روزی
فوزیہ خلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا آپ کے دوست کو اغوا کر لیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’امی کیا بات ہے،ابو ابھی تک اپنے کام سے واپس نہیں لوٹے کافی دیر ہو گئی ہے۔‘‘میں نے پریشانی سے ٹہلتے ہوئے کہا۔میں کوئی گھنٹہ بھر سے اسی طرح بے چینی سے صحن میں چکر کاٹ رہا تھا۔
’’تم تو کھانا کھا لو بیٹے۔ابو کے انتظار میں مت رہو ان کو تو دیر سویر ہوتی ہی رہتی ہے۔‘‘امی بولیں۔
’’نہیں امی ۔میں ابو کے بغیر کھانا نہیں کھا سکتا۔نہ جانے کیا بات ہے ابو کے بغیر مجھ سے کھانا نہیں کھایا جاتا۔نوالے جیسے میرے حلق میں اٹکنے لگتے ہیں۔‘‘ میں بولا۔
’’اچھا تو پھر ٹہلو نہیں تھک جاؤ گے۔ایک طرف بیٹھ جاؤ تمہاری ٹانگیں دکھنے لگیں گی۔‘‘
میں خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔پھر اچانک مجھے معاویہ کا خیال آیا۔آج شام وہ کوچنگ سینٹر نہیں آیا تھا۔معاویہ سے میری دوستی کوچنگ سینٹر میں ہی ہوئی تھی۔میں اور معاویہ دسویں جماعت کے طالبعلم تھے۔اب سے کوئی چار پانچ مہینے پہلے کی بات ہے جب اس نے ہمارے سینٹر میں داخلہ لیا۔وہ عام لڑکوں سے یکسر مختلف تھا۔پڑھنے میں بے حد تیز نمازوں کے اوقات میں وہ ہم لڑکوں سے باتیں کرتے کرتے ایک دم رک جاتا۔فوراََ معذرت کر کے مسجد چلا جاتا تھا۔اس کی دیکھا دیکھی بہت سے لڑکوں نے نماز پڑھنا شروع کر دی تھی۔کسی لڑکے کو اگر کوئی سوال سمجھ نہ آتا تو معاویہ پریشان ہو جاتا ،تب تک سمجھاتا رہتا جب تک وہ لڑکا مطمئن نہ ہو جاتا۔اس کے لہجے میں اتنی نرمی او رمٹھاس تھی کہ اکثر مجھے حیرت ہونے لگتی۔میں نے اس عمر کے لڑکوں کو عموماََ تو تڑاخ سے بات کرتے ہی دیکھا تھا۔خود میرے گھر کا ماحول بھی کافی آزاد تھا۔مجھے معاویہ کی عادات بے حد پسند تھیں۔جلد ہی وہ میرا گہرا دوست بن گیا۔اتنا گہرا کہ مجھے لگتا ہی نہیں تھا کہ ہماری دوستی چند مہینے پرانی ہے،ایسا لگتا تھا کہ ہم سالوں پرانے دوست ہیں۔معاویہ کو کبھی میرے گھر آنے کا اتفاق نہ ہواتھا۔نہ میں کبھی اس کے گھر جا پایا تھا۔اس نے کئی بار مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تھی۔لیکن چونکہ کوچنگ سینٹر میں روزانہ اس سے ملاقات ہو جاتی تھی لہٰذا کبھی گھر جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا تھا۔اس نے کئی بار اپنے گھر کا پتہ بھی مجھے تفصیل سے بتایا مگر ایک تو اس کا گھر ہمارے گھر سے کافی دورتھا،دوسرا یہ کہ کبھی کوئی ایسا کام ہی نہ پڑا ۔آج وہ سینٹر نہیں آیا تھا،وہ کبھی چھٹی نہیں کرتاتھا۔لہٰذا سبھی کو بڑا تعجب ہوا۔اور لڑکوں نے بھی اس کی بہت کمی محسوس کی۔مگر میں تو بڑاہی بے قرار رہا۔مستقل پہلو بدلتا رہا۔مجھے ایسا محسوس ہورہاتھا جیسے میری کوئی قیمتی چیز کھو گئی ہے۔نمازِ عصر پر میں اکیلا ہی نماز کو گیا۔نماز کی یہ عادت بھی مجھے معاویہ کی صبحت میں پڑی تھی۔
’’امی آج میرا دوست معاویہ غیر حاضر تھا۔‘‘میں بولا۔
’’اوہ۔وہی پیارا سے لڑکا جس کا تم پہلے بھی تذکرہ کر چکے ہو؟مگر کیوں وہ تو روز آنے والا بچہ ہے۔‘‘
’’ہاں اسی لئے تو فکر مند ہوں۔‘‘
’’تو ابو بکر بیٹا تمھیں چاہئے تھا کہ فوراََ فون کرتے۔‘‘ امی بولیں۔
’’وہ اصل میں ابو کو دیر ہو گئی تھی میں اس فکر میں لگ گیا اور وقتی طور پر میرے ذہن سے یہ بات نکل گئی۔میں نے معاویہ کا نمبر کئی بار ملایا کیا مگر کسی نے فون نہ اٹھایا۔‘‘
اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی اور میں شور مچاتا ہوا بھاگا۔
’’ابو۔۔۔آپ دیر سے کیوں آئے؟‘‘ میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
ابونے جھک کر میری پیشانی چومی۔’’آپ نے کھانا کھایا ابو بکر؟‘‘
’’نہیں ابو آپ کے بغیر نہیں ۔۔۔ہرگز نہیں۔‘‘میں نے کھانے کی میز کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔’’ناجانے کیا بات ہے ابو آپ گھر میں نہیں ہوتے تو مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔نہ کھانا نہ پینا نہ ہنسنا نہ بولنا۔‘‘
’’مگر ایک وعدہ کرو ابوبکر۔‘‘وہ بولے۔
’’جی۔‘‘
’’تم میرے انتظار میں بھوکے نہیں رہو گے۔کچھ نہ کچھ کھا ضرور لو گے۔جب مجھے پتا چلتا ہے کہ تم بھوکے رہے ہو تو میرے دل کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘
’’وعدہ۔۔۔‘‘میرے منہ سے نکلا ۔’’نہیں ابو۔ یہ وعدہ بڑا مشکل ہے۔‘‘
*۔۔۔*
اگلے روز بھی میں نے معاویہ کا موبائل نمبر کئی بار ملایا مگررابطہ نہ ہو سکا۔میرے پاس معاویہ کے گھر کے افراد میں سے کسی کا نمبر نہیں تھااورپھر وہ کوچنگ سینٹر بھی نہیں آیا، تو میری تشویش حد درجہ بڑھ گئی۔سینٹر سے چھٹی کے بعدجب شفقت بھائی مجھے لینے آئے تو میں سوچ میں پڑ گیا۔شفقت ہمارا پرانا ڈرائیور تھا۔صبح ابو کو وہی چھوڑتا تھا۔مجھے اسکول چھوڑنا،کوچنگ سینٹر لانے لے جانے کی ذمہ داری بھی شفقت ہی کی تھی۔رات میں ابو کو بھی وہی لاتا تھا۔
میں نے فون کر کے امی کو بتایا کہ میں شفقت کے ساتھ معاویہ کے گھر جانا چاہتا ہوں۔گھر کا پتہ میرے ذہن میں تھا جو وہ کئی بار مجھے سمجھا چکا تھا۔
’’ضرورجاؤ بیٹے مگر جلدی جانا اور جلدی آنا۔‘‘امی نے کہا۔
شفقت کو معاویہ کا گھر ڈھونڈنے میں کو ئی پریشانی نہیں ہوئی۔معاویہ کے گھر پر گاڑی روکتے ہوئے وہ کافی حیران نظر آرہا تھا۔
’’تو یہ ہے ابوبکر میاں آپ کے دوست کا گھر؟‘‘اس نے حیرت سے کہا۔
’’اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟‘‘میں بولا اور دروازے کی گھنٹی بجا دی۔
معاویہ کا گھر کافی خوبصورت تھا۔جیسے ایک چھوٹا سا محل ۔ملازم کے ساتھ میں اندر داخل ہو ا تو مجھے گھر کی فضا کافی سوگوار محسوس ہوئی۔اندر مجھے کچھ پولیس والے بھی نظر آئے۔مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا گیا۔ذرا ہی دیر میں معاویہ کے بڑے بھائی اور والد اندر داخل ہوئے۔وہ کافی عجلت میں تھے۔
’’اصل میں بیٹا۔گھر پر پولیس آئی ہوئی ہے۔تفتیش کیلئے۔بیٹا آپ کے دوست معاویہ کو کل شام اغواء کر لیا گیا ہے۔‘‘
’’اغواء؟؟‘‘میرا گلا رندھ گیا۔میرا کوئی بھائی نہیں تھا،معاویہ مجھے بھائیوں کی طرح عزیز تھا۔بھلا اتنے اچھے بچے کو بھی کوئی اغواء کرتا ہے۔میرے آنسو خود بخود بہنے لگے۔
’’تم غم مت کرو بچے۔‘‘معاویہ کے والد نے میرا شانہ تھپتھپایا۔وہ مجھے صبر کی چٹان معلوم ہوئے۔ہمت اورعالی حوصلے والے۔میں معاویہ کے گھر والو ں سے پہلی بار مل رہا تھا۔
’’پھر چچا جان ۔ان لوگوں کا کوئی فون، کوئی مطالبہ۔۔۔ تاوان وغیرہ کا؟؟‘‘ میرے منہ سے خود ہی انکل کے بجائے چچا جان نکلا۔
’’ہاں بیٹا انہوں نے ایک کروڑ کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘
’’پھر چچا جان آپ بندوبست کر پائے؟‘‘
’’بیٹا میں پیسے جمع کرنے کا عادی نہیں۔جونہی میرے پاس رقم جمع ہوتی ہے۔میں کسی مسجد کسی مدرسہ میں لگا دیتا ہوں۔یا کسی ضرورت مند کے کام آجاتی ہے۔پھر بھی کل رات ان لوگوں کے مطالبے کے بعد سے ہم سبھی بھاگ دوڑ میں لگے ہیں۔کافی رقم کا بندوبست ہو گیا ہے۔بس ایک دو لاکھ کا ہی فرق باقی ہے۔‘‘
’’چچا جان یہ رقم میں ابھی لے کر آتا ہوں۔میرے لئے یہ بات بڑی خوشگوار ہو گی کہ میں نے اپنے بھائی معاویہ کیلئے کچھ کیا۔آپ لینے میں ہچکچائیں مت۔اللہ کا کرم ہے کہ ہمارے پاس اس کا دیا بہت کچھ ہے۔ میرے والد منع نہیں کریں گے۔یوں بھی ایک دو لاکھ اتنی بڑی رقم نہیں ہے ان کیلئے۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا ۔تم لے آؤ،میرا وعدہ ہے۔میں ہفتہ دس دن میں تمھاری رقم لوٹا دوں گا۔‘‘
میں اٹھ کھڑا ہوا۔تمام راستے میں گاڑی میں روتا رہا۔ شفقت بھائی نے مجھ سے کچھ پوچھا نہیں۔وہ بالکل خاموش رہے۔پھر روتے روتے ہچکیوں میں میں نے انہیں پورا واقعہ بتایا۔
’’رو نہیں ابو بکر بیٹا۔‘‘وہ بولے۔’’میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں ،پھر تمہارے والد کے پاس جا کر رقم لے کر آتا ہوں۔جلد ہی وہ رقم تمھارے دوست کے والد کے ہاتھ میں ہو گی۔‘‘
میں گھر آگیا۔میں نے نہ کھایا نہ پیا۔خاموش اپنے بستر پر پڑا روتا رہا۔امی خوشامد کر کر کے تھک گئیں۔مگر میں اتنا غم ذدہ تھا کہ بس روتا ہی رہا۔اپنی کاپیوں کے صفحات پر معاویہ معاویہ لکھتا رہا۔تم آجاؤ معاویہ،تم کہا ں ہو معاویہ۔اللہ تعالیٰ اغواء کرنے والوں کو عبرتناک سزا دے۔ایک گھنٹے میں شفقت بھائی پیسے لیکر آگئے۔مجھے پتا تھا ابو فوراََ رقم دے دیں گے۔میری کوئی فرمائش وہ کبھی نہیں ٹالتے تھے۔ہم لوگ رقم فوراََ معاویہ کے والد کو پہنچا آئے۔
*۔۔۔*
رات تک مجھے تیز بخار چڑھ گیا۔ابو کا فون آگیا تھا کہ وہ کام میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اس لئے آنہیں پائیں گے۔آدھی رات کے قریب میں بیہوش ہو گیاتھا۔مجھے نہیں معلوم کہ معاویہ کا کیا ہوا۔پیسے دینے کے بعد وہ آیا یانہیں۔امی،شفقت بھائی اور ہمارے گھریلو ملازم بابا دین محمد مجھے اسپتال لے آئے تھے۔مجھے داخل کر لیا گیا تھا۔ میں نے آنکھ کھولی تو امی ،بابا دین محمد اور شفقت بھائی کو وہیں پایا۔یہ سبھی مجھے چاہتے تھے۔بچپن میں ان سبھی نے مجھے گودوں میں کھلایا تھا۔ہوش میں آتے ہی میں نے ابو کو پکارا۔
’’شفقت بھائی ابو کو لے آؤ ۔۔۔۔جاؤ شفقت بھائی دیر مت کرو۔‘‘
میں دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔شفقت بھائی تیزی سے اٹھ کر باہر دروازے کی طرف بھاگے۔
’’شفقت بھائی۔ابو بکر کے دوست معاویہ کا کیا ہوا۔کیا ان لوگوں نے رقم جمع کرا دی؟‘‘امی نے پوچھا۔
’’جی ہاں۔ایک کروڑ جمع کرائے جا چکے ہیں۔آگے کی تفصیل مجھے خود معلوم نہیں۔‘‘
’’شفقت بھائی۔بروہی سے کہنا جلدی سے آجائے۔سارے کام چھوڑ دے۔ابو بکر بس بروہی کو ہی پکار رہا ہے،ابو ابو کر رہا ہے۔‘‘
جی میں بروہی صاحب کو ہی لینے جارہا ہوں۔
*۔۔۔*
’’بروہی صاحب اس مرتبہ آپ لوگوں نے جس بچے کو اغواء کیا ہے وہ ابو بکر کا گہرا دوست ہے معاویہ۔‘‘ شفقت بھائی کہہ رہے تھے۔’’میں ابو بکر کے ساتھ جا کر اس کا گھر بھی دیکھ آیا ہوں۔وہ وہی لڑکا ہے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔!!‘‘ابوبکر کے والدتشویش سے بولے
’’اور۔۔۔ اور ابوبکر کیسا ہے،بخار اترا کہ نہیں؟‘‘
’’بروہی صاحب وہ بس دو لوگوں کو ہی یاد کر رہا ہے، ایک آپ اور دوسرا معاویہ۔آپ چلیں گے کیا ابھی؟‘‘ شفقت بھائی بولے۔
’’ہم گینگ کے تمام لوگ رات بھر اغواء کے اس معاملے میں الجھے رہے۔باس بھی ہمارے ساتھ تھا تو میں ذرا سی دیر کو بھی گھر نہیں آسکا۔بہرحال معاویہ کے گھر والوں نے ایک کروڑ تو جمع کرا دیا ہے۔پولیس جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے۔میرا نکلنا مشکل ہے۔ باس نے فی الحال گینگ کے تمام لوگوں کو باہر جانے سے منع کیا ہے۔‘‘ابوبکر کے والد بروہی صاحب بولے۔
’’معاویہ کو چھوڑ دیا آپ لوگوں نے؟‘‘شفقت بھائی نے پوچھا۔
’’نہیں۔نہیں چھوڑا۔معلوم نہیں باس کا کیا ارادہ ہے۔‘‘
’’پھر آپ کچھ کریں،ابوبکر بہت پریشان ہے۔تمام رات روتا رہاہے۔‘‘
’’نہیں شفقت بھائی۔میں کیا کر سکتا ہوں۔ہم سب باس کی مرضی پر چلتے ہیں،باس ہماری مرضی پر نہیں چلتا۔‘‘فکرمندی کا ایک جال بروہی صاحب کے چہرے پر پھیل گیا۔’’اس وقت ہم لوگ نہ کال کر سکتے ہیں نہ کال ریسیو کر سکتے ہیں۔باس کی اجازت نہیں ہے۔ورنہ گرفتاری کا خطرہ ہے۔بہر حال ابوبکر مجھے اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے۔کچھ بھی ہو میں اس سے ملنے کے لیے کسی طرح چکر لگاؤں گا۔‘‘وہ بولے پھر انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے۔ ’’یہ پیسے لے جاؤ شفقت۔اسپتال میں تم لوگوں کو ضرورت پڑے گی۔ابو بکر کیلئے ڈھیروں چیزیں خریدنا۔اسے مطمئن کر دینا۔میں کسی طرح آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
شفقت بھائی خاموشی سے باہر نکل گئے۔
’’ابوبکر۔۔۔میرے بیٹے۔۔۔عزیر از جان بیٹے۔‘‘
بروہی صاحب کے منہ سے نکلا۔دو آنسو ٹوٹ کر گرے اور ان کے گریبان میں جذب ہو گئے۔
*۔۔۔*
ابوبکر کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے بستر پر تنہا لیٹا تھا۔نرس نے اسے بتایا کہ اس کی امی وغیرہ سب وارڈ سے باہر بیٹھے ہیں۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے تکئے کے پاس ڈھیروں چیزیں پڑی تھیں۔اس کی پسندیدہ کتابیں،چاکلیٹیں اور ڈھیروں سامان۔وہ مسکرانے لگا۔اس نے تکیہ ہٹا کر دیکھا تو تکیے کے نیچے ہزاروں روپے پڑے تھے۔ہزار ہزار کے کئی نوٹ۔ ابوبکر نے بے خیالی میں تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر نیچے سے نوٹ نکال لئے۔اور دیکھنے لگا۔ اچانک وہ حیران رہ گیا۔اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
ہزار کے نوٹوں میں سے ایک پر لکھا تھا:
’’تم آجاؤ معاویہ۔‘‘
یہ ابوبکر کی اپنی لکھائی تھی۔یہ لکھائی تو وہ ہزاروں میں پہچان سکتا تھا۔یہ نوٹ یہاں کہاں سے آیا۔اسے یاد آیا کہ جب شفقت بھائی اس کے ابو سے پیسے لے کر آئے تھے۔تو وہ اپنی کاپیوں پر معاویہ معاویہ لکھ رہا تھا۔یقیناًاس نے بے خیالی میں کچھ نوٹوں پر بھی یہ تحریر لکھ دی تھی۔مگر یہ نوٹ یہاں پر کہاں سے آیا۔یہ نوٹ تو معاویہ کے والد کو دے دئے گئے تھے اور پھر یقیناًانہوں نے اغواء کرنے والوں کو جمع کرا دئیے ہوں گے۔پھر یہ نوٹ ادھر کہاں سے آگیا۔وہ سوچتا رہا سوچتا رہا مگر کوئی سرا ہاتھ نہ لگا۔اچانک شفقت بھائی اندر داخل ہوئے۔ابوبکر کو دیکھ کر وہ مسکرائے،انہیں آتا دیکھ کر ابوبکر نے وہ والا نوٹ خاموشی سے اپنی جیب میں رکھ لیا۔
’’تم ہوش میں آگئے ابوبکر۔‘‘انہوں نے پیار سے اس کے گال تھپتھپائے۔پھر بولے۔’’یہ سارا سامان تمہارے والد نے بھیجا ہے۔اور وہ خود بھی بس پہنچنے ہی والے ہیں۔‘‘
ابوبکر خاموش رہا ،وہ بہت کچھ سوچ رہا تھا۔
’’اوہ۔۔میں نے یہاں تکئے کے نیچے کچھ پیسے رکھ دئیے تھے،اسپتا ل میں بل وغیرہ دینے کی ضرورت پڑے گی۔تمہاری چھٹی ہونے والی ہے۔‘‘وہ بولے اور تکئے کے نیچے سے پیسے نکالنے لگے۔
’’یہ پیسے آپ کے پاس کہاں سے آئے شفقت بھائی۔‘‘ابوبکر نے ان سے سوال کیا۔وہ بہت غور سے ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
’’کیوں؟؟‘‘وہ بولے۔
’’مجھے بتائیے آپ کو یہ پیسے کس نے دئیے؟‘‘
’’کون دیتا؟‘‘وہ مسکرائے۔
’’ٹال مٹول مت کیجئیے شفقت بھائی۔کیا آپ کا تعلق کسی اغواء کرنے والے گرو ہ سے ہے۔مجھے جواب دیجئے۔‘‘ابوبکر نے اچھل کر ان کا گریبان پکڑ لیا۔
’’کیوں ان نوٹوں میں ایسی کیا بات ہے؟اور پھر میں کیوں کسی کو اغواء کرنے لگا؟‘‘وہ اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے بولے۔
’’معاویہ کے والدسے تاوان آپ ہی نے وصول کیا ہے شفقت بھائی۔‘‘ابوبکر ہسٹریائی انداز میں چیخ رہا تھا۔جلد ہی وہاں ڈاکٹرز جمع ہو گئے،ابوبکر دوبارہ بے ہوش ہو گیا۔
*۔۔۔*
سارے نوٹ فرش پر بکھرے ہوئے تھے اور سب ان نوٹوں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔
’’نہیں ۔ان میں سے کسی نوٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے،جس سے کہ ابوبکر یہ اندازہ لگائے کے یہ تاوان کے طور پر ادا کئے گئے ہیں۔‘‘باس سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔
’’تو پھر آخر ابوبکر نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ شفقت بھائی کا تعلق کسی اغواء کرنے والے گینگ سے ہے؟‘‘بروہی نے کہا۔
’’اور میرا تعلق اغواء کرنے والے گینگ سے بھی نہیں ہے۔میں آپ لوگوں کی کسی سرگرمی میں شریک ہوتا ہی کب ہوں؟میں کسی گینگ سے تعلق نہیں رکھتا۔ہاں البتہ اگر کبھی وصی نہیں ہوتا تومیں گاڑی چلا لیتا ہوں اور اسکی بھی نوبت کم ہی آتی ہے۔‘‘شفقت بھائی نے منہ بنا کرکہا۔
’’لیکن شفقت بھائی ۔۔۔اب آپ کو اس گینگ سے اپنا تعلق جوڑنا ہی ہوگا۔‘‘باس نے سرد آواز میں کہا۔
’’وہ کیوں؟؟؟جب کہ۔۔۔‘‘شفقت بھائی کا جملہ باس نے کاٹ دیا۔
’’بے شک شفقت بھائی تم اغواء گروپ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے لیکن اب جب کہ تم شک کی زد میں آرہے ہو، اور یہ معمہ بھی حل ہو ہی جائے گا کہ ابوبکر کو یہ شک کیسے ہوا۔لیکن شک کی زد میں آنے کے بعد تم ہی اپنے آپ کو مجرم ثابت کر دو گے۔میری اس سلسلے میں بروہی سے بات ہو گئی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘شفقت بھائی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’میں صرف ایک ڈرائیور ہوں اور صرف اسی کی تنخواہ لیتا ہوں۔میں مجرم کیوں بنوں؟ کیوں بروہی صاحب میری وفاداری کا یہ صلہ؟‘‘
’’ہماری مجبوری سمجھیں۔ابھی تک ابوبکر آ پ کو مجرم سمجھ رہا ہے۔یہ معاملہ یوں حل ہو رہا ہے۔مجھ تک بات نہیں پہنچ رہی ہے۔اگر وہ مجھے مجرم کی حیثیت سے جان لے تو ۔۔۔اسکی زندگی تباہ ہو جائے گی۔۔۔وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘بروہی نے کہا۔
’’اپنے بیٹے کی زندگی،خوشی اور غم کی کتنی پرواہ ہے تم کو کیا معاویہ کسی کا بیٹا نہیں،کیا وہ سب کسی کے بیٹے نہیں تھے جن کو تم لوگوں نے اغواء کیا۔‘‘شفقت بھائی چیخ پڑے۔
’’چیخنے کی ضرورت نہیں۔جو طے ہو گیاسو ہو گیا۔اگر یہ معاملہ اٹھتا ہے کہ تا وان تم نے وصول کیا تھا تو تم حامی بھر لوگے۔ورنہ جان لو باس کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔ہم تمہیں کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیں گے ۔پھر ساری عمر جیل میں سڑنا۔‘‘
’’جیل میں تو اب بھی سڑنا ہے۔‘‘
’’نہیں ۔۔ہم تم کو ضمانت پر رہا کرالیں گے زیادہ پریشانی نہیں رہے گی۔‘‘شفقت بھائی نے ڈبڈبائی آنکھوں سے سب کو دیکھا اور باہر نکل گئے۔
*۔۔۔*
’’بروہی۔۔۔سن رہے ہو۔تمہارے بیٹے نے پولیس کے سامنے ثابت کر دیاکہ شفقت بھائی مجرم ہیں اور اس نے اپنا جرم قبول کر لیا۔اور پولیس شفقت بھائی پر ظلم توڑ رہی ہے۔کہ وہ اپنے ساتھیوں کے نام اور ٹھکانے بتائے۔‘‘باس نے ایک قہقہہ لگایا۔
’’پھر اگر اس نے بتا دئیے تو پھر؟؟ کیا ہمیں فوری طور پر یہاں سے نکلنا ہو گا؟اور پھر یہ کب کی بات ہے؟‘‘
روڈی نے فوراََ پوچھا۔
’’یہ کل صبح کی بات ہے۔شفقت بھائی ایک بزدل آدمی ہے وہ بھلا ہمارا ٹھکانہ بتا سکتا ہے پولیس کو؟‘‘باس نے ایک اور قہقہہ لگایا۔
’’مگر باس ہم کو یہ امکان بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔پولیس کبھی بھی ہمارے ٹھکانے کو گھیر سکتی ہے۔‘‘باس کے نائب جھاکا نے فوراََ کہا۔
’’ہاں باس جھاکا درست کہہ رہاہے۔‘‘بروہی نے کہا۔
پانچ ہی منٹ بعد روڈی بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔’’باس پولیس ہمارے ٹھکانے کو تیزی سے گھیرے میں لے رہی ہے۔‘‘
’’فکر کی کوئی بات نہیں۔اپنا سامان سمیٹ لو اور جھاکا،تم معاویہ کو نیچے سرنگ والے کمرے میں چھپا دو۔پولیس کی فکر نہ کرو اسے میں سنبھال لوں گا۔اب جبکہ شفقت بھائی کو اپنی زندگی سے کوئی امید نہیں رہ گئی۔تو انہوں نے ہمارا ٹھکانہ بتا دیا۔خیر۔شفقت بھائی سے تو ہم ایسے نمٹیں گے کہ ان کی آئندہ نسلیں یاد رکھیں گی۔‘‘روڈی بولا۔
آدھے گھنٹے بعد انسپکٹر ایازکی آواز مائیک پر گونجنے لگی۔’’اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دو۔‘‘
اعلان تین بار دہرایا گیا۔سناٹے میں آواز پھیل گئی۔کچھ دیر خاموشی رہی۔پھر انسپکٹر ایاز کی آواز ابھری۔’’تم لوگ اپنا گھیرا تنگ کرنا شروع کر دو۔مجھے کود کر اندر جانا ہوگا۔اندر بے گناہ بچے بھی ہوں گے۔‘‘
ذرا ہی دیر میں انسپکٹر ایاز اندر داخل ہو رہاتھا۔انسپکٹر ایاز پولیس میں کچھ خاص پرانا نہیں تھا۔کافی عرصہ بے روزگار رہنے کے بعد وہ پولیس کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔اسکا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے تھا۔ابھی حال ہی میں وہ سب انسپکٹر سے انسپکٹر ہوا تھا۔انسپکٹر ایاز اندر داخل ہوا تو باس چہرے پر نقاب لگائے تنہا اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔
’’ہاتھ اٹھا دو۔تمہارے باقی ساتھی کہا ں ہیں؟‘‘ انسپکٹر ایاز چلایا۔
’’تم سب کیلئے میں اکیلا ہی کافی ہوں اور ہاتھ اٹھانے کا تکلف میں کبھی نہیں کرتا انسپکٹر۔یہ بتاؤ انسپکٹر کہ تمہاری قیمت کیا ہے۔کتنے میں بکنا پسند کرو گے۔‘‘
انسپکٹر ایاز خاموش رہا۔
’’چند ہزار کمانے والے ایک معمولی انسپکٹر تمہاری حیثیت ہی کیا ہے۔بولو انسپکٹر اپنی قیمت بتاؤ۔معاملہ کتنے کروڑ میں طے ہو سکتا ہے۔جتنی خاموشی سے آئے ہو اتنی خاموشی سے لوٹ جانا۔‘‘
انسپکٹر ایاز سوچ میں پڑ گیا۔ایک کروڑ تو کیا اس نے تو کبھی ایک لاکھ بھی نہ دیکھے ہونگے۔پہلے اس نے سوچا انکار کر دے مگر پھر اسے اپنی مجبوریاں نظر آنے لگیں۔بیمار والدین،بہنوں کی شادیاں،بھائیوں کی تعلیم۔
باس نے جھک کر اپنا بریف کیس کھولا اس میں گڈیوں کا انبار لگا ہوا تھا۔
’’یہ لو انسپکٹر۔۔دو کروڑ تمہارے اور دس دس لاکھ تم اپنے ساتھیوں میں بانٹ دینا۔اور فوراََ یہاں سے لوٹ جاؤ آئندہ بھول کر بھی یہاں کا رخ مت کرنا۔تمھیں اس بار یہاں سے زندہ بھیج رہے ہیں ورنہ آئندہ۔۔۔۔‘‘باس کی پھنکارتی ہوئی آواز انسپکٹر ایاز کے کانوں سے ٹکرائی۔وہ جھک کر گڈیاں سمیٹنے لگا اور تھوڑی ہی دیر بعد پولیس واپسی کا رخ کر رہی تھی۔
*۔۔۔*
اب اس وقت کمرے میں کوئی نہیں ہے۔آپ کے ساتھی یہاں سے نکل کر اوپر جا چکے ہیں۔تو کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتا ہوں انکل؟‘‘معاویہ کہہ رہا تھا۔
’’انکل؟؟؟‘‘بروہی کو اس کا لہجہ سن کر بڑا تعجب ہوا۔ ’’پوچھو بیٹے پوچھ لو۔۔یوں بھی ذرا دیر میں تمھیں چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘بروہی نے غور سے اس معصوم سے لڑکے کو دیکھا۔جو کے اس کے ہر دل عزیزاور اکلوتے بیٹے کا عزیز از جان دوست تھا۔
’’انکل آپ کی آواز ،آپ کے بولنے کا انداز، میرے دوست ابوبکر جیسا ہے۔اور پھر آپ کے ساتھی نے آپ کو بروہی کہہ کر پکارا۔گو کہ آپ کا چہرہ نقاب میں ہے مگر مجھے یقین ہے کہ آپ میرے دوست ابوبکر بروہی کے والد ہیں۔‘‘
بروہی لڑکھڑا گیا۔یہ انکشاف اس کے لئے حد درجہ تکلیف دہ تھا۔
’’اگر تم ابوبکر سے واقعی حقیقی محبت کرتے ہو تو مجھ سے ایک وعدہ کرو معاویہ،تم یہ بات ابوبکر کو کبھی مت بتانا۔وہ ٹوٹ جائے گا،وہ بکھر جائے گا،وہ اپنے باپ کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘‘
’’بدلے میں آپ کو بھی مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا۔ہم دونوں ہی اپنے عہد کی پاسداری کریں گے۔
میں ہر وعدہ کرنے پر تیار ہوں۔‘‘بروہی بولا۔
’’انکل جرم کبھی نہیں چھپتا۔جرم کے لباس میں کہیں نہ کہیں چھید ہوتا ہے۔آج نہیں تو کل اس پر یہ ظاہر ہو جائے گا،انکل آپ مجھ سے وعدہ کریں آپ یہ کام چھوڑ دیں گے۔‘‘
بروہی سوچ میں پڑ گیا،چند لمحے یوں ہی گزر گئے۔’’تم نہیں جانتے معاویہ،گینگ سے الگ ہونا کتنا مشکل ہے۔اس کا انجام صرف موت ہے۔ باس مجھے ہر جگہ سے ڈھونڈ نکالے گا۔‘‘
’’آپ فوری طور پر یہ شہر چھوڑ دیں۔کسی دور دراز علاقے میں اپنی زندگی گزاریں۔اپنا نام اور حلیہ تبدیل کرکے کوئی حلال روزی کمائیں۔‘‘معاویہ کہہ رہا تھا۔
چند لمحے بعد بروہی نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’معاویہ بیٹا۔۔۔۔مجھے منظور ہے۔‘‘
*۔۔۔*
اور پھر کئی دن گزر گئے،معاویہ اپنے گھر آچکا تھا۔ابوبکر بھی صحت یاب ہو کر اپنے گھر لوٹ چکا تھا۔بروہی بہت تذبذب کا شکار تھا۔وہ فیصلہ تو کر چکاتھا مگر عمل کرنے کی ہمت نہیں پاتا تھا۔وہ ہر وقت اپنی سوچوں میں گم رہتا۔اس رات جب بروہی اپنے بیڈروم میں تنہا لیٹا تھا، ابوبکر کمرے میں داخل ہوا۔
’’میں کئی دن سے محسوس کر رہا ہوں آپ بہت پریشان ہیں ابومیں اب بڑا ہوں سمجھدار ہوں آپ مجھ سے اپنی پریشانی شئیر کر سکتے ہیں۔آپ کہتے تھے نا ابو تم میرے بیٹے نہیں میرے دوست بھی ہو۔‘‘وہ بولا۔
بروہی نے غور سے ابوبکر کو دیکھا۔
ابوبکر اس کی شادی کے ۱۰سال بعد اس دنیا میں آیا تھا۔ابوبکر کا نام اس کی دادی نے رکھا تھا۔بروہی کو اپنی ماں کا وہ جملہ یاد آیاجو اس نے ننھے سے بچے کو گود میں لے کر کہا تھا۔
’’میں اپنے پوتے کا نام بہت ہی عظیم ہستی پر رکھ رہی ہوں۔بیٹا تم دیکھنامیرا پوتا کس قدر اچھا اور نیک انسان بنے گا۔تم والدین اس پر فخر کرو گے۔‘‘بروہی کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر اس نے ہاتھ پکڑ کر ابوبکر کو اپنے برابر میں بٹھا لیا:
’’ایک لڑکا تھا اس کی تعلیم کم تھی۔بری صحبت کی وجہ سے وہ غلط ہاتھوں میں پڑ گیا۔اور یہاں تک کے وہ اغواء برائے تاوان کے گینگ میں شامل ہو گیا۔پھر اس کا ضمیر زندہ ہوتا ہے وہ توبہ کرتا ہے مگر عمل کرنے میں ہچکچاتا ہے۔اسے کیا فیصلہ کرنا چاہیئے۔‘‘
’’یقیناًاللہ توبہ کرنے کو پسند کرتا ہے۔اسے ہچکچانا نہیں چاہیئے،بلکہ اپنے فیصلے پر ڈٹ جانا چاہیئے،ابو کیا آپ مجھے پوری تفصیل بتانا پسند کریں گے۔‘‘ابوبکر نے غور سے اپنے والد کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اور پھر بروہی نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ہر ہر بات آنسوؤں میں،ہچکیوں میں۔
’’تمھیں یہ سب جان کر بہت دکھ ہو گا بیٹے مگر۔۔۔‘‘
بروہی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’اب جبکہ آپ سب کچھ چھوڑ چکے ہیں تو پھر میں دکھ کیوں کروں؟‘‘
بروہی نے اسے سینے سے لگا لیا۔’’پیارے بیٹے تمھیں یہ سب کچھ چھوڑنا ہو گا۔یہ گھر۔یہ محلہ۔یہ شہر ۔اپنا اسکول۔اپنے دوست احباب۔ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے۔‘‘
’’میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔آپ بے فکر رہیں۔‘‘
اور پھر اگلی ہی صبح بروہی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ بہت ہی خاموشی سے شہر چھوڑ چکا تھا۔یہ بات کسی کو کانوں کان پتا نہ چلی کہ یہ سب کہاں چلے گئے۔ پورے شہر میں صرف معاویہ کو یہ بات معلوم تھی کہ ابوبکر کے گھر والے سب کہاں چلے گئے۔راتوں رات کہاں غائب ہوگئے۔
*۔۔۔*
زندگی کا کام گزرنا ہے۔وہ محل میں بھی گزر جاتی ہے۔اور چھوٹے معمولی مکان میں بھی۔ایک بہت ہی چھوٹا سا گھر کرائے پر لے کر بروہی نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔وہ اپنا حرام پیسا کچھ بھی ساتھ نہ لایا تھا۔اب وہ چھوٹے سے ایک پرفضا قصبے میں رہا کرتے تھے،وہیں ایک چھوٹے سے اسکول میں ابوبکر نے داخلہ لیا تھا۔اب بروہی ،محمد عمر کے نام سے ایک بڑھئی کی دکا ن پر بیٹھتا تھا۔وہ شلوار قمیص پہننے لگا تھا۔اس نے ڈاڑھی رکھ لی تھی۔وہ ابوبکر کو دیکھ کر اکثر اداس ہو جاتا تھا۔اس کا بچہ آسائشوں کا عادی تھا۔مگر اب وہ ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہاتھا۔ابوبکر کی ماں بھی ان کے ساتھ ساتھ تھی۔شام میں اسکول سے آنے کے بعد ابوبکر بھی بڑھئی کی دکان پر چلا جاتا تھا۔بڑھئی کا نام رضوان اللہ تھا۔بہت ہی اچھا اور خدا ترس آدمی تھا۔جلد ہی وہ بروہی کا گہرا دوست بن گیا۔ابوبکر اس کو چاچا جی کہنے لگا۔
وقت گزرتا گیا گزرتا گیا۔۔۔۔یہاں تک کے ابوبکر نے میٹرک کر لیا۔اس نے معاویہ کو بہت مرتبہ یاد کیا مگر ا ب وہ سب کچھ بھلا چکا تھا۔اپنے ابو کی خاطر اسے وہ گھر وہ محلہ وہ دوست بھلانے ہی تھے۔اکثر رات میں جب وہ بستر پر لیٹتا تو ساری یادیں ایک تواتر کے ساتھ اسکے ذہن میں آتی چلی جاتیں۔اور روتے روتے اس کا تکیہ بھیگ جاتا۔مگر وہ صبح اٹھتا تو ہشاش بشاش اٹھتا،اس کو خود بھی خوش رہنا تھا اور اپنے والدین کو بھی خوش رکھنا تھا۔
*۔۔۔*
معاویہ اب کالج میں آچکا تھا۔ابوبکر اس کو اکثر یاد آتا تھا۔اس کا ابوبکرسے کوئی رابطہ نہیں تھا۔معاویہ جب بھی نماز پڑھتا،ہاتھ اٹھا کر اپنے رب کے حضور اپنے دوست اور اسکے والد کیلئے ضرور دعا کرتا کہ اے اللہ ان لوگوں کو استقامت دے۔ان لوگوں کیلئے حلال روزی کے دروازے کھول دے۔
اس شام جب وہ کالج سے تھکا ہارا گھر پہنچا تو فو ن کی گھنٹی بج اٹھی،اس نے فون ریسیو کیا تو حیران رہ گیا۔دوسری جانب ابوبکر تھا۔
’’ہیلو ابوبکر کیسے ہو؟‘‘معاویہ خوشی سے چلا کر بولا۔
’’اور انکل کیسے ہیں بروہی انکل۔کیا کر رہے ہیں آجکل؟‘‘
’’بروہی انکل نہیں محمد عمر انکل۔رضوان اللہ چاچا کی دکان پر ایک بڑھئی کی حیثیت سے،اورتمھارا دوست بھی شام میں وہیں پر ہوتا ہے۔‘‘
اور انکل ٹھیک تو ہیں ابوبکر؟؟‘‘
’’پرسوں شام کو باس کے ساتھیوں نے ان کو ہلاک کر دیا جب وہ دکان سے آرہے تھے۔‘‘
ابوبکر بولا۔معاویہ نے محسوس کیا وہ رو رہا تھا۔اس کا دل چاہا وہ بھی اس قدر چیخ چیخ کر روئے کہ زمین کے کونے کونے تک اس کی آواز پہنچ جائے۔
’’پھر ۔۔۔میرے بھائی ابوبکر۔۔پھر تم کس قدر دکھی ہو گے۔۔۔تم واپس یہیں آجاؤ ہم مل کر۔۔۔۔‘‘
’’نہیں معاویہ میں دکھی نہیں ہوں۔‘‘ابوبکر اپنا لہجہ مضبوط بنا کر بولا۔’’دکھی تو میں تب ہوتا جب وہ باس کی طرح یا انسپکٹر ایازکی طرح زندگی گزارتے ہوئے جان دیتے۔مجھے فخر ہے ان پر انہوں نے حلال رزق کماتے ہوئے جان دی۔‘‘معاویہ رونے لگا۔
’’ابوبکر تم یہاں آجاؤ میرے بھائی۔۔کیا کرو گے وہاں رہ کر۔۔۔۔‘‘
’’نہیں معاویہ میں وہیں رہنا پسند کروں گا جہاں میرے والد نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔قابلِ فخر ایام۔میں وہاں آکر بروہی کا بیٹا بن کر زندگی گزارنے کے بجائے اس بات پر فخر محسوس کروں گا کہ یہاں محمد عمر بڑھئی کے بیٹے کی حیثیت سے جانا جاؤں۔اللہ حافظ معاویہ ۔جب بھی دعا کرنامیرے والد کو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھنا۔زندگی رہی تو تم سے ملنے ضرور آؤں گا۔خواہ ایک بار ہی۔۔۔‘‘سلسلہ منقطع ہو چکا تھا۔
معاویہ کریڈل پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
’’مجھے آپ پر فخر ہے انکل محمد عمر ۔۔۔مجھے تم پر فخر ہے ابوبکر۔۔۔۔‘‘
*۔۔۔*