سبز گیند
غلام عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔
ٍآج سے بہت پہلے کی بات ہے۔چین کے بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔سب سے بڑے بیٹے کا نام آسو تھا۔منجھلے کا باسو،اور سب سے چھوٹے کا نام تاسو تھا۔
ایک دن اس بادشاہ کے پاس کسی دوسرے مُلک کے بادشاہ کا قاصد خط لے کرآیا،جس میں لکھا تھا کہ آپ اپنے تینوں بیٹوں کو کچھ دنوں کے لیے میرے یہاں بھیج دیں۔میری اکلوتی بیٹی کھاسوان تینوں شہزادوں میں جسے پسند کرے گی ،اس کے ساتھ شہزادی کھاسو کی شادی رچا دی جائے گی۔
دوسرے دن چین کے بادشاہ نے اپنے تینوں بیٹوں کو اپنے پاس بلایااور ان کو اس خط کے بارے میں تفصیل سے بتایااور پھر ان تینوں کو کچھ ہدایات دے کرایک بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ تینوں شہزادوں کواُس بادشاہ کے مُلک کی طرف روانہ کر دیا۔
جب ان شہزادوں نے آدھا راستہ طے کر لیا تو کچھ دیر آرام کرنے کے لیے جنگل میں ایک خُوب صورت جگہ کا انتخاب کرکے ٹھہر گئے۔
یہ دن بڑا سہانا تھا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ہر طرف سبزہ بکھرا ہوا تھا۔پرندے اپنی اپنی بولیوں میں چہچہارہے تھے۔چڑیوں کے گیت سُن سُن کر درخت جُھوم رہے تھے۔میٹھے پانی کے چشمے جاری تھے۔ہرن چوکڑیاں بَھرتے اِدھر اُدھر بھاگ ڈور رہے تھے۔بندر اس خوشگوار موسم سے لُطف اُٹھا رہے تھے اور خوش ہو کر ایک درخت سے دوسرے درخت پر قلا بازیاں کھا رہے تھے۔ایک طرف سے ہاتھیوں کا غول جُھومتا چلا آرہا تھا۔
ایسا خوشگوار نظارہ تھا کہ ہر طرف بہار ہی بہار تھی۔تینوں بھائی اس پُر بہار موسم سے اور زیادہ لُطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔
اچانک تینوں شہزادوں نے باقی کا راستہ پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ انھوں نے باقی کا لاؤ لشکر واپس بھیج دیااور کہا کہ ہم آدھے سے زیادہ راستہ تو طے کر ہی چکے ہیں۔درختوں کی ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں میں ہنستے کھیلتے مزے مزے سے چلتے رہیں گے سیر کی سیر ہو جائے گی اور سفر بھی کٹ جائے گا۔اور پھر ہمارے پاس سامان تو اتنا ہے ہی نہیں۔خُود آپ ہی اُٹھا لیں گے۔اس سے بازؤوں میں طاقت بھی آئے گی۔
یہ سب سوچ کر تینوں شہزادوں نے اپنا لاؤ لشکر اور گھوڑے واپس بھیج دیے،اور خود اپنا اپنا سامان اُٹھا کر مزے مزے سے ہنستے گاتے اپنی منزل کی طرف چل دیے۔
لیکن ابھی وہ تینوں تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ شہزادہ آسو اور باسو نے اپنا اپنا سامان بھی چھو ٹے بھائی شہزادے تا سو کے حوالے کرتے ہوئے کہا:
’’تاسو میاں!جب تم تھک جاؤ گے تو بتا دینا۔پھر یہ سارا سامان ہم اُٹھا لیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر دونوں بھا ئی جلدی جلدی چلنے لگے۔لیکن بے چارہ تاسو بوجھ کی وجہ سے اُن سے بہت پیچھے رہ گیا۔
شہزادے آسو اور باسو آگے آگے جارہے تھے۔اُنھیں راستے میں ایک خرگوش ملا۔خرگوش نے اُن دونوں سے التجا کی کہ میرے بِل میں ایک پتھر گر گیا ہے۔اسے نکال دیجیے۔
دونوں شہزادوں نے خرگوش کی بات سن کر ایک زوردار قہقہہ لگایااور پتھر کوبِل کے اور بھی اندر کر دیا،اور ہنستے ہوئے آگے چل دیے۔
جب شہزادہ تاسو سامان اُٹھائے اس خرگوش کے پاس سے گزرا تو خرگوش نے اس سے بھی یہی التجا کی کہ میرے بِل میں سے پتھر نکال دو۔
شہزادہ تاسو بڑا رحم دل تھا ۔اُس نے سا مان کو زمین پر رکھ دیا۔اور جُھک کر بِل سے پتھر باہر نکال دیا۔
خرگوش خوش ہو کر کہنے لگا۔
’’میاں تا سو !سبز گیند اُٹھانا۔‘‘یہ کہہ کر خرگوش جھاڑیوں کی طرف بھاگ گیا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
دوسرے دن جب تینوں شہزادے شہزادی کھاسو کے شہر میں پہنچے تو ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا۔اور ان کوایک جلوس کی شکل میں محل میں لایا گیا۔اُن کی بہت خاطر مدارت کی گئی۔پھر شہزادی نے ان سے کہا:
’’یہ تین رنگین گیندیں ہیں۔تم تینوں ایک ایک گیند اُٹھا لو۔شہر سے باہر ایک بہت بڑا میدان ہے،وہاں جا کر تم نے ان گیندوں کو پھینکنا ہے۔جس کی گیند سب سے دُور جا کرگرے گی۔میں اُس کے ساتھ شادی کروں گی۔‘‘
اس وقت شہزادہ تاسو کو خرگوش کی بات یاد آگئی کہ تا سو میاں سبز گیند اُٹھانا۔‘‘دل ہی دل میں وہ حیران تھا۔اللہ جانے کیا ماجرا ہے،مگر اُس نے سبز گیند اُٹھا لی۔باسو نے سیاہ اور آسو نے سُرخ گیند لے لی۔گیندیں لے کر تینوں شہزادے ایک کُھلے میدان میں پہنچے ،جہا ں پر لمبی لمبی گھاس اُ گی ہوئی تھی۔تینوں بھائی ایک قطار میں کھڑے ہو گئے اور اپنی اپنی گیند پھینکی۔جب سبز گیند گھاس پر گِری تو خرگوش جو پہلے ہی سے گھاس میں چُھپا بیٹھا تھا،جَھٹ گیند کو مُنہ میں پکڑا اور تیزی سے بھاگتا ہوا گیند کو دونوں بھائیوں کی گیندوں سے آگے لے گیا۔تب شہزادہ تا سو کی شادی شہزادی کھاسو سے ہوگئی۔اور دونوں ہنسی خوشی محل میں رہنے لگے۔
اُدھر جب آسو اور باسو سر پر اپنا اپنا سامان اُٹھا کر ہانپتے ہوئے آہستہ آہستہ گھر کی طرف لوٹ رہے تھے تو اُن کے سامان کے اُوپر خرگوش بیٹھا ہنس رہا تھا۔
لیکن شہزادہ آسو اور شہزادہ باسو کویہ بات معلوم نہ تھی۔