سانپوں کی وادی
سید ظہران جلیس
۔۔۔۔۔
اب تک چارانجینئر اور چھ مزدور ہلاک ہو چکے تھے!!
۔۔۔۔۔
یارک شائر شہر سے متصل علاقے میں تقریباً آٹھ سو سال پرانی عمارت کے کھنڈرات کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سانپوں کی آماجگاہ ہے۔ وہاں جو بھی جاتا ہے سانپ اسے زندہ واپس آنے نہیں دیتے ،ڈس کر وہیں موت کی آغوش میں پہنچا دیتے ہیں۔ وہ سانپ ان کھنڈرات کو کسی بھی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔ محکمہ آثار قدیمہ کے حکام اور کارکنوں کی نیندیں ان سانپوں کے خوف سے حرام ہو چکی تھیں۔ اخبارات اور رائے عامہ کی طرف سے ان پر برابر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذمہ داران ان کھنڈرات سے سانپوں کا خاتمہ کرائیں تاکہ سیاحوں کی آمدورفت پہلے کی طرح آمدنی کا ایک ذریعہ بن سکے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے حکام اور کارکن اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی برت رہے ہوں یا انہیں اس کی کوئی فکر ہی نہ ہو ایسی بھی کوئی بات نہیں تھی۔
وہ بھی دل و جان سے ان تاریخی قدیم کھنڈرات سے ان سانپوں کو ہٹانا اور سیاحوں کی آمد و رفت کو بحال کرانے کے خواہش مند تھے مگر ان کی ہر ممکن کوشش نے ان کی اس خواہش پر پانی ڈال دیا تھا۔ ان سانپوں کو کھنڈرات سے نکالنا ان کے لیے ایک خوفناک پیچیدہ مسئلے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اس کوشش میں اب تک محکمے کے کئی کارکن اور افسر موت کی نیند سو چکے تھے۔ اخبارات نے ان کی اموات پر محکمے کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کھنڈرات سے سانپوں کے نکالنے کا مطالبہ کیا تھا۔
کھنڈرات میں موجود سانپوں کی عادتیں بھی کچھ انوکھی سی تھیں۔ عموماً تو وہ کھنڈر کی دیواروں اور وہاں پڑے پتھروں تلے دبکے پڑے رہتے۔ وہ اتنے خاموشی پسند تھے کہ ان کی موجودگی کا کوئی شبہ تک نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جیسے ہی وہاں کوئی انسان پہنچتا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گرد بے شمار سانپ رینگتے ہوئے آکر جمع ہوجاتے اور اسے وہاں سے اپنی جان بچا کر بھاگ جانے کا موقع تک نہ دیتے۔ سانپوں کے حملہ آور ہونے کا یہ انداز بہت ہی انوکھا اور خوف زدہ کر دینے والا تھا۔ کھنڈر میں داخل ہونے والا کوئی بھی شخص سانپوں کا شکار ہونے سے بچ کر کھنڈر سے باہر آہی نہیں سکتا تھا۔ ایک ساتھ سینکڑوں بلکہ ان گنت سانپ اسے گھیر لیتے اور ڈس کر موت کی آغوش میں پہنچا دیتے۔ایک شخص کو سینکڑوں سانپ پھنکارتے ہوئے اپنے زہر کا نشانہ بنائیں… کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
مسلسل چار انجینئروں اور چھ مزدوروں کی ناگہانی موت نے شہر بھر میں ایک سنسنی کی لہر پھیلا دی تھی۔ ہر شہری موت کے خوف میں مبتلا تھا۔ وہ کھنڈر اب لوگوں کے لیے سانپوں کی وادی بن چکے تھے۔ کھنڈرات کے قریب سے ایک سڑک گزرتی تھی۔ آنے جانے والے لوگ انگلی کا اشارہ کرکے اپنے ساتھ چلنے والوں کو کھنڈروں کے قریب سے بھی گزرنے کو منع کرتے اور منع کرتے ہوئے ان کے چہرے پر خوف کی سفیدی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ پرانے لوگوں نے تو اب سانپوں کے خوف سے اس سڑک کا راستہ ہی چھوڑ دیا تھا۔
ان ہی دنوں جیمس ایلن نامی ایک نوجوان انجینئر نے سانپوں کے چنگل سے کھنڈرات کو آزاد کرانے کا فیصلہ کیا۔ جیمس ایلن کو محکمہ آثار قدیمہ میں ملازمت اختیار کیے ہوئے ابھی دوسرا ہی سال تھا۔ اس کے اس فیصلے کی خبر پورے محکمے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کئی پرانے اور مخلص افسروں نے اسے اس فیصلے سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی اور سمجھایا :
’’کیوں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتے ہو۔ تم سے پہلے جن لوگوں نے کھنڈر کو سانپوں سے پاک کرنا چاہا وہ کوئی بزدل نہیں تھے۔ مگر سانپوں نے ان کے ارادے ، ان کے عزم اور حوصلے سب کو ہی موت کی آغوش میں پہنچا دیا۔ وہ سب موت کا شکار ہو کر ابدی نیند سو گئے ۔کیوںاپنی بہادری اور ذرا سی شہرت کے لالچ میں اپنی زندگی سے دشمنی کر رہے ہو…‘‘
مگر جیمس ایلن نے کسی کی بات پر بھی کوئی توجہ نہیں کی ،وہ اپنے فیصلے پر قائم رہا ۔ اس کا کہنا تھا موت تو ہر جاندار کو ایک دن آنی ہی ہے۔ موت کے خوف سے بنی نوع انسان یعنی انسانیت کی خدمت سے ہاتھ اٹھا لینا کوئی اچھی بات نہیں، میں سانپوں کے چنگل سے ان کھنڈرات کو آزاد کرا کے ہی دم لوں گا۔
جیمس ایلن اپنے والدین کی واحد اولاد تھا۔ انہوں نے بیٹے کی بات سنی تو بڑے پیار سے سمجھایا اور اس کے فیصلے پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش بھی کی۔ مگر جیمس نے ان کی بھی نہیں مانی۔
اخبارات کو بھی جیمس کے فیصلے اور ارادے کی خبر مل چکی تھی۔ انہوں نے جیمس سے ملاقات کی۔ اس کے انٹر ویو لیے،تصاویر حاصل کیں اور اسے اخبارات کی زینت بنایا۔ راتوں رات جیمس کا نام بچے بچے کی زبان پر پہنچ گیا۔ شہر کا ہر شخص اس کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہا تھا۔
جیمس نے 16نومبر کی تاریخ ان کھنڈرات میں جانے کے لیے مقرر کی جو سانپوں کی وادی سے مشہور ہو چکے تھے۔ وہ صبح سویرے سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی اپنے دفتر پہنچ گیا۔ اپنے افسران بالا سے بات کی ۔ ساتھیوں سے مشورے کیے اور پھر قدیم تاریخی کھنڈرات میں ساتھ لے جانے والے سامان کا جائزہ لیا۔ ہر چیز ٹھیک ٹھاک تھی۔ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے جیمس کو خصوصی طور پر چمڑے کا لباس پیش کیا گیا تھا ۔پوشاک کے ساتھ خاص قسم کے جوتے ، ہیٹ اور دوسرے ضروری آلات کے ساتھ ساتھ اسے چار مزدور بھی مدد کے لیے فراہم کیے گئے تھے۔ وہ چاروں بھی حفاظتی آلات سے پوری طرح لیس تھے۔
تقریباً دس بجے صبح جیپ جیمس ایلن اور اس کے معاونین کو لے کر دفتر سے کھنڈرات کی طرف روانہ ہوئی اور پھر وہ کھنڈرات تک پہنچ گئی ۔وہ کھنڈرات کافی وسیع و عریض علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ جیپ سے اتر کر آگے انہیں پیدل ہی چلنا تھا۔ جیمس نے محسوس کیا جیسے اس کے ساتھی مزدور آگے چلنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ تو وہ خود آگے بڑھ کر چلنے لگا۔ اب مزدور اس کے پیچھے پیچھے تھے۔
یہ کھنڈرات اپنی آٹھ سو سال کی زندگی کی کہانی سنا رہے تھے۔ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجانے کے باوجود ان کی آب و تاب اور شان و شوکت اب بھی نمایاںتھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا جب یہ کھنڈر اس قدر عالی شان ہیں تو ان کی اصل عمارات کتنی شاندار ہوں گی۔ چلتے چلتے جیمس نے دیکھا ۔اس کے بائیں طرف کی دیوار ٹوٹی ہونے کے باوجود اب بھی آٹھ فٹ بلند ہے۔ اسے آسانی سے پھاندا نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے دائیں طرف سے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔
جیمس ایک ایک قدم بڑی احتیاط اور ہوشیاری سے آگے بڑھا رہا تھا۔ اس کی نظریں سرچ لائٹ کی طرح اپنے اطراف کا بھرپور جائزہ لے رہی تھیں۔ اب تک اسے کہیں کوئی سانپ نظر نہیں آیا تھا۔
اور سانپ نظر نہ آنے کی وجہ سے خود اس کا اپنا حوصلہ ہی نہیں اس کے ساتھ آنے والے مزدوروں کا حوصلہ بھی خاصا بڑھ گیا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک مزید چلتے رہنے کے بعد جیمس اور اس کے ساتھی کھنڈروں کے بالکل درمیان ہی پہنچ گئے تھے۔ یہ حصہ چاروں طرف سے ٹوٹی پھوٹی دیواروں سے گھرا ہوا تھا اور یہاں سے باہر کا کوئی بھی حصہ نظر نہیں آرہا تھا۔
جیمس نے یہاں پہنچ کر کھنڈر میں موجود اشیاء کے نمونے حاصل کرنے شروع کیے۔ کھنڈرات کی حالت بہت خستہ ہو چکی تھی۔ ایک طرف بڑے سے پتھر پر کچھ عبارت بھی لکھی نظر آرہی تھی مگر وہ پڑھی نہ جا سکی۔ یہ شاید کسی قدیم زمانے کی زبان تھی۔ جیمس نے اس پتھر پر جمی کائی اور کوڑے کرکٹ کو مزدوروں سے صاف کرایا اور پھر اپنا کیمرہ سنبھال کر وہاں کی تصاویر لینے لگا۔
اس نے ابھی کیمرے سے ایک ہی تصویر بنائی تھی کہ اس نے اپنے پیروں میں کسی نرم سی چیز کا لمس محسوس کیا ۔وہ خوف کے احساس سے تقریباً اچھل پڑا۔ وہ ایک تین فٹ لمبا کالا سانپ تھا۔ جیمس کی خوف کے مارے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ،والی کیفیت تھی۔ اچانک یہ سانپ کہاں سے آگیا۔اس نے دل میں سوچا اور پھر اس کے دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں سانپ اطراف سے نکل کر اس کی طرف بڑھنے لگے۔ اتنے سارے سانپوں کو اپنی طرف ایک ساتھ بڑھتے دیکھ کر اس کے وجود میں خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اتنے ڈھیر سارے سانپ ایک ساتھ دیکھنا تو دور اس نے کبھی اتنے سانپوں کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ مگر اس نے اپنے حواس قائم رکھے اور اس مصیبت کو سامنے دیکھتے ہوئے اس سے محفوظ رہنے کی ترکیب سوچنے لگا۔ وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے تقریباً چار فٹ اونچے چکنے پتھر پر چڑھ گیا۔ اس نے چیخ کر مزدوروں کو بھی یہی کرنے کے لیے کہا ۔
اب سانپوں کی فوج کی پیش قدمی کچھ دیر کے لیے رک گئی۔ مگر ان کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ سانپ اپنی زہریلی زبانوں سے پھنکارتے ہوئے اس پتھر پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر پتھر چکنے تھے اس لیے انہیں پتھر پر چڑھنے میںناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ کامیاب بھی ہوئے ، جیمس نے وہیں پڑے ہوئے پتھر مار مار کر ان کے سر کچل دیے ۔ یہ جنگ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔
جیمس جس پتھر پر پناہ لیے ہوئے تھا وہ نکیلا تھا۔ جیسے ہی تھک کر اپنا پہلو بدلنے کے لیے اس نے حرکت کی پتھر اپنی جگہ سے ہل گیا اور جیمس اپنا توازن برقرارنہ رکھ سکا۔ وہ پتھر سے نیچے بالکل ہی سانپوں کے اوپر گرا ۔بس پھر کیا تھا،سینکڑوں سانپ ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے اور اس کے جسم پر اپنا پھن مارنے لگے۔ اس وقت چمڑے کی خصوصی پوشاک نے اس کی حفاظت کی ۔ مضبوط اور دبیز خاص طور پر تیار کیے گئے چمڑے میں سانپ کے دانت پیوست نہ ہو سکے۔ اب جیمس اپنے جسم کو جھاڑتا ہوا وہاں سے اٹھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ ابھی کچھ ہی فاصلہ دوڑتے ہوئے طے کر سکا تھا کہ اسے سامنے سے دو اجنبی شخص بڑھتے نظر آئے۔ جیمس نے اپنا ریوالور نکالا اور ایک پتھر کی آڑ میں ہو کر مورچہ بند ہو گیا۔ اس نے نشانہ لے کر دونوں اجنبیوں کے پیروں کو گولی مار کر زخمی کر دیا اور جب وہ گر پڑے تو ان کے قریب پہنچ کر اپنے جوتوں اور مکوں سے ان کی خوب ٹھکائی کی۔
یہ دونوں آدمی بہت کمزور واقع ہوئے اور جیمس کی مار سے بچنے کے لیے خود ہی اقرار کر لیا کہ وہ سانپ ان کے پالتوسانپ ہیں اور یہ کھنڈران کی مجرمانہ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ عام لوگوں کو یہاں سے دور رکھنے کے لیے انہوں نے سانپوں کے قصے کا افسانہ عام کیا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ مگر آج ’’ سو دن سنار کے اور ایک دن لوہار کا‘‘ والی کہاوت کے مطابق وہ ہار گئے ہیں اور خود کو قانون کے حوالے کرتے ہیں۔
جیمس نے فوراً اپنے وائرلیس پر حکام کو خبردی اور حکام نے وہاں پہنچ کر مجرموں کو گرفتار کر لیا۔ جیمس نے ان کی گرفتاری سے پہلے ہی یہ منظر بھی دیکھ لیا تھا کہ وہ سارے سانپ وہیں رکھے دو ڈرموں میں سما گئے تھے۔
اگلے دن پورے شہر کے اخباروں میں جیمس کی کامیابی اور اسمگلروں کی گرفتاری کی خبریں تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ جیمس کی ہمت اور ثابت قدمی سے محکمہ آثار قدیمہ کو ایک بڑے مسئلے سے نجات ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ سیاحوں کی آمد کا راستہ بھی کھل گیا تھا۔
٭…٭…٭