سبز ہتھیار
سید بلال پاشا
۔۔۔۔۔۔۔
شعلہ مس ہونے کی دیر تھی کہ بھک کر کے اس پودے نے اِس تیزی سے آگ پکڑلی!
محمد علی اپنے کمرے میں بیٹھاایک کتاب کی ورق گردانی میں مگن تھا۔ رات کا پہلا پہر اپنے اختتام کو تھا۔ مصنف کا قلم ایسا جادو بھرا تھا کہ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا ۔ وہ آس پاس سے بے نیاز کتاب میں گم تھا۔
اچانک خاموش ماحول میں جھینگر کی آواز ابھری اور پھر وقفے وقفے سے ابھرتی چلی گئی۔ وہ چونک اٹھا۔اس کے کمرے کے دونوں ساتھی سو رہے تھے۔
وہ چپکے سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
اسے اچھی طرح علم تھا کہ یہاں کس کس جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں اور وہ کہاں تک نگرانی رکھ سکتے ہیں۔ وہ اُن سب کی پہنچ سے دور ہورہا تھا۔اس نے اپنی گھڑی کا ایک بٹن دبایا۔ ساتھ ہی جیب سے ایک ہیڈ فون نما آلہ نکال کر کان میں لگا لیا اور کانوں پر اس نے اپنے جدید طرز پر کٹے ہوئے لمبے بال گرالیے۔
”السلام علیکم…. جی سر؟“
اس نے مختصراً بات شروع کی۔ دوسری جانب سے کچھ بولا جاتا رہا اور وہ بس سنتا گیا۔ اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے یکسر خالی تھا…. حالاں کہ جو بات وہ سن رہا تھا ، کوئی عام بندہ سنتا تو غصے اور جوش سے پھٹ جاتا، مگر وہ کوئی عام انسان نہیں تھا۔
….٭….
گزشتہ کچھ ماہ سے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات بہت سازگار چل رہے تھے۔ حکومتی سطح پر امن و امان کا دور دورہ تھا۔ سربراہانِ مملکت کے دعوتی دورے ہورہے تھے۔حتیٰ کہ پچھلے دنوں عالمی فضائی آلودگی کے پیش نظر ہندیا نے بطور تحفہ، پڑوسی ملک پاکیشیا کو ایک ارب درخت دینے کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ دونوں ملکوں کے مابین دوستی میں یہ سر سبز درخت نیک فال سمجھے جارہے تھے۔
یہ ایک خاص قسم کا درخت تھا جو ننھے پودوں کی شکل میں پڑوسی ملک سے آنا تھا۔ اِس درخت کی یہ خاصیت مشہور تھی کہ یہ دوسرے درختوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ماحول کو صاف کرتا تھا، مگر اتنا ہی نہیں …. پڑوسی ملک کے جذبہ خیرسگالی کا ثبوت یہ تھا کہ اُس نے اس درخت کے تخم میں کیمیائی تبدیلیاں کر کے اُن میں مصنوعی طور پر کچھ مزید درختوں کی خاصیات بھی ڈالی تھیں، جن سے اب وہ ماحولیات کے لیے ایک زبردست درخت قرار دیا جا رہا تھا۔رپورٹ کے مطابق کیمیائی تبدیلی کرنے کی وجہ سے اِن پودوں کی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا مگر دوستی کی خاطر یہ مہنگے درخت تحفے میں دیے جا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے عوام میں خوشی کے جذبات دوڑ رہے تھے۔
….٭….
بندرگاہ پر چہار سو ہو کا عالم تھا۔ تین دیوہیکل بحری جہاز کنارے پر کوچ کرنے کو بالکل تیار کھڑے تھے۔ اگلی صبح انھوں نے پڑوسی ملک کی جانب کوچ کرنا تھا۔ یہ مکمل طور پر اُن پودوں سے بھرے ہوئے تھے جو پڑوسی مسلمان ملک کو بطورِ تحفہ بھیجے جارہے تھے۔
بندرگاہ مکمل طور پر بڑے بڑے کیمروں کی زَد میں تھی۔کیمروں کی ریکارڈنگ ایک بڑی اسکرین پر دکھائی دے رہی تھی۔ یہ اسکرین ایک ہال نما کمرے میں نصب تھی،جس کے سامنے گیروے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس سادھو جیسے حلیے والا ایک چوکس آدمی بیٹھا تھا۔ اچانک اس کے موبائل پر پیغام ابھرا:
” مجھے کچھ دنوں کے لیے پندرہ ہزار روپے ادھار چاہیے، مل سکتے ہیں؟“
پیغام پڑھ کر اس نے اسکرین کے آپریٹنگ سسٹم میں ایک چھوٹی سی ڈیوائس لگائی اور دو چار منٹ کچھ کرتا رہا۔
”ٹھیک ہے مل جائیں گے…. مگر بیس دن میں تمھیں واپس کرنا ہوں گے۔ “
یہ پیغام محمد علی کے موبائل پر ابھرا جو اِس وقت کیمرہ نمبر پندرہ کے نیچے کھڑا تھا۔ بیس دن کا مطلب تھا کہ اس کے پاس محض بیس منٹ ہیں۔ بیس منٹ بعد کیمرے پھر سے ریکارڈنگ شروع کردیں گے۔
محمد علی تیزی سے آگے بڑھا۔اُس نے تینوں جہازوں میں سے اُس جہاز کا انتخاب کیا جو ہوا کے رُخ پر سب سے پہلے کھڑا تھا۔پہرے داروں کی نظروں سے اوجھل ہوکرجہاز میں گھسنا جان جوکھوں کا کام تھا مگر اس کی پیشہ ورانہ مہارت نے جلد ہی اسے جہاز کے عرشے پر لا کھڑا کیا۔ اِس کوشش میںصرف ایک پہرے دار کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
اب اس کے سامنے قطار در قطار بے حد خوبصورت اور معصوم سے کروڑوں پودے لہلہا رہے تھے، جو کچھ گھنٹوں بعد ہی اس کے ملک پہنچ جانے تھے، مگر محمد علی کو اُن کی معصومیت سے وحشت ہورہی تھی۔ اُن کی خوبصورت قطار دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا تھا۔
اس نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے جیب سے لائٹر نکالااور ہوا کے رخ پر رکھے پہلے پودے کو سلگا دیا۔
شعلہ مس ہونے کی دیر تھی کہ بھک کر کے اس پودے نے اِس تیزی سے آگ پکڑی کہ محمد علی کے ہاتھ کے کچھ بال تک جھلس اٹھے۔ ہوا بہت تیز تھی۔ ہوا نے نہایت سرعت سے جلتے ہوئے پودے سے شعلے اٹھائے اور پہلے سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے اور یوں چند لمحوں میں کروڑوں پودوں کو سراپا آگ بنا دیا۔ چند ہی ثانیوں میں پورا جہاز شعلہ جوالہ نظر آنے لگا۔
پہلے جہاز میں آگ بھڑکنے کے بمشکل اگلے نصف منٹ میں تینوں جہاز آگ کے دیو ہیکل پہاڑ نظر آنے لگے تھے۔
بندرگاہ کا عملہ دم بخود اِس پہاڑ کو دیکھ رہا تھا۔اُدھر جہازوں کا عملہ جان بچانے کے لیے عرشے سے چھلانگ لگا رہا تھا۔ایک ہنگامہ سا ہر طرف برپا ہو گیا۔ بندرگاہ کے عملے کو ہوش آیا توتیزی سے حرکت میں آئے اور آگ بجھانے کی کوششیں کر نے لگے….مگر اعلیٰ افسران بالکل خاموش بیٹھے تھے ۔ اُن کے چہرے بری طرح ستے ہوئے تھے۔
وہ جانتے تھے کہ یہ آگ اب سب کچھ تہس نہس کرکے ہی بجھے گی۔ یہ پودے کوئی عام پودے نہیں تھے، بلکہ سالوں کی محنت سے انھیں لیبارٹری میں اِس مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا کہ جنگ کے موقع پر وہ شہروں کے شہر جلا کر بھسم کر دیں۔ اُن کے پتوں پتوں میں موجود ایک انتہائی تیزی سے بھڑکنے والاکیمیکل تھا جو سادہ پانی سے بجھنے والا نہیں تھا۔یہ کیمیکل نہ صرف بھڑک کر ا نتہائی تیزی سے آگ پھیلاتا تھا بلکہ جلنے کے بعد اُس سے ایسی زہریلی کیمیائی گیس خارج ہوتی تھی جو چند ہی منٹوں میں فضا میں موجودساری آکسیجن کو چوس جاتی تھی اور یوں ہزاروں کی آبادی چند گھڑیوں میں دَم گھٹنے سے تڑپ تڑپ کر ختم ہو جاتی۔
ہندیا کے تینوں بحری جہاز ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں جل کر تباہ ہوگئے۔
اعلیٰ افسران کے وجود پر ہی نہیں، ہندیا کے اونچے ایوانوں پر بھی لرزہ طاری تھا۔
یہ تباہی تو کچھ بھی نہیں تھی۔ قیامت تو اب آنے والی تھی۔تینوں جہازوں سے اٹھتی زہریلی گیسیں ہوا کے دوش پر سوار شہر کا رخ کر رہی تھیں اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
ہندیا کے احمق سائنس دانوں نے اپنے تیار کردہ زہر کا کوئی تریاق تیار ہی نہیں کیا تھا۔ رعونت بھرے دماغ ایسا تصور بھی کب کر سکتے تھے کہ انھیں اِس مہلک ایجاد کے توڑ کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔
احمق نہیں جانتے تھے کہ اُن کی رعونت کو خاک میں ملانے کے لیے پاک سرزمین کے بے شمار گمنام جاسوس جان ہتھیلی میں لیے انھی کی صفوں میں سرگرم ہیں۔
٭٭٭