، بلکہ ان سے ہزارہا گنا خوبصورت۔ ان کے پیارے درخت، ان کا سچا دوست آم کا درخت بھی تھا، مگر یہاں اِن درختوں کی شان و شوکت بہت سحرانگیز اور شاندار تھا۔ آسمان کی بلندی میں گم ہوتی شاخیں ، اِن درختوں کی جڑوں کو جیسے سونے کے پانی سے دھویا گیا تھا۔ شاخیں چاندی اور ان پر لگے پتے یاقوت اور جواہر ات کے بنے ہوئے تھے۔
اِن درختوںکے نیچے بھی ویسی ہی محفل سجتی تھی۔ان کے اکثر نیک احباب یہاں موجود تھے۔ وہ انھیں اپنے درخت کے فرحت بخش سائے میں بیٹھ کر خوش گپیوں کی دعوت دیتے تو سب انھیں اور ان کے درختوں کو بے حد رشک بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے۔
صوفی عبدالقادر کے درخت روز روز بڑھتے ہی جاتے تھے، مگر باقی لوگوں کے باغ اور اُن میںلگے درخت اتنے ہی تھے جتنے ان کو یہاں آنے پر ملے تھے۔ یہ جگہ تھی ہی ایسی…. جہاں اب کسی کوشش ،کسی نیکی کرنے کا فائدہ نہیں تھا۔ یہ عمل کی نہیں ،نتیجے کی جگہ تھی ۔ بونے کا نہیں ،کاٹنے کا وقت تھا ، مگر صوفی عبدالقادر کے درخت ….وہ درخت تو بڑھتے ہی جاتے تھے۔یہ درخت ان کے اتنے سگے، اتنے مخلص تھے کہ جب نیکی کرنے کی مدت ختم ہوگئی ، یہ تب بھی ان کے لئے نیکیاں لکھوا رہے تھے۔ ان کے باغ میں لگے پھول، جواہرات اور انعامات میں مسلسل اضافہ کر رہے تھے۔
جب بھی صوفی مرحوم کا خاندان، ان کے دوست اور محلے والے اُس دنیا والے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا کرتا تو یہاں برزخ میں اِس درخت کا ٹھنڈا سایہ، صوفی صاحب کے لیے مزید فرحت بخش ہوجایا کرتا ۔جب اُن کے پوتے پوتیاں، محلے کے غریب بچوں کے ساتھ اس درخت پر جھولا ڈال کر ساری سہ پہر کھیلا کرتے ، سب مل بانٹ کر پھل کھایا کرتے تو یہاں درخت کی شاخیں کچھ مزید کھل کر روشن ہوجاتیں۔کبھی وہاں آس پڑوس والے اور راہ چلتے فقراءگرمیوں میں آم، خوبانی اور آڑوکے مزے لیتے تو یہاں عبدالقادر کے درخت پر لگے پھل مزید بڑے اور خوش رنگ ہوجاتے…. اور جب جب اس درخت کے قریب رہنے والے انسان ،پرندے ،حیوان اور حشرات اپنی سانس کے ساتھ اس درخت سے خارج ہوتی آکسیجن اپنے اندر جذب کرتے….تو یہاں کا درخت جھک کر صوفی عبدالقادر کو اپنی رحمت کے سائے میں لیتے ہوئے ایسا سکون دیتا جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ تھا۔
صوفی عبدالقادر آگے بڑھتے اور درخت کو گلے لگاتے ہوئے کہتے جاتے:
” تم نے مجھے دنیا میں بھی سکون دیا اور آج کے دن بھی …. میں کہتا تھا ناں! تم میرے سچے دوست ہو ….سب سے سگے!!!“
اور پھر ارد گرد چلنے والی پاک ہوا…. صوفی عبدالقادر کے چہرے کو مزید روشن کر دیتی۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top