skip to Main Content

ریگستان میں نخلستان

اعظم طارق کوہستانی

۔۔۔۔۔

صحرا میں نخلستان یوں ہی نہیں نکلتا….اس کے لیے جان جلانی پڑتی ہے

۔۔۔۔۔

نقاش نے جوگرز کے تسمے کھولے اور جوگرز اتار دیے۔ جوتے ریت سے اَٹے ہوئے تھے۔ نقاش نے دونوں جوتوں سے جھڑک جھڑک کر ریت نکالی۔
”تمھیں کہا کس نے تھا یہ جوتے پہننے کو۔“ فردین زچ ہو کر بولا۔
”مجھے کیا پتا تھا کہ یہاں میرے جوتے ریت میں دھنس جائیں گے اور اُن میں ریت بھر جائے گی۔“ نقاش نے فردین کی طرف سر اُٹھا کر دیکھا۔
”اور اگر مجھے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو اپنے بھائی کے فوجیوں والے بوٹ پہنتا جو میرے گھٹنوں گھٹنوں تک آتے ہیں۔“
”وہ دے ہی نہ دیتا تمھیں اپنے جوتے۔“ فردین نے تنک کر کہا۔
”تمھیں میرے جوتوں کی پڑی ہے، یہاں میرا پیاس سے برا حال ہے؟ چھیدی بوتل کوئی راستے کے لیے رکھتا ہے کیا اور اوپر سے ایک بھی نہیں تین بوتلوں میں سوراخ اور پانی غائب اور اِن اونٹوں کو دیکھو، کیسے مزے مزے سے جگالی کیے جارہے ہیں۔“
نقاش کا دل چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئے لیکن یہ سارا ایڈونچر اسی کی وجہ سے ترتیب دیا گیا تھا، اس لیے وہ کچھ بول بھی نہیں سکتا تھا۔
نقاش اور فردین دوست تھے۔ فردین تھر پارکر میں جب کہ نقاش کراچی میں رہتا تھا۔ فردین تھر سے کراچی اپنے چچا کے ہاں آیا اور یہاں پڑھنے لگا۔ اسکول میں اس کی دوستی نقاش سے ہوئی اور پھر یہ دوستی بڑھتی چلی گئی اور بالآخر دونوں دوست کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی میں پہنچ گئے، لیکن دوستی ویسی کی ویسی رہی۔
جیپوں کی ریس دیکھنے کے شوق میں نقاش اس بار فردین کے ساتھ تھر آیا تھا۔ تھر پارکر ایک بہت بڑا علاقہ ہے، جہاں سہولیات نہ ہونے کر برابر ہے اور ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی رہتا ہے۔ نقاش نے خواہش ظاہر کی کہ ہم گھر سے جیپ ریلی کی جگہ پر اُونٹوں کے ذریعے جائیں گے۔ فردین نے اس کی بات مان لی۔ اونٹوں کو خوب کھلایاپلایا اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر دونوں دوست نکل کھڑے ہوئے۔ دوپہر کا وقت ہوگیا لیکن وہ اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچے۔ فردین کو ایسا لگا کہ وہ راستہ بھٹک چکا ہے لیکن اُس کا ذکر نقاش کے سامنے کرنے سے وہ گھبرارہا تھا۔ نقاش جتنی بار تھک ہار کر اونٹ سے اترتا۔ اس کے جوتوں میں ریت چلی جاتی اور وہ اس ریت سے اتنا پریشان ہوجاتا کہ فوراً جوتے اتار کر ریت نکالنے لگتا۔اوُنٹ کا سفر بھی ایسا تھا کہ اس کے انجر پنجر ہل کر رہ گئے تھے۔
اُنھوں نے پانی کی چار بوتلیں لی تھیں جن میں سے تین بوتلوں میں چھید تھا۔ پانی نکلتا رہا اور ان دونوں کو میں پتا ہی نہ چلا۔ کھانا وہ ساتھ لے کر چلے تھے۔جب کھانا کھانے بیٹھے تو پانی کی وہ ایک بوتل بھی ختم۔ دوپہر کا وقت گزرنے لگا تو فردین کو حقیقتِ حال بتانا پڑا۔
”یار نقاش! مجھے نجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ…. “
”ہم راستہ بھول چکے ہیں!“ فردین نے اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ نقاش بول پڑا۔
”ہاں ایسا ہی ہے۔“
”مجھے پتا تھا تمھارا چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا لیکن اس خوف سے میں نہیں پوچھ رہا تھا کہ کہیں تم نے کہہ دیا کہ بھول گیا ہوں تو پھر کیا ہوگا۔“
”اب کیا ہوگا ویسے؟“فردین کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔
”میں نے تو ناولوں میں ہمیشہ صحرا میں پیاس سے لوگوں کو مرتے دیکھا ہے۔“
”اور میں نے….“ فردین کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔
”تم نے کیا؟“ نقاش نے اس کی بات دہرائی۔
”اور میں نے لوگوں کو بھٹکتے ہوئے دیکھا ہے۔“
”عجیب ہو یار تم…. یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔“
”نہیں میرا مطلب بھٹکتے ہوئے راجھستان کی طرف نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔“
”را…. را…. راجھست…. راجھستان…. انڈیا والا۔“
”کیوں اتنا ڈر کیوں رہے ہو؟“ فردین ہنس پڑا۔
”ڈر نہیں رہا…. حیران ہورہا ہوں۔“ نقاش نے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”چل جھوٹے! صاف لگ رہا ہے۔ آواز کیسی کپکپارہی ہے۔“
”تو ٹھیک ہے اُونٹوں کا رخ راجھستان کی طرف موڑ دو۔ دیکھتا ہوں کون ڈرتا ہے۔“
”ارے ارے جذباتی نہ ہو میرے بچے۔“ فردین نے کہا۔ ”ایسا کرتے ہیں پانی تلاش کرتے ہیں۔ میرے حلق میں کانٹے چبھ رہے ہیں۔“
فردین نے یاد دلایا تو نقاش کو بھی اپنی پیاس یاد آگئی اور وہ دونوں اب اونٹ کو تقریباً دوڑا رہے تھے۔
….٭….
”ارے باپ رے…. یہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔“ فردین نے اونٹ کو روکا۔
نقاش ابھی کافی پیچھے تھا۔ وہ اونٹ سواری کا اناڑی کھلاڑی تھا، اس لیے پیچھے رہ جاتا اور فردین کو اس کا انتظار کرنا پڑتا۔
نقاش نے دیکھا کہ فردین چِلّا چِلّا کر اُسے جلدی آنے کا کہہ رہا ہے۔
”آرہا ہوں بھئی…. کیا ہوا؟“
”اِس صحرا بنانے والے کی قسم! یہ اتنی زبردست بات میں تمھیں بتانا بھول گیا تھا۔“
”کون سی بات؟‘
”اِس نخلستان کو تو میں بھول ہی گیا تھا۔“
”کون سا نخلستان؟“ فردین سے تھوڑا آگے اترائی تھی۔ اس اُترائی ہی میں ایک چھوٹا سا نخلستان آباد تھا۔ اس نخلستان میں تےس سے چالیس کھجور کے درخت لگے ہوئے تھے۔
”یہاں آﺅ…. دیکھو۔“
”ارے باپ رے…. واہ بہت عمدہ۔ یہ تو سچ مچ کھجور کے درخت ہیں۔ یقینا یہاں پانی بھی ہوگا۔“
”جی پانی بھی ہے چلو دکھاتا ہوں تمھیں۔“
دونوں درختوں کے قریب پہنچے۔ اب درختوں کے درمیان ایک کنواں نظر آنے لگا تھا۔ اس کے ساتھ ایک رسی سے بندھا ڈول بھی تھا۔
”اس نخلستان کی ایک دلچسپ کہانی ہے…. سنوگے؟“
”ضرور سنوں گا۔“ نقاش نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔
”چلو…. پہلے پانی پیتے ہیں۔“
فردین اور نقاش اونٹوں سے اترے۔رسی کو سیدھا کیا۔ کنویں پر ایک تختہ رکھا ہوا تھا تاکہ کوئی چیز اندر نہ گرے۔ دونوں نے تختہ ہٹایا۔ ڈول کو پانی میں پھینکا تو چھپاک کی آواز آئی۔ پانی زیادہ نیچے نہیں تھا جس نے بھی کھدائی کی تھی، یقینا اسے پانی جلد ہی مل گیا ہوگا۔
پانی میٹھا اور ٹھنڈا تھا۔ دونوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ کھجوریں پک کر نیچے گری ہوئی تھیں۔ دونوں نے صاف ستھری کھجوریں سمیٹیں اور پانی سے دھو کر کھانے لگے۔ کھجوریں نہایت ہی لذیذ تھیں۔پاس ہی ایک کٹیا بنی ہوئی تھی۔ اُس میں جھانک کر دیکھا تو خالی نظر آئی۔
”یقینا مسافروں کے لیے بنائی گئی ہے۔“ نقاش بولا۔
اندر کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی موجود تھی۔ فردین نقاش کواِس نخلستان کی کہانی سنانے لگا۔جیسے جیسے وہ سناتا جاتاتھا، ویسے ویسے نقاش کی حیرت میں اضافہ ہورہا تھا۔
”بہت پہلے دو دوست قاسم اور علی اِس جگہ سے گزر رہے تھے۔ دونوں”مِٹھی “شہر کے بازار میں اپنا سامان بیچ کر واپس اپنے گاﺅں جا رہے تھے۔
علی نے اس بار قاسم کے مقابلے میں خوب پیسہ کمایا تھا۔ اس پیسے پر قاسم کی نیت خراب ہوگئی تو اُس نے علی کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔ اِس جگہ تھور کے پودے جگہ جگہ اگے ہوئے تھے۔ تھور کے پودوں سے ایک زہریلا دودھ جیسا مادہ نکلتا ہے۔ قاسم نے اپنی اونٹنی کا دودھ نکالا اور چپکے سے علی کے دودھ میں تھور کے پودوں کا زہریلا مادہ شامل کردیا۔
دودھ پینے کے تھوڑی دیر بعد علی نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
قاسم نے اُس کے تمام مال پر قبضہ کرلیا اور گھر پہنچ کر علی کے بیٹوں کو جھوٹی کہانی سنائی کہ علی کو کاروبار میں نقصان ہوا تھا، سو راستے میں آتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑگیا اور وہ وہیں مرگیا۔ قاسم نے یہ بھی بتایا کہ صحرا میں چند اور لوگ بھی گزر رہے تھے اور انھوں نے قاسم کے ساتھ مل کر علی کو دفن کیا۔“
”کہانی یہاں پر ختم ہوجاتی مگر علی کے ایک بیٹے کی وجہ سے قاسم پکڑا گیا۔“فردین نے کہانی کو مزید پُرتجسس بناتے ہوئے کہا۔
”وہ کیسے؟“
”وہ ایسے کہ علی کا ایک بیٹا لاہور میں پڑھتا تھا اور وہ میڈیکل کا طالب علم تھا۔ اتفاق سے وہ چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا۔اس نے اپنے دوست سے جیپ لی اور اپنے بھائیوں اور قاسم کو ہمراہ لے کر علی کی قبر پر پہنچا۔ قبر کشائی کی۔ لاش کو دفنائے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے۔ لاش کے منھ سے ابھی تک جھاگ نکل رہی تھی۔
جسم کے باقی مقامات کا بھی اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ اسے زہر دیا گیا ہے۔ اب قاسم سے پوچھ گچھ ہوئی اور جب اس پر سختی کی گئی تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔
”لیکن یہ نخلستان کیسے بنا؟“ نقاش کو نخلستان بننے کی تُک سمجھ نہیں آئی اور وہ سوچ رہا تھا کہ اگر فردین نے کوئی ماورائی قسم کی کہانی گڑھی کہ علی کی بے گناہی نے زمین میں ہلچل مچادی اور وہاں درخت اُگ آئے اور کنواں نکل آیا تو وہ فردین کا سر پھوڑ دے گا ۔
فردین نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ علی کے بیٹوں نے قاسم سے اپنے باپ کے پیسے بھی لیے اور ایک بڑی رقم خون بہا لے کر قاسم کو چھوڑ دیا۔ اِن پیسوں سے علی کے بیٹوں نے یہاں پر کھجوروں کے درخت لگوائے، کنواں کھدوایا اور کٹیا بنائی۔ اس علاقے کے آس پاس سے تمام تھور کے پودے کٹوادیے کہ ہر سبزہ…. سبزہ نہیں ہوتا۔ اب اس نخلستان کی حفاظت کے لیے ایک آدمی موجود ہے وہ ہر ہفتے ایک چکر لگاکر اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
شام کے دھند لکے سائے پھیلتے جارہے تھے۔ دونوں نے رات کٹیا میں گزاری۔
فردین کو یہاں سے جیپ ریس والی جگہ یاد تھی…. دونوں دن چڑھے اٹھے اور جانے کی تیاری کرنے لگے۔ دھوپ کی تمازت سے پورا صحرا جل رہا تھا لیکن کھجوروں کے اِس جھنڈ میں میٹھا میٹھا سایہ مسافروں کو آرام دے رہا تھا۔
”یار فردین ! اُن چند درختوں کی وجہ سے نخلستان کا ماحول اتنا فرحت بخشتھا، اِس کا مطلب ہے کہ درختوں سے گرمی کی شدت میں کمی آتی ہے اور یہاں دیکھو کتنی گرمی ہے۔“
دونوں نے پیچھے مڑ کر نخلستان کی جانب دیکھا۔ ایک وسیع و عریض صحرا کے درمیان وہ نخلستان انتہائی خوب صورت دکھائی دے رہا تھا۔
”بے شک درخت راحت کا باعث ہیں۔“ وہ دونوں آگے بڑھتے رہے۔
جلد ہی اُنھیں جیپ ریس والی جگہ نظر آنا شروع ہوگئی۔ دور سے جیپیں بچوں کے کھلونے جیسی دکھائی دے رہی تھیں۔
٭….٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top