سچی توبہ
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے رسول ِپاکﷺ کے ایک پیارے ساتھی حضرت ابو سعیدخدری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول ِپاک ﷺ نے فرمایا کہ:”تم لوگوں سے پہلی کسی امت میں ایک آدمی تھا جس نے نناوے بندے قتل کئے تھے۔(ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اپنے اس طرح خون بہانے پر دل میں شرمندہ ہوا اور سوچنے لگا کہ مرنے کے بعد میرا کیا حال ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے کیسی سزا ملے گی۔یہ سوچ کر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ اس علاقے میں سب سے بڑا عالم کو ن ہے؟(تاکہ اس سے جاکر پوچھے کہ اپنے گناہ بخشوا نے کے لئے میں کیا کروں۔)لوگوں نے اسے ایک ایسے بزرگ عالم کا پتا بتایا جو الگ تھلگ ایک گوشے میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے رہتے تھے۔وہ شخص ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں ایسا آدمی ہوں جس نے ننانوے خون کئے ہیں،کیا مجھ جیسے قاتل کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟انھوں نے کہا بالکل نہیں۔یہ سن کر وہ شخص آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے ان (بزرگ عالم)کو بھی قتل کر دیا۔اس طرح وہ سو آدمیوں کا قاتل بن گیا۔(اس کے بعد اس کے دل میں فکر پیدا ہوئی کہ میں نے اللہ کے سو بندوں کو ناحق قتل کیا ہے،مرنے کے بعد میرا کیا حشر ہو گا)اس نے پھر لوگوں سے کسی بہت بڑے عالم کا پتا پوچھا ۔انھوں نے ایک اور بڑے عالم کا پتا بتایا تو وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے سوخون کئے ہیں تو کیا مجھ جیسے گناہ گارکی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے اور وہ بخشا جا سکتا ہے؟انھوں نے فرمایا،ہاں ہاں اور کون ہے جو اس کے اور توبہ کے درمیان رکاوٹ بن سکے،تم یوں کرو کہ فلاں بستی میں چلے جاﺅ وہاں اللہ کی عبادت کرنے والے کچھ بندے رہتے ہیں تم بھی ان میں شامل ہو جاﺅ،ان کے ساتھ عبادت میں مشغول ہو جاﺅ اور پھر وہاں سے کبھی اپنی بستی میں واپس نہ آﺅ یہ بڑی خراب بستی ہے۔وہ شخص ان بزرگ عالم کی بتائی ہوئی بستی کی جانب چل پڑا۔یہاں تک کہ جب اس نے آدھا راستہ طے کرلیا تو اس کا آخری وقت آگیا اور وہ فوت ہو گیا۔اس کے بارے میں رحمت کے فرشتو ں اور عذاب کے فرشتوں میں بحث ہونے لگی (کہ وہ رحمت کا حقدار ہے یا عذاب کا)رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے آیا اور اس نے سچے دل سے اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیا یہ رحمت کا حق دار ہو چکا ہے۔
عذاب کے فرشتوں نے کہا،اس نے کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا اور اس نے سو خون کیے ہیں اس لئے یہ سخت عذاب کا حقدار ہے۔اس وقت ایک فرشتہ اللہ کے حکم سے آدمی کی شکل میں آیا۔فرشتوں کی دونوں جماعتوں نے اسے منصف بنا لیا۔(یعنی اس معاملے کا فیصلہ اس پر چھوڑا۔)اس نے فیصلہ دیا کہ دونوں بستیوں کے درمیان فا صلے کی پیمائش کی جائے یعنی بری بستی جہاں سے مرنے والا شخص چلا تھااور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندوں والی بستی جس کی طرف وہ جا رہا تھا ۔ان کا درمیانی فاصلہ۔پھر جس مقام پر اس نے وفات پائی،وہ مقام جس بستی کے قریب ہو(یعنی اس کا فاصلہ کل فاصلے کے آدھے سے زیادہ ہو)تو اس کو اس بستی کا مانا جائے گا۔اب جو اس مقام کا فاصلہ دونوں بستیوں سے ماپا گیا تو عبادت گزاروں کی بستی کے قریب نکلا چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے حساب میں لے لیا۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اس حدیث پاک میں جو قصہ بیان کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی کوئی حدو نہایت نہیں۔اگر بڑے سے بڑا گناہگاربھی سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور آیندہ کے لئے گناہوں سے بچنے کا عہد کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے کسی ایک انسان کو بھی ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ایساکرنا بد ترین گناہ ہے۔یہ اللہ کی نافرمانی کے علاوہ قتل ہونے والے کے بیوی بچوں پر بھی ظلم ہے۔لیکن سو ناحق خون کرنے والے آدمی نے سچے دل سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش کا سامان بھی پیدا کردیا ۔اس میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ برے کاموں سے ہمیشہ بچنا چاہئے کیونکہ توبہ کی مہلت ملنے سے پہلے ہی موت آسکتی ہے۔