صفائی مشن
محمدعلی ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’رحم بادشاہ گندگی۔۔۔ رحم کیجئے۔۔۔آپ کے در پر یہ جراثیم گُنو رحم کی بھیک مانگتا ہے۔‘‘ گُنو نے سر جھکا کر التجا کی
’’کیا ہوا گُنو تم تو میرے فوج کے سپہ سالار تھے ،آخر اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو؟‘‘ بادشاہ گندگی ٖڈونہ نے افسردہ لہجہ میں کہا
’’بادشاہ جس مشن پر آپ نے مجھے بھیجا تھا۔۔۔۔۔میں وہ مشن پورا نہیں کرسکا۔‘‘ گنو نے ادب سے کہا
’’کیا؟؟؟‘‘ٖڈونہ نے حیرت سے پوچھا
’’جی نجمہ نے اب صحت وصفائی کے اُصولوں پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔اور پاکستان ٹاؤن اب پاک صاف پاکستان ٹاؤں بن گیا ہے۔‘‘ گُنو نے مودبانہ لہجہ میں جواب دیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔
*****
بادشاہ گندگی ٖڈونہ کا دربار لگا ہوا تھا۔آج وہ ایک خاص مشن پر اپنے خاص آدمی کو بھیج رہا تھا۔ ٖڈونہ کے دربار میں ایک بڑا سا ٹی -وی لگا ہوا تھا۔اس
سے وہ اپنے جراثیموں پر نظر رکھتا تھا۔
’’بادشاہ گندگی ہم نے کس علاقے میں اپنا مشن پورا کرنا ہے۔‘‘ گُنونے سوالیہ لہجہ میں پوچھا
’’پاکستان ٹاؤن میں مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔‘‘ ٖڈونہ نے منحوس ہنسی ہنستے ہوئے جواب دیا
ٖڈونہ نے ایک بٹن دبایا جس سے ٹی – وی پر ایک فلم چلنے لگی۔اس میں پاکستان ٹاؤن دکھایا گیا تھا۔ پاکستان ٹاؤن کے ہر گھر کے باہر ڈھیروں ڈھیر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ گندہ اور غلیظ پانی جگہ جگہ پر کھڑا ہوا تھا۔ گندے اور غلیظ پانی پر مچھر بے شمار نظر آرہا تھے۔
’’یہ جگہ میرے لیے جنت ہے۔‘‘ کوڑی رانی نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا
’’وہ دیکھو ایک بچہ ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کھا رہا ہے۔‘‘ ڈونی نے لپ اسٹک لگاتے ہوئے کہا
’’اس گندگی کا اصل جوہڑ یہ گھر ہے۔اس میں نجمہ لڑکی ہمارا شکار ہے۔‘‘ٖڈونہ نے عجیب وغریب شکل بناتے ہوئے کہا
’’وہ دیکھو،اُس گھر سے نجمہ باہر آئی ہے۔ کتنی خوبصورت ہے بالکل میرے جیسی۔‘‘کوڑی رانی نے مسکراتے ہوئے کہا
’’پاکستان ٹاؤن کو کیچڑاٹاؤن میں تبدیل کردو اور حملہ کرو۔‘‘ٖڈونہ نے گرجتے ہوئے کہا
*****
’’ہائے اﷲ۔۔۔ کتنا ٹھنڈا پانی آرہا ہے۔‘‘نجمہ نے پانی کو ہاتھ لگاتے ہوئے خود کلامی کی
نجمہ سمجھدار بچی تھی۔مناسب قدوقامت کی مالک تھی۔چہرے پر ہلکے ہلکے سے کٹ پڑے ہوئے تھے۔ دانتوں پر پیلاہٹ بھی صاف نمایاں تھی۔ ہاتھوں کے ناخن بہت بڑے تھے۔ نہانے سے اُس کی جان جاتی تھی۔یہ بات نجمہ کو باربار امی بتاتی کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ لیکن وہ نجمہ ہی کیا جو بات مان جائے۔
’’نجمہ بیٹی! آکر سیب کھالو۔‘‘ امی نے باورچی خانے سے آواز دی
’’ابھی آئی امی ۔‘‘ نجمہ نے جواباًکہا اور منہ میں کُلی کرنے لگی۔
’’نجمہ بیٹی! منہ ہاتھ صابن سے دھونا۔‘‘ امی نے اونچی آواز سے کہا
’’جی امی! کیا کہا آپ نے؟‘‘ نجمہ نے باورچی خانے کا دروازہ کھول کر سوالیہ انداز میں کہا
’’لو تم آبھی گئی۔منہ ہاتھ آج پھر صابن سے نہیں دھویا۔‘‘امی نے افسردہ لہجہ میں کہا
’’امی پانی بہت ٹھنڈا آرہا تھا۔اور مجھے ٹھنڈبھی لگا رہی تھی۔‘‘ نجمہ نے معصوم سا چہرہ بناتے ہوئے کہا
’’یہ لو سیب کھالو۔سیب دُھو کر کھانا۔‘‘امی نے سیب پکٹرتے ہوئے کہا
نجمہ نے سیب پکڑا اور اپنے کپڑوں سے صاف کرنے لگی۔کپڑے تو پہلے ہی دُھول مٹی سے آٹے ہوئے تھے۔اس سیب پر بھی گندگی لگ گئی۔اس سے ڈونہ کا سپہ سالار گُنو بھی سیب کے ساتھ لگاگیا۔یہاں نجمہ نے سیب کھایا وہاں گُنو نے چھلانگ مار دی اور سیدھا منہ میں چلا گیا۔ گُنو اب اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تیاری کرنے لگا۔
’’ارے نجمہ میں نے کہا تھا کہ سیب دُھو کر کھانا۔تم بڑی ڈھیٹ ہو اپنی صحت کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔‘‘ امی نے ڈانٹتے ہوئے سیب پکڑا اور دُھو کرواپس نجمہ کودے دیا۔
’’نجمہ کی ماں تمھیں کچھ خبر ہے کہ کل فوزیہ آرہی ہے۔‘‘ ابو نے یاد دلاتے ہوئے کہا
’’کون فوزیہ ابو؟‘‘ نجمہ نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا
’’تمھاری دُور کی خالہ کی بیٹی ہے۔‘‘ابو نے پیار کرتے ہوئے جواب دیا
’’یہاں کیا کرنے آرہی ہے۔‘‘ نجمہ نے تعجب سے پوچھا
’’اپنی چھیٹاں گزارنے آرہی ہے۔‘‘ امی نے گوبھی کاٹتے ہوئے جواب دیا
گُنو نجمہ کے پیٹ میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی۔کھانا پینا سب کچھ فروا مقدار میں موجود تھا۔ گُنو کھا کھا کر موٹا تازہ ہوگیا تھا۔ گُنو آہستہ آہستہ کرکے اپنے مشن کو پایہ تکمیل کی طرف لے جارہا تھا۔ گُنو یہ سوچ کر حیران و پریشان تھا کہ اتنے آسان کام کے لیے مجھے منتخب کیا گیا۔یہ کام تو میرا نوکر بھی کرسکتا تھا۔
’’فوزیہ بیٹی روکو۔ میں نیچے آکر دروازہ کھولتی ہوں۔‘‘امی نے بالکونی سے دیکھتے ہوئے کہا
فوزیہ دروازے کے پاس آکر رُک گئی۔ارگرد کے ماحول پر جائزہ لینے لگی۔کوڑا کرکٹ اور پانی ہر جگہ نمایاں نظرآرہا تھا۔
’’آجاؤ بیٹی۔‘‘امی نے فوزیہ کے کاندھے پر ہا تھ رکھتے ہوئے کہا
’’آنٹی اس بیماریوں کے جوہڑمیں آپ کیوں رہ رہی ہیں۔‘‘فوزیہ نے حیرت سے پوچھا
’’بس بیٹی کیا بتاؤں۔کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان باتوں پر دھیان دے سکے۔‘‘امی نے ٹکا سا جواب دیا
’’آنٹی نجمہ کہاں ہے۔‘‘ فوزیہ نے کمرے کا معائنہ لیتے ہوئے کہا
’’نجمہ۔۔۔نجمہ بیٹی‘‘ امی نے اونچی آواز سے کہا
’’جی امی آئی!!!!!‘‘نجمہ نے جواب دیا
’’فوزیہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘امی نے پوچھا
’’کچھ نہیں آنٹی ڈاکٹر بن گئی ہوں۔‘‘فوزیہ نے جواب دیا
فوزیہ نے ایک ماہ قبل ہی ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔فوزیہ کو ایک کام دیا گیا تھا۔کام کا موضوع’’صحت و صفائی‘‘تھا۔ فوزیہ کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس کا کام یہاں ہی پورا ہو جائے گا۔ یہاں وہ سب لوزامات تھے جو کام لائے جا سکتے تھے۔فوزیہ ’’صحت و صفائی‘‘ پر ایک رپورٹ بھی لکھ رہی تھی۔ اس لیے وہ شہر شہر میں جاکر اس بات کا جائزہ لے رہی تھی۔ آخر میں صرف یہی جگہ رہ گئی تھی۔اب وہ آرام وسکون سے اپنے کام کو انجام دے سکتی تھی۔
’’کیسی ہیں فوزیہ آپی؟‘‘ نجمہ نے گرم جوشی سے پوچھا
’’میں تو ٹھیک ہوں۔لیکن تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔‘‘ فوزیہ نے جواباًکہا
’’کیا فوزیہ آپی،یہ تو آجکل کا فیش ہے۔‘‘نجمہ نے افسردہ لہجہ میں کہا
’’میں تمھارے کپڑوں کی نہیں بلکہ تمھاری صحت کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔‘‘ فوزیہ نے پیار کرتے ہوئے کہا
’’بس باجی یہ حال ایک ماہ سے جاری ہے۔آپ ہی دیکھ کر بتائیں؟‘‘ نجمہ نے بازو پکڑتے ہوئے کہا
فوزیہ نے نجمہ کا مکمل معائنہ کیا۔جسے جسے فوزیہ دیکھ رہی تھی ویسے ویسے پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔
’’کیا ہوا فوزیہ بیٹی! بڑی پریشان ہوگئی ہو۔‘‘ امی نے فوزیہ کا چہرہ پڑھتے ہوئے کہا
’’نجمہ کے پیٹ میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔دانتوں میں پائیوریا بیماری ہو گئی ہے ۔ اگر یہی حال رہا تو بہت جلد یہ بستر سے لگ جائے گی۔‘‘فوزیہ نے افسردہ لہجہ میں کہا
’’میں نے اسے کتنی بار کہا ہے کہ ہاتھ منہ دُھو کر کھانا کھایا کرو۔‘‘امی نے غم زدہ لہجہ میں کہا
’’ان ناخنوں میں جو میل پھنسی ہوئی ہے۔وہ کھانے کے ساتھ پیٹ میں
جاتی رہی ہے،جس سے کیڑے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ فوزیہ نے نجمہ کے ہاتھوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا
’’فوزیہ آپی آئندہ سے خیال رکھوں گی۔‘‘نجمہ نے شرمندگی سے کہا
’’انکل اور آنٹی آپ کے ذمہ بھی ایک کام لگارہی ہوں۔‘‘ فوزیہ نے رخ ان کی طرف کرتے ہوئے کہا
’’کونسا کام بیٹی؟‘‘ انکل نے مسکراتے ہوئے پوچھا
’’انکل آپ نے یہ کرنا ہے کہ محلے میں جو غلیظ پانی جگہ جگہ کھڑا ہوا ہے۔ وہاں مٹی ڈالنی ہے۔باہر ہرگھر کے سامنے جو کوڑا کرکٹ جمع ہے،اُسے اکھٹا کرکے ایک جگہ کرنا ہے۔‘‘ فوزیہ نے سوچ کر جواب دیا
’’میرا کیا کام ہو گا فوزیہ بیٹی؟‘‘ امی نے اطمینان بھرے لہجہ میں کہا
’’آنٹی آپ کا کام یہ ہے کہ آپ نے گھر گھر جاکر صحت وصفائی کے اُصولوں کو روشناس کرانا ہے۔‘‘ فوزیہ نے جوا ب دیا
’’فوزیہ آپی مجھے بھی کوئی کام دے دیں؟‘‘ نجمہ نے خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا
’’تمھارا صرف یہ کام ہے کہ ہر روز دو بار دانتوں میں برش کرنا ہے۔اپنے کپڑے اورجسم کو پاک صاف رکھنا ہے۔‘‘فوزیہ نے نجمہ کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
یہ سب باتیں گُنو سن رہا تھا۔ گُنوکو اپنی موت صاف واضح نظر آنے لگی تھی۔ گُنو نے اپنے دوست جراثیموں کو اکھٹا کیا اور ایک اجلاس بلایا۔سب جراثیم اس بات پر متفق تھے کہ اب نجمہ کو بیمار کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ایک با ر نجمہ بیمار ہوگئی پھر ہم پوری طاقت سے اُس پر حملہ کریں گے۔اس طرح گندگی مشن کی تکمیل پوری ہوجائے گی۔ گُنو نے سب سے پہلاوار کیا جو کار آمد ثابت ہوا۔
’’آہ۔۔۔میرا پیٹ۔۔۔امی ابو مجھے پیٹ میں سخت درد ہورہی ہے۔‘‘نجمہ نے درد سے کراہتے ہوئے کہا
’’ہائے میری بچی!!!‘‘امی نے پریشانی سے کہا
’’لگتا ہے جراثیموں نے حملہ کردیا ہے۔انکل میں کچھ دوائیں لکھ کر دیتی ہوں،وہ جاکر لے آئیں۔انشاء اﷲ نجمہ صبح تک ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘فوزیہ نے پیٹ کو ہاتھوں سے چیک کرتے ہوئے کہا
’’ٹھیک ہے بیٹی!میں لے آتا ہوں۔‘‘ابو نے جلدی سے پرچی پکڑتے ہوئے کہا
گُنو اب پیچھے رہنا والا نہیں تھا۔وہ اور جراثیم ساتھ وار پر وار کررہے تھے۔
نجمہ سے پیٹ کا درد برداشت نہیں ہو رہا تھا۔نجمہ زور زور سے چیخ رہی تھی’’ہائے میرا پیٹ۔۔۔ہائے میرا پیٹ‘‘ نجمہ کی یہ حالت دیکھ کر امی بھی رونے لگی۔
’’نجمہ بیٹی تمھیں کتنی بار سمجھا یا کہ ہر چیز صاف کر کے کھاتے ہیں۔یہ مصبیت تم نے خود پال رکھی تھی۔‘‘امی نے روتے روتے کہا
’’امی جی۔۔۔ہائے میرا پیٹ۔۔۔‘‘
’’نجمہ دوائی کھا کہ ٹھیک ہوجائے گی۔آپ فکر نہ کریں۔‘‘فوزیہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا
پانچ منٹ کے بعد ابو دوائیاں لے کر آگئے۔نجمہ کو دوائی دی ۔دوائی کھانے سے نجمہ کو کچھ افاقہ ہوا۔ابو نجمہ کو اُٹھا کر بستر پر لے گئے۔بستر پر لیٹے ہی نجمہ کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔
دوائی کھانے کی وجہ سے گُنو کے ہزاروں جراثیم بھائی ختم ہوگئے تھے۔ گُنو کھا کھا کر بہت موٹا ہو گیا تھا۔ اس کے برعکس دوائی نے بہت گہرا اثر ڈالاتھا۔ گُنو کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ آنکھوں سے صاگ دکھائی دینا بند ہوگیا تھا۔جیسے جیسے رات ختم ہو رہی تھی گُنو کی طبعیت بھی خرا ب سے خراب تر ہورہی تھی۔ صبح کا سورج نجمہ کے لیے نئی امید کی کرن لے کر اُبھارا تھا۔ نجمہ اُٹھی تو اپنے آپ کو تروتازہ محسوس کر رہی تھی۔نجمہ باتھ روم گئی۔پانی اب بھی ٹھنڈا تھا۔لیکن نجمہ کا حوصلہ بلند تھا۔ نجمہ نے منہ ہاتھ دُھویا ۔بالٹی میں امی نے گرم پانی ڈال رکھا تھا۔نجمہ نے صابن سے اچھی طرح اپنے جسم کو جراثیم سے پاک کیا۔صاف ستھرا لباس پہن کر وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
گُنو اب اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں پہنچ چکا تھا۔ گُنو کے ذہن میں ترکیب آئی۔اس سے وہ اپنی زندگی بچا سکتا تھا۔ گُنو نجمہ کے ناک میں حرکت کرنے لگا جس سے نجمہ کو چھینک آئی۔چھینک کے ساتھ ہی گُنو ٹوٹی ٹانگ لیے باہر گر گیا۔ گُنو شکر ادا کرنے لگا کہ جان بچ گئی۔
پاکستا ن ٹاؤن میں ایک ہلچل مچ گئی تھی۔ امی ،ابو،فوزیہ نے صحت وصفائی کی تحریک شروع کردی۔ابو نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر غلیظ پانی کی نکاسی کو بند کرنے کی روک تھام شروع کردی۔کوڑا کرکٹ کوایک جگہ اکٹھا کیا گیا۔ فوزیہ اور امی گھر گھر جاکر صحت و صفائی کے اُصولوں سے آگاہی دیتیں۔ قطرہ قطرہ کر کے دریا بنتا ہے،اُسی طرح گھر سے گھر جب صاف ہوا تو پاکستان ٹاؤن کی خوبصورتی دوبارہ لوٹ آئی۔
*****